تربت امام حسین علیہ السلام ذریعہ تبرک

اعتراض:
جہاں نام نہاد، عصیبت زدہ مسلمان مبلغین اپنے ذہن کی اختراع کے سبب تبرکات کواپنے مفسدمقاصد کے خلاف پاتے ہیں، وہی ان برکات کو ناجائز عمل جو شیعیان اہل بیت علیہم السلام سے منسلک ہے،قرار دینے کے لئےایک نئے مسلک کو ایجاد کرتے ہوئے بیان دیتے ہیںکہ تبرکات اور وسیلہ برکت و فضیلت نہیں ہے۔فضیلت و برکات بالراست خدا سے حاصل کرنا چاہئے۔مثال کے طور پر وہ آثار جو امام حسین علیہ السلام کی ہمہ گیرذات سے تعلق رکھتے ہیںجیسے تربت امام حسین علیہ السلام یہ شیعوں کی ایجاد اور ان کا ایک بدعتی عمل ہےجو نہیں ہونا چاہئے۔
جواب:
ہم یہاں اس بات کو ثابت کریں گے کہ جس طرح توسل اور شفاعت کے سلسلہ میں جو بے بنیاد اعتراضات پیش کئے جاتے ہیں بالکل اسی طرح تبرک کے سلسلہ میں یہ اعتراض بے بنیاد اور غیر اسلامی ہے۔
(الف) قرآن تبرک کو جائز قرار دیتا ہے
ایسے شبہات ایجاد کرنے والوں کو پہلے قرآن کریم سے آشنا ہونا چاہئے۔ اگر یہ لوگ قرآن سے واقفیت رکھتے تو انہیں تبرک کے سلسلہ میں ایسا کوئی اعتراض نہ ہوتا۔اگر یہ لوگ قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں تو مندرجہ ذیل آیات ان کے شبہات کو زائل کرنے کے لئے کافی ہیں۔
(۱) حضرت یوسف علیہ السلام کی خون آلود قمیص
قرآن مجید میں تبرک کے سلسلہ میں شبہات پیدا کرنے والوں کے لئے جناب یعقوب اور جناب یوسف علیہما السلام کے واقعہ میں بہترین جواب موجود ہے۔
جناب یعقوب، جناب یوسف علیہما السلام کے فراق میں زاروقطار گریہ و زاری کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی بینائی چلی گئی۔ بالآخر جب جناب یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں سے جناب یوسف علیہ السلام کی خون آلود قمیص کو مس کیا گیا تو انہیں دوبارہ بینائی مل گئی۔
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا
’’میری یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرہ پر ڈال دینا تو ان کی بینائی لوٹ آئے گی۔‘‘
(سورۂ یوسف(۱۲):۹۳)
ہم امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی سے کیوں تبرک حاصل نہیں کرسکتے کہ جس میں امام حسین علیہ السلام کا پاکیزہ خون شامل ہے۔وہ حسین علیہ السلام جو تمام شہداء کے سردار ہیں، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لخت جگر ہیں، اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے ساتھ وہ بھی جوانان جنت کے سردار ہیں۔اگر جناب یعقوب علیہ السلام نے ایک بے جان قمیص سےتمسک حاصل کیاتو وہ اتنا عظیم تبرک ثابت ہوا کہ ان کی بینائی لوٹ آئی ،تو ان مسلمانوں کو اس بات میں کیا اعتراض ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی سے ہم تبرک حاصل نہ کریں؟
(۲) جناب جبرئیل علیہ السلام کے قدموں کی مٹی
اللہ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر بلایا۔ سامری جو کہ ضلالت و گمراہی میں تھا اس نے ایک گوسالہ بنایا اور لوگوں سے بتایا کہ یہ گوسالہ جناب موسیٰ علیہ السلام کا خدا ہے۔بنی اسرائیل کے لوگ اس کے دھوکے میں آگئے اور اس گوسالہ کی پرستش کرنے لگے۔ جب جناب موسیٰ علیہ السلام واپس پلٹے تو اپنے پیروکاروں کو اس گوسالہ کی عبادت کرتا دیکھ کربہت غضبناک ہوئے۔ انہوں نے سامری کو بلا کر پوچھا تو کس طرح میرے پیروکاروں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوا؟
سامری نے جواب دیا کہ میں نے (جبرئیل کو) دیکھا جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا۔میں نے نمائندہ پروردگار کے نشان قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھا لی اور اس کو گوسالہ کے اندر ڈال دی۔مجھے میرے نفس نے اسی طرح سمجھایا تھا۔
(سورہ طٰہٰ (۲۰):۹۶)
اگر جبرئیل علیہ السلام کے قدموں کی مٹی ایک بے جان چیز میں جان پیدا کر سکتی ہے تو کیوں امام حسین علیہ السلام کے قبر کی مٹی سے تبرک حاصل کرنے میں اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں؟ جب کہ جبرئیل علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام اور اصحاب کساء کے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں۔
(مدینۃ المعاجز ،ج ۲ ،ص ۳۹۵؛ ج ۴ ،ص ۵۶)
(ب) حدیث میں تبرک کا جواز موجود ہے
(۱) حجر اسود کی حقیقت
تنقید کرنے والے صرف یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ تبرک غلط اور غیر اسلامی ہے۔ اگر وہ واقعی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی بے جان چیز سے تبرک حاصل نہیں کرنا چاہیے تو سب سے پہلے انہیں حجر اسود کو خانہ کعبہ سے ہٹا دینا چاہیے۔انہیں حجر اسود کا احترام نہیں کرنا چاہیے اور اسے اس طرح نظر انداز کردینا چاہیے جیسے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے (معاذاللہ)۔
یہ بات صحیح احادیث میں موجود ہے اور تمام مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ حجر اسود قیامت کے دن تمام حاجیوں کے لئے گواہی دےگا۔مسلمان تمام تر صعوبتوں کے باوجود اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ حجر اسود کو سلام کریں اور چاہے جتنا دورسے ہی سہی اس کی طرف رخ کر کے اشارہ کرتے ہیں تاکہ قیامت کے دن حجر اسود خدا کے بارگاہ میں ان کے حج کی گواہی دے۔
حجر اسود کی برکات ،تبرک کا انکار کرنے والوں کے لئے واضح دلیل ہے۔
(۲) لعاب دہن سے ملی ہوئی مدینہ کی مٹی میں شفا
بہت سے ایسے واقعات موجود ہیں کہ بیمار افراد نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مقدس مٹی کو استعمال کیا اور وہ شفا یاب ہوئے۔ بہت سی معتبر کتابوں میں ان واقعات کو درج کیا گیا ہے اور ان کی اسناد کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔پھر بھی بے جا اعتراض کرنے والے شرک کی آڑ میں ایسی حدیثوں کا انکار کرتے ہیں اور اس عمل کو ناجائز اور بدعت بتاتے ہیں۔
ہم یہاں اعتراض کرنے والوں کی توجہ ان ہی کی کتابوں کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ ان کی کتابوں میں بھی بہت سے ایسے واقعات کو نقل کیا گیا ہے جن میں بیماروں کو مٹی استعمال کرنے سے شفا ملی۔
ہم مختصراً کچھ واقعات کا تذکرہ کریں گے۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ ضروری نہیں ہے کہ شیعہ ان حدیثوں کو صحیح مانتے ہوں کیونکہ یہ کتابیں ان کے لئے دلیل نہیں ہیں۔یہاں ان حدیثوں کو صرف اس مقصد سے نقل کیا جا رہا ہے کہ اعتراض کرنے والوں پر ان ہی کی کتابوں سے اتمام حجت ہو۔
عائشہ سے منقول ہے:جب بھی کوئی شخص حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زخم کی شکایت کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی انگلی میں کچھ مٹی لیتے اور اپنی انگلی زمین پر رکھتے۔ پھر اللہ کا نام لیتے ہوئے اپنی انگلی اٹھاتے اور ہم میں سے کسی ایک کا لعاب دہن اس زمین (مدینہ کی زمین) سے ملاتے تاکہ ہم اللہ کی اجازت سے شفا پاجائیں۔ یہ حدیث ابن ابی شیبہ اور زبیر کے حوالے سے چند لفظی فرق کے ساتھ درج کی گئی ہے۔
(صحیح مسلم ج ۴ ص ۱۷۲۴ ح ۲۱۹۴ ’کتاب سلام‘ باب ۲۱، استحباب رُقیَہ (لعاب دہن کے استعمال کا مستحب ہونا))
قارئین مندرجہ ذیل حوالوں کو رجوع کر سکتے ہیں:
صحیح بخاری ج ۵ ص ۲۱۶۸ ح ۵۴۱۴ باب ۳۷ ’رقیہ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ‘ اور صحیح بخاری باب ۷۹کتاب الطب
(۳) مدینہ کی مٹی میں جذام کا علاج ہے
یقیناً اعتراض کرنےوالے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کربلا کے علاوہ ہر ایک شہرکی مٹی میں شفا دینے کی صلاحیت موجود ہے۔یہاں ہم دیکھیں گے کہ وہ حضرات کس طرح مدینہ کی تربت کو بیش قیمت جانتے ہیں۔
اسماعیل ابن ثابت ابن قیس ابن شمع نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’مدینہ کی مٹی میں جذام کے مرض کا علاج موجود ہے۔‘‘
(جامع الاحادیث ،ج ۵، ص ۲۳۷حافظ جلال الدین سیوطی؛سبل الھدی والرشاد،محمد ابن یوسف الصاحی الشامی(وفات ۹۴۲ہجری)؛ کنزالعمال ج ۱۲ ص ۱۰۶ ح ۳۴۷۲۸)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیونکر کربلا کی مٹی سے تبرک حاصل کرنا شرک ہے جبکہ مدینہ کی مٹی سے تبرک حاصل کرنا توحیدہے؟
(۴) مکھی کے پر میں شفا ہے
جب شیعہ حضرات امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی مٹی سے شفا حاصل کرتے ہیں تو ان پر طنز کیا جاتا ہے اور ان کا مسخرہ بنایا جاتا ہے جبکہ اگر یہی طنز و مسخرہ کرنے والے لوگ اپنی کتابوں کی طرف متوجہ ہوں تو انہیں مکھی کے پر میں بھی شفا دکھائی دے گی۔
ابوہریرۂ نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے۔ اگر تمہارے پیالے میں مکھی گر جائے تو اس کو مکمل طور پر کھانے کے ساتھ کھالینا چاہیے کیونکہ اس کے ایک پر میں شفا ہے جبکہ دوسرا میں دوا ہے۔
(صحیح بخاری، ج ۵ ،ص ۲۱۸۰، باب ۵۷ ’جب مکھی پیالے میں گر جائے‘ کتاب ۷۹ ’کتاب الطب‘)
(۵) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیشاب میں شفا ہے
شہبات پیدا کرنے والے، شیعوں کے اس عقیدہ کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام تمام جہات سے پاک و پاکیزہ ہیں۔وہ اس بات کو یا تو بھول جاتے ہیں یاجان بوجھ کر فراموش کرتے ہیں کہ خود ان کی کتابوں میں ایسی حدیثیں نقل کی گئی ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیشاب اور پائخانہ کو پاک و پاکیزہ اور شفا اور شفاعت کا ذریعہ قرار دیتی ہیں۔
ام ایمن علیہا السلام سے منقول ہے: حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک برتن میں پیشاب کیا اور صبح کے وقت مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دو۔ میں رات کے وقت اٹھی ، مجھے پیاس محسوس ہو رہی تھی تو میں نے غلطی سے اس (پیشاب کے)برتن کوپی لیا۔ بعد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوال کیا اے ام ایمن! کیا تم نے اس برتن کو خالی کر دیا؟ ام ایمن نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! جب رات میں میری آنکھ کھلی تو مجھے پیاس محسوس ہو رہی تھی تو میں نے اس برتن سے پی لیا۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ آج کے دن سے تمہیں کبھی پیٹ کا درد نہیں ہوگا۔
(تاریخ دمشق، ج ۴، ص ۳۰۳؛ البدایہ والنہایہ، ج ۵، ص ۳۲۶؛ الخصائص الکبریٰ، ج ۱، ص ۱۲۲)
حکیمہ بنت عمیمہ نے اپنی والدہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک برتن میں پیشاب کیا اور اسے اپنے بستر کے نیچے رکھ دیا۔ رات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھے اور اس برتن کو ڈھونڈھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ برتن نہیں ملا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتایا گیا کہ ام سلمہ کے حبشی غلام ’براہ‘نے اسے استعمال کر لیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان فرمایا کہ ایسا کرکے اس نے اپنے آپ کو جہنم سے محفوظ کر لیا۔
(المعجم الکبیر، ج ۲۴، ص ۲۰۵؛ الخصائص الکبریٰ، ج ۲، ص ۴۴۱)
(۶) حجامت کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خون کو استعمال کرنا
یہ تعجب کی بات ہے کہ وہ انتہا پسند مسلمان جو کربلا کی خاک کہ جس میں امام حسین کا لہو شامل ہے اس سے تبرک حاصل کرنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں جبکہ یہی لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خون کو پیناجہنم سے امان کا سبب ہے۔
ابو حمید غزالی نے نقل کیا ہے: قریش کے ایک جوان نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجامت کروائی اور ان کا خون ایک برتن میں جمع ہو گیا۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی اسے دیکھ نہیں رہا ہے تو وہ برتن کو چپکے سے دیوار کی طرف لے گیا اور اسے پی لیا۔کچھ دنوں بعد جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے دیکھا تو اس سے کہا ، وائے ہو تجھ پر ! تو نے وہ خون کیوں پیا؟ اس نے جواب دیا :میں دیوار کے پیچھے چھپا تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوال کیا:تو نے اپنے آپ کو کیوں چھپایا ہوا تھا؟ اس نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! میں نے اس بات کو گوارا نہ سمجھا کہ میں آپ کے خون کو مٹی میں بہا دوں لہذا میں نے آپ کا خون استعمال کر لیا(پی لیا)۔حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تو نے اپنے آپ کو جہنم سے بچا لیا۔
(العلل المتناہیہ، ج ۱، ص ۱۸۶؛البدر المنیر ،ج ۱، ص ۴۷۳؛ الخصائص الکبریٰ، ج ۲، ص ۴۴۰)
یہ وہ غزالی ہے جس نے یزید (لعنۃ اللہ علیہ) کی دفاع کی ہے اور امام حسین کے خون کے بہائے جانے کے جواز کو پیش کیا ہے۔ اس نے ایسی حدیثوں کو نقل کیا ہے جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خون کو بہایا جائے۔نبی کا خون بہانا حرام اور نبی کے وصی کا خون بہانا جائز؟
(۷) ابن تیمیہ کے غسل میت کا پانی تبرک ہے
ابن خاطر دمشقی جو ابن تیمیہ کا شاگرد تھا اس نے نقل کیا ہےکہ کس طرح مسلمانوں نے ابن تیمیہ کے غسل میت کے پانی کو تبرک کی طرح حاصل کیا۔
(البدایۃ والنہایہ، ج ۵، ص ۳۲۶)
(۸) ابن تیمیہ کی قبر، تبرک کا مرکز
ایسے بہت سارے واقعات ملتے ہیں جن میں مسلمانوں نے ابن تیمیہ کی قبر سے برکت حاصل کی۔ ان لوگوں نے ابن تیمیہ کی قبر کی مٹی کو مرض کی شفا کی طرح استعمال میں لیا۔ جیسے آنکھوں کی تکلیف، بدن کا درد وغیرہ۔
(الراد الوافر، ج ۱، ص ۷۴)
(۹) عائشہ کے اونٹ کا خوشبودار پائخانہ
یہ ایک چونکادینے والی بات ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے آپ کو توحید کےعلمبردار سمجھتے ہیں ان کے لئے یہ بات بحث کا موضوع ہے کہ کیا امام حسین علیہ السلام کے قبر مطہر کی مٹی میں شفا ہے یا نہیں جبکہ یہی لوگ ایک غلیظ و گندی جگہ سے تبرک حاصل کرنے میں گریز نہیں کرتے۔
مثال کے طو رپر ایک واقعہ پیش نظر ہے:
مسلمانوں کا ایک گروہ جو زبّاح اور عزد قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا جنگ جمل میں عائشہ کے اونٹ کے اردگرد جمع ہو گیا۔ انہوں نے اونٹ کے پائخانہ کا احاطہ کیا، اسے اٹھایا اور پھر سونگھ کر کہنے لگے: ہماری اماں کے اونٹ کے پائخانہ سے مشک کی خوشبوآرہی ہے۔
(تاریخ طبری، ج ۳، ص ۴۸؛ الکامل فی التاریخ ،ج ۳، ص ۱۳۴؛ نہایہ العرب فی فنون الادب، ج ۲۰،ص ۴۳)
تبرک حاصل کرنے کا جواز ، قرآن اور حدیث سے بالکل واضح ہے۔جب پسینہ، پیشاب، خون، اونٹ کا پائخانہ ، تبرک ہو سکتا ہے تو پھر یہ شبہات پیدا کرنے والے اس بات پر بضد کیوں ہیں کہ کربلا کی خاک متبرک نہیں ہے۔یہ صریحاً واضح ہے کہ یہ توحید اور شرک کا معاملہ نہیں ہے جس طرح سے لوگوں نے اسے پیش کیا ہےبلکہ یہ سب کچھ آل محمد علیہم السلام سے حسد کی بناء پرکیا گیا ہے تاکہ ان کے لامحدود فضائل میں کچھ کمی کی جا سکے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مفہوم اصحاب و ازواج رسول کے تعلق سے ہو تو قرآن و حدیث کی رو سے سراپا توحید ہو مگر اسی مفہوم کو آل محمد علیہم السلام کے تعلق سے بیان کیا جائے تو وہ شرک ہو جائے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں