سکوت معنی اور مطالب میں
خالق اکبر نے اپنی سب سے اشرف مخلوق یعنی نوع بشر کو سن کر خاموش رہنے اور سن کر بولنے کی دونوں صلاحتیں عطا فرمائی ہیں۔ انسان کو یہ قدرت عطا فرمائی ہے جب وہ ارادہ کرے بولنے کا تو وہ بولتا ہے اور اسی کے تحت جب چاہے سکوت اختیار کرے۔ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ اسکی عظمت اور بزرگی اسکے قول و فعل کی اساس پر ہے۔ چنانچہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسکے تمام حرکات اور سکنات کو بالترتیب راہِ راست پر بالقسط رہنے کے لئےہدایت کو دو طرف سے قائم کیا تاکہ روز محشر وہ یہ شکایت نہ کرسکے کہ مجھے ایسی کوئی ہدایت نہیں ملی جو یا کوئی ایسا اخروی کامیابی کے قابل بنا سکے۔ لہذا خالق نے اپنی مخلوق کو کتاب اور میزان (یعنی ائمہ معصومین علیہم السلام ہادی برحق) ایک صامت اور ایک ناطق دونوں کی رہبری سے نوازا۔ اور فرمایا ’’لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط‘‘۔بے شک ہم نے ایک رسول بھیجا روشن نشانیوں کے ساتھ اور ہمراہ اسکے کتاب اور میزان بھی تاکہ لوگ پرامن زندگی بسر کریں۔
یہ مشیت الہی کی ترجمانی کرتی ہوئی کتاب جو آیات یعنی کلام الہی کی صداقت کی حامل ہیں ۱۱۴ سوروں پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں ناسخ،منسوخ، متشابہ اور محکم آیات کی الگ الگ فہرست ہے۔ یہ کتاب مبین ایک ایسا اجمال ہے جسکی تفصیل ممکن نہیں لیکن تفسیر برائے تفہیم بہ حد عقل انسانی ممکن ہے۔ چنانچہ تفسیر قرآن پر اس عقل کو روشنی دینے کے لئے ایک میزان درکار ہے جو انسان کو صراط مستقیم یعنی قانون شریعت پر پابند رکھ سکے۔ ہادیان برحق وہی ہوسکتے ہیں جن میں یہ دو صفتیں اس طرح پائی جاتی ہوں کہ ان کا سکوت یا چپ رہنا بھی اسی طرح ہدایت کی کارفرمائی کرے جس طرح ان کا کلام، خالق اکبر نے جناب آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک اسی روش پر چلنے کی قوت اور صلاحیت اور قدرت عطا فرمائی ہے۔مثال کے طور پر صبرایوبی اور نالۂ یعقوبی اسی طرز ہدایت پر قائم رہے۔ اور جب بولنے کا موقع آیا اس وقت لسان مبارک سے کام لیا۔
امروز و فردا سے گذرتے ہوئے وہ زمانہ یاد کرلئے جب مرسل اعظمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعثت کا اعلان کیا اور پھر کار ہدایت کے مراحل سے گزرنے لگے۔ ۱۲سے ۱۳ سال مکہ میں ایک طرف سلسلہ ٔ رسالت عرش سے فرش تک قائم تھا۔حضرت علی علیہ السلام ہر لمحہ ہرگام پر حضور سرور کائناتصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ ہر مصیبت اور مخالفت کا سامنا کررہے تھے۔ وہ لوگ اسلام کی راہ پر چل پڑے تھے خاموشی کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوجاتے نزول آیات قرآنی ہوتی تو ہر ایک متوجہ اور کمربستہ رہتا کہ قریش مکہ کب اور کون سی مصیبت کھڑی کردیں گے اس کا مقابلہ صبر و استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ کرنا ہے۔ ادھر سارے شہر مکہ میں ایک ہلچل تھی، بغاوت تھی، شور و غوغا تھا۔ ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ بلال کے سینے پر جلتا ہوا ایک بڑا پتھر رکھ کر اذیت پہونچائی گئی لیکن احداً احداً کے علاوہ کوئی دوسری آواز نہ تھی۔ تاریخ سامنے ہے جو کہہ رہی ہے۔
راہ جن مراحل پہ محمد سے بشر چلتے ہیں
ان پہ چلتے ہوئے جبرئیل کے پر جلتے ہیں
قریش مکہ اپنی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنا رہے تھے کہ رسول اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کا وقت آگیا گویا ان سب کے پس پردہ کار رسالت باہمہ اطمینان و سکون انجام پارہا تھا۔ ورنہ اتنے اطمینان کے ساتھ علی علیہ السلام زندگی بھرکی تمام شبوں میں کوئی ایسی شب نہ تھی وہ اتنی گہری نیند سوئے ہوں۔سچ ہےسربستر ہوتو یہ حق کا ولی ہوتا ہے۔ کربلا ہو تو حسین ابن علی ہوتا ہے یہی وہ کھری بات ہے جسے علم کہتے ہیں اور جو انبیا علیہم السلام ء اور اوصیاء علیہم السلام کو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔
مکہ سے ہجرت مدینہ کی طرف ہوئی۔ در ابو ایوب انصاری کو فضیلت نصیب ہوئی۔ حضور کا ناقہ وہیں جاکر بڑی شان و شوکت کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ابلاغ و تبلیغ کے سلسلہ شروع ہوئے۔ مسجد نبوی تعمیر ہوئی۔ یہودی اور بت پرست قریش مکہ کب چپ بیٹھنے والے تھے۔ غزوات کا آغاز ہوا۔ تقریباً ۸۰ مرتبہ بڑی جنگ سامنے آئی اور ہر جنگ علی علیہ السلام کے ہاتھوں فتح کامرانی کے ساتھ ختم ہوئی۔
اس دس یا گیارہ سال مدینہ میں رسول اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسالت الہیہ کے فرائض انجام دئیے۔ جس میں اتنی جنگیں،قرآن کی تمام آیات کا نزول، آپ کے سیرت میں فعل، تقریر اور تحریر پر مشتمل ایک اسلامی تہذیب کے تمام امور سر انجام پاگئے۔ اور اسلامی تہذیب کی دستور بندی پر روز اعلان غدیر اَتْمَمْتُ و اَسْلَمْتُ کی مہر ثبت ہوگئی۔یہاں تک کہ اب ضرورت تھی اس اتمام رسالت اور مکمل دین کی اس طرح حفاظت کرنا کہ اس کے انداز،اسکی روش، اس کا طریقہ کار، اس کے تحت اسلوب زندگی یعنی اس کے اقدار کے گیسو کی شانہ کشی اس طرح ہوتی رہے کہ کہیں اس میں الجھاؤ یا گرد سیاست نہ پڑنے پائے اسی لئے بوقت رحلت مرسل اعظمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہ زبان وحی الہی سے یہ کلمات جاری کئے کہ مجھے قلم و قرطاس دیدو تاکہ میں وہ تحریر لکھ دوں جس سے تم لوگ گمراہی سے بچ جاؤ۔ تاریخ بتارہی ہے کہ ایک شور اٹھا مخالفین کی بڑی اکثریت سے ایک صاحب نے آواز بلند کی کہ انہیں قلم و قرطاس نہ دیاجائے ورنہ یہ علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں تحریر ثبت کردیں گے۔
بنی ہاشم کی آواز اور ان کی حمایت اس بارے میں کام نہ آئی اور سکوت اختیار کرنا پڑا۔ لیکن کیا نوائے سکوت یہ آفاقیت لے کر نہ اٹھی کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی میں خلافت کا فیصلہ کردیا۔ مزید اس کی تصدیق اس وقت ہوئی جب جناب زہرا نے علی علیہ السلام سے فرمایا: یا ابو الحسن آخر آپ نے یہ خاموشی یا سکوت کیوں اختیار کیا؟ جس کے جواب میں مولا نے ارشاد فرمایا تھا بی بی میں آپ کے بابا کی وصیت پر قائم ہوں آپ نے آخر وقت میں یہ کہا تھا علی جب یہ قوم دنیا کی طرف پلٹ جائیں تم دین کی حفاظت کرنا۔ یہ تھی منزل جسے نوائے سکوت کی منزل پر وارد کیا جاسکتا ہے۔
اختصار اور اجمال کے تحت صرف قارئین کو دعوت فکر ونظر دے رہے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں عقل و خرد کی روشنی میں کہ کیا یہی روش، یہی مزاج، یہی اسلوب، یہی تہذیب کو بعد از نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، بعد از علی مرتضیٰ علیہ السلام ، بعد از صلح امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام نے قائم نہیں رکھا؟ اور جب دور یزید آیا پھر وہی شورش، وہی مکر وفریب، وہی موقع پرستی، وہی بد اعمالی اقدار اسلامی کا عہد سامنے آکر اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ بروئے کار آگئی۔ امام حسین علیہ السلام سے یزید ملعون جیسے فاسق وفاجر اپنی حکومت کے زعم میں طلب بیعت کرے۔ انکار بیعت ایک آفاقی حقیقت کی عکاسی کررہی تھی یا اسی زبان سے نوائے مقصد الہیہ بلند ہورہی تھی جو اس قافلہ کی راہ گزر میں بانگِ درا کی حیثیت رکھتی تھی جو حق پرستوں کا ایک قافلہ اتنی مدت میں خاموشی کے ساتھ اپنی قدروں کی حفاظت میں چل رہا تھا۔ سچ کہا ہے،
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین
جیسے اسلام کے ماسبق زمانہ میں انبیا علیہم السلام کا ورود جہاں جہاں، جب جب ہوا حکومت، طاقت،غرض ان کی آواز یعنی انبیاء علیہم السلام کے ابلاغ کی آواز کو دبانے کے لئے زبردست لشکر کشی کے ساتھ آگئی تھی اسی طرح امام حسین علیہ السلام کے زمانہ ہجرت تک سارے فریب دینے والے گروہ نئے نئے بھیس میں اس طرح آگئے تھے کہ گویا اسلام ان کے لئے ایک مداری کی ڈگڈگی بن گیا تھا۔ لیکن بےخبر اپنی طاقت بھر ہی تو اپنی سوچ کو کچھ اجالادے سکتے تھے، وہ عرفان، حکمت الہیہ، وحی کی آمدورفت، الہام کے سلسلوں کی آفاقی،آسمانی اور الوہی قدرت کے سامنے کہاں ٹک سکتے تھے اور کتنی دیر اپنے پاؤں پر کھڑے رہ سکتے تھے۔
ہم اس وقت ان آثار و برکات کی تنویر جہاں تاپ کی ایک کرن کی جھلکی بحد استطاعت قلم رکھنا چاہتے ہیں جس کا تعلق زین العابدین علی ابن الحسین علیہما السلام کی سیرت سے علاقہ رکھتی ہے۔ ۲۸ رجب کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ دھوپ شہر کے منڈیروں پر اتر چکی ہے۔امام حسین علیہ السلام اپنے قافلہ کے ساتھ نانا کے مدینہ سے ہجرت کرتے ہوئے حدود شہر سے باہر کی طرف حرکت پذیر ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام اور آپ کے فرزندیعنی امام محمد باقر علیہ السلام جو بہت کمسن تھے ساتھ ساتھ ہیں۔ قافلہ مکہ میں وارد ہوا۔ جویان حق علم کے متلاشی ابن زبیر کی حلقہ بندی چھوڑ کر امام حسین علیہ السلام کے گرد جمع ہونے لگے۔ حق کی روشنی فریب کاروں کی پرچھائیوں کو نابود کررہی تھی۔ اس مکہ کے قیام کے دوران امام حسین علیہ السلام کے پاس کوفیوں کے خط آرہے تھے۔ ادھر محمد حنفیہ، عبد اللہ بن جعفر مشورہ دے رہے تھے، بھائی عراق کی طرف سفر ترک کرکے مدینہ واپس آجایئے۔ امام حسین علیہ السلام نے سب کو تسلی بخش جواب دیا۔ اپنا سفر جاری رکھا۔ مکہ سے کربلا کی منزل تک امام حسین علیہ السلام کی حکمت پر حضرت عابد علیہ السلام نے کبھی کسی وقت کوئی سوال کیا ہو تاریخ شاہد کہ آپ خاموش رہے۔ اس لئے کہ
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگراز بر ہو
پھر پسر لائق میراث پدر کیوں کر ہو
اس لئے کہ امام کی مصلحت امام کے اقدام ہونے والے امام کے علم میں ہے۔ یہاں آپ کو علم تھا کہ امام حسین علیہ السلام کی منزل شہادت کا سرنامہ ہے اور حضرت سجاد علیہ السلام کی امامت کا سرورق سامنے آیا۔ جب اشقیا آگ لے کر خیموں کو جلانے کے لئے آگے بڑھے۔ عالمہ غیر معلمہ جناب زینب سلام اللہ علیھا امام سجاد علیہ السلام کے خیمہ میں تشریف لائیں۔ پہلے امامت کی شہادت دی، فرمایا بیٹا سید سجاد تم وقت کے امام ہو، حکم دو اس خیمہ میں ہم سب جل کر ختم ہوجائیں یا باہر نکلیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا، پھوپھی اماں،جان بچانا لازم ہے خیموں سے سب باہر آجائیں۔ یہ تھی امامت کی وہ پاسبانی جو شریعت پر محیط تھی۔ اس نوائے شریعت کے بعد ایک بولتے ہوئے سکوت کا سلسلہ شروع ہوا۔
آہ وہ دشت بلا اف وہ اسیران بلا
چادر بنت علی بستر بیمار چھنا
صرف خیمہ نہیں دامن بھی سکینہ کا جلا
کون سا ظلم تھا جو آل عبا پر نہ ہوا
لٹ گئے خیمے حرم ہوکے گرفتار چلے
کربلا روتی رہی عابد بیمار چلے
پا بہ زنجیر طوق خاردار گلوگیر، اس منظر کو سامنے لانے کے بعد پتھر دل چیخ اٹھتے ہیں لیکن ہمارا چوتھا امام خاموش ہے، سکوت پر لب ہے یہاں تک کہ،
بے ردا خاک بسر جان سے بیزار آئے
ہائے کس حال میں قیدی سر دربار آئے
یہ وہ قافلہ ہے جس میں معصوم بچے ہیں مصائب زدہ حسین علیہ السلام کی پیاری بچی سکینہ ہے بے ردا خاک بسر مخدرات عصمت و طہارت ہیں جانشین امام محمد باقر علیہ السلام اتنے کمسن ہیں کہ چہرہ تمازت آفتاب اور شدت پیاس سے کمہلایا ہوا ہے۔ اور سربراہی اس قیدی کی ہے جو بیماری کے ساتھ پابہ زنجیر، ہاتھ بندھے ہوئے اور طوقِ گرا نبار گلے ہیں۔ اسی حالت میں یہ قافلہ شام کی طرف روانہ ہوا۔ قافلہ شام تک ایک دور دراز سفر کرتا ہوا جب پہونچا ہوگا تو کسی ذہن میں ان مصیبتوں کا کوئی اندازہ لگایا نہیں جاسکتا صرف ان لفظوں میں کچھ ترجمانی ہوجاتی ہے۔
لَقَدْ عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ وَ جَلَّتْ وَ عَظُمَتِ الْمُصِيبَةُ بِكَ عَلَيْنَا وَ عَلَى جَمِيعِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ وَ جَلَّتْ وَ عَظُمَتْ مُصِيبَتُكَ فِي السَّمَاوَاتِ عَلَى جَمِيعِ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ
جس مصیبتوں کی یورش پر امام سجاد علیہ السلام جیسے صابر کی زبان سے آہِ سرد سے لپٹے ہوئے الفاظ الشام الشام جنہیں سن کر آج تک دل میں ہر انسان کے درد کروٹیں لے رہا ہے۔قلم قاصر ہے اور بیان کے لئے ہر زبان گنگ ہے۔ مختصر قافلہ اس حال میں دربار یزید میں لایا گیا، یزید کے درباری، دوسرے ملکوں کے سفیر کرسی نشین، حبشی غلام سونے کے پٹوں سے کمربستہ، برہنہ تلوار کھینچی ہوئی، ان مناظر کا مقائسہ کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ ایسے عالم میں شیردل علی ابن الحسین علیہما السلام گوسکوت برلب لیکن جلال ہاشمی کے تیور سے ایک عقل کو متحیر کردینے والا رعب بڑےظالموں کی نگاہوں کو نیچا دکھا رہا تھا۔ یزید اپنے جد کی تعریف میں لن ترانی کرتا ہوا، اسلام کی تکذیب کے الفاظ جاری کئے، اس کا بیان تاریخ میں موجود ہے۔
بعدہ بیمار قیدی امام نے یزید سے اجازت چاہی کہ وہ اس منبر پر جاکر کچھ اپنا بیان دے سکے۔درباریوں کے اصرار پر یزید نے اجازت دی۔ سکوت امام ٹوٹا، حق کی آواز لب مبارک سے نکل کر حاضرین کے گوش گزار ہوئی۔ حمد وثنائے باری تعالی کے بعد جب اپنا تعارف کرایا اور اپنے جد کے لائے ہوئے اسلام کے بارے میں لب کشا ہوئے تو ایسا لگا جیسے لوح قلم سے لبیک کی صدا آنے لگی۔
جب انقلاب کی آہٹیں سنائی دینے لگیں یزید گھبرایا، جان گیا حکومت بکھرنے والی ہے۔ ایک بیکس کی تقریر نے درباریوں کو سرنگوں کردیئے۔( خطبہ امام سجاد علیہ السلام ترجمہ کے ساتھ چھپ چکا ہے۔ ) انقلاب آیا، قید سے رہائی کا حکم صادر ہوا۔ افسوس بوقت رہائی ام رباب بالی سکینہ کی ننھی سی قبر سے کیسے اور کس عالم میں جدا ہوئی ہونگی اسے کوئی کس طرح بیان کرے؟ جیسے میرے سامنے کوئی بیٹھا پوچھ رہا ہو پھر کیا ہوا۔
قصر یزید میں سرخ پردے اتارے گئے۔ سیاہ پردے لگے، جناب زینب سلام اللہ علیھا سیاہ پوش شام کی عورتوں سے مخاطب ہوئیں۔ شہر کے ایوان پر سرخ پرچم کی جگہ سیاہ جھنڈیاں آگئیں۔ سوز و گداز امنڈنے لگے آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہونے لگی۔ یہ ایک دور تھا جناب سجاد علیہ السلام کی امامت کا جن کے نوا اور سکوت کے آثار و برکات کی ایک جھلک راقم الحروف نے قارئین کے لئے پیش کرنے کی کوشش کے ساتھ قلم اٹھایا۔ دوسرا دور آپ کی سیرت کا آپ کی حیات طیبہ مدینہ میں آپ کے قیام کا ہے۔ آئندہ اس پر کوئی اور قلم طراز ہوگا۔ انشاء اللہ
سبق
ہمارے جوانوں اور بزرگوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ سیرت امام سجاد علیہ السلام کو سامنے رکھنے کے بعد یہ سیکھ لیں کہ کب،کہاں اور کیسے زبان سے کام لیں اور کس طرح اسے قابو میں رکھیں۔
آخر میں اپنے امام حاضر علیہ السلام کے د راقدس پر دامن پھیلاتے ہوئے مانگ رہے ہیں۔ اے خدا کے ولی، اے ہمارے نگہبان امام ہمیں توفیق عطا کریں کہ ہم آپ کے جد امام سجاد علیہ السلام کے صحیفۂ کاملہ کو سمجھ سکیں۔ دل میں اتاردیں اور اس پر عمل کرنے میں پیش قدمی کریں۔
مولا! آپ کے جد نے ہمیں حق تعالی کی بارگاہ میں تضرع کا سلیقہ سکھایا ہے ان لفظوں میں :
اِلٰهِي كَيْفَ اَدْعُوْكَ وَ اَنَا اَنَا وَ كَيْفَ اَقْطَعُ رَجَائِي مِنْكَ وَ أَنْتَ أَنْتَ
پروردگارا! میں کیسے تجھے پکاروں کیوں کہ میں میں ہوں مگر میں کس طرح تجھ سے اپنی امیدوں کو منقطع کر دوں کیوں کہ تو تو ہے!
مولا، ہماری دعا میں اثر اور ہماری فکر میں اجالاآپ کے ہی در سے نصیب ہو۔ ایک نظر عنایت، ایک نظر کرم!