شعائر حسینی اور مرجعیت

عزاداری حضرت سید الشھداء ابا عبد اللہ حسین علیہ السلام کے تعلق سے مرجع عالیقدر حضرت آیۃ اللہ الحاج آقای سید علی الحسینی السیستانی دام ظلہ الوارف سے بعض مومنین نے کچھ سوالات کئے تھے۔ ان کے سوالات اور دین کی اعلیٰ مرجعیت کے جواب ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ خداوند قدوس ورحیم و غفور کی بارگاہ قدس میں محمد و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں دست بدعا ہیں کہ ہم سب کو عزاداری کی کچھ ایسی توفیقات مرحمت فرمائےکہ ہماری عزاداری کا ایک ایک جز ءبارگاہِ ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبولیت کا شرف حاصل کرے خاص کر حضرت ولی عصر وارث شہداء کربلا حضرت حجۃ بن الحسن العسکری علیہ السلام کی خوشنودی کا سبب قرار پائے، دنیا میں سعادت و برکت اور آخرت میں ان حضرات کی شفاعت کا سبب ہو۔ آمین۔ملاحظہ فرمائیں۔
خدمت مرجع عالیقدر و بزرگوار حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ حاج آقای السید علی الحسینی السیستانی دام ظلہ الوارف
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خداوند عالم آپ کو عظیم اجر و ثواب مرحمت فرمائے!
حضرت امام حسین علیہ السلام کے اربعین کی مناسبت سے ہم لوگ کربلائے معلی جارہے ہیں۔ آپ کی خدمت اقدس میں درخواست ہے کہ آپ پدرانہ نصیحتوں سے نوازیں تا کہ فائدہ زیادہ ہو اور اجر و ثواب عظیم ہو۔ان باتوں کی طرف متوجہ فرمائیں جن سے ہم غافل ہیں یا جن سے ناواقف ہیں اور یہ کہ یہ نصیحتیں ہر ایک کے لئے مفید ثابت ہوں گی۔
خداوند عالم آپ کے نعمت وجود کو ہمارے سروں پر دائم و قائم رکھے۔ وہ بہترین دعائوں کا سننے والا ہے قریب ترین ہے۔ التماس دعا!
بعض مومنین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّاھِرِیْنَ
اما بعد! خداوند عالم مومنین کرام کو اس عظیم زیارت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اس زیارت کے دوران ان باتوں پر مومنین کرام کی توجہ ضروری ہے۔
خداوند عالم نے اپنے بندوں میں انبیاء علیہم السلام اور اوصیاء علیہم السلام قرار دیے تا کہ وہ لوگوں کے لئے نمونہ عمل ، رہنما ، قائد اور حجت رہیں اور لوگ ان کی تعلیمات سے ہدایت یافتہ ہو سکیں اور ان کے نقش قدم پر چل سکیں۔ خداوند عالم ان کی یادوں کو زندہ او رتازہ رکھنے کے لئے ان کے مبارک روضوں کی زیارت کا شوق دلاتا ہے تا کہ ان کی یاد میں زندہ رہیں او ران کی عظمتیں واضح و آشکار رہیں اور اس طرح لوگوں کے دلوں میں خدا کی یاد اس کی تعلیمات اور احکام زندہ رہیں کیونکہ یہ حضرات خداوند عالم اور اس کے دین کی اطاعت ،اس کی راہ میں جہاد اور قربانی میں بہترین مثال او رنمونہ قرار پائے۔
اس بنا پر اس مقدس زیارت کے کچھ تقاضے ہیں۔
یہ زیارت جہاں خدا کی راہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے وہاں اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ دینی تعلیمات خاص کر نماز، پردہ ، اصلاح ، عفو و درگذر ، صبر و ضبط، ادب و احترام ،راستوں کی قداست وشرافت کا خاص خیال رکھیں ان تمام باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے جو بہترین اخلاق سے متعلق ہیں تاکہ یہ زیارت خداوند عالم کے فضل وکرم سے نفس کی زینت و پاکیزگی کی طرف ایک موثر قدم ہو جس کے اثرات اس زیارت کے بعد دوسری زیارتوں میں بھی جاری او رباقی رہیں۔ ان زیارتوں کے دوران کچھ اس طرح محسوس کریں کہ ہم گویا امام علیہ السلام کے درس تعلیم و تربیت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور امام ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ہم لوگ گرچہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں نہیں تھے کہ ان سے براہ راست تعلیم حاصل کرسکتے اور ان کے مقدس ہاتھوں تربیت یافتہ ہوتے مگر خداوند عالم نے ہمارے لئے ان کی تعلیمات او ران کے مشن کو زندہ و باقی رکھا ہے اور ان کے روضوں کی زیارت کی تاکید کی ہے تا کہ ہمارےلئے واضح نمونہ عمل رہے اور اس کے ذریعہ ہمارا امتحان لیا ہے۔ہم ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا جو ارادہ رکھتے ہیں اس میں ہم کتنے سچے ہیں اور ہماری نیت کس قدر پاکیزہ ہے۔ ہم ان کی تعلیمات کو ان وعظوں کو کس طرح قبول کرتے ہیں اور کتنا اس پر عمل کرتے ہیں جس طرح ان لوگوں کو آزمایا گیا تھا جو ان کے زمانہ میں زندگی بسر کررہے تھے۔ ہمیں اس بات سے پناہ مانگنا چاہیے کہیں ہم اپنی نیتوں میں سچے نہ اتریں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کے منشا کے مطابق ہمیں کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ کل ہم ان کے ساتھ محشور ہوں ، ان کے ہمراہ شہادت حاصل کرنے والوں میں ہمارا شمار ہو۔ جنگ جمل کے موقع پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا
قَدْ حَضَرْنَا قَوْمٌ لَمْ یَزَالُوْا فِیْ اَصْلَابِ الرِّجَالِ وَ اَرْحَامِ النِّسَاءِ
اس جنگ میں ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ابھی مردوں کے صلب او رعورتوں کے رحم میں ہیں۔
ہم میں سے جس کی نیت صاف او رسچی ہوگی اس کے لئے ان کی تعلیمات پر عمل کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا مشکل نہیں ہے۔ ان کے نفوس کی پاکیزگی سے خود کو پاک و پاکیزہ کریں اور ان کے ادب و اخلاق سے خود کو آراستہ کریں۔
اللہ اللہ خدارا خدارا !نماز کا خاص خیال رکھیں۔روایتوں میں نماز کو دین کا ستون اور مومن کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ اگر نماز قبول ہوگئی تو بقیہ سارے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر یہ رد کردی گئی تو بقیہ سارے اعمال بھی رد کردئیے جائیں گے۔ ضروری ہے کہ ہم نماز اول وقت ادا کریں۔ اول وقت نماز ادا کرناخدا کو بہت زیادہ پسند ہے اور دعائوں کے جلد قبول ہونے کا سبب ہے۔ یہ بات غیر مناسب ہے کہ اول وقت دوسری اطاعتوں میں مصروف رہیں اور نماز ادا نہ کریں کیونکہ نماز تمام اطاعتوں میں افضل اطاعت ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوا ہے:
لَا يَنَالُ شَفَاعَتَنَا مَنِ اسْتَخَفَّ بِالصَّلَاة
جو نمازکو ہلکا سمجھے گا اس کو ہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اول وقت نماز کا خاص خیال رکھتے تھے یہاں تک روز عاشور ایک شخص نے اول وقت نماز کی بات کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا :
ذَكَرْتَ الصَّلَاۃَ جَعَلَكَ اللہُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ
تم نے نماز یاد کی خدا تمھیں نماز گذاروں میں شمار فرمائے۔
امام حسین علیہ السلام نے میدان جنگ میں تیروں کی بارش میں نماز ادا کی۔
اللہ اللہ خدارا خدارا! خلوص نیت! ہر انسان کے عمل کی قیمت او ربرکت بارگاہ خداوندی میں خلوص نیت کی بنیادپر ہے۔ خداوند عالم صرف او رصرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو بس اللہ کے لئے انجام دیا جاتا ہے اور کوئی غیر شریک نہ نہیں ہوتا ہے۔ جس وقت لوگ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کررہے تھے اس وقت حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا تھا:اور جس کی ہجرت خدا و رسول کی خاطر ہے اس کی ہجرت خدا ورسول کی طرف ہے اور جو دنیا کی خاطر ہجرت کررہا ہےاس کی ہجرت دنیا کے لئے ہے۔ خداوند عالم خلوص نیت کے اعتبار سے عمل کے ثواب میں اضافہ کرتا ہے یہاں تک کہ ۷۰۰ گنا اضافہ کرتا ہے بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے اور زیادہ اضافہ کرتا ہے۔
زائرین کے لئے مناسب ہے کہ راستہ میں قدم قدم زیادہ سے زیادہ خدا کا ذکر کریں ،ہر عمل میں خلوص کو مد نظر رکھیں۔ یہ جان لیں خداوند عالم نے بندوں کو جو نعمتیں دی ہیں ان میں سب سے عظیم نعمت عقائد ، اقوال اور اعمال میں خلوص و اخلاص ہے۔ غیر خالص عمل کا اثر اس دنیا کے تمام ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا لیکن صرف خدا کے لئے خالصاً انجام دیا ہوا عمل باقی رہے گا۔اس دنیا میں بھی اس کا اثر رہے گا اور آخرت میں بھی اثر جاری رہے گا۔
اللہ اللہ خدارا خدارا! حجاب اور پردہ! اہل بیت علیہم السلام نے نہایت تاکید فرمائی ہے یہاں تک کہ کربلا کے سخت ترین اور دشوار ترین حالات میں بھی پردہ کا خیال رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ حضرات بہترین مثال اور نمونہ عمل ہیں۔ ان حضرات کو جتنا زیادہ تکلیف و اذیت لوگوں کے درمیان بے پردگی سے ہوئی اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوئی۔ اس بنا پر تمام زائرین اور خاص کر زیارت سے مشرف ہونے والی عورتوں کی خاص ذمہ داری ہے کہ باقاعدہ اپنے پردہ کا خیال رکھیں ایسا کوئی کام نہ کریں جوپردہ کے خلاف ہو۔ ان کا لباس ان کا انداز ہر جگہ پردہ ملحوظ رہے۔ تنگ لباس اور غیر مردوں کے درمیان جانے اور زیور و زینت سے پرہیز کریں بلکہ جس قدر ہوسکے ان مقدسات کی حفاظت کی کوشش کریں اور ان تمام چیزوں سے دور رہیں جو ان مقدسات کے خلاف ہیں۔
خداوند عالم کی بارگاہ اقدس میں دست بدعا ہوں۔ اہل بیت علیہم السلام نے دین کی خاطراور لوگوں کی ہدایت کی خاطر جو جہاد کیا ہے جو قربانیاں دیں ہیں خدا دنیا و آخرت میں ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔ جس طرح ان سے پہلے انبیاء ، مرسلین اور خاص کر ابراہیم و آل ابراہیم علیہم السلام پر درود و سلام نازل کیا ہے ان پر درود و سلام نازل فرمائے۔
خداحضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آنے والے تمام زائرین کی زیارتوں کو بہترین طرز و انداز میں قبول فرمائے جس طرح سے اپنے نیک و صالح بندوں کے اعمال قبول فرماتا ہے تا کہ وہ اپنی زندگی میں ، اپنی رفتار و کردار میں ، زیارت سے پہلے او رزیارت کے بعد کی زندگی میں ایک نمونہ عمل بنیں اور زیارت کے اثرات زیارت کے بعد بھی باقی رہیں۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی طرف سے ان لوگوں کو ان کی ولایت و محبت کا بہترین اجر و ثواب ملے او رمیدان قیامت میں سب لوگ اپنے اماموں کے ساتھ محشور کئے جائیں۔ اس راہ میں شہید ہونے والے اور جان کا نذرانہ دینے والے، ظلم و مصائب برداشت کرنے والے ،ان کی محبت کی خاطر سب کچھ برداشت کرنے والے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ محشور کئے جائیں۔ یقیناً خدا سننے والا اور دعائوں کا قبول کرنے والا ہے!
