یہ ہمارے بچپن کی بات ہے کہ اماں ، ابا، چچا، پھوپھی، خالہ، دادا، دادی ہمیں عزاخانوں میں لے کر جاتے اور عزائے سید الشہداء علیہ السلام کی تربیت ہوتی تھی۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ابھی ہم شیرخوار ہی تھے کہ ہمیں مجلسوں میں لے جایا گیا اور کانوں میں نوحوں ، ماتم و مرثیہ کی آوازیں پہنچائی گئیں۔ دھیرے دھیرے اسی ماحول میں پروان چڑھے اور عزاداری و عزاخانوں سے مانوس سے مانوس تر ہوتے گئے۔ جب کچھ ہلکا سا شعور آیا تو دیکھا کہ عزاخانوں کو سجایا جاتا ہے اور ان سجاوٹ و تزیین میں کپڑے کی کالی پٹی ہے اور اس پر سرخ، زرد، ہرے اور نیلے رنگوں سے کچھ لکھا ہے۔ لیکن ہم نے اس پر کچھ غور و خوض نہیں کیا۔ البتہ وقت کے گزرنے کے ساتھ حالات بدلے اور ہم کچھ پڑھ لکھ کر نوجوانی سے جوانی کی عمر میں پہنچے۔
بچپن میں دیکھی ہوئی وہ پٹیاں اور طغرے جو ہمارے ذہن کے کسی گوشہ میں دوسری تمام چیزوں کی طرح کلی و بسیط شکل میں بسی ہوئی تھیں ، ہم نے انہیں کلی صورت سے نکال کر جزئی شکل میں رکھا اس لئے کہ اس وقت ہم کچھ فارسی پڑھنا لکھنا سیکھ چکے تھے۔ اب جو ان طغروں کو غور سے پڑھا تو پتہ چلا کہ لکھا ہے:
باز این چہ شورش است کہ در خلق عالم است؟
پھر یہ خلق عالم میں کیسا انقلاب اور کیسا شور اور ہنگامہ ہے؟
اس مصرع کےساتھ پھر دوسرا مصرع بھی سمجھ میں آیا اور کوشش کرتے کرتے بہت سے مصرعوں کو پڑھ ڈالا۔ بات جب یہاں تک پہنچی ہے تو اب ان اشعار کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں۔
یہ شعر کس نے لکھے؟
ایران کے بہت ہی مشہور شاعر شمس الشعراء محتشم کاشانی علی بن احمد کے اشعار ہیں۔ ۹۰۵ھ میں ایران کے شہر کاشان میں پیدا ہوئے اور تقریباً ۹۱؍ سال کی عمر میں ۹۹۶ھ میں کاشان میں ہی انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ صفوی دور کے اوائل میں آپ نے زندگی گذاری۔ محتشم اپنی جوانی ہی سے شعر کہتے تھے البتہ ابتداء میں ذوقی شعر اور غزل کہا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں دینی رجحان پیدا ہوا تو نیا موضوع لیا اور ذکر مصائب اہل بیت علیہم السلام پر شعر کہنے لگے اور پھر خوب شہرت حاصل کی۔
مرثیہ نگاری کا آغاز
محتشم جوانی میں ذوقی شعر و شاعری میں لگے تھے اور اسی لئے ان کے ہم عصر انہیں ’کلک الشعار‘ کا لقب دے رکھا تھا۔ ہم اپنی زبان میں کہیں کہ لاابالی مزاج تھے۔ لیکن ان کی زندگی میں ایک حادثہ پیش آیا اور انہیں مرثیہ سرائی کی طرف لے گیا۔ وہ حادثہ یہ تھا کہ ان کے ایک بھائی ’عبد الغنی‘ کا ہندوستان کے دکن میں انتقال ہو گیا اور ان کی جدائی میں بہت ہی جانسوز مرثیہ لکھا۔اور ایک مرثیہ اپنے بھتیجے کی موت پر بھی لکھا اس طرح مرثیہ نگاری کا آغاز ہوا۔
عالم رؤیا میں امیرالمومنین علیہ السلام
مرحوم حاج ملا علی خیابانی تبریزی نےاپنی کتاب ’وِقَایِعُ الْاَیَّامِ‘ میں محتشم کاشانی کی سید الشہداء علیہ السلام پر مرثیہ سرائی کے سلسلہ میں لکھا ہے:
جب مولانا محتشم کے بھتیجے کا انتقال ہواتو محتشم نے اس کے لئے ایک مرثیہ لکھا۔ ایک شب حضرت اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خواب میں دیکھا۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: اے محتشم! اپنے بیٹے(بھتیجے) کے لئے مرثیہ اور شعر کہے، لیکن تم نے میرے قرۃ العین اور میرے نور چشم حسین علیہ السلام کے لئے مرثیہ نہیں کہا؟ صبح کو جب بیدار ہوئے تو اس خواب کے بارے میں سوچنے لگے۔ دوسری شب پھر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ فرما رہے ہیں : میرے بیٹے حسین علیہ السلام کے لئے مرثیہ کہو! محتشم نے کہا میں آپ پر قربان جاؤں ، امام حسین علیہ السلام کی مصیبت حد و حصر سے باہر ہےاس لئے مجھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ بات کہاں سے شروع کروں اور کیا کہوں ؟
حضرت امیر علیہ السلام نے مصرع دیا
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہو:
باز این چہ شورش است کہ در خلق عالم است؟
پھر یہ خلق عالم میں کیسا انقلاب اور کیسا شور اور ہنگامہ ہے؟
بیدار ہوئے تو دوسرا مصرع اسی وقت شاہ اولیاء کی توجہ کے سایہ میں لکھا اور حضرت کی برکت و عنایت کے طفیل میں بقیہ اشعار لکھنا شروع کیا یہاں تک کہ اس مصرع پر پہنچے:
ھست از ملال گرچہ بری ذاتِ ذو الجلال
اگرچہ اللہ کی ذات ذو الجلال ملال سے بری و پاک ہے
اس کا مصرع ثانی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کئی دن گذر گئے لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ایک شب خواب میں حضرت قائم علیہ السلام کو دیکھا۔
امام زمانہ علیہ السلام کا مصرع
امام زمانہ علیہ السلام نے فرمایا:
او در دل است و ھیچ دلی بی ملال نیست
وہ (اللہ) دل میں ہے اور کوئی بھی دل بے ملال نہیں ہے۔
(وقایع الایام، خیابانی، ص ۵۸، چاپ سنگی)
تذکر
کتاب اَلْکَلَامُ یَجِرُ الْکَلَامَ، ج ۲، ص ۱۱۰؍ پر یہی واقعہ نقل ہوا ہے لیکن ذرا سے فرق کے ساتھ۔ اس کتاب میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے نام کی جگہ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا نام نقل ہوا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مرثیہ کا پہلا مصرع معصوم کی زبانی ہے (باز این چہ شورش است کہ در خلق عالم است؟) اور پانچویں بند کا مصرع (او در دل است و ھیچ دلی بی ملال نیست) امام زمانہ علیہ السلام کا مصرع ہے۔
یہ مرثیہ کس قدر مقبول
یہ مرثیہ تاریخ ادبیات فارسی میں ’دوازدہ بند‘ یعنی بارہ بند کے مرثیہ کے نام سے مشہور ہے اور جیسا کہ ہم نے نقل کیا اس مرثیہ کی ابتداء حضرت امیر المومنین علیہ السلام یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی زبان اقدس سے ہوئی ہے اسی لئے آج تک ایسی مقبولیت عامہ حاصل ہوئی کہ ایران کی ہر گلی کوچہ، مسجد اور عزاخانوں ، در و دیوار پر آویزاں ہوتا ہے۔ ایران سے نکل کر ہندوستان، پاکستان اور دیگر تمام ممالک میں اس مرثیہ کی گونج ہے۔
نظر شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ
محدث جلیل مرحوم حاج شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مفاتیح الجنان فرماتے ہیں : محتشم شاعر، معروف مرثیہ کے لکھنے والے کہ جن کا مرتبہ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی تمام مجالس ماتم میں در و دیوار پر نصب ہے، گویا حزن و اندوہ کے ساتھ ان اشعار کو لکھا گیا ہے یا خاک کربلا سے آمیختہ ہے۔ ہر صورت میں ، یہ اشعار مصیبت حضرت ابا عبد اللہ علیہ السلام کو مندرس اور کہنہ نہیں ہونے دیتا اور یہی بات محتشم کی عظمت و بزرگی اور کثرت معرفت کو منکشف کرتی ہے۔
(دیوان محتشم کاشانی بہ کوشش سعید قانعی، ص ۲۰)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کامحتشم کے مرثیہ پر گریہ
مُقبِل کاشانی ایک معروف شاعر تھے اور انہیں زیارت امام حسین علیہ السلام کی بڑی آرزو تھی۔ لیکن مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے محروم تھے۔ جب کوئی کربلا جاتا، آپ کی آنکھوں سے حسرت کے آنسو بہتے اور بے کفن امام مظلوم کی زیارت کی تمنا شدت سے بڑھ جاتی تھی۔ ایک دن ان کے ایک دوست نے سفر کے خرچ کو مہیا کر دیا اور یہ کاشان سے کربلا کی طرف نکل پڑے۔ راستے میں گلپائیگان کے قریب راہزنوں نے پورے قافلہ کو لوٹ لیا۔ کچھ لوگ کاشان لوٹ گئے اور کچھ نے گلپائیگان کا رخ کیا اس ارادہ سے کہ جان پہچان والوں سے کچھ قرض لیکر سفر کو تکمیل تک پہنچائیں۔ لیکن گلپائیگان میں مقبل کا کوئی آشنا نہ تھا اور خود مقبل کسی سے قرض لینے کے حق میں نہ تھے اور کاشان بھی لوٹنا پسند نہ تھا۔ ان کے دل میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی لگن تھی۔ دل ہی دل میں کہا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے نکلا اور اتنا راستہ طے کر چکا ہوں لہذا یہیں رک جاؤں اور کچھ محنت مزدوری کر کے سفر کا خرچ اکٹھا کر لوں اور کربلا جاؤں۔
کچھ دن گلپائیگان میں ٹھہرے یہاں تک کہ محرم آ پہنچا۔ دوسرے شیعوں کی طرح دن رات مجلسوں میں شرکت کرتے یہاں تک کہ شب عاشور آ پہنچی۔ جو اشعار کہے تھے انہیں پڑھا اور ایک شور برپا ہو گیا… اسی شب مجلس ختم ہونے کے بعد عالم رؤیا میں دیکھا کہ کربلا میں ہیں اور صحن میں وارد ہوئے ہیں۔ چاہا کہ ضریح کی طرف جائیں لیکن انہیں جانے نہ دیا گیا۔
مقبل کہتے ہیں : میں نے خود سے کہا میرے خدا حرم میں داخل ہونے کے لئے کوئی کسی کے لئے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ ایک شخص نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو مقبل لیکن اس وقت فاطمہ زہرا ، خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا ، آسیہ، ہاجرہ اور سارہ علیہم السلام بعض حوروں کے ساتھ حرم میں زیارت میں مشغول ہیں اور چوں کہ تم ایک نا محرم ہو تمہیں اجازت نہیں ملے گی۔ میں نے کہا تم کون ہو؟ اس نے کہا میں حافّین ملائکہ میں سے ہوں (امام حسین علیہ السلام کے حرم کے ارد گرد گھومنے والے فرشتوں کو حافّین ملائکہ کہا جاتا ہے)۔ تم ناراض نہ ہو اورمیرے ساتھ آؤ میں تمہیں حرم کے دوسرے طرف لے چلوں۔ حرم مطہر کے مغربی صحن میں ایک عالی شان مجلس برپا تھی۔ میں نے فرشتہ سے وہاں موجود لوگوں کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے کہا: انبیاء علیہم السلام ، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ تک سبھی قبر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے ہیں۔ مقبل کہتے ہیں : میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کو دیکھا کہ فرماتے ہیں جاؤ محتشم سے کہو کہ آئیں۔ میں نے دیکھا کہ محتشم اپنے چھوٹے قد، نورانی چہرہ اور آشفتہ عمامہ والے قیافہ میں وارد ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے قریب ہی ایک منبر کی طرف اشارہ کیا اور محتشم سے کہا منبر پر جاؤ۔ محتشم منبر کے جس زینہ پر جاتے پیغمبر کہتے اوپر جاؤ یہاں تک کے عرشہ (نویں زینہ) پر پہنچے اور کھڑے ہو گئے اور پیغمبر کے حکم کا انتظار کرنے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا اے محتشم آج شب عاشور ہے، تم اپنے وہ جانسوز اشعار پڑھو۔ محتشم نے اشعار پڑھنا شروع کیا:
ای کشتی شکست خوردۂ طوفان کربلا
درخاک و خون طتیدہ میدان کربلا
گرچشم روزگار بر او فاش می گریست خون می گذشت از سر ایوان کربلا
نگرفت دستِ دھر گلابی بہ غیر اشک
زآن گل کہ شد شگفتہ بہ بستان کربلا
از آب ھم مضایقہ کردند کوفیان
خوش داشتند حرمتِ مہمان کربلا
بودند دیو دد ھمہ سیراب و می مکند
خاتم زقحط آب سلیمان کربلا
زان تشنگان ھنوز بہ عَیُّوق می رسد
فریاد العطش ز بیابان کربلا
آہ از دمی کہ لشکر اعدا نکرد شرم
کردند رو بہ خیمۂ سلطان کربلا
محتشم نے یہاں تک پڑھا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے نالہ و گریہ کی آواز بلند ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے اسی نالہ و گریہ کے عالم میں فرمایا: اے میرے بزرگوں ! اے میرے عزیزوں ! دیکھو میرے اس فرزند حسین علیہ السلام کے ساتھ کیا کیا ہے؟ فرات کا پانی جسے سارے حیوان پیتے ہیں ، میرے فرزند کو اس سے محروم کر دیا۔ پھر آپ نے محتشم سے کہا اور پڑھو۔ محتشم نے پھر شروع کیا:
روزی کہ شد بہ نیزہ سر آن بزرگوار
خورشید سر برھنہ بر آمد ز کوھسار
موجہ بجنبش آمد و برخاست کوہ کوہ
ابری بہ بارش آمد و بگریست زار زار
گفتی تمام زلزلہ شد خاک مطمئن
گفتی فتاد از حرکت چرخ بیقرار
عرش آن زمان بہ لرزہ در آمد کہ چرخ پیر
افتاد در گمان کہ قیامت شد آشکار
آن خیمہ ای کہ گیسوی حورش طناب بود
شد سرنگون ز باد مخالف حباب وار
جمعی کہ پاس محملشان داشت جبرئیل
گشتند بی عماری و محمل، شتر سوار
با آن کہ سرزد این عمل از امت نبی
روح الامین، ز روح نبی گشت شرمسار
ان اشعار پر گریہ اس قدر زیادہ ہونے لگا کہ گویا صدائے گریہ عرش تک پہنچ گئی۔ محتشم منبر سے نیچے آنا چاہتے تھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا پھر پڑھو کیوں کہ دل اب تک گریہ سے سیر نہیں ہوا ہے۔ محتشم نے حکم کی تعمیل کی اور عمامہ کو سر سے اتار دیا اور فریاد کناں صدا لگائی: یا رسول اللہ
این کشتۂ فتاد بہ ھامون حسین توست
و ین صید دست و پا زدہ در خون حسین توست
اے حسین علیہ السلام آپ کا قتل صحرا میں ہوا اور مثل ایک شکار کے آپ اپنے ہاتھ پیر خون میں مارتے رہے۔
مقبل نقل کرتے ہیں کہ محتشم جب اس بند کو پڑھ چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ غش کر گئے اور تمام انبیاء علیہم السلام سر پیٹ پیٹ کر گریہ کرنے لگے اور پھر ایک فرشتہ نے اس شعر کو پڑھنا شروع کیا:
خاموش محتشم کہ دل سنگ آب شد
بنیاد صبر و خانۂ طاقت خراب شد
خاموش محتشم کہ از این حرف سوزناک
مرغ ھوا و ماھی دریا کباب شد
خاموش محتشم کہ از ین شعر خونچکان
در دید اشک مستمعان خون ناب شد
خاموش محتشم کہ ازین نظم گریہ خیز
روی زمین بہ اشک جگرگون کباب شد
خاموش محتشم کہ فلک بس کہ خون گریست
دریا ھزار مرتبہ گلگون حباب شد
خاموش محتشم کہ بہ سوز تو آفتاب
از آہ سرد ماتمیان ماھتاب شد
خاموش محتشم کہ ز ذکر غم حسین
جبریل را ز روی پیامبر حجاب شد
محتشم خاموش ہو گئے اور منبر سے زمین پر آگئے۔ کچھ دیر بعد مجلس جب اپنی عمومی حالت میں پہنچی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی عبا کو محتشم کے شانہ پر ڈال دیا۔
جناب زہرا کی فرمائش
مقبل کہتے ہیں : میں بھی شاعر اہل بیت علیہم السلام تھا، چاہتا تھا کہ پیغمبر مجھ سے بھی کہیں کہ اپنے اشعار پڑھو۔ میں نے انتظار کیا لیکن مایوس ہوکر حرم سے باہر ہوا۔ دیکھا کہ ایک حور مجھے آواز دے رہی ہے کہ اے مقبل، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کے پاس آئیں اور فرمایا کہ مقبل سے بھی کہو کہ اپنے اشعار پڑھیں۔ مقبل کہتے ہیں کہ میں منبر کے پہلے زینہ پر گیا لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نےمجھ سے نہیں کہا اوپر چڑھو۔ میں سمجھ گیا کہ محتشم کا مقام مجھ سے بہت بلند ہے۔ میں نے اپنے شعر پڑھنا شروع کیا:
نہ ذو الجناح دگر تاب استقامت داشت
نہ سید الشھداء بر جدال طاقت داشت
ھوا ز جور مخالف چو قیر گون گردید
عزیز فاطمہ از اسب بر زمین افتاد
بلند مرتبہ شاھی ز صد زین افتاد
اگر غلط نہ کنم عرش بر زمین افتاد
مقبل کہتے ہیں کہ میں نے اتنا ہی پڑھا تھا کہ ایک حور آئی اور کہاکہ مقبل اس کے آگےنہ پڑھو۔ زہرا سلام اللہ علیہا غش کر گئیں۔ مقبل کہتے ہیں میں منبر سے نیچے آگیا لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے مجھے کوئی انعام نہیں دیا۔ ناگاہ میں نے اسی حالت رؤیا میں دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے حلقوم بریدہ سے آواز دے رہے ہیں : اے مقبل! میں خود تمہیں خلعت دوں گا۔ اسی حالت میں میں خواب سے بیدار ہوا۔ اس کے دوسرے دن ایک قافلہ کربلا کی زیارت کے لئے نکلا اور مجھے اپنے ساتھ لے لیا۔
(منابع وسائل الشیعہ، ج ۱۴، ص ۵۹۷؛ وقایع الایام خیابانی، ص ۵۹)
اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ محتشم حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی نظر میں کس قدر بلند مرتبہ کے حامل تھے اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مقبل بحیثیت ایک شاعر کے اور اپنے کلام کی وجہ سے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی نظر میں کیسی عظمت کے حامل تھے۔ بیشک امام حسین علیہ السلام اپنے چاہنے والوں کو نہ تو اپنی زیارت سے محروم کرتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں اپنی شفاعت سے، ان شاء اللہ! خدایا! ہمیں بھی مقبل اور محتشم جیسی تڑپ عطا کر کہ ہم بھی امام حسین علیہ السلام اور ان کے وارث و منتقم کی عنایات خاصہ سے مالامال ہوں۔
آخر میں یہ نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ محتشم کاشانی کے تمام بارہ بند کی تائید میں حدیثیں موجود ہیں۔ البتہ اس مختصر مضمون میں اس کے نقل کی گنجائش نہیں۔
نہایت ادب و احترام کے ساتھ یہ عرض کرتے ہیں کہ شعراء کرام جو آیات و روایات سے آشنا ہیں اور مدح و مصائب اہل بیت سلام اللہ علیہا میں اشعار کہتے ہیں وہ مفاہیم و مطالب میں محصور ہوتے ہیں۔ ہمارے بزرگ علماء بھی اس میدان میں بہت نمایاں ہیں۔ علامہ بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی عربی میں ایک مرثیہ موجود ہے اور وہ بھی بارہ بند کا ہی ہے جو تاریخ میں ’’اَلْعُقُوْدُ الْاِثْنٰی عَشَرَ فِی رِثَاءِ سَادَاتِ الْبَشَرِ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ان شاء اللہ زندگی رہی اور توفیق ملی تو اس پر آئندہ روشنی دالیں گے۔
یا ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام ! اس مختصر تحریر کوقبول فرمایئے اور مقبل و محتشم کی طرح خلعت سے نوازیئے۔