قاضی نوراللہ مرعشی شوشتری، قافلۂ علم و جہاد و شہادت کے قافلہ سالاروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ایک مرد جاوید کہ جنہوں نے ’’مدادُ العلماء‘‘ کو ’’دماء الشھداء‘‘ کے ساتھ ملادیا اور ’’بل احیاء‘‘ کے نمونۂ افتخار کو حاصل کرلیا۔
آپ کی ولادت ۹۵۶ھ میں شوشتر ایران میں ہوئی۔۲۳ سال کی عمر میں آپ نے ۹۷۹ھ میں مشھد میں سکونت اختیار کی اور پھر ۹۹۲ھ ،شوال کے اوائل میں مشھد سے ہندوستان کے لئے نکلے اور لاہور میں دربار اکبر میں پہونچے اور دو سال بعد عہدۂ قاضی پر فائز ہوئے۔
۲۶ ربیع الآخر ۱۰۱۹ھ کی آدھی رات کو ۶۴ سال کی عمر میں آپ کی شھادت واقع ہوئی اور آگرہ میں تدفین ہوئی۔انشاءاللہ ایک تفصیلی کتاب آپ کی حیات اور کارناموں پر شائع کریں گے۔
اس کتاب کے تعارف کے لئے، اس سے پہلے دو کتابوں اور ان کے مصنفین کا تذکرہ ضروری ہے۔ احقاق الحق کیوں تحریر وجود میں آئی؟ در اصل شیعہ جید عالم حسن بن یوسف بن زین الدین علی بن المطہر الحلّی مشہور بہ علامہ حلّی (۶۴۸ تا ۷۲۶ہجری) نے سلطان محمد خدا بندہ جو سنّی تھا اور اپنی ایک بیوی سے ناراض ہو کر تین طلاق دے دیا تھا، نے علامہ حلی سے استبصار کیا اور شیعہ ہوگیا اور علامہ حلی کا قدر دان اور مرید ہوگیا پھر ان سے درخواست کیا کہ اس کے لئے ایک کتاب لکھیں جو دلائل عقلی اور نقلی سے تشیع کوثابت کرے۔ علامہ نے سلطان کی دعوت کو قبول کیا اور کتاب لکھی : ’’ نہج الحق و کشف الصدق ‘‘۔
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ بہت سی کتابوں کی ردّ لکھی گئی ہے لیکن علامہ حلّی کے مقام و مرتبہ اور ان کے نفوذ اور دنیائے اسلام میں ان کی کتابوں کے اثرورسوخ نے کسی کو ان کی زندگی میں ان پر رد لکھنے کا موقع نہ دیا یہاں تک کہ ان کی رحلت کے تقریباً دو سو سال بعد ایک سنی متعصب عالم فضل بن روزبہان خنجی شیرازی اصفہانی کاشانی جو کہ شافعی المذہب تھا، اس نے ’’ نہج الحق و کشف الصدق ‘‘ کی رد لکھی اور اس کا نام رکھا : ’’ابطال نہج الباطل‘‘ اس کی تاریخ تالیف ۹۰۹ھ ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں علامہ کی پوری کتاب ’’ نہج الحق و کشف الصدق ‘‘ ذکر کیا ہے اور ان کی عبارتوں پر اشکال وایراد پیدا کیا ہے۔ اس کی اس حرکت سے بہت سے شیعہ علماء نے قلم اٹھایا اور جواب دیا۔ منجملہ قاضی نور اللہ شوشتری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس کی ردّ میں کتاب لکھی اور اس کا نام رکھا ’’احقاق الحق و ازھاق الباطل‘‘ اس طرح کتاب احقاق الحق میں علامہ کی کتاب نہج الحق و کشف الباطل کا متن، فضل بن روز بہان کی کتاب ابطال نہج الباطل کے متون كے ساتھ آئے ہیں اور قاضی نور اللہ نے فضل بن روز بہان کے متون کی ردّ تحریر فرمائی ہے۔
سبک و روش احقاق الحق
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا علامہ حلی کی کتاب پر فضل بن روز بہان نے ردّ لکھی ہے اور اس کی ردّ پر قاضی نور اللہ نے ردّ لکھی ہے، تو آپ نے طریقہ یہ رکھا کہ جہاں علامہ حلی کے متون کو پیش کیا ہے، اس کے آگے لکھا : قَالَ الْمُصَنِّفُ رَفَعَ اللہُ دَرَجَتَہٗ پھر جب فضل ابن روز بہان کے متن کو پیش کیا تو لکھا: قَالَ النَّاصِبُ خَفَضَہُ اللہُ پھر اس کے بعد جب اپنی بات کہنا چاہی تو لکھا: اَقُوْلُ یعنی میں کہتا ہوں ۔
اس طرح آپ نے پوری کتاب میں علامہ حلی کی ہر بات کوثابت کیا ہے اور فضل بن روزبہان کی باتوں کو ردّ کیا ہے۔
كتاب احقاق الحق علامہ مجلسی كی نظر میں
علامہ مجلسی رحمة الله عليه نے بحار الانوار کی پہلی جلد میں مقدمہ میں مصادر الکتاب اورتوثیق المصادر کے عنوان سے دو مضمون لکھے ہیں جس میں آپ نے ان کتابوں اور ان کے مصنف و مولف کا تذکرہ کیا ہے جس سے بحار الانوار کو لکھنے میں استفادہ کیا ہے۔ لہٰذا مصادر الکتاب ص۳۲ پر کتاب احقاق الحق کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں :
وَکِتَابُ اَحْقَاقِ الْحَقِّ وَ كِتَابُ مَصَائِبِ النَّوَاصِبِ وَ كِتَابُ الصَّوَارِمِ الْمُہْرِقَۃِ فِیْ دَفْعِ الْصَّوَاعِقِ الْمُحْرِقَۃِ وَ غَیْرُہَا مِنْ مُؤَلِّفَاتِ السَّیِّدِ الْاَجَلِّ الشَّہِیْدِ الْقَاضِیْ نُوْرُ اللہَ التُّسْتَرِیْ رَفَعَ اللہُ دَرَجَتَہٗ.
اسی طرح توثیق المصادر کے عنوان میں ص ۴۱ پر یوں لکھتے ہیں :
وَ السَّیِّدَ الرَّشِیْدَ الشَّہِیْدَ التُّسْتَرِیْ حَشَرَہُ اللہُ مَعَ الشُّہْدَاءِ الْاَوَّلِیْنَ بَذَلَ الْجَہْدِ فِیْ نُصْرَۃِ الدِّیْنِ الْمُبِیْنِ وَ رَفْعِ شِبْہِ الْمُخَالِفِیْنَ وَ كُتُبُہٗ مَعْرُوْفَۃُ لٰكِنْ اَخَذْنَا اَخْبَارَہَا مِنْ مَاخَذِہَا.
اِن دونوں عبارتوں پر توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ علامۂ مجلسی نے بحار الانوار کی تالیف میں احقاق الحق اور قاضی شہید کی دوسری کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ البتہ غیر مستقیم طریقہ سے ان کی کتابوں کو ماخذ قرار دیا ہے۔ آپ کے لئے السید الاجل،شہید القاضی الرشید جیسے القاب استعمال کئے ہیں اور دعائیں کی ہیں کہ خدا آپ کے درجات کو بلند کرے اور خدا آپ کو شہدائے اولین کے ساتھ اٹھائے کیونکہ آپ نے دین مبین کی نصرت میں اور مخالفین کے شبہات کو ردّ کرنے میں جدو جہد کی۔
احقاق الحق میں امام مہدی علیہ السلام کا تذکرہ
کتاب احقاق الحق کے مکمل تعارف کے لئے مضمون نہیں بلکہ ایک مفصل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے لہٰذا ہم مجبور ہیں کہ صرف اس حصہ کا تعارف کریں جس میں امام زمانہ کا تذکرہ ہے۔ بقیہ کے تعارف کے لئے آئندہ پر موکول کرتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ علامہ حلی نے سلطان محمد خدابندہ کی درخواست پر کتاب ’’نہج الحق و کشف الصدق‘‘ لکھی اور اس کی فرمایش تھی کہ شیعہ عقاید کو نقلی اور عقلی دلیلوں کی روشنی میں بیان کریں ۔ لہٰذا علامہ حلی نے کتاب میں توحید،عدل، نبوت، امامت اورقیامت جیسے اہم عقاید کو مدلل بیان فرمایا۔ کتاب کا آغاز توحید کی بحث میں ’’ اِدراک‘‘ سے کیا ہے جو کہ ایک بہت ہی اہم اور مشکل بحث ہے۔ کتاب کا آغاز اس طرح ہوا ہے: اَلْمَسْأَلَۃُ الْاُوْلٰی فِیْ الْاِدْرَاكِ: وَ فِیْہِ مُبَاحِثٌ: اَلْاَوَّلُ…..۔ مبحث اول میں آپ نے ادراک کے معنی و مفاہیم کو بیان کیا ہے۔ روز بہان نے علامہ حلی کے نظریہ کو ردّ کیا اور لکھا کہ یہ سب اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان رویت خدا کے بارے میں اختلافی مسئلہ ہے۔ اور گروہِ امامیہ نے انہیں کی پیروی کی ہے اور پھر اس نے علامہ کے بیان کردہ معانی و مفاہیم ادراک کو ردّ کیا۔ شہید قاضی نور اللہ نے اس کے ایک ایک جملہ کا جواب دیا ہے مثلاً لکھا کہ علامہ حلی نے مبحث اول میں ادراک کی بحث میں ’’ احکام علم ضروری و كسبی‘‘ کی وضاحت فرمائی ہے۔ (جوکہ روز بہان کو سمجھ میں نہ آئی اور اسے ردّ کیا ہے) اسی طرح آپ نے جواب دیا کہ امامیہ معتزلہ کے تابع نہیں ہیں بلکہ ائمہ سے اخذِ مطلب کرتے ہیں ۔
علامہ حلی نے امامت کی بحث میں امیر المومنین علیہ السلام کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے بطور نص ۸۴ آیتیں قرآن مجید سے نقل کی ہیں اور فضل ابن روز بہان نے ہر ایک کو بے ہودہ اور لغو دلیلوں سے ردّ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے بے ھودہ اور لغو اس لئے لکھا کہ شہید قاضی نور اللہ نے اس کے پوچ اور بے ہودہ دعووں کو قاطع دلیلوں سے ردّ کیا ہے۔
پھر علامہ حلی نے حدیثوں کے ذریعہ امامت امیر المومنین علیہ السلام کو ثابت کیا ہے اور اس ذیل میں ۲۸حدیثیں نقل کی ہیں جو عامہ اور خاصہ کی کتابوں میں موجود ہیں ، لیکن روز بہان نے اپنے زعم ناقص میں ان حدیثوں کو یا تو جعلی قرار دیا یا توجیہ و تاویل کے ذریعہ کسی اور مفہوم پر حمل کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ۲۸ ویں حدیث ’’ اثنی عشر خلیفہ ‘‘ والی حدیث ہے۔ ہم اسی حدیث پر روزبہان كی رد اور قاضی نور اللہ كے جواب كو بیان كریں گے۔ علامہ حلی كا بیان ملاحظہ ہو:
