مسئلہ برائت اور امام سجاد علیہ السلام کی امامت کا زمانہ

برائت یا تبری ’ب رء‘ سے مشتق ہے۔ اہل لغت کے نزدیک اس کے معنی ہیں انسان کا اس چیز سے دوری یا مفارقت اختیار کرناجسے وہ پسند نہیں کرتا۔ سوره توبہ میں مشرکوں سے برائت اور سوره یونس میں بعض اعمال سے برائت اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔
(سوره توبہ، آیہ ۱-۳ ؛ سوره یونس، آیہ۴۱ )
کچھ مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ مشرکوں سے تبری کا مفہوم یہ ہے کہ ہر طرح کے رابطہ اور اظہار محبّت کو منقطع کرنا۔
(اطیب البیان، عبد الحسین طیب، ج۶،ص ۱۷۲؛ تفسیر القرآن العظیم، اسماعیل بن کثیر، ج۴، ص۹۰ )
عقیدۂ توحید کا تقاضا غیر توحیدی نظریات سے دوری و برائت عقیدۂ ختم نبوت کا تقاضا ان لوگوں سے بیزاری کا اعلان جو ناحق نبوت کا دعویٰ کررہے ہیں۔عقیدۂ امامت و ولایت کا تقاضا ان لوگوں سے دوری و برائت ہے جو خدا کی طرف سے اس عظیم منصب پر فائز نہیں کئے گئے ہیں۔ شیعہ چونکہ دلائل کی بنیاد پر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بلا فصل جانشین تسلیم کرتے ہیں اس کا فطری تقاضا ان لوگوں سے دوری ہے جنہوں نے اس خلافت الہیہ کو عملی ہونے نہیں دیا۔یہ اختلاف ایک فطری اور دینی اختلاف ہے۔ کیوں کہ اس کا ربط براہ راست مسئلہ امامت سے ہے جو پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ تھا۔
(مقالات الاسلامیین ابو الحسن علی ابن اسماعیل اشعری، ص۲۱؛ الملل و النحل، محمّد ابن عبد الکریم شہرستانی، ج ۱،ص۲۴)
تاریخ کی کتابوں میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنے غصب شدہ حق کی شکایت سے اور خدا کی بارگاہ میں قریش کے مظالم کا تذکرہ فرمایا ہے اس طرح کے واقعات واقعہ عاشورا سے پہلے بہت ہی آسانی سے احادیث اور تاریخی منابع سے اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر رجوع کرئیے نہج البلاغہ خطبہ۳ (خطبہ شقشقیہ)؛ علل الشرایع الشیخ محمّد ابن علی ابن الحسین الصدوق، ج۱، ص ۱۴۷؛ خطبہ حضرت زہرا کی طرف،بلاغات النساء کتاب الاحتجاج، احمد ابن علی الطبرسی، ج۲، ص۲۸۷؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید المعتزلی، ج۳، ص۱۱۵ ؛ تاریخ الامم و الملوک جو تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے محمّد ابن جریر الطبری، ج ۲، ص ۴۴۳؛ قرب الاسناد عبدللہ ابن جعفر الحمیری، ص۶۰؛ الھدایه الکبریٰ، حسین ابن حمدان خصیبی، ص۴۵)۔ اس مذکورہ اختلاف اور مخالفین کے عناد کی کچھ تفسیر موجود ہے۔ چنانچہ حق جویان کی توجہ اس طرف مبذول کرنا مقصود ہے۔
واقعہ عاشورا کے بعد اور امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز کے بعد برائت کا سلسلہ آنحضرت علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کی سیرت میں جاری رہا۔ لیکن اس دور اور پہلے دور (یعنی عاشورا سے پہلے کا دور) میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ پہلے دور میں برائت یا اعتقادی اور اجتماعی معرکہ آرائی معاشرہ میں انفرادی طور پر دیکھی جا سکتی تھی ‘ نہ کہ اجتماعی شکل و صورت میں۔ دوسرے لفظوں میں یہ فکر مسلمانوں کے درمیان یہاں تک کہ عام شیعوں کے درمیان بھی پوری طرح رائج نہیں تھی۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت صدیقہ طاہرہ کی تمام کوششوں کے با وجود لوگوں نے اہل بیت عترت علیہم السلام کا دامن چھوڑ دیا۔ نتیجتاً یاوران کی قلّت کی بنا پراور رسول اللهصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام نے سکوت اور صبر کو ہر کام پر ترجیح دی۔ (نہج البلاغہ، خطبات ۳ اور۲۱۷؛ اس کے علاوہ اس موضوع پرکئی مدارک موجود ہیں۔تفصیلات کے لئے رجوع فرمائے کتاب پیمان و پائیداری، ڈاکٹر عبد العلی موحدی۔ پہلے اور دوسرے کی حکومت کے بعد امیر المومنین علیہ السلام اور انکے دونوں فرزندوں کی کوشش یہ رہی کے سماج کے حالات کو مزید اعتقادی برائیوں سے روکیں اور بنی امیّہ جو اب بر سر اقتدار آ چکے تھے اور جنکی اسلام دشمنی (خصوصی طور پر ابو سفیان اور اسکی اولاد) ہر صاحب عقل و شعور کے لئے عیاں تھی، انکے برناموں کو کامیاب ہونے سے روکیں۔
(حیات فکری اور سیاسی امامان شیعہ، رسول جعفریان، ص۶۲-۶۶ و۹۲)
واقعہ عاشورا کے بعد اور دوسرے دور میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو پہلے دور میں نا قابل تصوّر تھے اور نتیجتاً غاصبان حق امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف اظہار برائت کو کتمان اور خاموشی کی چار دیواریوں سے نکال کر منظر عام پر آ نے۔ عاشورا کے بعد یہ حادثات نے اپنا سایہ عمومی طور پر مسلم سماج میں اور خصوصی طور پر شیعہ معاشرے (اور اسمیں بھی کچھ خاص علاقوں میں جیسے کوفہ) پر ایک خاص اثر ڈالا۔ اب شیعہ تقریبوں میں اعلانیہ برائت کا سلسلہ جاری ہوا ۔
مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات بتانا نہایت ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ یہ موضوع وسیع اور پھیلا ہوا ہے جس کے لئے ایک مکمّل کتاب، وہ بھی اگر کئی جلدوں میں، درکار ہے ۔ چونکہ اس رسالہ کے دامن میں گنجایش نہیں ہے لہٰذا ہم یہاں صرف اشاروں پر اکتفا کرینگے۔ جو حضرات مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں انکو چاہئے کہ مذکور مدارک اور حوالاجات کی طرف رجوع کریں۔
ہم اس مضمون کو چار حصّوں میں تقسیم کرینگے:
۱) فروغ برائت میں واقعہ عاشورا کا کردار
۲) کوفہ اورمسئلہ برائت واقعہ عاشورا کے بعد
۳) غصب حق اہل بیت علیہم السلام برائت کا اہم ترین عامل
۴) امام سجاد علیہ السلام اور مسئلہ برائت
(۱)فروغ برائت میں واقعہ عاشورا کا کردار
تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا کاحسّاس ترین اور مہم ترین معیار رہا ہے اہل بیت علیہم السلام اور انکے شیعوں کا تقابل انکے دشمن اور مخالفین کے ساتھ کرنے میں۔ اس تقابل میں اہل بیت علیہم السلام اور انکے شیعوں کی روش مخالفین اور حاکموں کی روش سے بالکل مختلف اور جدا تھی۔ بلکہ کچھ ارباب تاریخ کی رائے تو یہ ہے کہ شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ہی یہ تشخص پایا جاتا ہے
(الصلہ بین التصوّف و التشیع،کامل مصطفیٰ شیبی، ج ۱، ص ۲۷؛ تشیع دار مسیر تاریخ، سید حسین محمّد جعفری، ص ۲۵۰)
اس زمانے میں شیعوں کا یہ بنیادی عقیدہ تھا کہ سوائے اہل بیت اطہار علیہم السلام کوئی بھی حکومت اور خلافت کا حقدار نہیں تھااور نہ ہے۔ اہل بیت علیہم السلام اور انکے شیعوں کے لئے یہ بات روز روشن کی طرح واضح تھی کہ بنی امیّہ کی تقویت کا سلسلہ پہلی خلافت سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔
(تاریخ خلفا، رسول جعفریان، ص ٨١ )
خلیفہ دوم نے معاویہ ابن ابی سفیان کو کسرائے عرب کا لقب دیا (العقد الفرید ابن عبد ربّہ، ج۳،ص ۳۶۵)،اوراسے پورے شام پر مسلّط کیا (تاریخ خلیفہ ابن خیاط، ج ۱،ص ۱۵۷) اور اسکی کار کردگیوں پرکبھی اعتراض نہیں کیا۔ (تاریخ الامم و الملوک، محمّد ابن جریر الطبری، ج ۶، ص۱۸۴)۔ خود معاویہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے:
’’خدا کی قسم ! میں نے جو بھی تسلّط اور حکومت پائی ہے وہ صرف عمر سے میری قربت کی بنا پر ہے۔‘‘
(مختصر تاریخ دمشق، محمّد ابن مکرّم ابن منظور، ج ۹، ص۱۶۱ )
معاویہ کی حکومت کے بعد اسلامی معاشرہ کی خلافت اور حکومت موروثی ہو گئیں اور خاندان بنی امیّہ ایک کے بعد دیگرے حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لیتے رہے۔ لوگوں کی کھلی ہوئی ناراضگی کے با وجود معاویہ نے یزید کو لوگوں پر جبرا اور قہرا مسلّط کیا۔
(الامامہ و السیاسہ، ابن قتیبہ دینوری، ج۱،ص۱۸۲ و۱۹۲)
واقعہ عاشورا سے جس رسوائی اور ذلّت کا سامنا بنی امیّہ کو کرنا پڑا انہوں نے اس نا قابل توجیہ واقعہ کی توجیہ کرنے کی کوشش کی تاکہ انکی حکومت جو اس واقعہ کی بنا پر نہایت کمزور ہو رہی تھی ‘ اسے مستحکم کریں۔ یہی وجہ تھی کہ یزید ملعون نے اپنے دربار میں امام سجاد علیہ السلام کو اس طرح خطاب کیا “خدا کا شکر ہے جسنے تم لوگوں کو قتل کیا۔
(کتاب الاحتجاج، احمد ابن علی الطبرسی ،ج ۲، ص۳۱۰)
دوسرے لفظوں میں اسنے اپنے غلیظ کرتوتوں کو خدا کی طرف منسوب کیا جو عقیدۂ جبر ہے۔ اس طرح کی نسبت معاویہ اور خلیفہ دوم کی باتوں میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے انکار بیعت کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعوں نے اس بات کا علی الاعلان اظہار کیا کہ حکومت صرف اور صرف اہل بیت علیہم السلام کا حق ہے۔ اصحاب حسینی نے میدان کربلا میں رجز پڑھتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ دین علی پر ہیں۔ مثلاً حجاج بن مسروق جب لڑنے کے لئے نکلے تو اس طرح رجز پڑھا:
أَقْدَمُ حُسَيْناً هَادِياً مَهْدِيّاً
فَالْيَوْمَ تَلْقَى جَدَّكَ النَّبِيَّا
ثُمَ‏ أَبَاكَ‏ ذَا النَّدَى عَلِيّاً
ذَاكَ الَّذِي نَعْرِفُهٗ وَصِيًّا
میں پیش کرتا ہوں حسین علیہ السلام کو جو ہادی اور مہدی ہیںآج کے دن آپ اپنے جد نبی سے ملاقات کرینگے پھر آپکے والد علی علیہ السلام جو صاحب عظمت ہیںاور یہی علی علیہ السلام کو ہم (رسول کا) وصی جانتے ہیں
(الفتوح ،محمّد ابن علی ابن اعثم ،ج ۵،ص۱۹۹)
ہلال ابن نافع نے رجز اس طرح پڑھا:
اَنَا الْغُلَامُ ‏الْيَمَنِيُّ الْبَجَلِي
دِيْنِي‏ عَلٰى دِيْنِ حُسَيْنٍ وَ عَلِيٍّ‏
میں یمنی اور بجلی جواں ہوں
میرا دین حسین اور علی کا دین ہے
(الفتوح، محمّد ابن علی ابن اعثم،ج۵،ص ۲۰۱)
امام حسین علیہ السلام کےجانبازوں کا مقابلہ یزیدی لشکر سے در اصل دو گروہ کے درمیان مقابلہ تھا : ایک وہ جو امامت اور خلافت امیر المومنین علیہ السلام کو شرعی اور حقیقی جانتا تھا اور دوسرا وہ گروہ جو امیر المومنین علیہ السلام کے دشمن تھے یا یہ گمان کرتے تھے کہ جسکو بھی خلافت اور حکومت مل جائے وہ حق پر ہے ۔
اصحاب حسین علیہ السلام کا شعاریہ تھا ’’اَنَا الْجَمَلِیُّ اَنَا عَلٰي دِيْنِ عَلِيٍّ‘‘ (میں جنگ جمل والا ہوں اور میں علی علیہ السلام کے دین پر ہوں)۔ اسکے مقابلے میں یزیدی لشکر کا نعرہ تھا
اَنَا عَلٰي دِيْنِ عُثْمَانَ
میں عثمان کے دین پر ہوں۔
(تاریخ الامم و الملوک، محمّد ابن جریر الطبری، ج۴،ص۳۳۱ و۳۳۶)
یہاں تک کہ خوارزمی جو اہل تسنن کے معروف عالم ہیں اپنی کتاب میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اپنی ریش مبارک کو اپنے لہو سے تر کیا اور فرمایا :
هٰكَذَا أَكُوْنَ حَتَّى أَلْقَى جَدِّيْ رَسُوْلَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهٖ وَ أَنَا مَخْضُوْبٌ بِدَمِي، وَ أَقُوْلُ: يَا رَسَوُلَ اللّهِ، قَتَلَنِيْ‏ فُلَانٌ‏ وَ فُلَانٌ‏
میں اسی حال میں اپنے جد رسول اللهصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات کروں گا جبکہ میری داڑھی میرے خون سے مخضوب ہے اورمیں کہونگا : یا رسول الله ! مجھے فلاں اور فلاں نے قتل کیا۔
(مقتل الحسین، موفق بن احمد خوارزمی، ج۲، ص۳۴)
لا ریب، اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ قول اس بات کی طرف صراحت کے ساتھ دلالت کر رہا ہے کہ واقعہ کربلا کی جڑیں سقیفہ میں ہیں۔ سقیفہ ہی کی بنا پرامّت اسلامیہ خدا کے حقیقی راستے یعنی امامت و خلافت حقّہ یا مذہب اہل بیت علیہم السلام سے محروم ہو گئیں۔ اس مضمون کی روایات مذہب امامیہ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔نمونہ کے طور پر رجوع کریں کتاب الاحتجاج، احمد ابن علی الطبرسی، ج۲، ص۲۸۵۔
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ عاشورا میں اہل سقیفہ کے خلاف اظہار برائت کا ایک اہم گوشہ موجود ہے جس نے مستقبل کے لئے اسلامی معاشرہ کو باطل کے خلاف بالخصوص غاصبان حق امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف زمین کو ہموار کیا۔ کچھ علاقوں میں جیسے کوفہ میں برائت کھلے عام ہونے لگی۔ مثلاً مختار ثقفی جب کوفہ پر حکومت کر رہے تھے، شیعوں نے اور مختار کے حامیوں نے بر سر عام غاصبان حق علی علیہ السلام پر لعنت بھیجنا شروع کی یہاں تک کہ آل زبیر اور بنی امیّہ کے حامیوں نے مختار سے شکایت کی کہ کیوں شیعہ ہمارے اسلاف سے اظہار بیزاری کر رہے ہیں۔
(تاریخ الامم و الملوک، محمّد ابن جریر الطبری، ج ۴، ص۵۱۸)
رفتہ رفتہ شیعہ اور علوی دوسرے گروہوں سے جدا ہو گئے اور مختار سے مل گئے۔وہ گروہ مقابل آل زبیر اور بنی امیّہ سے تشکیل پایا۔ لہٰذا مختار ثقفی کی حکومت کے دوران بحث امامت اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ برائت کی بحث نے زور پکڑا۔
(تاریخ خلفا، رسول جعفریان، ص۵۹۷)
(۲)کوفہ اور مسئلہ برائت واقعہ عاشورا کے بعد
واقعہ عاشورا کے بعد شہر کوفہ شیعوں کا پایہ تخت ہو گیا تھا۔ کوفہ کے شیعہاس بنا پر رافضی کہلانے لگے کہ وہ دوسروں کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے رفض یعنی انکار کرنا۔ فان ایس جوسف کا کہنا ہے کہ رافضیت کا سرچشمہ شہر کوفہ ہی ہے۔
(کلام و جامعہ، ص۳۰۹)
شہر کوفہ رافضیت کا مرکز بن گیا۔ امام سجاد علیہ السلام کے زمانہ امامت اور اسکے بعد نامور شخصیتیں وہاں دیکھی گئیں اور دشمنوں اور مخالفین کے با وجود یہ تحریک روز بہ روز زور پکڑتی گئیںاورشہر کوفہ تشیع کا مرکز بن گیا۔
(الغارات، ابراہیم ابن محمّد ثقفی، ج ۲، ص ۵۵۸؛
تاریخ تشیع دار ایران، ص ۱۰۶)
مثلاً ائمّہ علیہم السلام کے بزرگ مرتبہ صحابی جابر ابن یزید جعفی کوفی کے بارے میں لکھا گیا ہے
رَافِضِیٌّ یَشْتَمُ اَصْحَابَ النَّبِیِّ (صلّی الله علیہ و الہ)
یعنی وہ رافضی جو اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برا بھلا کہتا تھا۔
(ضعفاء عقيلي، محمّد ابن عمرو عقیلی، ج۱، ص۱۹۳)
یا لکھا ہے کہ وہ (جابر) رافضی اور غالی تھے۔
(المعارف، ابن قتیبہ دینوری، ص ۴۸۰)
عمر بن شمر کوفی کے متعلق لکھا ہے ’’وہ رافضی تھا جو صحابہ کو برا بھلا کہتا تھا‘‘
(المغنی فی الضعفاء، محمّد بن احمد الذهبی، ج ۲، ص۵۴)
اعین کے خاندان کے اکثر افراد کو رافضی شمار کیا جاتا تھا۔
(تہذیب الکمال، یوسف ابن عبد الرحمان مزی، ج ۱۸، ص ۲۸۳)
عدی بن ثابت جن کا شمار تابعین میں ہوتا تھا کوفہ کے باشندہ تھے اور انہیں رافضی اور غالی کا لقب دیا گیا تھا۔
(المغنی فی الضعفاء، محمّد بن احمد الذهبی، ج۲، ص۵۴)
یہ بات ذہن میں رہے کہ اس طرح کے القاب دینے والے سب مخالفین کے مورخین تھے جنہیں شیعوں سے بغض تھا۔ ابو حمزہ ثمالی جو امام سجاد علیہ السلام کے قریب ترین اصحاب میں شمار کئے جاتے ہیںان کے بارے میں بھی اس طرح لکھتے ہیں کہ وہ رافضی تھے
(تقریب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، ج۱، ص۱۴۶)
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے چند ایک روایات غاصبان حق اہل بیت علیہم السلام کی مذمّت میں نقل کی ہیں۔
(بصایر الدرجات، محمّد بن حسین صفار، ص ۲۹۰؛ تفسیر عیاشی، محمّد ابن مسعود، ج۱،ص ۱۷۸، ح ۶۵)
دیگر اصحاب نے بھی یہ کوشش کی ہے کہ یہ ثابت کریں کہ اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین، دشمنوں اور منکروں کی روش قرآن اور سنّت کے خلاف تھی اور اس طریقہ سے انہوں نے مفہوم برائت کو عاشقان عترت کے درمیان پیش کیا۔ ابان ابن تغلب جنہوں نے امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام سے روایتیں نقل کی ہیں اور کوفہ کی مشہور شخصیّتوں میں انکا شمار ہوتا ہے نے معروف خطبہ شقشقیہ نقل کیا ہے۔ اس کہ علاوہ انہوں نے عکرمہ اور ابن عبّاس سے روایات نقل کی ہیں جسکا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام کا دشمن رسول اللهصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دشمن ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مشہور و معروف کتاب سلیم ابن قیس الھلالی جس میں غاصبان حق اہل بیت علیہم السلام کی مذمّت میں صریح روایات موجود ہیں اسی زمانے میں کوفہ میں شہرت یافتہ ہوئی۔ عقیدہ رفض اس دور میں اتنا رائج تھا کہ کوفہ میں جو فرقہ یا گروہ حقیقی رافضی نہیں بھی تھے انکا شمار رافضیوں میں ہونے لگا۔ مثلاً ابو الحسن الاشعری نے اپنی کتاب مقالات الاسلامیین میں زیدیوں کا شمار رافضیوں میں کیا ہے جب کہ زیدی برائت کے قائل بھی نہ تھے۔ اسکے علاوہ کیسانی مذہب کے افراد بالخصوص شعراء حضرات جیسے كثيرعزه جو کوفہ کا مشہور شاعرتھا اور کیسانی مذہب پالتا تھا، نے غاصبان حق علی علیہ السلام کے کھلے عام کئی اشعار کہے ہیں۔
( العقد الفرید، ابن عبد ربّہ، ج۲، ص۲۴۶)
مندرجہ بالامثالیں اس بات کی طرف گواہی دے رہی ہیں کہ واقعہ عاشورا کے بعد شہر کوفہ برائت کا مرکز بن گیا تھا۔ جبکہ عاشورا سے پہلے اس طرح کا جوش اور ولولہ اس موضوع کے متعلق کوفہ میں موجود نہیں تھا۔ نتیجتاً حکومت وقت کے خلاف بغاوتوں نے اپنا سر اٹھانا شروع کر دیا۔ نہ صرف کوفہ میں بلکہ مدینہ منوّرہ اور دیگر شہروں میں بھی۔
(۳)غصب حق اہل بیت علیہم السلام برائت کا اہم ترین عامل
اس سے پہلے آپ کی خدمت میں عرض کر چکے ہیں کہ جو ظلم اور استبداد کے پہاڑ بنی امیّہ نے آل رسول علیہم السلام پر توڑے وہ واقعہ عاشورا تک محدود نہیں تھے۔ انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ نہ صرف خود اہل بیت علیہم السلام بلکہ انکے فضائل اور مناقب بنی امیّہ کی حکومت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ لہٰذا انہوںنے لوگوں کو اس بات کی تشویق کی کہ امیرالمومنین علیہ السلام اور آل رسول علیہم السلام کی مذمّت کریں، انکے فضائل اور مناقب کو بیان نہ کریں بلکہ جو خلفاء گزرے ہیں ان کے فضائل بیان کریں۔ وہ یہ گمان کرتے تھے کہ اگر اہل بیت علیہم السلام کے مقام اور انکی منزلت کو مسلم معاشرہ میں اور مسلمانوں کی آنکھوں میں گرا دیا جائے، تو انکی حکومت کو دوام حاصل ہوگا۔ لہٰذا انہوںنے کسی قسم کے ظلم اور استبداد سے دریغ نہیں کیا۔ مروان ابن حکم (لعنت الله علیہ) نے امام سجاد علیہ السلام کے محضر میں اقرار کیا کہ اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کسی نے بھی ہمارے صاحب (عثمان) کی دفاع نہ کی جس طرح تمہارے صاحب (امیر المومنین علیہ السلام ) نے کی۔امام سجاد علیہ السلام نے بالفور سوال کیا کہ پھر کیوں تم لوگ (یعنی بنی امیّہ) منبروں پر ان پر لعن و سب کرتے ہو؟ اس ملعون نے مکمّل بےحیائی سے جواب دیا
اِنَّهٗ لَا يَسْتَقِيْمُ لَنَا الْاَمْرُ اِلَّا بِذٰلِكَ
اسکے بغیر ہماری حکومت مستحکم ہو ہی نہیں سکتی۔
(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید المعتزلی، ج ۱۳، ص ۲۲۰)
بنی امیّہ آل رسول علیہم السلام کے اصحاب کو مجبور کرتے تھے کہ وہ انکو برا بھلا کہیں اور اگر اصحاب انکار کرتے تھے، انہیں نا قابل بیان اذیّتوں سے دچار ہونا پڑتا تھا۔ مثلاً رشید ہجری کوفی نے جب علی علیہ السلام کے خلاف زبان کھولنے سے انکار کیا، ابن زیاد ملعون جوکوفہ کا حاکم تھا، انکے ہاتھ، پیر اور حتیٰ زبان بھی کٹوا دی۔
(الاختصاص، محمّد ابن محمّد ابن نعمان جو شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں، ص ۷۷)
سعید بن جبیر کو حجاج بن یوسف ثقفی (لعنت الله علیہ) کے سامنے لایا گیا۔ اس نے اصرار کیا کہ سعید خلفاء کی مدح کریں اور انکے فضائل بیان کریں۔ اصل تقیہ کا لحاظ رکھتےہوئے سعید خاموش رہے۔ حجاج کو غیظ آ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ انہیں فورا پھانسی دی جائے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سعید نے ظاہرا نہ لعن کی اور نہ سب، پھر بھی انہیں سولی دے دی گئیں۔ کیوں؟ اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خلفاء کی طرف تمایل نہیں دکھایا۔ اس رویّہ سے عاشورا کے بعد شیعوں کی حسّاسیت کا اندازہ ہوتا ہے جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف بغاوت اور شورش کی آواز اٹھنے لگی اور بنی امیّہ کی حکومت روز بہ روز کمزور ہوتی چلی گئی۔
یحییٰ بن ام الطویل۔ امام سجاد علیہ السلام کے برجستہ صحابی اور آپ علیہ السلام کی دایہ کے بیٹے، اعلانیہ لوگوں کو امیر المومنین علیہ السلام کو برا بھلا بولنے سے روکتے تھے اور دوسری جانب، ان حضرت کے دشمنوں اور غاصبوں کے خلاف بے باک اظہار برائت کیا کرتے تھے۔ وہ با قاعدہ یہ کہتے تھے کہ یہ برائت اصل عبادت پرودگار ہے۔ زبردست بہادری اور دلیری کے ساتھ وہ کوفہ کے میدان میں کھڑے ہو کربلند آوازسے ندا دیتے تھے
مَعْشَرَ أَوْلِيَاءِ اللهِ إِنَّا بُرَآءُ مِمَّا تَسْمَعُوْنَ مَنْ سَبَّ عَلِيّاً ع فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَ نَحْنُ بُرَآءُ مِنْ آلِ مَرْوَانَ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ‏
’’اے الله کے دوستو! تم جو کچھ سن رہے ہو ہم اس سے اظہار برائت کرتے ہیں۔ خدا کی لعنت ہو اس شخص پر جو علی علیہ السلام کوسب و لعن کرے۔ ہم اظہار برات کرتے ہیں آل مروان کے خلاف اور جنکی وہ عبادت کرتے ہیں الله کے علاوہ۔
(الکافی، محمّد بن یعقوب الکلینی، ج ۲، ص ۳۸۰، ح ۱۶، بَابُ مُجَالَسَةِ أَهْلِ الْمَعَاصِي)
امام سجاد علیہ السلام اور انکے اصحاب کا نہ صرف یہ عقیدہ تھا کہ بنی امیّہ کی ظالم و جابر حکومت کی بنیاد غصب حق خلافت تھی بلکہ وہ اس عقیدہ کو عوام تک پہونچانے میں ڈرتے نہیں تھے چاہے اس راہ میں انکی جانیں چلی جائیں۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یحییٰ بن ام الطویل کواسی اظہار برائت کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔ امام سجاد علیہ السلام نے ان کے حق میں رحمت کی دعا کی اور امام کاظم علیہ السلام کی روایت کی روشنی میں قیامت کے دن انہیں امام زین العابدین علیہ السلام کے حواریوں میں شمار کیا جائیگا (جنکی تعداد محض چار ہوگی)
(الاختصاص، شیخ مفید، ص ۶۱)
۴) امام زین العابدین علیہ السلام اور مسئلہ برائت
امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت کا عمیق جائزہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنے شیعوں کی اس طرح ہدایت اور رہنمائی کی کہ جسکا نتیجہ دوسرے عقائد اور نظریات سے تفکیک اور تشخص تھا۔ آپ نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی بلند الہی شان اور منزلت پر بےپناہ تاکید کرتے ہوئے ثابت کیا کہ امامت اور ولایت صرف اور صرف آل رسول علیہم السلام کا حق ہے، اپنے شیعوں کو اس عقیدہ پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی اور یہ کہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی کی امامت، خلافت اور حکومت کو قبول نہ کریں۔ بلکہ غاصبان حق خلافت کے خلاف اظہاربرائت کریں۔ امام سجاد علیہ السلام نے ان میں سے کچھ اہداف اور اغراض کو دعاؤں اور مناجات کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔ ان میں سے چند ایک دعائیں اہل تسنن کے یہاں بھی رائج ہیں۔
(شرح نہج البلاغہ، عبد الحمید بن ہبت الله ابن ابی الحدید المعتزلی، ج ۵،ص ۱۳؛ ج ۶، ص ۱۷۸؛ ج ۱۱، ص ۱۹۲)
یہاں آپ کی خدمت میں دو تین مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ بات واضح ہو جائے :
رَبِّ صَلِّ عَلَى أَطَايِبِ أَهْلِ بَيْتِهِ الَّذِينَ اخْتَرْتَهُمْ لِأَمْرِكَ، وَ جَعَلْتَهُمْ خَزَنَةَ عِلْمِكَ، وَ حَفَظَةَ دِينِكَ، وَ خُلَفَاءَكَ فِي أَرْضِكَ، وَ حُجَجَكَ عَلَى عِبَادِكَ، وَ طَهَّرْتَهُمْ مِنَ الرِّجْسِ وَ الدَّنَسِ تَطْهِيراً بِإِرَادَتِكَ، وَ جَعَلْتَهُمُ الْوَسِيلَةَ إِلَيْكَ، وَ الْمَسْلَكَ إِلَى جَنَّتِكَ
’’پروردگار! ان کے اہل بیت اطہار علیہم السلام پر رحمت نازل فرما جنہیں تو نے اپنی حکومت و ولایت کے لئے منتخب فرمایا ہے، اپنے علم کا خزینہ دار، اپنے دین کا محافظ، زمین میں اپنا خلیفہ اور بندوں پر اپنی حجت بنایا ہے، جنہیں تو نے اپنے ارادہ سے ہر قسم کی نجاست و آلودگی سے پاک و صاف رکھا اور جنہیں تجھ تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔‘‘
(صحیفہ سجادیہ، دعا ۴۷، فقرہ ۵۶)
امام زین العابدین علیہ السلام دعا کے اس فقرے میں با قاعدہ فرما رہے ہیں کہ وہ اہل بیت رسول علیہم السلام جن کو تو نے اپنے امر یعنی امامت کے لئے منتخب کیا، انکو اپنی زمین پر خلیفہ مقرّر کیا، لوگوں پر اپنی حجت قرار دیا، یہ تمام امامت اور خلافت سے متعلق بنیادی اور اساسی مطالب ہیں کہ جن پر اگر غور کیا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ امام علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ امامت اور خلافت صرف اہل بیت علیہم السلام کا حق ہے کسی اور کا نہیں۔
اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا الْمَقَامَ لِخُلَفَائِكَ وَ أَصْفِيَائِكَ وَ مَوَاضِعَ أُمَنَائِكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّفِيْعَةِ الَّتِي اخْتَصَصْتَهُمْ بِهَا قَدِ ابْتَزُّوهَا… حَتَّى عَادَ صِفْوَتُكَ وَ خُلَفَاؤُكَ مَغْلُوْبِيْنَ مَقْهُوْرِيْنَ مُبْتَزِّيْنَ‏
بار الٰہا! یہ مقام تیرے جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لئے تھا، تیرے امانت داروں کا محل تھا جو اس بلند منصب کے ساتھ ان کے لئے مخصوص کیا تھا لوگوںنے اسے چھین لیا… یہاں تک کہ (اس غصب حق کے نتیجہ میں) تیرے برگزیدہ جانشین مغلوب و مقہور ہو گئےاور ان کا حق ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔‘‘
(صحیفہ سجادیہ، دعا ۴۸، فقرہ ۹)
غور فرمایا آپ نے؟ امام زین العابدین علیہ السلام واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ مقام خلافت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو خدا کے خلیفہ ہیں اور اسکے برگزیدہ ہیں لیکن غیروں نے (یعنی نا اہلوں نے) اس مقدّس اور الہی مقام کو انسے چھین لیا۔
اللَّهُمَّ الْعَنْ أَعْدَاءَهُمْ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَ الْآخِرِيْنَ، وَ مَنْ رَضِيَ بِفِعَالِهِمْ وَ أَشْيَاعَهُمْ وَ أَتْبَاعَهُمْ
’’بار الٰہا! تو ان کے پہلے اور آخری دشمن پر اور جو ان کے افعال سے راضی و خوشنود ہوں اور ان (دشمنوں) کے ماننے والے اور ان کی اتباع کرنے والوں پر لعنت بھیج۔
(صحیفہ سجادیہ، دعا ۴۸، فقرہ ۱۰)
اس فقرے میں امام علیہ السلام نہ صرف دشمنان اہل بیت علیہم السلام پر لعنت بھیج رہے ہیں بلکہ وہ تمام افراد جو انکے (یعنی دشمنوں اور غاصبوں کے) افعال سے راضی ہیں، انکے ماننے والے اور پیروکارہیں۔
قابل غور ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعاؤں میں دشمنوں پر لعنت بھیجا کرتے تھے اور اسے اپنے عبادت کا جز سمجھتے تھے۔ لہٰذا ہر وہ انسان جو آل رسول علیہم السلام کے شیعہ ہونے کا دعوی کرتا ہے اسے چاہئے کہ دشمنان اہل بیت علیہم السلام اور انکے حق کو غصب کرنے والوں پر لعنت کو ایک امر مقدّس جانیں۔البتہ وقت اور جگہ کا خیال خاص اہمیت رکھتا ہے۔
تضاد یا حکمت عملی؟
تاریخ کا مختصر جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانہ امامت میں بنی امیّہ کی ایک سیاسی چال یہ تھی کہ عظمت خلفا و صحابہ کا پرچم بلند کیا جائے تاکہ اسکے ذریعہ سواد اعظم یعنی مسلمانوں کی اکثریّت کو ائمّہ معصومین علیہم السلام اور انکے شیعوں کے خلاف کر دیا جائے۔ لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کے امام سجاد علیہ السلام نے کچھ مواقع پر حکومت کی ان ابلیسی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے ایک دوسری روش اختیار کی تاکہ شیعوں کو ستانے کا ہر بہانہ اور موقع انسے سلب کر لیا جائے۔ اس لئے امام علیہ السلام کے اقوال میں ہمیں کچھ ایسے جملات نظر آتے ہیں جن میں آپ نے غاصبان حق خلافتکی علی الظاہر برائت سے گریز کیا ہے لیکن فصاحت کے تحت بین السطور میں برائت کو مخفی کردیا ہے۔ یہ روش یا تو تقیہ کی بنا پر ہے یا آپ ذومعنی جملات کے ذریعہ بہت سارے مسائل حل کر لیتے۔ یہاں دو روایات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، البتہ اختصار سے، تاکہ بات مکمّل ہو جائے۔ زید بن علی نقل کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ مکّہ گیا۔ وہاں طائف کا ایک شخص شیخین کے خلاف نالہ کر رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس سے کہا الله سے ڈر۔ اس نے کہا’’تمہیں اس کعبہ کے رب کی قسم! کیا ان دونوں نے فاطمہ زہرا کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا ’’خدا کی قسم نہیں‘‘ …بعد میں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ جب وہ دونوں رسول اللهصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے تو فاطمہ زہرا کیا ہیں؟ (بحار الانوار، علامہ محمّد باقر مجلسی، ج ۲۹، ص ۱۵۸)۔ ایک اور حدیث میں جسکے راوی حکیم بن جبیر ہیں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:
أَنْتُمْ تُقْتَلُوْنَ فِي عُثْمَانَ مُنْذُ سِتِّيْنَ سَنَةً، فَكَيْفَ لَوْ تَبَرَّأْتُمْ مِنْ صَنَمَيْ قُرَيْشٍ
تم ساٹھ (۶۰) سال سے عثمان کے قتل کی خاطر مارے جا رہے ہو۔ پس اگر تم صنمی قریش سے اظہار برائت کروگے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟
(تقریب المعارف، ابو الصلاح تقی بن نجم حلبی، ص ۲۴۵)
لیکن جب یہی راوی یعنی حکیم بن جبیر اپنے عقیدہ کو امام سجاد علیہ السلام کےسامنے پیش کرتا ہے تاکہ اسکے عقائد کی اصلاح ہو جائے، امام علیہ السلام نے بلا تشبیہ امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت اور امامت بلا فصل کو بیان فرمایا اور شیخین کی فرضی منزلت کا انکار کیا۔
(مناقب امیر المومنین، محمّد بن سلیمان کوفی، ج ۱ ص ۵۲۱)
ظاہر ہے یہ روش صرف دین خدا اور سنّت رسولصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بچانے کے لئے اور شیعوں کے عقائد اور ان کی جان ومال عزت اور آبرو کی حفاظت کے لئے تھی۔ قابل توجہ ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے کبھی بھیخلفاء کے اقوال پر استناد نہیں کیا، نہ کسی کتاب میں یہ ملتا ہے اورنہ ہی کسی روایت میں۔ جبکہ اس کےبر عکس متعدد مقامات پر ہم پاتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد کی عظمت اور جلالت کا ذکر بھی کیا اور انکے اقوال بھی نقل کئے ہیں۔
اعلان برائت اور حق اہل بیت علیہم السلام
امام زین العابدین علیہ السلام نے ہر مناسب موقع پر اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا ذکر کیا اور یہ بیان فرمایا کہ خلافت صرف اہل بیت علیہم السلام کا حق ہے۔ اسکی بہترین مثال حضرت فاطمہ زہرا  کا خطبہ فدکیہ ہے جسکے راوی زید بن علی ہیں جنہوں نے اپنے والد یعنی امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ اس خطبہ کا مختصر جائزہ ثابت کر دیگا کہ شہزادی کونین نے کس طرح امامت اور خلافت کو اپنا حق بتایا ہے اور غیروں کو غاصب ثابت کیا ہے۔اس خطبہ کی اس قدر اہمیّت ہے کہ اہل تسنن کے علماء نے بھی اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔
(شرح نہج البلاغہ، عبد الحمید بن ہبت الله بن ابی الحدید، ج ۱۶، ص۲۵۲)
امام سجاد علیہ السلام نے اپنی جدّہ حضرت زہرا  کے اس حق کو غصب کئے جانے کو اپنے اصحاب کے لئے پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
(امالی مفید، ص ۲۸۱؛ امالی طوسی، ص ۱۵۵)
بات کو منزل اتمام تک پہونچانے کے لئے چند روایات آپ کی خدمت میں نقل کرتے ہیں اور ان دونوں حدیثوں کو ابو حمزہ ثمالی نے امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
تین طرح کے لوگ ہیں جنکی طرف خدا قیامت کے روز نگاہ نہیں کریگا :’’(۱) وہ شخص جو خدا کی طرف سے امام ہونے کا دعویٰ کریگا جب کہ وہ اسکا اہل نہیں ہوگا، (۲)دوسرے وہ جو خدا کی طرف سے منتخب کردہ امام کا انکار کریگا اور(۳) تیسرا وہ جو یہ عقیدہ رکھےگا … میں ذرا سا اسلام پایا جاتا تھا ‘‘
(تفسیر العیاشی، محمّد بن مسعود عیاشی، ج ۱، ص۱۷۸؛ الکافی، محمّد بن یعقوب الکلینی، ج ۱، ص ۳۷۴،ح ۱۲)
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
وہ لوگ جنہوں نے ہمارے حق پرظلم کیا، ہماری میراث کو چھینا اور ایسی جگہ پر بیٹھے جسکے حقدار ہم تھے۔ خدا انہیں نہ بخشے اور ان پر رحم نہ کرے۔
(مناقب آل ابی طالب، محمد بن علی بن شہر آشوب، ج ۳، ص ۳۷۰)
آئیے ہم سب مل کر دعا گو ہوں کہ خدا وند متعال ہمارے امام حضرت بقیت الله (عج) کے ظہور پر نور میں تعجیل فرمائے تاکہ آپ تشریف لائیں اور اہل بیت علیہم السلام کو ان کا حق لوٹائیں اور شہداء کربلا اور کے خون کا انتقام لیں اور وہ افراد جنکی بنا پر پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ناموس کی چادریں چھینی گئیں اور انہیں اسیر بنایا گیا انہیں انکے مناسب انجام تک پہونچایں۔ آمین یا رب العالمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں