افتخار= سلسلۂ انبیاء و مرسلین آسمانی تھا۔ امر خداوندی کے ارادے کے تحت تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغامبران الٰہی کی تعداد افراد عامہ سے لے کر خواص یعنی علماء تک ہر ایک کی زبان پر ہے۔ یہ مشیت الٰہی تھی کہ کوئی اس تعداد سے منکر نہ ہو اور بارگاہِ ایزدی میں بروز عدالت و فیصلہ انگلی اٹھا کر یہ نہ کہہ سکے ’’ ہمارے لیے کوئی خدا کی طرف سے ہمیں اس راہ کی طرف لے جانے والا نہ تھا جس پر چل کر اس منزل کی طرف گامزن ہو سکیں جو تیری خلقت انسان کا مقصد تھا۔
قارئین اچھی طرح جانتے ہیں انبیاء علیہم السلام کی دو فردیں ہیں ۔ ایک سلسلہ نبوت تبلیغی ہے اور دوسرا سلسلۂ نبوت تشریعی ہے۔ تبلیغی نبی ایک بستی۔ قریہ ایک خاندان تک اپنی نبوت کے امور منصبی کو انجام دیتا تھا اور سابق صاحب شریعت نبی کے راستے پہ چلنے کی ہدایت پر مامور تھا۔ تشریعی انبیاء و مرسلین کا وہ سلسلہ جو شریعت کی تہذیب کے تمام دفعات کی کتاب کھول کر عمل۔ تقریر اور تحریر سے عام دنیا کے اطراف و اکناف میں منضبط کرتا ہے۔
اس تناظر کے تحت جیسا مقصد نبوت آئینہ داری کررہا ہے۔
تاریخ اسلام میں بحر ظلمات میں دوڑتے گھوڑے۔ دشت اور دریا کے علاوہ۔ افریقہ کے بیابانوں میں اور یوروپ کے کلیسائوں میں بھی اذانوں کی آوازیں گونج رہی ہیں ۔ گھوڑے بھی آبادیوں میں خانہ خرابی اور اہل اسلام کے سردارانِ لشکر کے زمینوں کو روندتے اور دریائوں کے پانی میں ابال لاتے ہوئے دکھائی تو دیتے ہیں لیکن ہر صاحب فکر و دانش کے سامنے رسالت الٰہیہ سوال کررہی ہے کہ توحید پرستوں کا یہ ابتدا سے نبوت یا رسالت کی ہدایتوں میں منجانب احکام الٰہی کبھی نہیں رہاجس پر كمال و تمام كی مہر لگی ہوئی ہے۔ حتی کہ سیرت نبوی قبل از مرسل اعظم ہمیشہ حیات بالقسط اقوال و اعمال میں راہ ہدایت میں باعث ترغیب رہی۔ اور اگر باریک بینی سے تقاضۂ جہاں بینی ہے تو انصاف پسند حضور سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ تمام ما سبق انبیاء اور مرسلین کی ہدایات كا وہ اعلیٰ معیار تھے۔
اگر انسان مقصد بر آوری کے لیے ظلم پیشہ رہا ہے تو فرستادہ الٰہی اس کے سامنے ڈٹ کر مقابل میں آگیا اور ظلم کو اپنے صبر۔ استقلال۔ ثبات قدمی۔ ایثار و قربانی۔ و ظلم کے پیشہ گروں کی تنی ہوئی گردنوں کو توڑنے میں اپنی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیا۔
ایک طرف جب انبیاء علیہم السلام کی تاریخ ہے جسے پڑھنے کے بعد مسلسل دل میں درد امنڈامنڈ کر آتا ہے اور خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان بندو نے جن کے دوش پر ہدایت۔ دعوت حق اور حیات بالقسط کے طور طریقے یعنی مکمل نظام زندگی کے تبلیغ کی اہم ذمہ داری ركھی تھی۔ کس طرح اپنے فرائض کے امور کو انجام دیا ہوگا جب ان کے سامنے حکومت سیاست مکر۔ فریب۔ مصلحت اندیشی = تشکیک بربنائے جہالت غرض تمام مخالف عوامل کے بڑے بڑے گروہ مقابل میں آجاتے تھے۔
حضرت ایوب، حضرت یعقوب، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت عیسیٰ، حضرت مریم، حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے واقعات جب سامنے آجاتے ہیں تو ایک فکر مہمیز ہوتی ہے کہ اگر ان بزرگواروں کی خلقت میں خالق اکبر نے قوت برداشت کے نورانی جوہر کو نہ رکھ دیا ہوتا تو انسانیت کے رہبرانِ مذکور کے حوصلے پست ہو جاتے۔ استقلال کی کمر شکستہ اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا۔ ان مخالف طاقتوں نے جو انبیا کے سامنے آئے نئے نئے روپ۔ نئے نئے منصوبوں اور نہایت زہریلے نشتروں کے ساتھ رنگ بدل بدل کر سامنے آئے جس میں ہرگوشہ سیاست میں دنیا بھری پڑی تھی اور حصول مقصد کے لیے جو دائوں پیچ استعمال ہوئے ہیں ان کے اندھیرے میں انسانیت کا دم ٹوٹ جاتا اور اسے طلوع آفتاب کی صبح کبھی نصیب نہ ہوتی۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کا گریہ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر عظیم۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے فرعون کا پورا لشکر۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل۔ حضرت مریم و ہاجرہ ؉کی تڑپ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےلئے صلیب۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی منجنیق سب وقت کے مائک سے بول رہے ہیں اور سارا عالم گوش بر آواز ہونے کے باوجود کرتے وہی ہیں جو نفرت کی آنچ کو ہوا دے اور کہتے بھی وہی ہیں جو سیاست و حکومت کی روش کا چلن ہوتا ہے۔
آج سارے عالم میں ارتقائے علمی و سائنسی کا چرچا گھر اور ہر فرد میں پایا جاتا ہے۔ساری دنیا روشن تو ہوئی لیکن اندھیرے کے سامان کو ساتھ لے کر یہ روشنی آئی ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ ہر گوشہ و کنار میں بموں کےمنفحرہونے کے اندیشہ ہر لمحہ ایک خطرہ کی نشاندہی کررہی ہے۔ کب کہاں انسانوں کے جسم کے پراخچے اڑتے ہوئے نظر آئیں گے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کتنی مائوں کی بھری گودیاں خالی ہوگئیں ۔ کتنے طرح دار جوان لقمہ اجل ہوگئے۔ کتنے گھر اجڑ گئے۔ کتنے محنت کش بحر ظلمات میں غرق ہو کر لاپتہ ہوگئے۔ نام اسلام کا۔ راکب اسپ جہالت کے۔ گھوڑے عرب کے۔ اندھیروں کا سمندردھوکے اور فریب کاریوں کے کچھ فتوحات کے سلسلے اپنے ساتھ لائے۔ اسپین میں مسجدیں بنائی گئیں حبش اور مصر کی طرف فتوحات کے بعد اسلام کی نام نہاد تہذیب کے چرچے ہونے لگے۔ ترکیوں او رتاتاریوں کے حصے میں خلافت کا عقیدہ اپنے سازوسامان کے ساتھ سامنے آیا۔ یہی سب کچھ اسلام کی تبلیغات کا سرمایہ بنا جس پر آج مسلمان کی اکثریت مفاخرت کرتے ہوئے کہتی ہے :
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
اگر تاریخ کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کریں اور اذہان و افکار کو تکان دے کر ان زمانوں میں چلے جائیں تو حکمرانوں ، امراء اور جاگیرداروں اور لٹیروں کے ساتھ میں پلتا ہوا ایک ایسا نظام سامنے آجاتا ہے جن کا واسطہ تہذیب اسلامی کے ابلاغ سے ہٹ کر چند علامات اور روایات کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ جب طاقت، سیاست، مصلحت کے گھوڑے پر فاتحین سوار بحر ظلمات کے اندھیرے میں چراغ جلا کر اسلام کی دستور بندی پر علمی اقدام کرتے ہیں تاکہ عوام کے حلق پر اسی کا زہر رفتہ رفتہ ٹپکتا رہے اور ہر جھوٹ سچ اور ہر ظلم رحم کا لباس پہن لے۔
دور حاضر میں ایک مُرَیش مبلغ چیخ چیخ کر نہایت جوش و خروش کے ساتھ اپنی تقریر میں کہہ رہے تھے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا قبلہ کربلا ہے کعبہ اور مکہ شریف نہیں ہے۔ قرآن ان کی کتاب نہیں ہے جب کہ ہر مسجد میں رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا کی دعا شاید ہی کوئی ایسی مسجد ہوگی جہاں نماز جماعت شیعہ پڑھتے ہیں ان میں اور جو نمازی فرادیٰ نماز پڑھتے ہوں یہ دعا پڑھنے سے غفلت برت رہے ہوں ۔ کم سے کم اپنی داڑی کی لاج رکھنے کے لیے تو فاتقو اللہ پرعمل کیا ہوتا۔ جھوٹ ایک گناہ ہی نہیں بلکہ ام العصیان ہے۔ یہ انصاف کو قتل کرتا ہے۔یہ نفاق کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجاتا ہے۔یہ تہذیب شریعت کو ختم کرتا ہے۔ یہ برائت کا بانی و مبانی ہے۔ یہ دشمنی کا شعلہ لے کر آتا ہے او رسچائی کو جلاتا ہے۔ میرے سامنے صرف مذکور مریش ہی نہیں ہیں بلکہ راقم الحروف کے کاروان حیات میں ایک جذباتی اکثریت ہے جن کی روش حیات میں ایسی ہمنوائی پائی جاتی ہے۔
موضوع اسلامی تہذیب (Culture)میں بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کا جو تصور ڈاکٹر اقبال جیسا فلسفی ، دور بین ، روشن دماغ ، منصف مزاج اور علم و عمل کا داعی اس بات پر کیسے فخر کرتا ہے کہ بحر ظلمات دوڑتے گھوڑے اسلام کی تبلیغ کا معلن تھا۔ اسلام نام ہی سلامتی۔ آشتی۔ باران رحمت اور بالقسط زندگی بسر کرنے کے معانی اور مطالب کی مکمل تغیر کے ساتھ مربوط ہے۔ نہ افریقہ کے تپنے صحرائوں اور نہ اسپین کے کلیسائوں میں جو وقتی طور پر اذان گونجی اس کا نام اسلام ہے۔ اسلام اس درد کا نام ہے جو آل محمد علیہم السلام نےاپنی قربانیاں دے کر سنگ دل انسانوں میں بھی پیدا كر دیا تھا۔
ہاں اگر ظلمات کے دوڑتے گھوڑوں نے حقیقت اسلامی کی روشن کی قندیلوں کو لاکھ سازش، مصلحت، سیاست کی تلواروں نیزوں سے توڑنا چاہا لیکن وہ قندیلیں جن کو الوہی رابطے کے ساتھ زمین پر اتارا گیا تھا اسے کون توڑ سکتا تھا۔ لہٰذا وہ قندیلیں آج بھی روشن اور تاباں ہیں ۔ ذرا نظر اٹھا کر دیکھئے کربلا۔ نجف۔ سامرہ، خراسان سب پر رونے والی آنکھوں کے آنسوئوں کی ایسی پہرہ داری ہے کہ اس کی قائم کردہ فصیل کی دیواروں میں گویا سیسہ پلا دیا گیا ہے۔ زمانہ گذرتا جارہا ہے اور اس میں استقامت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ آج گھوڑے سب ختم ہوگئے یا اس کی نسلیں ریس (RACE)میں دوڑرہے ہیں میدان میں بندوقیں ہیں بم ہے۔ بل ڈوزر ہے۔ ٹینک ہیں ۔ زہریلے ہتھیار ہیں ۔ان سبھوں نے ایک افریقہ میں ملک نائیجریا ہے ذکذکی کی خون میں لپٹی ہوئی داستان سامنے ہے۔ ذکذکی نے اپنے بیٹوں کو دفن کرتے ہوئے تَقَبَّلْ مِنَّا کے ساتھ یہ بھی کہا ہوگا یہ ام رباب کے ششماہے کی نذر ہیں ۔ وقت گذر گیا۔ افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں کی آواز ختم ہوگئی۔ نائیجریا کے دلسوز مصائب جو محبان آل رسول اور ان کی اتباع کرنے والے ہیں ہمیشہ باقی رہیں گے۔ اسپین پر حملہ کرنے والوں کی نسلیں راستہ روکنے پر مامور ہیں لیکن آل محمد علیہم السلام کی تبلیغات کا اثر تیزی سے ذہنوں میں بس رہا ہے۔ آج دنیا تباہی کے ڈھیر پر ضرور کھڑی ہے لیکن کوئی منتقم خون حسین ایک حسین احساس کی زیبائشوں کے ساتھ جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو لوح و قلم کی ابھرتی ہوئی تحریر اس کے لبوں کا بوسہ دیتی ہیں ۔
آئی ایس آئی ایس آجis ہے۔کل Wasکے قعر مذلت میں اپنے گھنائونے منصوبے کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ سچائی ثبات قدمی نکھرے ہوئے اسلامی تہذیب کے جواہر۔ کربلا کی قربان گاہ سے فرزند زہرا کی فوج کے لیے سائبان بن کر آجائیں گے۔
آفتاب امامت کی تنویریں جہاں تاب ہو کر ابھر آئیں گی۔
آپ حضرت حجت علیہ السلام كا ظہور منتظرین كی بے چینی، بڑھتی ہوئی ظلم كی تحریكیں سب كچھ ہمارے امام حاضر علیہ السلام كی نظر میں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ كے ظہور میں تعجیل فرمائے۔