آثار و برکات زیارت امام حسین علیہ السلام

آثار و برکات زیارت امام حسین علیہ السلام پر قلم اُٹھانے سے پہلے میں یہ سوچنے لگا کہ میری رگوں میں جو لہو دوڑرہا ہے، کیا کوئی ایسا زمانہ بھی آئے گا جب بدن میں دوڑتا لہو میری آنکھوں سے ٹپکنے لگے گا۔
رگوں میں دوڑتےپھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے۔ (غالب)
تو کیا مجھ میں اتنی سکت پیدا ہوجائیگی کہ جو لہو میری رگوں میں دوڑ رہا ہے وہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے تصورات سے اتنا متاثر ہو کہ میری آنکھوں سے آنسو کے بجائے لہو کے قطرات بن کر ٹپکنے لگیں گے تاکہ انہی قطرات میں سے ایک قطرہ اُٹھاکر اس مضمون کو دے دوں جو شاید اس بات کی آئینہ داری کرسکے کہ آخر اس زیارت (امام حسین علیہ السلام ) کے کیا آثار و برکات ہیں۔
آثار و برکات کے معنی
برکات
برکت کی جمع ہے، جب دعوت ذوالعشیرہ کا انعقاد ہوا تو ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ نے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کو غذا کے انتظام کرنے کا حکم دیا۔ غذا مختصر تھی اور اہل مکہ زیادہ تھے، مگر سبھی نے شکم سیر ہوکر کھایا اور پھر بھی غذا بچ گئی۔ اسے کہتے ہیں برکت۔اصطلاح میں ایک شخص اگر مختصر سی آمدنی گھر لے کر آتا ہے اور اس کے گھر میں سب اس طرح سے زندگی بسر کرتے ہیں کہ خوشحالی اس کے گھر میں ابر باراں کی طرح برستی ہے، یہ ہے برکت.
آثار
اثر کی جمع ہے، روایت میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ ایک جگہ سے گذر رہے تھے جہاں بہت شور و غل تھا، آپ علیہ السلام نے وجہ دریافت تھی تو پتہ چلا کہ یہاں شادی ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کل یہاں ماتم ہوگا، دلہن مرچکی ہوگی، مگر کچھ لوگ جب دوسرے دن وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہی خوشی کا ماحول ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے اور دلہن سے پوچھا کہ تم نے کون سی نیکی انجام دی۔ دلہن نے کہا کچھ نہیں ، ہاں مگر ایک سائل آیا تھا اسےصدقہ دیا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بستر ہٹوایا تو دیکھا کہ ایک سانپ بسترکے نیچےمرا پڑا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ اس صدقہ کا اثر تھا کہ دلہن کی جان بچ گئی ورنہ آج یہاں ماتم ہوتا۔
(بحار الانوار، ج‏۴، ص۹۴، باب ۳)
ایک صدقہ کا اثر انسان کی جان بچا دیتا ہے تو زیارت امام حسین علیہ السلام کے اثرات انسان کو نہ جانے کتنی مشکلات و مصائب، بیماری و پریشانی، عداوت، انحراف، اختلاف وغیرہ سے محفوظ رکھتے ہیں۔
ابو الحسن جمال الدین علی ابن عبد العزیز ابن ابی محمد الخلعی الموصلی الحلی، جو بہت ہی بزرگ مرتبہ شاعر اہل بیت علیہم السلام تھے۔ حلہ میں رہتے تھے اور ۷۵۰ ؁ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ لوگوں کے درمیان ان کی قبر بہت مشہور و معروف ہے۔مرحوم قاضی نوراللہ شوستری شہید ثالث نے اپنی کتاب المجالس، صفحہ ۴۶۳ ، اورمرحوم محدث نوری نے ریاض الجنۃ میں لکھا ہے کہ ان کے والدین ناصبی تھے۔ انکی والدہ نے یہ نذر کی تھی کہ ان کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا تو وہ (اسکے ذریعہ زائرین امام حسین کے لئے سابلہ کا راستہ بند کروائینگی اور زائرین امام حسین علیہ السلام کو قتل کروائینگی۔) جب ان کا لڑکا جوان ہوا اسی مقصد (یعنی زائرین کو لوٹنے اور قتل کرنے کی نیت سے) وہ مسیب پہنچا، جو کہ کربلا سے قریب ہے اور زائرین کا انتظار کرنے لگا اسی اثنا میں اسے نیند آگئی اور کاروان آگے چلا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو عالم محشر میں پایا اور اسے جہنم میں لے جانے کا حکم صادر ہوچکا تھا مگر اسے جہنم کی آگ نقصان نہیں پہنچا سکی کیونکہ اس کے بدن پر زائرین کے قدموں کی خاک پڑ چکی تھی۔
(الغدیر، ج۶، ص۱۲)
قارئین محترم! یہ زیارت امام حسین علیہ السلام کا ایک ادنی اثر ہے بلکہ یوں کہوں ابھی ان زائرین نے زیارت بھی نہیں کی تھی صرف ارادہ کیا تھا اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے نکلے تھے۔ ان کےپیر کی دھول جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ قرار پائی۔
میں اسی فکر میں غوطہ زن تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ خداوند متعال نے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں اتنی برکات (جس کا ذکر ہم ابھی کریں گے) رکھی ہے کہ اچانک میری نظروں سے حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا وہ مکالمہ گذرا جس میں آپ نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا: پروردگار! مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کی امت کے درجات دکھا۔ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا: موسی ٰتم میں یہ دیکھنے کی طاقت نہیں ہے۔ البتہ میں تمہیں ان کی جلیل اور عظیم منزلتوں میں سے صرف ایک منزلت دکھاتا ہوں جس کی وجہ سے میں نے انھیں تم پر اور اپنی دوسری تمام مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ موسی علیہ السلام کی نظروں کے سامنے سے ملکوت سماوی کے پردےہٹادیئے گئے۔ جب انہوں نے اس منزلت کے انوار اور خدا سےقرب کوملاحظہ فرمایا تو ان کی حالت یہ ہوگئی کہ اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کرنے کے قریب ہوگئے اور بارگاہ رب العزت میں عرض کیا: پروردگار! تونے انہیں کس بناء پر اس قدر بزرگی عطا فرمائی خداوند عالم نے فرمایا، اس خوبی کی وجہ سے جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اور وہ ہے ایثار۔
اے موسیٰ ان میں سے جو شخص بھی میرے پاس اس حالت میں آئےگا کہ اس نے اپنی زندگی کا کچھ وقت اس پر صرف کیا ہوگا تو اس کا حساب لینے سے مجھے شرم آئے گی اور میں اسے بہشت کا وہ مقام عطا کرونگا جیسے وہ چاہے گا۔
(مجموعہ ورام، ج۱،ص ۱۷۳)
اب میرے لئے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ جو خدا ایک بندہ خاکی جس نے کچھ وقت ایثار پر صَرف کیا ہو اسے اتنا عطا کرتا ہے تووہ ذات نورانی اور مجسمۂ عصمت و طہارت جس نے اپنی ساری زندی ایثار میں صَرف کردی ہو تو آخر اسے اتنی فضیلت نہ ملے گی تو کسے ملے گی؟
اس میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے آثار و برکات بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے، قارئین کرام کےلئے مندرجہ ذیل روایات کومختلف عنوان کی شکل میں بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں تاکہ یہ ہم سب کے شوق زیارت کو مہمیز کرسکیں۔
۱۔ گناہوں کا بخشا جانا
سوائے انبیاء علیہم السلام اور چہاردہ معصومین علیہم السلام ہر ایک سے گنا سرزد ہو سکتی ہے۔ اور خدائے رب العزت نے گناہوں پر سزا رکھی ہے۔ مگرفطرت انسانی سزا نہیں چاہتی ہے، اذیت نہیں چاہتی، بخشش اور آرام چاہتی ہے۔لہذا اپنےگناہوں کو بخشوانے کا بہترین ذریعہ زیارت امام حسین ہےجس کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
مَنْ اَتٰى قَبْرَ اَبِيْ عَبْدِ اللهِ ؑ عَارِفاً بِحَقِّهٖ غَفَرَ اللهُ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ وَ مَا تَاَخَّرَ.
جو شخص حضرت امام حسین علیہ السلام کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرےگا تو اللہاس کے گذشتہ اور آئندہ تمام گناہ معاف کردےگا۔
(ثواب الاعمال،ص۸۶، ثَوَابُ مَنْ زَارَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ ؑ)
دوسری جگہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
جب کوئی شخص حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لئے گھر سے نکلے اور اپنے خاندان کو الوداع کرنے کے بعد پہلا قدم رکھے گا اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے اور قبر حسین علیہ السلام تک جیسے جیسے قدم اٹھاتا جائے گا پاک سے پاک تر ہوتا جائے گا جب مزار مقدس پر پہنچ جائے گا تو خدا اس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائے گا میرے بندے مجھ سے مانگ میں تجھے عطا کرونگا، مجھے پکار میں تجھے جواب دونگا، مجھ سے طلب کرمیں دعا پوری کرونگا ، اپنی حاجات کا مجھ سے سوال کر میں برلاؤں گا، راوی کہتا ہے حضرت نے فرمایا یہ اللہ پر حق ہے کہ اس نے جو کچھ خرچ کیااسے عطا کرے۔
(ثواب الاعمال، ح۳۲)
۲۔ حج و عمرہ سے افضل ہونا
عبادات میں مشکل ترین عبادت حج و عمرہ ہے اور یہی وہ عبادتیں ہیں جسے خدا نے استثنا رکھا ہے یعنی اس عبادت میں کفالت شرط ہے۔ روایات میں زیارت سید الشہداء علیہ السلام کو حج و عمرہ سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
زِيَارَةُ قَبْرِ الْحُسَيْنِ ؑ تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ عِشْرِينَ حِجَّةً وَ أَفْضَلَ مِنْ عِشْرِينَ حِجَّةٍ
حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت بیس حج کے برابر بلکہ بیس حج سے افضل ہے۔
(ثواب الاعمال، ص۹۲)
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
مَنْ اَتٰى قَبْرَ الْحُسَيْنِؑ عَارِفاً بِحَقِّهٖ كَانَ كَمَنْ حَجَّ مِائَةَ حِجَّةٍ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ
جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کریگا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو سو مرتبہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ حج بجالایا ہو۔
۳۔ فرشتوں کا دعا کرنا
ہمارے معاشرے میں اکثریہ سننےکو ملتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، ہم دعا کرکرکے تھک گئے ہیں ، نہ جانے خدا کب ہماری دعا سنے گا وغیرہ وغیرہ۔عزیزان گرامی! زائر امام حسین علیہ السلام کے لئے فرشتے دعا کرتے ہیں ، فرشتے معصوم ہوتے ہیں ، ان کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ شاید اسی لئے امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
لَا تَدَعْ‏ زِيَارَةَ الْحُسَيْنِؑ أَ مَا تُحِبُّ أَنْ تَكُونَ فِيمَنْ تَدْعُو لَهُ الْمَلَائِكَةُ.
زیارت امام حسین علیہ السلام کو ترک نہ کرو، کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے لئے فرشتے دعا کریں۔
(کامل الزیارت، ص ۱۱۹، ح ۳)
مَنْ يَدْعُو لِزُوَّارِهِ فِي السَّمَاءِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْعُو لَهُمْ فِي الْأَرْض
زائر امام حسین علیہ السلام کے لئے زمین سے زیادہ آسمان پر دعا کرنے والے ہیں۔
(کامل الزیارت، ص ۱۱۷، ح ۲)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک چار ہزار فرشتے پریشان اور غبار آلود بالوں کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر پر قیامت تک کیلئے گریہ کررہے ہیں۔ ان کے سردار فرشتے کا نام منصور ہے ، جو شخص بھی زیارت کے لئے جاتا ہے یہ اسکا استقبال کرتا ہے یہ سب فرشتے جب تک یہ زندہ ہے اس سے جدا نہیں ہونگے۔ اگر بیمار پڑجائے گا تو اسکی عیادت کرینگے، اگر مرجائے گا تو اسکی نماز جنازہ پڑھیں گے اور مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کرینگے۔
(ثواب الاعمال، ح۱۵)
۴۔ زیارت امام حسین علیہ السلام کی اہمیت
زیارت امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کے بارے میں جو کچھ بھی احادیث کے ذریعہ معصومین علیھم السلام نے تعلیم دی ہے وہ ایسی ہیں کہ جتنا اس پر غور کیا جائے کشف وکرامات الہی کے پردے اٹھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اَنْعَمْتَ کی تفسیر ممکن ہوتی تو شاید اسکی اہمیت زیر قلم آسکتی تھی۔
۵۔ امام حسین کی زیارت گویا عرش الہی پر خدا کی زیارت ہے
راوی نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا، امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا کیا ثواب ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
كَانَ كَمَنْ زَارَ اللهَ فِي عَرْشِهٖ
گویا اس نے عرش الہی پر اللہ کی زیارت کی۔
(کامل الزیارات، ص ۱۴۷، ح۲)
بشیر دہان کہتے ہیں میں ہر سال حج بیت اللہ سے مشرف ہوتا تھا مگر سال گذشتہ نہیں جاسکا جب اگلے سال حج کرنے کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کرنے گیا تو امام علیہ السلام نے دریافت کیا: اے بشیر سال گذشتہ تم حج کے لئے کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا، میں آپ علیہ السلام پر قربان جاؤں میرے پاس لوگوں کی کچھ امانتیں ہیں اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں کھو نہ جائیں ، لہٰذا میں نے روز عرفہ قبر امام حسین علیہ السلام پر گذارا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:
تو تم نے کچھ نہیں کھویا ان لوگوں کے مقابلے میں جو میدان عرفات میں موجود تھے۔ اے بشیر !جو کوئی امام حسین علیہ السلام کی زیارت ان کے حق کو پہچانتے ہوئے کرتا ہے گویا اس نے اللہ کی زیارت عرش پر کی۔
۶۔ زیارت امام حسین علیہ السلام سے عمر اور رزق میں اضافہ ہونا
ہر انسان موت سے گریزان ہے اور یہ بھی یقین ہے کہ موت برحق ہے۔ طولانی عمر کی خواہش کا ایک عنصر بھی اس کی فطرت میں پایا جاتا ہے۔ لہذا ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ نہ جانے کتنی جدوجہد کرتے ہیں تاکہ وہ صحت مند رہیں۔ ان کی عمر طولانی ہو، طرح طرح کی دوائیاں ایجاد کی گئیں جس سے انسانی زندگی میں اضافہ ہو۔ بعینہ ہر انسان بہترین رزق چاہتا ہے۔ زیادہ روپئے و دولت کو دوست رکھتا ہے، آسان رزق چاہتا ہے۔ خدا وندعالم نے زیارت امام حسین علیہ السلام میں وہ اثر و برکت رکھا ہےکہ جو کوئی بھی ان کی زیارت کے لئے جائےگا خداوندعالم اسے طولانی عمر اور کشادہ رزق عطا کرے گا۔
محمد بن مسلم، امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ
مُرُوا شِيعَتَنَا بِزِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ ؑ فَإِنَّ اِتْيَانَهٗ يَزِيْدُ فِي الرِّزْقِ وَ يَمُدُّ فِي الْعُمُرِ وَ يَدْفَعُ مَدَافِعَ السَّوْءِ وَ إِتْيَانَهٗ مُفْتَرَضٌ عَلٰى كُلِّ مُؤْمِنٍ يُقِرُّ لَہُ بِالْإِمَامَةِ مِنَ اللهِ.
ہمارے شیعوں کو حکم دو کہ وہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کریں کیونکہ ان کی زیارت سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے، عمر طولانی ہوتی ہے، اور بلائیں برطرف ہوتی ہیں۔ان کی زیارت ہر اس مومن پر واجب ہے جو اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ(امام حسین علیہ السلام کی) امامت اللہ کی جانب سے ہے۔
(وسائل الشیعہ، ج۱۴ ،ص۴۱۳)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
لَا تَدَعْ زِيَارَةَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ؑ وَ مُرْ أَصْحَابَكَ بِذَلِكَ يَمُدُّ اللهُ فِي عُمُرِكَ وَ يَزِيْدُ اللهُ فِي رِزْقِكَ وَ يُحْيِيْكَ اللهُ سَعِيْداً وَ لَا تَمُوتُ إِلَّا سَعِيْداً [شَهِيْداً] وَ يَكْتُبُكَ سَعِيْداً
زیارت امام حسین علیہ السلام کو ترک نہ کرو اور اپنے دوستوں کو بھی اس کاحکم دو کیونکہ اس سے عمر طولانی ہوتی ہے، رزق میں اضافہ ہوتا ہے، زندگی خوشگوار ہوتی ہے اور سعادت (شہادت) کی موت نصیب ہوتی ہے اور اللہ اس کا نام سعادت مند لوگوں میں درج کرتا ہے۔
(کامل الزیارت، ص ۱۵۲، ح ۵)
۷۔ زیارت امام حسین علیہ السلام غم کے زائل اور حاجت کے روا ہونےکا سبب
پوری دنیا میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ ملے کہ جو غم زدہ، پریشان حال، مصیبت زدہ نہ ہو۔ اگر شاز و نادر کوئی ایک مل بھی جائے تو ضرور کوئی نہ کوئی حاجت اور خواہش رکھتا ہوگا۔ خداوندمتعال نے زیارت امام حسین علیہ السلام کو غم کے زائل اور حاجات کے رواں ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
محمد بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ
امام حسین علیہ السلام ،صاحب کربلا کو مظلوم، پریشاں حال، پیاسہ اور مصیبت زدہ قتل کیا گیا۔تو ان کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو کوئی پریشان حال، مصیبت زدہ، گناہگار، مغموم، پیاسہ اور بیمار ان کی زیارت کے لئے آئے گا اور ان کی قبر کے نزدیک نماز ادا کرکے قرب الہی کا خواستگار ہوگا ، اللہ اس کے غموں کو برطرف کردےگا، اس کی حاجت پوری کریگا، اس کے تمام گناہ معاف کردیگا، اس کی عمر طولانی کردیگا اور اس کے رزق میں اضافہ کردیگا۔ اے صاحبان بصیرت اس سے عبرت حاصل کرو!
(بحار الانوار ج۹۸، ص۴۶)
۸۔زائر امام حسین علیہ السلام کا شافع ہونا
یقیناً ہم میں سے کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ہم اپنے اعمال کی بناء پر جنت میں چلے جائیں گے۔ ہمارے اعمال میں نہ جانے کتنے نقص پائےجاتے ہیں۔ کبھی ریاکاری ، کبھی شرک ، کبھی حسد ،تو کبھی انا۔ ہاں جو چیز ہمیں نجات دے سکتی ہے وہ صرف و صرف اہل بیت علیہم السلام اور ان کے چاہنے والوں کی شفاعت ہے۔ لہذا سیف تمار روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا :
‏ زَائِرُ الْحُسَيْنِ ؑ مُشَفَّعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِمِائَةِ رَجُلٍ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُمُ النَّارُ مِمَّنْ كَانَ فِي الدُّنْيَا مِنَ الْمُسْرِفِيْنَ‏
روز قیامت زائر امام حسین علیہ السلام سو ایسے گناہگاروں کی شفاعت کریگا جن پر جہنم واجب ہوگئی ہوگی جو دنیا میں اسراف کرنے والوں میں تھے۔
(بحار الانوار،ج۹۸،ص۷۷،ح۳۶)
عبداللہ بن شعیب تمیمی حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں :
روز قیامت منادی ندا دےگا کہاں ہیں شیعیان آل محمد علیہم السلام تو ایک گروہ جس کی تعداد سوائے خدا کے کوئی شمار نہیں کرسکتا کھڑا ہوجائے گا اور لوگوں سے الگ ہوجائے گا۔ پھر منادی ندا دے گا، کہاں ہیں زائر قبر امام حسین علیہ السلام ؟ تو ایک بہت بڑا گروہ کھڑا ہوجائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جسے پسند کرتے ہو ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جاؤ۔ تو وہ لوگ ان لوگوں کو جنت میں لے جائیں گے جنہیں وہ دوست رکھتے تھے یہاں تک کہ ان میں سے ایک شخص کہے گا، اے فلاں بن فلاں کیا تم مجھے نہیں پہچانتے ہو میں ایک دن تمہارے احترام کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ تو وہ زائر اسے بھی اپنے ساتھ جنت میں لے کر داخل ہوجائے گا اور کوئی اسے روکے گا نہیں۔
(بحار الانوار،ج۹۸،ص۲۷)
اے اللہ تبارک تعالی! ہم سب کو وہ دل عطا فرما جس میں شوق زیارت کا دریا موجزن ہو۔ ہمارے مولا و آقا کی تشنہ لبی کا واسطہ اشتیاق زیارت کی پیاس کبھی کم نہ ہو اور ہم بار بار آپ علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت سے سیراب ہوں پھر بھی شوق ،سیراب نہ ہو۔ شاید کبھی ہمارا نصیب جاگے اور اس زیارت کی راہ میں ہمارا مولاو آقاحضرت حجت بن الحسن عسکری علیہم السلام جو منتقم خون حسین علیہ السلام ہے ہمیں اپنے دیدار سے مشرف کردے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں