رضا اور صبر

سلسلہ انبیاء علیہم السلام
اس آب و گل کی دنیا میں مخلوق خداوندی وہ جو اشرفیت کی سند اپنے خالق سے لے کر آئی اور اس دنیا کو آباد کیا جسے انسان کہتے ہیں اس کے لئے پرکھ یا جانچ یا عدالت کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے سلسلے قائم کئے جو خبر رسانی یعنی ہدایت کی راہ دکھانے کے لئے اس زمین پر آئے۔ وہی نورانی افراد پیکر خاکی میں اولاد آدم علیہ السلام کی نسل سے نمایاں ہوئے اور انہوں نے اپنے اقوال اور افعال سے ہدایت کے راستے پر چلنے کی روش کی تعلیم دی۔
ابلاغ
دنیا مزرعہ الاخرۃ ہے، یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ،جیسا بوؤگے ویسا آخرت میں پاؤگے۔ اس کے لئے مسلسل (جیسا کہ اوپر بیان کرچکے ہیں ) انبیاء علیہم السلام احکام الہی کی خبر انسان تک پہونچانے پر مامورر ہے۔ یہی نہیں اپنی زندگی اور جہاں جس ماحول اور جس طبقہ، جس زمانہ میں رہے اپنی روش حیات سے اور اپنے اقوال سے انسانوں کو خبردار کرتے رہے۔مزید برآں صحف یعنی کتاب بھی ضرورت کی شدت کو دیکھتے ہوئے منجانب اللہ جو نازل ہوا اسے سامنے رکھ دیا۔ چنانچہ قرآن تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحف اسی سلسلے میں آسمانی کتابوں کے نزول کی وجہ قرار پائی ہے۔
ابلیسیت
یہ ایک ایسا لفظ ہے جو تمام رجیمیت، گمراہیوں اور تمام برائیوں کے عناصر کو اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس نے پہلے ہی اللہ تبارک تعالی کی عدالت سے اپنے سجدوں کا اجر طلب کرلیا اور اس کے حکم کے بموجب آدم علیہ السلام کے سامنے سربسجود سے اپنے استکبار کی بنا پر فوقیت کا حامل بتاتے ہوئے انکار کردیا۔ عدالت کا تقاضہ تھا اسے اجر دے اور انکار یا کفر کا تقاضہ تھا اسے مغضوب کیا جائے۔ خداوند متعال نے دونوں تقاضے پورے کردیئے۔ انکار حکم خدا کی نافرمانی پر اسے بزم ملائکہ سے خارج کیا اور عدالت کے تقاضہ کی بنا پر اسے مہلت دی اور اپنی کبریائی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ تو میرے خاص بندوں کو جو خدا پرست ہونگے ان کو کبھی صراط مستقیم سے گمراہ نہ کرسکے گا اس لئے کہ بزم سے نکلتے وقت اس نے یہی تو کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کثر نہیں اٹھا رکھوں گا۔قرآن کریم جو ام الکتاب ہے اس میں یہ کیوں فرمایا تم قرآن کی آیتوں پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟ اس کی وجہ صاف ہے، مولائے کائنات علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ شیطان کو علم غیب نہ تھا کہ وہ کہتا کہ میں بنی آدم کو گمراہ کرتا رہوں گا۔ اس کو یہ حوصلہ اور ہمت بھی اسی بنی آدم نے دی اور اس کو اتنی قوت ملی کہ وہ ساری دنیا کی ایک بڑی اکثریت کو اپنے چنگل میں جکڑ رہا ہے۔
رضا اور صبر
جب خالق نے انسان کو عقل عطا کر کے حجت تمام کردی تو اپنی طرف سے بنی آدم کی ہدایت کے لئے دو اصول قائم کردیئے۔ ایک اپنی رضا دوسرے اپنے خاص بندوں کا صبر۔
رضا
ہر انسان کے لئے ارفع و اعلیٰ منزلیں طے کرنے کی روش، خداوندمتعال کی رضا ہے۔ اسکی رضا شامل حال ہے تو اس مختصر سی حیات دنیوی کے عوض آخرت، جو لاکھوں برس کی ہوگی، اطمینان، سکون اور نہایت خوش آئند حالات کے ساتھ گزرے گی۔وہ زندگی کیسی ہوگی اسکی خوشخبری تو دی گئی ہے لیکن اسکی تفصیل کوئی نہیں بیان کرسکتا ہے جسے اللہ نے اپنے بندگان خاص کے لئے سجا کررکھا ہے۔ حق تعالی کی وہ نعمتیں جو اس مختصر سی دنیا میں برس رہی ہیں اسکا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ہے تو وہ جسے آخرت کی زندگی کہتے ہیں وہاں کوئی خداوندمتعال کی نعمتوں کا کیا احاطہ کرسکتا ہے۔
لیکن اس دنیا میں رہ کر خدا کی مرضی اور اسکی رضا کا معیار انسان کی بندگی ہے۔اسی بندگی کے میزان پر درجات کا تعین ہوگا۔ شب معراج جب خدا اپنے محبوب ترین بندہ سے کہہ رہا تھا اے میرے حبیب مانگ جو تجھے چاہئے تو رسول جو امام الرحمہ بن کر ہم خاطیوں کے درمیان آئے تھے انہوں نے صرف یہ التجا کی تھی کہ معبود ایک مرتبہ تو مجھے اپنا بندہ کہہ دے۔ قدرت الہی نے اس انداز سے اپنے محبوب کو اپنا بندہ کہا کہ آج کسی کے بس میں نہیں ہے کہ وہ شمار کرسکے کہ سارے عالم میں جہاں جہاں نماز ادا ہوتی ہے ، منصب رسالت سے قبل منصب بندگی کا ذکر ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ رضائے الہی اگر مقصود ہے تو بندگی کے آداب سیکھنے پڑیں گے۔ اس قابل اور اس حیثیت کی زندگی میں لمحات گذارنے ہونگے جو بندگی کے شرائط پر یا میزان پر پورے اتریں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مہد میں فرمایا تھا میں اللہ کا بندہ ہوں ، نبی بناکر بھیجا گیا ہوں اور مجھ کو کتاب دی گئی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ کتاب اور نبوت عبودیت کی تعلیمات کے وہ سلسلے ہیں جو رابطہ قائم کرتے ہیں اللہ کی رضایت اور بندہ کی بندگی کے درمیان۔
حریف
لیکن بندگی کے لوازم کو پورا کرنا ایک نہایت مشکل امر ہے اور یہ مشکلات ہر لمحہ انسان کو سوتے جاگتے، رفتار،گفتار، ناروا سلوک جیسے تمام عناصر کے ساتھ گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ عدل الہی ہے کہ ان مشکلات کوہر لمحہ انسان رفع اور دفعہ کرتا رہتا ہے۔ اگر اس کا مقصد اور منتہا رضائے خداوندی پر اساس کرتا ہے۔ اس کے لئے انبیاء علیہم السلام کے سلسلے اور صحف آسمانی کا نزول ہر دور اور عہد میں قائم تھا۔ اگر انسان نے ان مقدس رہبروں کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ایک روش دی ہے تو یہ تمام مشکلات خودبخود ختم ہوجاتی ہیں اور زندگی کے مراحل ہر منزل پر آسان ہوجانے کا احساس دل میں پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک انسان اپنی حقیقت پر غور کرے کہ وہ بظاہر کمزور دکھائی دیتا ہے اور اسکی اس نیت پر کہ وہ اپنے کردار کو نیکیوں کے سانچے میں ڈھالنے کی طرف متوجہ رہتا ہے تو ایسی مصیبتیں سامنے آجاتی ہیں جو ایسی ہوتی ہیں کہ وہ گویا انسان کے پاؤں میں زنجیر ڈال سکتی ہیں جو ایک قدم بھی اس کو بڑھنے نہ دینگی۔ لیکن اللہ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والوں کے لئے اس پاؤں میں پڑی زنجیر کا ہر حلقہ ٹوٹ کرپائے ثبات مومن کا بوسہ لیتا ہے اور رضائے الہی اور اس کی خوشنودی کی بشارت دیتا ہے ،خوشخبری دیتا ہے، ثبوت بھی ایسا کہ ابلیس بھی اپنی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے بول پڑتا ہے اَنْتَ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اس کا پختہ ثبوت ہم اس مضمون کے آخر میں قارئین کے لئے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
صبر
سب سے پہلے قرآن مجید نے صبر کے لئے یہ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَابِرِیْن بے شک لاریب اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پھر خدا یہ بھی کہتا ہے اے قرآن پڑھنے والو قرآن کی آیات پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جسکے ساتھ خالق ہوگا اسکی مخلوق کو کون گمراہ کرسکتا ہے، کون ہے اور کس کی جرات ہے کہ وہ ایسی مخلوق کو زاد آخرت سے محروم اور وہ کون سی مشکلات ہونگی جسے وہ روندتا ہوا نہیں گذر جایگا؟ لیکن شرط ہے کہ وہ ہر حال میں صابر رہے۔،صبر کا مظاہرہ کرے۔
آگے چل کر ہدایت کی قندیلیں روشن ہیں مگر صرف ان کے لئے جو صبر کے معنی اور مفہوم سے آگہی رکھتے ہیں اور تعلیمات قرآنی سے خود کے ذہن، فکر، شعور کو آراستہ کرتے ہیں۔ جن کے قلوب ذکر خدا سے اطمینان کا مسکن ہوتے ہیں۔جن کے قدم میں لغزش پیدا نہیں ہوتی اور وہ اپنے کردار کو قرآن کے میزان پر اور آیات الہی اور معصومین علیہم السلام کی سیرت کو سامنے رکھ کر صبر کے سانچے میں ڈھالتے رہتے ہیں۔
قرآن کریم کا کیا یہ ارشاد گرامی نہیں ہے کہ بے شک ہم نے رسول بھیجے روشن نشانیوں کے ساتھ اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی،میزان بھی ساتھ کردیا تاکہ بالقسطعادلانہ زندگی بسر کرسکو۔ (حدید،آیت ۲۵)
صبر ہے کیا؟ اور یہ کیوں اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ تمام انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کی ہدایات، تعلیمات، روش حیات کی روح یا اسکے رگوں میں دوڑتے حیات انسانی کے خلوص کواگر نچوڑا جائے تو ایک لفظ صبر ایسا ہے جو بالراست رابطہ رکھتا ہے اللہ تبارک و تعالی کی رضا اور خوشنودی سے لیکن یہ وہ صبر جو انبیاء، اوصیاء، مرسلین، ائمہ طاہرین علیہم السلام کی سیرت میں جلوہ گر ہے۔ (یہاں وہ صبر نہیں جو استکباریت کی تعقیب میں ہو حکومت سازی،قتل و غارت وغیرہ جیسے اعمال کے پیمانے میں ڈھل رہا ہو)۔
خداوند متعال نے صبر، جسکا رابطہ اسکی رضا سے ہے، اس کی وجہ بھی بیان کردی ہے۔خدا مالک الملک ہے۔اس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ وہ انسان کو آزمائے ، اس کا امتحان لے، چونکہ یہ دنیا اشرار کی آماجگاہ بن چکی ہے اور ہر قدم پر امتحان ہے، چاروں طرف سے ایسے اشارے ہورہے ہیں جو انسان کو گمراہی کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ ایسے امتحان میں گھرے ہوئے انسان کے لئے قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے ،آگہی دی ہے، روشنی دی ہے جو صبر کی تلقین ہے کہ تم مدد مانگو نماز سے صبر (یعنی روزہ) سے، کتنا بلیغ اور دل کو سکون دینے والا ہے یہ جملہ لیکن وہ جو صبر پر یقین اور ایمان کو اپنے عمل سے محکم کئے ہوئے ہیں ، آخرت کے درجات جو بہشتوں میں انسان کے لئے قائم کئے ہیں اسی کسوٹی پر پرکھ کر عطا کئے جائیں گے۔
خداوند متعال کتنا عادل ہے اور کتنا رحیم و کریم ہے اور اس نے اپنے مخلوق جسے اشرفیت دی ہے اس کے اور سارے عالمین کے لئے اپنی حجت کو قائم کردیا ہے۔ اب اگر انسان پھر بھی ذاتی مقاصد کی بنا پر مفسدین میں آجائے تو اسکی عاقبت میں دوزخ کے شعلے ضرور اٹھیں گے۔ وہ چاہے جس لباس میں ہو یا اپنی ظاہر حیث و حیثیت سے قیادت کا مظاہرہ کرتا رہے۔ (خدا مفسدین کو دوست نہیں رکھتا)۔
اللہ تبارک و تعالی نے صبر کی بنیاد پر اپنے رضا کا جو رابطہ رکھا ہے اسکے لئے جو مذکورہ بالا بیان میں کہا ہے کیسی حجت قائم کردی ہے جو تاقیامت اقصائے عالمین میں اپنی جلوہ گری سے ایمان والوں کو غضب سے اور گمراہی سے بچائے رکھے گا؟ اس ذیل میں صرف اجمال کے لحاظ سے واقعہ نقل ہے۔
عاشور کی دوپہر کے ڈھلنے کاوقت تھا، امام حسین علیہ السلام تنہا ہیں ھل من ناصر ینصرنا کی صدا دی، ایک چھ مہینہ طفل شیر خوار نے مہد سے خود کو ہمک کر زمین پر گرادیا۔ تین روز کا پیاسا فقط شیش ماہے نے اپنے اس عمل کو لبیک کا ذریعہ بنایا۔ لبیک یا ابتاہ، امام حسین علیہ السلام لے کر آئے ایک اونچے مقام پر، علی اصغر علیہ السلام زیر دامن ہیں ،گمراہ سمجھ رہے ہیں قرآن ہے۔ ہاں قرآن ہی تھا دامن ہٹایا امام حسین علیہ السلام نے علی اصغر علیہ السلام کے لئے عبا بچھادی، فاصلہ قائم کیا اور پھر ایک صدا دی، تم حجت خدا کے بیٹے ہو، حجت تمام کردو ! کیا علی اصغر علیہ السلام حجت کے بسیط معنی و مطالب کو سمجھتے تھے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ جواب: سوالی جواب سامنے ہے، علی اصغر علیہ السلام ننھی سی زبان ان لبوں سے باہر لائے جو دوپھول کی پتوں کی طرح تھے۔زبان سےلبوں پر تفسیر صبر و رضا الہی رقمطراز ہونے لگی۔ انقلاب سانس لینے لگا، پتھر دل شکستہ ہوئے،کمانیں جھک گئیں ، نیزےہاتھ سے چھوٹ گئے، تلواریں زمین میں شرم سے گڑ گئیں۔،آنکھوں سےآنسو جاری ہوئے۔
اے حجت خدا کے بیٹے ،یہ کیسی حجت اس طرح تمام کردی کہ تمام عالمین کے افق پر چھا گئی۔ اے حجت خدا کے فرزند عالیمقام یہ کس طرح لبیک اور نصرت کہ تمام فرائض منصبی کو سمیٹ کر اس کمسنی میں ہمک کر اپنے گلے پر حرملہ کا تیر لے لیا۔ خون علی اصغر، حسین کا چہرہ… حشر کا میدان، لازم صبر کا سفر رضائے الہی ملزوم کی طرف جلوی گری کرتا ہوا۔اس سفر کی ترجمانی قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کی۔فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ فِیْ جَنَّتِیْ شہادت علی اصغر علیہ السلام بَیّن نشانی کی ایک مکمل تفسیر ہے۔لیکن رِضًا بِقَضَائِہِ وَتَسْلِیْمًا لِاَمْرِہِ کی آواز آج بھی گونج رہی ہے۔
اس تفسیر میں جلی حرفوں سے لکھی ہوئی یہ تحریر نمایاں ہے۔ اے خالق مطلق انسانیت کا دل مجروح ہے، کیا تیرے انصاف کایہ تقاضہ نہیں ہے کہ تو اسی دنیا میں اس کا انتقام لینے والا ظاہر کردے جو اس مجروح انسانیت کے دل کا مرحم ثابت ہو؟ آواز آرہی ہے… فَانْتَظِرُوْا اِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ مہدی آخر الزماں علیہ السلام منتقم خون حسین علیہ السلام کا حملہ …ذوالفقار شاید خود بول اٹھے ابھی تو میں نے علی اصغر علیہ السلام کے ایک قطرۂ خون کا بھی بدلا نہیں لیا ہے!

کیٹاگری میں : 1439

اپنا تبصرہ بھیجیں