و أما السنة: فالأخبار المتواترة عن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ الدالة على إمامته هي أكثر من أن تحصى و قد صنف الجمهور و أصحابنا في ذلك و أكثروا و لنقتصر هاهنا على القليل فإن الكثير غير متناه و هي أخبار: الاول
اور جہاں تک سنت یعنی حدیثوں کی بات ہے تو نبی سے متواتر حدیثیں اُن (علی علیہ السلام ) کی امامت پر دلالت کرتی ہیں اور وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اور یقینا جمہور و ہمارے اصحاب (شیعہ) نے ان میں سے لکھا ہے اور ان حدیثوں کی بہتات ہے۔ ہم اسی قلیل پر اکتفاکرتے ہیں کیونکہ کثیر غیر متناہی اور لا محدود ہے۔ وہ حدیثیں یہ ہیں ۔ پہلی حدیث۔ حدیثُ اتحادِ النُّورَینِ۔الثانی : حَدیثُ الدَّارِ
الثامن و العشرون: في صحيح مسلم و البخاري في موضعين بطريقين عن جابر و ابن عيينة قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ لا يزال أمر الناس ماضيا ما وليهم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش و في رواية عن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ لا يزال أمر الإسلام عزيزا إلى اثني عشر خليفة كلهم من قريش و في صحيح مسلم أيضا لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة و يكون عليهم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش و في الجمع بين الصحاح الستة في موضعين قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ هذا الأمر لا ينقضي حتى يمضي فيهم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش و كذا في صحيح أبي داود و الجمع بين الصحاح الستة و قد ذكر السدي في تفسيره و هو من علماء الجمهور و ثقاتهم قال لما كرهت سارة مكان هاجر أوحى الله إلى إبراهيم فقال انطلق بإسماعيل و أمه حتى تنزله بيت النبي التهامي يعني مكة فإني ناشر ذريتك و جاعلهم ثقلا على من كفر بي و جاعل منهم نبيا عظيما و مظهره على الأديان و جاعل من ذريته اثني عشر عظيما و جاعل ذريته عدد نجوم السماءو قد دلت هذه الأخبار على إمامة اثني عشر إماما من ذرية محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و لا قابل بالحصر إلا الإمامية في المعصومين و الأخبار في ذلك أكثر من أن تحصى ’’انتہي‘‘
صحیح مسلم اور بخاری میں دو مقام پر دو طریقوں سے، جابر اور ابن عیینہ سے آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : لوگوں کا امر (دین) ایسے ہی چلتا رہے گا یہاں تک کہ بارہ خلیفہ ان پر والی ہوں گے۔ وہ سب قریش سے ہوں گے اور ایک روایت میں نبی سے وارد ہوا ہے: اسلام ہمیشہ قوی و عزیز ہوگا یہاں تک کہ بارہ خلیفہ ہوں گے وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے اور صحیح مسلم میں اسی طرح آیا ہے۔ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت واقع ہو جائے اور لوگوں پر بارہ خلیفہ ہوں گے، وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے اور الجمع بین الصحاح الستہ میں دو جگہوں پر آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: یہ امر یقینا ختم نہ ہوگا یہاں تک کہ اس میں بارہ خلیفہ گذریں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے، اور اسی طرح صحیح ابی داود اور الجمع بین الصحیحین میں آیا ہے اور سدی نے اپنی تفسیرمیں ذکر کیا ہے اور وہ علماء جمہور میں سے ہیں اور ان میں معتبرہیں ، کہتے ہیں : جب سارہ نے منزلت ہاجرہ کو ناپسند کیا تو اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل پر وحی نازلکیکہ اسماعیل اور ان کی والدہ کو لے کر جائیں یہاں تک کہ میرے گھر مکہ کے پاس انہیں چھوڑیں کہ میں ان کی ذریت کو آسمان کے ستاروں کے برابر پھیلانے والا ہوں اور انہیں ان لوگوں کے لئے ثقیل و گرانقدر بنانے والا ہوں جو میرا انکار کرتے ہیں ۔
یقیناً یہ حدیث محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی ذریت سے بارہ اماموں كے ہونے پر دلالت کرتی ہے اور یہ حدیثیں صرف فرقۂ امامیہ کے ائمہ معصومین سے نقل ہونے تك محدود نہیں ہیں اور اس سلسلہ میں روایتیں شمار سے زیادہ ہیں ۔ ’’انتہی‘‘
قَالَ النَّاصِبُ خَفَظَہُ اللہُ (فضل بن روز بہان، خدا اسے پست و ذلیل کرے) نے کہا!یعنی اس نے علامہ حلی کے مندرجہ بالا متن پر تنقید و ایراد شروع کیا اور لکھا: میں کہتا ہوں :فضل بن روز بہان نے علامہ حلی کے متون پر اس طرح اعتراض کیا ہے:
’’قریش سے اثنی عشر خلیفہ ‘‘کے بارے میں احادیث میں جو کچھ وارد ہوا ہے، صحاح میں جابر بن سمرہ سے نقل روایت صحیح ہے، لیکن ابن عیینہ نہ تو صحابی ہے اور نہ ہی تابعی بلکہ ممکن ہے کہ سلسلہ رواۃ میں سے کوئی ہووے۔ انہیں (علامہ حلی کو) علم حدیث اور علم اسناد کی معرفت نہ ہونے کیو جہ سے یہ کیا کہ ابن عیینہ اور جابر كو روایت کرنے میں متقابل وہم مرتبہ كر دیا۔ پھراثنی عشر خلیفہ کی عدد کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا ہے تو اس میں علماء نے اس کے معنی میں اختلاف کیا ہے اور ان میں سے بعض کہتے ہیں : رسول کے بعد خلفاء ہیں اور وہ بارہ ہیں اورتین سو سال حکومت کریں گے اور اس کے بعد فتنے واقع ہوں گے اور یہی معنی ہیں ۔ قریش کے اثنی عشر خلیفہ کے دور خلافت میں امر دین کے عزیز و قوی ہونے کے ۔
اور بعض کا نظریہ ہے کہ: قریش سے اثنی عشر خلفائے صالحین کی عدد یوں ہے کہ خلفائے راشدین اور وہ پانچ ہیں اور عبد اللہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز اور پانچ خلفائے بنی عباس۔ پس یہ اشارہ ہے خلفائے قریشیہ میں صلحاء کی طرف اور جہاں تک بات ہے اس حدیث کا ائمہ اثنی عشر پر حمل کرنے کا، تو اس سے مراد ہے خلافتِ وراثت علم و معرفت اور حجت اور منصب نبوت کا ظاہر کرنااور پوری طرح قائم رکھنا ہے، پس اس معنیٰ کو صحیح اور جائز قرار دینے میں کوئی مانع نہیں ہے بلکہ یہ معنیٰ ’’ حسن ‘‘ یعنی اچھا ہے اور زعامت کبریٰ اور عظیم حکومت کا تصور کرنا، یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اثنی عشر میں دو لوگ صاحب زعامت کبریٰ تھے اور وہ علی اور حسن رضی اللہ عنہما تھے اوربقیہ کے لئے ہرگز زعامت کبریٰ کا دفاع نہیں ہوا ہے، چاہے دشمن کہیں : وہ لوگ خلیفہ تھے لیکن لوگوں نے انہیں ان کے حق سے روک دیا:میں (روزبہان) قبول کرتا ہوں کہ وہ ہرگز خلفائے بالفعل نہ تھے لیکن بالقوہ اوربالاستحقاق وہ خلیفہ تھے اور حدیث کے ظاہری معنی ہیں کہ وہ خلیفہ ہیں اور قائم ہیں حکومت و ولایت کے ساتھ ورنہ کیا فائد ہے ان كی خلافت میں دین کے قائم ہونے کی بات کا ؟ اور یہ ظاہر معنی ہیں واللہ اعلم۔
پھر جو کچھ حضرت علی علیہ السلام كی شان میں اُن كی خلافت كے لئے نص كے طور آیات و احادیث كو نقل كیا ہےاور اسكی بنیاد پراستدلال کرنا چاہا ہے، تو میں جانتا ہوں کہ ان میں سے اکثر، دعوے سے بہت دور ہیں اور ان نصوص اور مدعی کے دعوے میں اصل میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے اور یہ نصب خلافت کے لئے درست نہیں ہے۔ یقینا میں جانتا ہوں کہ یہ آیات و روایات نص پر دلالت نہیں کرتیں ۔ پس یہ سب ثابت نہیں کرتا ان کے مدّعا پر تو پھر اس قول کا کیا فائدہ: وَالْاَخْبَارُ فِیْ ذٰلِكَ اَكْثَر من ان تحصی(اور روایات اسی سلسلہ میں شمار سے بہت زیادہ ہیں )؟
قاضی نور اللہ کا جواب
ہم یہاں شہید قاضی رحمة الله عليه کے جواب کا خلاصہ نقل کرتے ہیں :
روز بہان کی ملامت آمیز باتوں اور حملوں پر توجہ کرنے سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں :
۱۔ اس کا یہ کہنا کہ جابر ابن سمرہ اور ابن عیینہ متقابل اور ایک درجہ کے راوی نہیں ہیں تو اس كا یہ اعتراض مردود ہے کیونکہ مصنف (علامہ حلی) نے انہیں متقابل یعنی وہ دونوں برابر کے صحابی اور پیغمبر سے نقل حدیث کرنے والے تھے، قرار نہیں دیا ہے۔ ناصب (روز بہان) نے یہی مطلب بیان کیا ہے جب کہ ابن عیینہ نے جو حدیث نقل کی ہے وہ منقطع ہے اور اس کے بر عکس حدیث جابر متصل ہے۔
۲۔ اس کا یہ کہنا کہ تاویل حدیث میں اسلاف میں بعض اکابر المتكبرین موافق ہیں تو اس بات سے کوئی مومن عاقل راضی نہ ہوگا، خلفائے ثلاثہ کے فساد سے ہم آگاہ ہیں ۔
باغی و عاوی معاویہ اور شراب خوار و ولد الزنا یزید قاتل امام حسین علیہ السلام کا مدینہ میں صحابہ و تابعین کا قتل اور ان کی عورتوں کو حلال قرار دینا اور ولید بن یزید ابن عبد الملک زندیق مرتد جس نے قرآن مجید کو نشانہ بنایا اور اسے پھینک دیا اور اس پر تیروں کی بارش کردی۔ اور اسی طرح کے خلفاء اور ائمہ دین جن کے ذریعہ سے اسلام کو قوی و عزیز ہونے کا خیال روز بہان نے پیش کیا تو یہ وہ باتیں ہیں جو مسلمان کی زبان پر نہیں آتی۔
مطاعن معاویہ ہیں ہم بتائیں گے کہ خود ناصب نے معاویہ کو خلیفہ نہیں ملوک اسلام میں بتایا ہے اور ملوک (بادشاہ) اپنے اعمال میں مطاعن سے خالی نہیں ہیں تو پھر کس طرح ناصب روز بہان کے نزدیک یہ تاویل درست ہوگی جس کا خود اس نے اعتراف کیا ہے۔اسی طرح خلفائے دین کے نظریہ کے تحت احکام دین کو خصوصاً شافعیوں کے نزدیک تین سو سال بعد سے ہمارے زمانے تک معطل ہونا چاہئے۔
۳۔ روز بہان نے جو تاویل پیش کی ہے مردود ہے کیونکہ عبد اللہ بن زبیر کو صلحائے خلفائے مكبرہ میں شمار کیا ہے، صریحاً یہ آدمی جنگ جمل میں بقیہ باغی اور مہاجرین کے ساتھ عداوت اہل بیت علیہم السلام میں آگے آگے تھا جیسا کہ صاحب استیعاب نے لکھا ہے : یقینا اُس (عبد اللہ بن زبیر) میں خلل تھا اور خلافت کے لئے صحیح نہیں تھا کیونکہ وہ بخیل، سخت بدبو دار، بد اخلاق، شدید قسم کا حاسد، اس نے محمد بن حنفیہ کو در بدر کردیا تھا اور عبد اللہ بن عباس کو طائف جانے سے روک دیا تھا اور علی بن ابی طالب ؉نے فرمایا: زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت کے ساتھ تھے یہاں تک کہ عبداللہ جوان ہوگیا ’’ انتہی‘‘۔
عبد اللہ بن زبیر کا فساد ظاہر ہے، وہ کبھی نادم نہ ہوا اپنے برے کاموں سے اور عداوت اہل بیت علیہم السلام پرمصر رہا۔ صاحب کشف الغمہ نے لکھا ہے کہ وہ اپنی خلافت باطلہ کے زمانے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر خطبوں میں صلوات نہیں بھیجتا تھا، یہ کہا جاتا ہے کہ جب ذکر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہل بیت علیہم السلام آتا تھا تو تکبر سے ناک چڑھاتا تھا۔
اسی طرح یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ تمام خلیفہ کا یکے بعد دیگرے ہونا ضروری ہے لیکن روز بہان کی بے تکی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو صالح خلیفہ کے درمیان کا زمانہ خلیفہ سے خالی ہوگا۔
۴۔ روز بہان کا سوال و جواب تردید کی شکل میں جو اس نے کیا ہے، مردود ہے کیونکہ خلافت و امامت امور دین و دنیا میں ایک عمومی ریاست ہے نبی کی نیابت میں اور اس کی فعلیت و وجود و حقیقت یقینا نص و تعیین کے ذریعہ ہے نہ کہ حکم کے جاری کرنے اور امور میں تصرف کے استعمال سے اگرچہ خلیفہ کی حقیقت جو اس نے ذکر کیا ہے اسی سے لازم آتا ہے کہ ابو بکر عربوں کے زکات ادا نہ کرنے کی حالت میں خلیفہ نہیں ہوسکتے اور اسی طرح اہل سنّت کے نزدیک عثمان اپنے گھر میں محاصرہ کی وجہ سے خلیفہ نہیں ہوسکتے۔ اور اسی طرح علی علیہ السلام تین خلفاء کے تغلّب کے زمانہ میں خلیفہ نہ ہوں گے، جب کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ خلیفہ اور امام منصوص من اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہے چاہے امت کے بعض اختیار سے انہیں دور ركھا جیسا کہ سنّی کہتے ہیں ، یا خلیفہ و امام بالفعل جب کہ وہ امور میں تصرف نہیں رکھتے جیسا کہ نبی نے اپنے نواسوں کے بارے میں فرمایا:
’’میرے یہ دونوں بیٹے امام ہیں چاہے وہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں ۔‘‘
شہید قاضی نے صاحب کشف الغمہ کے حوالے سے مزید لکھا ہے کہ اللہ نے جن لوگوں کو خلافت اور جس منصب کے لئے چن لیا ہے اس پر دوسرے کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔انبیاء علیہم السلام کی نبوت کو جھٹلانے سے نہ تو ان کی نبوت پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی اس میں شک واقع ہوگا اور نہ تقبیح کرنے والوں کی تقبیح سے ان کے چہرے بگڑیں گے۔ اور نہ ہی معاندین کی عداوت سے ان کی شرافت میں نقص آئے گا۔ امام نے فرمایا: مومن کے مرتبہ میں کمی نہیں آتی جب وہ مظلوم ہو، وہ اپنے دین میں شبہ نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے یقین میں کمی آتی ہے۔
روز بہان ناصب کا قول کہ : سلمت انہم لم یكونوا خلفاء بالفعل بل بالقوۃ…..(میں تسلیم کرتا ہوں وہ لوگ بالفعل خلیفہ نہیں ہیں بلکہ بالقوہ خلیفہ ہیں …) کثرت سے غلطی میں ڈالنے والا ہے اور اُس كی اس بات سے سوائے بے وقوف اور بچوں کے کوئی دھوکا نہیں کھا سکتا۔
اور روز بہان کا یہ کہنا: فماالفائدۃ فی خلافتہم فمدفوع… اس سلسلہ میں افضل المحققین خواجہ نصیر الدین طوسی رحمة الله عليه اپنی کتاب التجرید میں لکھا ہے کہ : ان کا وجود لطف ہے اور ان کا تصرف لطف ہے اور ان كا غائب ہونا ہماری وجہ سے ہے یعنی امام کا وجود لطف ہے چاہے وہ تصرف و حکومت کریں یا تصرف و حکومت نہ کریں ۔امیر المومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ : زمین خالی نہ ہوگی قائم سے، وہ اللہ کی حجت ہے چاہے ظاہر و مشہور ہو یا خائف و پوشیدہ ہو، تا کہ اللہ کی حجتیں اور اس کی نشانیاں باطل نہ ہوں …پس امام حسین علیہ السلام امام معصوم تھے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے خلق کے لئے لطف عظیم تھے…اسی طرح زکریا علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے خلق پر دو لطف تھے، لوگوں نے ان کو قتل کرکے ضلالت کو ہدایت پر ترجیح دی، الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى۰۠ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۱۶ اور اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام اور ائمہ علیہم السلام کے واقعات میں ملتا ہے۔
۵۔ روز بہان کا یہ اعتراض و تردید کہ علامہ حلی کی نقل کردہ آیات و روایات پر كہ جس کے ذریعہ آپ نے خلافت کے وجود نصّ پر استدلال کا ارادہ کیا ہے، یہ استدلال ان کے دعوے کے لئے اصلاً مناسب نہیں ہے۔ شہید قاضی فرماتے ہیں روز بہان کا یہ تَوَہُّم مردود ہے اس لئے کہ مصنف علامہ حلی نے علی علیہ السلام کی خلافت کے استدلال کے لئے صرف انہیں روایات پر انحصار نہیں کیا بلکہ اس کے علاوہ ان كی عصمت و افضلیت پر نص موجود ہیں اور جو فضیلتیں امام علی علیہ السلام میں ہیں وہ غیر علی علیہ السلام میں ہرگز نہیں ہیں ۔ ان تمام آیات و روایات کو ہم نے ان کی جگہ پر بیان کیا ہے۔ روز بہان نے مصنف (علامہ حلی ) کے مقاصد کو یا تو سمجھا نہیں یا پھر تجاہل سے یعنی جان بوجھ کر عوام میں اس طرح کی بات کی ترویج اوراپنے بہائم اصحاب کی سخت پیاس کو گمراہ کن باتوں سے سیراب کرنا چاہتا ہے۔
روزبہان ناصب اور اس كے پیرووں كو جنہوں نے امیر المومنین علیہ السلام كی خلافت بلا فصل كا انكار كیا اور ان كی ذریت سے سلسلہٴ ائمہ اثنی عشر كو ردّ كیا، ان حضرت عجل اللہ فرجہ الشریف كے ذریعہ ان سے انتقام لے۔ اور شہید قاضی نور اللہ شوشتری نور اللہ مرقدہ اور تمام شہدائے راہ حق كے خون كا انتقام لے۔
حدیث اثنی عشر خلیفہ كے سلسلہ میں مزید معلومات كے لئے المنتظر كے گذشتہ شماروں كا مطالعہ فرمائیں نیز ملحقاتِ احقاق الحق جلد ۱۳، تالیف علامہ آیت اللہ السید شہاب الدین مرعشی كا مطالعہ كریں ۔
وہ طلاب اور وہ جوان جو دین مبین اسلام کی بقا اور اس کی تہذیب کے رائج کرنے کی طرف متوجہ اور کوشاں ہیں ، ان سے بالخصوص راقم الحروف مستدعی ہے کہ وہ قافلے جو سلسلہ وار شہید ثالث رحمة الله عليه کی زیارت کے غرض سےآپ کی قبرمطہر کے قریب جاتے ہیں ، دعا مانگتے ہیں ، وہ شہید راہ حق کی عظمت و بزرگی کی آفاقیت کو قافلہ میں شریک جوانان اور طالب علموں کے درمیان اس طرح بیان فرمائیں کہ کچھ گروہ بنا لیں اور اس طرح بیان کریں کہ ان کے قلوب میں یہ حقیقتی شمعہ جلوہ گر کر دیں ۔
علم کی شمعیں رہِ حق میں جلا دے یا رب
روشنی حرف کے دامن میں سجا دے یا رب
خدایا ! امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما اور شہیدان راہ حق کے خون کا انتقام لے۔