۱۳؍ صفر ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر۱ :حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث کے سلسلے میں مرجع عالیقدر کی رائے کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث یہ ہے:
مَنْ بَكٰی اَوْ تَبَاكٰي عَلَی الْحُسَیْنِ علیہ السلام وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ
جو حضرت امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرے یا گریہ کرنے کی کوشش کرے اس کے لئے جنت واجب ہے۔
جواب : بسمہ تعالیٰ
جی ہاں متعدد روایتوں میں جن میں بعض معتبر روایتیں ہیں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔بعض روایتوں میں ان لوگوں کے لئے بھی جنت کا وعدہ کیا گیا ہے جو گریہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا شعر کہتے ہیں اور اس پر لوگ گریہ کرتے ہیں۔ قیمت کا وعدہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے شیعہ او رسنی روایتوں میں بعض اعمال پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان خود کو پوری طرح عذاب سے محفوظ سمجھے چاہے وہ واجبات کو ترک کرتا ہو اور محرمات کا ارتکاب نہ کرتا ہو۔ یہ احساس کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ قرآن کریم کی آیتو ں میں واجبات کے ترک اور محرمات کے ارتکاب پر عذاب کا شدید وعدہ کیا گیا ہے۔ آیتوں اور روایتوں کی روشنی میں اس طرح کی روایتو ں کا مفہوم یہ ہےکہ اگر یہ اعمال قبول ہوگئے تو جنت اس کا صلہ ہے اور کبھی کبھی گناہوں کی کثرت قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے جو جنت میں جانے اور جہنم کی نجات سے روک دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہےکہ یہ اعمال جنت کا استحقاق پیدا کردیدتے ہیں مگر ان کا قبول ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ ایسے اعمال نہ ہوں جو جہنم کا مستحق بنا رہے ہوں اور وہ اعمال جن پر جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
رہ گئی یہ بات کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کا اتنا درجہ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گریہ انسان کے گہرے قلبی تعلقات او رلگائو کا پتہ دیتا ہے پھر یہ اس وقت ہوتا ہے جب دل بہت زیادہ غمزدہ اور محزون ہوتا ہے یہ شدید احساس غم گریہ کا سبب ہوتا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام پر گریہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے سچی اور واقعی ولایت و محبت کا ترجمان ہے اور ان تعلیمات کا عکاس ہے جس کی طرف ان حضرات نے دعوت دی ہے اور جس کی خاطرشہادت قبول فرمائی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس شہادت نے تاریخ کولرزہ بر اندام کردیا، ظالموں ، جابروں کے تخت ہلا کر رکھ دیے او رمومنین کے دلوں میں اسلامی تعلیمات کی جڑیں مستحکم اور واضح کردیں۔ یہ اسی وقت ہوگا جب ان سے تمسک ہوگا اور مسلسل ان کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔اس بنا پر ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے اس طرح کی روایتیں وارد ہوئی ہیں۔
تباکی: گریہ کی کوشش کرنا۔ اس کا مطلب دوسروں کے سامنے گریہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے غم کی حقیقت کو محسوس کرکے گریہ کی کوشش کرنا۔ اس وقت انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ دل خشک ہے اور آنسو نہیں نکل رہے ہیں۔ اس وقت کوشش کرنا دل کو گریہ پر آمادہ کرتا ہے تا کہ اس کے احساسات عقل کی آواز پر لبیک کہیں۔
جب خدا کا ذکر کیا جائے اس وقت گریہ کرنا یا گریہ کی کوشش پر جو جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کا مفہوم ہے جس کی طرف مختلف علماء نے اشارہ فرمایا خاص کر علامہ مقرم نے اپنی کتاب ’’مقتل الحسین علیہ السلام ‘‘ میں :
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر ۲ :کیا نماز(ظہر ) کے وقت ضرری ہے کہ جلوس عزا کو چھوڑ کر اول وقت نماز ادا کی جائے یا جلوس عزا کے تمام ہونے پر نماز ادا کی جائے؟ اس میں کونسی بات زیادہ بافضیلت ہے؟
جواب: اول وقت نماز ادا کرنا۔ لیکن اس سے زیادہ مہم یہ ہے جلوس عزا کا وقت اس طرح معین کیا جائے کہ نماز اول وقت ادا کی جاسکے۔
سوال نمبر ۳ :کیا یہ مناسب ہے کہ چند عزاداروں کی موجودگی میں صبح کی پہلی ساعتوں میں جلوس نکال دیا جائے اور نماز کے وقت تک تمام کردیا جائے یا عزاداروں کا انتظار کیا جائے اور درمیان جلوس نماز کا وقت آجائے؟
جواب: عزاداروں کا انتظار کیا جائے اور درمیان جلوس نماز ادا کی جائے اور پھر جلوس کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر ۴ :ہمارے علاقہ میں متعدد امامباڑے اور حسینیہ ہیں جن میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کی یاد میں بڑی بڑی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی محبت میں ڈوبے ہوئے مومنین اہم خدمتیں انجام دیتے ہیں۔ان مجالس میں پڑے پیمانے پر مادی اور مصنوعی خدمتیں پیش کی جاتی ہیں۔ ایک ہی وقت میں متعدد جگہوں پر بڑی بڑی مجلسیں ہوتی ہیں۔ اکثر مجالس میں صبح سات بجے سے رات ۳۰:۸ بجے تک کھانا کھلایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کافی کھانا زمین پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں جناب عالی کی رائے کیا ہے؟
جواب: کھانا برباد کرنا شریعت کی نگاہ میں ناپسند او رحرام ہے۔ ضروری ہے کہ کچھ اس طرح کے انتظامات کئے جائیں کہ کھانا برباد اورضائع نہ ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کھانا کھلانے والوں کے درمیان باہمی معاہدہ ہو اور اتنا کھانا تیار کیا جائے جس قدر ضرورت ہو تا کہ کھانا ضائع اور برباد نہ ہو۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر ۵ :پیتل او رتانبے کی وہ دیگیں (بڑے پتیلے ہوگئے) جو متعدد برسوں کے استعمال سے پرانے ہوگئے ہیں کیا ان کو فروخت کرکے نئے برتن ایلومینیم وغیرہ کو خرید کر انہیں مناسبتوں میں کھانا پکایا جاسکتا ہے؟
جواب: اگر پرانے برتن تعمیر کے بعد استعمال ہوسکتے ہیں تو ان کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ان کی تعمیر میں جو خرچ ہوگا وہ مال کا ضائع ہونا ہے تو جوان برتنوں کا شرعی متولی ہے وہ ان کو فروخت کرکے دوسرا لے سکتا ہے۔
۸؍ رجب ۱۴۳۰؁ھ
سوال نمبر ۶ : امامباڑے ، حسینیہ ، انجمن مسجد اور اس طرح کے دوسرے اوقاف اگر ان کی بعض چیزیں پرانی ہوجائیں جیسے لائٹ ، چراغ، فرش ، دیواروں اور زمین کے پتھر ٹائلس، اگر یہ سب پرانے ہو جائیں اور ان کی شکل و صورت بدل جائے، کوئی مرد مخیّر ان کو ان سے بہتر میں بدلنا چاہے تو کیا یہ جائز ہے؟اور اگر جائز نہیں ہے تو ناجائز کی حد کیا ہے؟ یہ چیزیں پرانی ہوگئیں ہیں مگر ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھی ایسی صورت آجاتی ہے کہ عام لوگ ان دینی مراکز کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے ہیں۔
جواب: اگر کوئی مخیّرموجود ہے تو ان چیزوں کو بہتر میں بدلا جاسکتا ہے البتہ اگر یہ چیزیں وقف ہیں تو اس وقت تک ان کو فروخت نہیں کیا جاسکتا ہے جب تک اسی طرح دوسرے دینی مراکز میں استعمال کی جاسکتی ہوں اور اگر یہ چیزیں ان مراکز کی ملکیت میں ہیں تو شرعی متولی ان کو فروخت کرکے ان کی قیمت ان مراکز کی ضروریات میں استعمال کرسکتا ہے۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر ۷ : ہر سال اربعین کے موقع پر پیدل کربلا جاتے ہوئے دو باتیں پیش آتی ہیں
۱۔ جو لوگ سڑک کے راستے کربلا پیدل جاتے ہیں تو ایک طرف کی سڑک بند کردی جاتی ہے دو طرفہ سڑک صرف یک طرفہ ہوجاتی ہے۔کیا یہ جائز ہے؟
۲۔ وہ انجمنیں جو راستے میں زائرین کی خدمت کرتی ہیں ان کے افراد گاڑیوں کی رفتار کم کرنے کے لئے جگہ جگہ رکاوٹیں لگا دیتے ہیں تا کہ زائرین محفوظ رہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
۱۔ کچھ اس طرح سے انتظامات کئے جائیں کہ دونوں طرف استعمال ہوسکے۔
۲۔ ٹرافک پولیس سے ہماہنگی کے بعد کوئی حرج نہیں ہے۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر۸ : جلوس عزا میں طبل ، بگل وغیرہ کا استعمال شرعاً کیسا ہے؟
جواب: جلوس عزا میں عرف کے مطابق ان کا استعمال جائز ہے گرچہ یہ مشترک آلات ہیں لیکن لہو و لعب سے مخصوص نہیں ہیں۔
سوال نمبر۹ : ہمارے علاقہ میں بحرینی انداز سے عزاداری ہوتی ہے۔ یعنی مختلف طرز و انداز اور لحن میں نوحے وغیرہ پڑھے جاتے ہیں کبھی کبھی یہ انداز لہو و لعب کے انداز سے مشابہ ہوتے ہیں تو کیا اس طرح کے لحن اور انداز جلوس عزا میں استعمال ہوسکتے ہیں ؟
جواب:جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ طرز و انداز اور لحن ارباب لہو و لعب سے مخصوص ہے اس وقت تک عزاداری میں اس کا استعمال جائز ہے اور جس وقت معلوم ہوجائے تو ناجائز ہے۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر۱۰ : بعض مومینن محرم اور صفر یا دیگر ایام غم میں کچھ ایسے اعمال انجام دیتے ہیں جو مناسب نہیں ہیں جیسے شادی کرنا، نئے گھر میں منتقل ہونا یا نئی نئی چیزیں خریدنا جیسے گھر کے سامان، لباس، اور بدن کو زینت دینا، نئے اداروں و مراکز وغیرہ کا افتتاح…وغیرہ وغیرہ۔شریعت کی نظر میں ان امور کا انجام دینا کیسا ہے؟
جواب: ان دنوں میں اس طرح کے کام حرام نہیں مگر یہ کہ توہین یا ان ایام کو سبک کرنے کا سبب ہوں جیسے عاشور کے دن زینت کرنا، خوشی منانا۔
البتہ ضروری ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے ایام غم و عزا میں ایسا کوئی کام انجام نہ دیں جو اپنے عزیزوں و قرابتداروں کے غم و مصیبت میں انجام نہیں دیتے ہیں مگر ضرورت کی بنا پر … ضروری ہے کہ ایسا وقت منتخب کریں جو ایام غم و عزا سے جدا ہو۔ خدا توفیق دینے والا ہے۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال ۱۱ : ذوالادب و الاحترام سید جلیل !مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے بعض جوان طرح طرح کے لباس پہن کر آتے ہیں۔ کچھ کھیل و کود کے ہوتے ہیں جو بعض کے لباس پر چپکے رہتے ہیں۔ بعض کے لباس پر کسی کھلاڑی، کسی ہیرو کسی گانے والے کی تصویریں بنی ہوتی ہیں۔ بعض کے اوپر دوسری زبانوں میں غیر اخلاقی عبارتیں لکھی ہوتی ہیں۔ بعض کی داڑھیاں منڈی ہوئی یا پھر مغربی طرز کے سراور داڑھی کے بال بنے ہوتے ہیں۔
آپ کی نظر مبارک میں اس طرح کی باتیں شرعی نقطۂ نظر سے کیا حیثیت رکھتی ہیں ؟
جواب: جو باتیں ذکر کی گئی ہیں ان میں بعض حرام ہیں اور بعض غیر مناسب ہیں۔ بہر حال جو چیز ضروری ہے کہ ان زائرین کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ سمجھایا جائے۔ اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے جوانوں کے لئے ضروری ہے وہ ایسے کپڑے نہ پہنیں جو تنگ ہوں یا ان پر غیر مناسب تصویریں یا عبارتیں لکھی ہوں۔ انسان کا لباس اس کی رفتار و کردار کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح یہ لباس اس کی عقل ، ثقافت و تہذیب اس کے فکر و خیال کا ترجمان ہے۔ ان میں بعض لباس وہ ہیں جن کا پہننا حرام ہے جیسے وہ لباس جو حرام کام پر آمادہ کرتے ہوں یا فتنہ و فساد کو عام کرنے کا سبب ہوں۔ ان مقامات مقدسہ میں مسجدوں میں ، حرموں میں لباس کا خاص خیال رکھا جائے اور اس طرح لباس پہنے جائیں جو ان مقامات کے تقدس و احترام کے مناسب ہوں ،اور جو انسان کے عزت و وقار کی دلیل ہوں۔ اس طرح کے لباس پہننا آداب زیارت کا ایک ادب ہے۔ خدا توفیق دینے والا ہے۔
۱۳؍ صفر ۱۴۳۴؁ھ
سوال۱۲ : کیا جوان لڑکی اور شادی شدہ عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ نماز جماعت کے لئے یا مذہبی تقریریں سننے کے لئے مجلس میں شرکت کرنے کے لئے مسجد وغیرہ میں جائے جب کہ اس کے والد اور اس کا شوہر راضی نہ ہو۔ اور اس صورت میں جانا جب شہور کے حقوق کی مخالفت ہوتی ہو شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: جہاں تک شادی شدہ عورت کا مسئلہ اس کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے اور غیر شادی شدہ اگر اس کا جانا والد کی تکلیف کا سبب ہو بعض خطرات کی بنا پر والد محبت سے منع کررہا ہو تو اس صورت میں باہر جانا جائز نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱۳ :یا عورتیں اپنے مخصوص ایام میں مجلسوں میں شرکت کرسکتی ہیں ؟
جواب : جائز ہے۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ
سوال نمبر ۱۴ : بعض ماتم کی CDایسی ہیں جن میں جوان قمیص اتار کر ماتم کررہے ہیں۔ عورتوں کے لئے اس طرح کی CDدیکھنا کیسا ہے؟
جواب : عورتوں کا مردوں کے بدن کو اس طرح دیکھنا جو عام حالات میں نہیں دیکھا جاتا احتیاط کی بنا پر جائز نہیں ہے جیسے سینہ و شکم وغیرہ۔
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۵؁ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں