مقصد امام حسین علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی زبانی

دین مقدس اسلام کا ایک بنیادی مقصد لوگوں کو ہر طرح کی برائیوں سے دور کرنا او رتمام نیکیوں سے آراستہ کرنا ہے۔ یہ باتیں چاہے عقائد سے متعلق ہوں یا اخلاق و اعمال سے۔ انفرادی زندگی پر ہو یا اجتماعی زندگی۔ مادی دنیا سے متعلق باتیں ہوں یا آخرت اور معنویت و روحانیت سے متعلق ہوں۔چونکہ انسان کو خدا نے اپنی ساری مخلوق پر افضلیت بخشی ہے لہذا اسے کمال کا سب سے بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ اسی لئے اپنے محبوب ترین بندہ کو یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کو انسان کا پیکر دیا اور اسکی اوج اور بلندی کی معراج کو عرش الہی میں جلوۂ گر کیا۔ اسی لئے خلاق کائنات نے انبیاء ومرسلین علیہم السلام کے ذریعہ اپنی حجت اس طرح قائم کردی کہ ان تذکرات سے اپنی ان افضل ترین مخلوق کو بے نیاز نہیں رکھا۔ یہی نہیں بلکہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد ان تذکرات پر اَکْمَلْتُ وَ اَتْمَمْتُ کی مہر لگادی۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی بے مثال بلکہ فوق بے مثال شہادت وہ بلند ترین منارۂ ہدایت ہے جو ہر دور میں ہر جگہ اور ہر ایک کو نیکیوں اور خیر کی طرف دعوت دے رہا ہے۔اسی لئے ہم زیارت امام حسین علیہ السلام میں پڑھتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَۃَ اللّٰہِ وابْنَ خِیرَۃِ……یہ جملہ انسانیت کی آنکھوں کے سامنے روشن حقیقتوں کے کئی دریچے کھولتا ہے۔ اس واقعہ شہادت میں صرف سوز و گذار، آہ و گریہ نہیں ہے ،بلکہ درس ہے، عبرت ہے ایک مسلسل پیغام ہے۔یہ جنگ ۶۱ ھ؁ میں کربلا میں ختم نہیں ہوئی بلکہ آج بھی جاری ہے اور یہ دنیا کی وہ واحد جنگ ہے جس میں کبھی بھی شکست نہیں ہوئی ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی فوج ہمیشہ غالب اور فاتح رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کا عنصر حقیقی اخلاص یہ خدا ہے اور خدا کبھی مغلوب نہیں ہوتا تو اس کی خاطر جنگ کرنے والے جن کا بس ایک ہی مقصد ہے ’’کلمۃ اللہ ‘‘ کی سر بلندی، وہ کیونکر مغلوب ہوسکتے ہیں۔
واقعۂ کربلاکا مرکزی مقصد’’امر بمعروف اور نہی از منکر‘‘ ہے جب سے امر بمعروف اور نہی از منکر کتابوں کی حد تک محدود ہوگیا لوگ اس کا تذکرہ بس اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی واقعہ سنا رہے ہوں۔ اس وقت جو ہر طرف انتشار ہے افراتفری ہے، گروہ بندی ہے ،تفرقہ اندازی ہے …اس کی ایک وجہ اس عظیم فریضہ سے لاپرواہی ہے۔کچھ لوگوں نے اپنی سہولت کے لئے اور اپنے خیال میں خود کو بری الذمہ قرار دینے کے لئے اس اہم ذمہ داری کو بس علماء کے سر ڈال دیا ہے۔ دوسری طرف مدارس کی جو حالت ہےو ہ خود خاص توجہ کا سبب ہے۔
اہل بیت علیہم السلام نہ صرف دین لے کر آئے ہیں بلکہ وہ دین کے محافظ بھی ہیں انھوں نے دین کی حفاظت کے راستے بھی بیان فرمائے ہیں۔ان راستوں میں ایک راستہ ’’ امربمعروف اور نہی از منکر ‘‘ ہے۔اس سلسلہ میں ائمہ علیہم السلام کی متعدد حدیثیں ہیں۔ بعض روایتوں میں ’’امر بمعروف او رنہی از منکر‘‘ کو سب سے اہم فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کی تفسیر، تمام تعلیمات کی زندگی اور بقا بس اس فریضہ اور ذمہ داری کی بنا پر ہے۔ محرم الحرام کی مناسبت سے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی وہ واضح اور محکم ہدایتیں نقل کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں جو انھوں نے امر بمعروف اور نہی از منکر کے سلسلے میں بیان فرمائی ہیں۔
یہ باتیں جناب ابن شعب الحرانی کی کتاب ’’تحف العقول‘‘ سے نقل کررہے ہیں۔اس بات کا خاص خیال رہے ائمہ معصومین علیہم السلام کے تمام بیانات اور روایات خداوند عالم کے علم کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ایک بات اور ہر ایک عمل کا سرچشمہ علم الٰہی اور مرضی خداوندی ہے۔ا ن کا علم ان کے ذہن اور فکر کی ایجاد نہیں ہے بلکہ حقیقت اور واقعیت کی ترجمانی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کلام میں ذرہ برابر مبالغہ اور دقت گذاری نہیں ہے۔ اگر کسی بات کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور جس قدر اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ ایک بھرپور حقیقت ہے اور جن باتوں سے ڈرایا گیا ہے یا ان کے نتائج بیان کئے گئے ہیں تو واقعاً حقیقت میں وہ ایسا ہی ہے۔
قرآن کریم نے جو دوسری امتوں کے واقعات بیان کئے ہیں وہ صرف تلاوت اور ثواب کے لئے نہیں ہیں بلکہ درس اور عبرت حاصل کرنے کے لئے خداوند عالم نے واقعات کی شکل میں اپنا قانون بیان فرمایا ہے۔ اگرہم لوگ بھی اس راستہ پر چلیں گے توہمارا انجام بھی یہی ہوگا۔یہ خدا کا قانون ہے۔ اب آپ ’’امر بمعرف اور نہی از منکر‘‘ کے سلسلے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیانات ملاحظہ فرمائیں :
اے لوگو خداوند عالم نے اپنے اولیاء اور دوستوں کو جن باتوں کی نصیحت کی ہے اس سے عبرت حاصل کرو۔ یہ لوگ اپنے دینی علماء کی بلا وجہ اور غلط تعریفیں کرتے تھے خداوند عالم اس سلسلے میں قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
ان کے علماء اور پیروکار لوگوں کو کیوں گناہوں اور حرام مال کھانے سے منع نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ کتنا برا کام انجام دیتے تھے۔
(سورہٴ مائدہ،آیت۶۳)
وہ اپنے لوگوں کو بری باتوں کے انجام دینے سے بھی منع نہیں کرتے تھے یہ لوگ کس قدر برا کام کرتے تھے۔
(سورہٴ مائدہ،آیت۷۹)
(ان دو آیتوں کے درمیان والی آیتوں میں یہودیوں کے علماء کا تذکرہ ہے کس طرح یہ لوگ دین کی تحریف میں خاموش تماشائی بنے رہے ، دین برباد ہوتا رہا اور یہ لوگ دیکھتےرہے۔ قرآن کریم نے ان علماء کی خاموشی پر بھی تبصرہ کیا ہے اور ان لوگوں کی بھی مذمت کی ہے جو اس طرح کے علماء کا احترام کرتے رہے۔)
یقیناً خداوند عالم نے اس بنا پر ان کی مذمت کی ہےکہ یہ لوگ ظالموں کو اپنی آنکھوں کے سامنے برائیاں انجام دیتے ہوئے دیکھتے تھے لیکن ان سے ملنے والی چیزوں اور ان کے خوف سے ان کو منع نہیں کرتے تھے جب کہ خداوند عالم کا حکم یہ تھا
’’ تم لوگوں سے ہرگز مت ڈرو بس صرف مجھ سے ڈرو‘‘
(سورہٴ مائدہ،آیت۴۴)
خداوند عالم نے قرآن کریم میں یہ صفات بیان فرمائی ہیں
مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں یہ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔
(سورہٴ توبہ،آیت۷۱)
خداوند عالم نے امر بالمعروف اور نہی از منکر سے ابتدا کرکے اس فریضہ کی اہمیت کو واضح کیا کیونکہ خداوند عالم یہ جانتا ہے اگر یہ فریضہ ادا ہوگیا اور اس پر باقاعدہ عمل ہوگیا تو سارے تمام فرائض خود بخود ادا ہوجائیں گے چاہے وہ آسان ہوں یا دشوار۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے امر بالمعروف اور نہی از منکر لوگوں کو اسلام کی طرف اس انداز میں دعوت دیتا ہے کہ ظلم کو رد کرتا ہے اور ظالم کی مذمت کرتا ہے۔ بیت المال کو صحیح طور سے تقسیم کرتا ہے۔ صحیح جگہوں سے ٹیکس وصول کرتا ہے اور صحیح جگہوں پر خرچ کرتا ہے۔
اے لوگو۔ تم لوگ علم کے لئے مشہور ہو، نیکیوں سے تمہارا تذکرہ ہوتا ہے، نعمت کرنے والوں میں تمہارا نام ہے اور خدا کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں تمہاری ایک خاص عزت و وقار ہے۔ شریف تم سے ڈرتے ہیں ،کمزور تمہارا احترام کرتے ہیں اور ان لوگوں پر تم کو ترجیح دیتے ہیں جن پر تمھیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اور نہ ان لوگوں پر تمہارا کوئی حق ہے۔ جو چیزیں لوگ حاصل نہیں کر پاتے ہیں تم ان کی سفارش کرتے ہو۔ راستوں میں بادشاہوں کی طرح چلتے ہو اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہو۔
کیا یہ سبب اس بنا پر نہیں ہے کہ لوگوں کو تم سے یہ امید ہے کہ تم خدا کے حق کو قائم کروگے۔ گرچہ تم خدا کے اکثر حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہو اور اپنے اماموں کے حق کو ہلکا او رسبک قرار دیتے ہو۔ تم لوگوں نے کمزوروں کا حق ضائع کردیا اور اپنے خیالی حقوق کو حاصل کرلئے۔ اس راہ میں نہ تو تم نے کوئی مال خرچ کیا اور نہ جس کے لئے تم پیدا کئے گئے تھے اس راہ میں کوئی کام انجام دیا اور نہ تم نے خد ا کی خاطر کسی قبیلہ سے کوئی دشمنی مول لی۔ جب کہ تم خدا کی جنت کی تمنا رکھتے ہو، اس کے رسول کی ہمسائیگی چاہتے ہو خدا کے عذاب سے امن و امان چاہتے ہو۔
اور خدا سے ایسی ایسی تمنائیں رکھنے والو مجھے ڈر ہے کہیں تم پر عذاب نازل نہ ہو جائے۔
خدا کی جانب سے تم کو جو عزت وبزرگی دی گئی ہے تم ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے ہو جو خدا کی معرفت رکھتے ہیں جب کہ تم لوگوں کے درمیان خدا ہی کی بنا پر معزز و مکرم ہو۔ تم دیکھ رہے ہو خدا کے عہد و پیمان تو ڑے جارے ہیں مگر تم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اگر تمہارے آبادء و اجداد کا عہدو پیمان ٹوٹ جائے تو بہت شور مچاتے ہو۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے عہد و پیمان کی تمہارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔
تمہارے شہروں میں اندھے ، بہرے اور زمین گیر لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان لوگوں پر تم کوئی رحم نہیں کرتے ہو۔ نہ اپنے گھروں میں کوئی کام کرتے ہو اور نہ ہی کسی کام میں کوئی مدد کرتے ہو۔ ظالموں کے دربار میں چاپلوسی اور حیلہ حوالے سے خود کو محفوظ کرلیتے ہو۔ جب کہ خداوند الم نے ان تمام باتوں سے تم کو منع کیا تھا اور اس سے دور رہنے کو کہا تھا مگر تم نے ان تمام چیزوں کو نظر انداز کردیا۔
عام لوگوں کی بہ نسبت تمہاری ذمہ داریاں اور مصیبتیں زیادہ ہیں اگر تم کواحساس ہو کہ تم کو علماء کی منزلت و مرتبہ حاصل ہے۔
اس کی و جہ یہ ہے کہ تمام امور کو جاری اور احکام کو عملی کرنا ان علماء کے ہاتھوں ہے جو خدا کی معرفت اور خوف رکھتے ہیں ، جو خدا کے حلال و حرام پر اس کے امانتدار ہیں۔ تم لوگوں سے یہ منزلت و مرتبہ اس بنا پر سلب کرلیا گیا کہ تم حق پر ہونے کے باوجود ایک نہیں ہو، متفرق و منتشر ہو، واضح سنتوں کے باوجود آپس میں اختلاف رکھتے ہو۔
اگر تم خدا کی راہ میں صبر کرتے اور تکلیفیں برداشت کرتے تو خدا کے امور تمہاری طرف واپس آجاتے ،تمہارے ذریعہ جاری ہوتے اور تمہاری طرف پلٹ کر آتے۔ لیکن تم نے اپنے مقام و منزلت سے ظالموں کی مدد کی اور خدائی امور ان لوگوں کو سپرد کردیے جو شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات کے راستہ پر چلتے ہیں۔تم نے اس وجہ سے ان کو مسلط کردیا ہے کہ تم موت سے بھاگتے ہو اور زندگانی دنیا میں خوش ہو۔ وہ زندگی جو ایک دن تم کو چھوڑ کر چلی جائے گی۔ تم نے کمزورں او رضعیفوں کو ان کے حوالہ کردیا ہے۔ کچھ غلام بن کر رہ گئے ہیں کچھ اپنی روز مرہ کی ضرورتیں پورا کرنے میں ناتواں ہیں۔ یہ لوگ ملک میں انپی مرضی سے جو چاہیں وہ کررہے ہیں۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے ذلتوں کو محسوس کررہے ہیں۔ یہ اشرار کی پیروی کررہے ہیں اور خدا کے سامنے جری ہیں۔ ہر شہر میں منبر پر ان کا ایک خطیب ہے جو چیخ رہا ہے۔زمین پر ان کا قبضہ ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوتے ہیں۔ اگر ان کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ان کی طرف سے کوئی دفاع کرنے والا نہیں ہے۔ ان میں ظالم و جابر ہیں جو کمزوروں کے حق میں سخت گیر ہیں۔ یہ ایسے فرمانروا ہیں جن کو آغاز و انجام کی کچھ خبر نہیں ہے۔
یہ بات کس قدر تعجب خیز ہے اور میں کیوں نہ تعجب کروں۔ زمین ان لوگوں سے اور مظلوموں سے بھری ہوئی ہے۔ مومنین پر جن کو حاکم بنایا گیا ہے ان کے دل میں رحم نہیں ہے۔
خداوند عالم ہمارے مسائل اور اختلافات میں فیصلہ کرنے والاہے۔
خدایا تو جانتا ہے ہم میں سے کسی کو نہ حکومت کی خواہش ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی طلب اور آرزو ہے۔
لیکن ہم یہ چاہتے ہیں تیرے دین کے نشانات واضح و بلند ہوں تیرے شہروں میں اصلاح ظاہر ہو۔ تیرے مظلوم بندے امن و امان سے رہیں تیرے واجبات ،سنتوں اور احکام پر عمل ہو۔
اگر اس راہ میں تم لوگوں نے ہماری مدد نہیں کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا تو ظالم تم پر اور زیادہ قوی ہوجائیں گے اور تمہارے نبی کے نور کو خاموش کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
خدا ہمارے لئے کافی ہے۔اس پر ہمارا توکل ہے۔ اس کی طرف ہماری توجہ ہے اور اس کی بارگاہ میں جانا ہے۔‘‘
حضرت امام حسین علیہ السلام کے اس بیان کو خوب غور سے پڑھیں اور موجودہ حالات پر نظر کریں تو ہم کو یہ اندازہ ہوگا یہ سارے مسائل، یہ تمام مصیبتیں امر بالمعروف اور نہی از منکر سے دامن کشی اختیار کرنے کی بنا پر ہے۔
خلاصہ
وہ زمانہ یاد کریں جب معاویہ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد جب یزید برسراقتدار آیا تو حق پرستوں کا عرب اور اطراف میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوچکا تھا کہ حق پرستوں کے لئے بقول غالب
تاب سخن و طاقت غوغا نہیں ہم کو
تبلیغ باطلہ کا ایک شور تھا اور تعلیمات اسلامی کو دبانے کے لئے تمام طاقتیں بروئے کار آگئی تھیں۔ لیکن یہ اللہ تعالی کا وہ نظام تھا جو تاقیامت باقی رہے گا۔یعنی ابھی حسین علیہ السلام موجود تھے اللہ کا یہ نمائندہ ابھی ساری شورشوں کا قلع قمع اور برباد کردینے کی وہ طاقت رکھتا تھا جسے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور امر بمعروف اور نہی از منکر بمطابق تعلیمات رسالت الہیہ اس طرح قائم ہوئی کہ اسے دنیا میں کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ آخر الامر مہدی آخر الزماں علیہ السلام کو ہمارا سلام جو سارے عالم پر ملقن احکام القرآن اور سنت نبی ہے۔
زمانہ حال بول رہا ہے۔ عالم تمام طاغوتی اشرار کی سیاست سے لبریز ہورہا ہے۔ آمروناہی کو فراموش کرنے والوں کا ہجوم ہر جانب ہے لیکن ایک حسین زندہ ہے۔جس کے دم سے دنیا قائم ہے، وہ حجت خدا ہے، وہ معصوم ہےاورغیر المغضوب ہے۔اس کی راہ پر اسکی ہدایتوں کے مطابق اعلان عام ہے کہ چلے چلو اس کی ہدایت کا چراغ قدم قدم پر روشن ہے۔ہمارا فریضہ ہے کہ بیدار رہیں اور خواہشات نفسانی سے گریزاں اسکی طرف متوجہ رہیں تاکہ آخرت بخیر رہو۔ یاحسین، یا مہدی!

اپنا تبصرہ بھیجیں