وَ رَبَّ الْکُرْسِیِّ الرَّفِیْعِ
لفظ رَبّ پر پچھلے شمارے میں گفتگو ہو چکی ہے۔ اب لفظ کُرْسِیْ پر مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کرینگے ، ان شاء الله۔
عربی لغت میں کرسی اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس پر اعتماد کیا جائے یا جس پر بیٹھا جائے۔ قرآن کریم میں لفظ کرسی دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ سوره المبارکہ البقرہ (آیہ ۲۵۵ ) میں ارشاد ہوتا ہے:
وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضِ
اسکی (یعنی الله کی) کرسی آسمان اور زمین کا احاطہ كئے ہوئے ہے۔
اب آئے تعلیمات محمّد اور آل محمّد علیہم السلام کی روشنی میں کرسی سے کیا مراد ہے۔
کرسی علم خدا ہے
حفص بن غیاث روایت کرتا ہے کہ میں نے صادق آل محمّد امام صادق علیہ السلام سے اس آیہ ’’وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضِ‘‘ كے بارے میں سوال کیا ۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ
اس سے مراد خدا کا علم ہے ۔
(التوحید، شیخ صدوق، ص۳۲۷)
دوسری روایت میں جب فضیل بن یسار، جن کے بارے میں امام علیہ السلام نے فرمایا کےفضیل ہم اہل بیت میں سے ہیں ، نے آپ سے کرسی کے متعلق سوال کیا، تو آپ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا
يَا فُضَيْلُ كُلُّ شَيْءٍ فِي الْكُرْسِيِّ السَّمَاوَاتُ وَ الْاَرْضُ وَ كُلُّ شَيْءٍ فِي الْكُرْسِيِّ
اے فضیل ہر شیء کرسی میں ہے، آسمان اور زمین اور ہر چیز کرسی میں ہے ۔
(التوحید، شیخ صدوق، ص ۳۲۷)
تیسری روایت میں زرارہ ، جو امام صادق علیہ السلام کے حواری میں ہیں ، نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ آیا آسمان اور زمین کرسی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں یا کرسی آسمان اور زمین کا احاطہ کے ہوئے ہے؟ امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا
بَلِ الْكُرْسِيُّ وَسِعَ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضَ وَ الْعَرْشُ وَ كُلَّ شَيْءٍ وَسِعَ الْكُرْسِيُّ
نہیں بلکہ کرسی آسمان اور زمین اور عرش کا احاطہ كئے ہوئے ہے ، کرسی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
(التوحید، شیخ صدوق، ص۳۲۷)
جاثلیق کے سوال کے جواب میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا
کرسی آسمان اور زمین اور جو کچھ انکے درمیان ہے اور جو کچھ زیر خاک ہے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چاہے تم بلند گفتگو کرو یقیناً خدا ہر راز اور مخفی چیز کا جاننے والاہے، اور یہ آیہ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَ الْاَرْضِ اسی حقیقت کی طرف دلالت کر رہی ہے ۔
(الکافی ،الشیخ محمّد بن یعقوب الکلینی ، ج ۱، ص ۱۲۹،ح ۱)
مندرجہ بالاروایات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جب کرسی کو الله جل جلالہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اسے مراد الله کا علم ہے۔ جب ہم لفظ کرسی یا عرش الله کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا ہے کہ کرسی یا عرش ہمارے تخت یا کرسی کی طرح ہے اور الله اس پر بیٹھا ہوا ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ الله کے جسم ہے اور ہم آخرت میں اسکے جسم کا مشاہدہ کرینگے۔ الله ایسی صفات سے پاک اور منزہ ہے ۔
لفظ الرفیع کرسی کی صفت ہے۔ رفیع لغت کے اعتبار سے اسم مفعول ہے یعنی جسکو بلند کیا گیا ہو یعنی الله کا علم اتنا بلند اور بالاہے کہ کسی بھی بشر کی رسائی اس تک نہیں مگر وہ افراد جنکو الله نے منتخب کیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں الله نے اپنے اس علم فعلی کو وہ بلندی عطا کی ہے کہ کوئی بھی شخص اسکے بارے میں فکر نہیں کر سکتا مگر اس ذات کے جس نے منبر پر جا کر اعلان کیا
سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِيْ
پوچھ لو مجھ سے قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ۔
جناب امیر المومنین علیہ السلام نے خطبہ شقشقیہ میں فرمایا :
اَنَّ مَحَلِّيْ مِنْهَا مَحَلَّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَىْ يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى اِلَيَّ الطَّيْرُ
میرا رشتہ خلافت سے ویسا ہی تھا جیسا آٹے کی چکّی اسکے محور سے ہوتا ہے۔ علم کا سیلاب مجھ سے جاری تھا اورکوئی پرندہ مجھ تک پہونچ نہیں سکتا ہے (یعنی کسی کی فکر میری حقیقت اور میرے علم تک نہیں پہونچ سکتی ہے)۔
وائے ہو حب دنیا اور حب منصب کا، لوگوں نے علی علیہ السلام کو ظاہری خلافت سے محروم کر کے مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہالت اور پستی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے چھوڈ دیا ۔
وَ رَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ
بحر کا مطلب ہے سمندر یا اقیانوس ، اسکی جمع ہے اَبْحُرٌ و بُحُورٌ و بِحار۔
بحر مسجور آسمان کے سمندر کا نام ہے جو عرش کے نیچے ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں
وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ بَحْرٌ فِي السَّمَاءِ تَحْتَ الْعَرْشِ
(بحار الانوار، ج ۵۵، ص۱۰۷، ح۵۴)
یہ وہ سمندر ہے جو تمام عالمین کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ زید بن وہب روایت کرتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس طرح دعا فرمائی
… وَ رَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ … الْمُحِيطِ بِالْعَالَمِينَ
(بحار الانوار، ج۹۷، ص۳۷، ح۳۶)
اور اسے قیامت کے دن بھرا جائےگا۔
(تفسیرعلی بن ابراہیم القمی)
وَ مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الزَّبُوْرِ
لفظ منزل اسم فاعل ہے باب افعال کا۔ یعنی نازل کرنے والا۔ الله تعالی نے تمام آسمانی کتابیں نازل کیں لوگوں کی ہدایت کے لئے ۔ اسنے کل ۱۰۴کتابیں نازل کیں ۔ جن میں ۴ مشہور ہیں ’توریت، انجیل، زبور اور قرآن‘۔ اس دعا میں قرآن کریم کا ذکر بعد والے جملے میں ہے، غالبا اسکی اہمیّت اور عظمت کے اعتبار کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔
وَ رَبَّ الظِّلِّ وَ الْحَرُوْرِ
سایہ اور حرارت کا پروردگار ۔
ان دونوں لفظوں کا تعلّق سورج یا نور یا روشنی سے ہے۔ جس مقام پر سورج یا نور یا روشنی کے ہوتے اس کا براہ راست اثر نہ ہو یا اسکے حرارت کی شدّت سے پناہ لی جائے اسے ظل یا سایہ کہتے ہیں ۔
لفظ ظل کا مادہ ظ ل ل ہے اور عربی صرف میں اسے مضاعف کها جاتا ہے۔ یعنی وہ فعل جس کے مادہ میں کوئی حرف دو مرتبہ استعمال کیا گیا ہو اور یہ فعل کے وزن پر آیا ہے۔ اسکے مشتقات قرآن کریم میں پینتیس (۳۵) مرتبہ مستعمل ہوے ہیں ۔
حرور صیغہ مبالغہ ہے جسکا مطلب ہوتا ہے بہت حرارت رکھنا والا یا بہت گرم۔
یہ دونوں لفظ قرآن مجید کی ایک آیت میں ساتھ میں استعمال ہوئے ہیں ۔ سوره الفاطر آیات ۱۹-۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ۱۹ۙ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ۲۰ۙ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۲۱ۚ
اور اندھے اور بینا برابر نہیں ہوسکتے ۔اور تاریکیاں اور نور دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ اور سایہ اور دھوپ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔
یہاں ذات حق سوال کر رہی ہے ’’آیا سایہ اور حرارت یکساں ہیں ؟‘‘ عربی لغت میں اسے استفہام انکاری کہتے ہیں ۔ یعنی جسکا جواب بالکل صاف اور واضح ہو۔ یہاں جوابنفی ہے اور یہ عقل کا بدیہی فیصلہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ اس کی تاویل اس طرح کی گئی ہے ۔
وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُ
فَالظِّلُّ ظِلُّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِي الْجَنَّةِ وَ الْحَرُوْرُ يَعْنِيْ جَهَنَّمَ لِاَبِيْ جَهْلٍ
ابن عبّاس فرماتے ہیں کہ یہاں ظل سے مراد جنّت میں امیر المومنین علیہ السلام ہیں اور حرور یعنی ابو جہل کے لئے جہنّم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ روایت اہل تسنن کی تفاسیر میں موجود ہے اور ابن عبّاس سے منقول ہے:
اس ضمن میں بیجا نہ ہوگا اگر بحار الانوار کے ایک باب کے عنوان کا ترجمہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ علامہ شیخ محمّد باقر مجلسی رحمة الله عليه نے اس گراں قدر کتاب میں جلد ۲۳سے لیکر ۲۷تک امامت عامہ کی بحث کی ہے۔ چوبیسویں (۲۴) جلد کا سینتیسواں (۳۷) باب اس طرح ہے انهم علیہم السلام الماء المعين و البئر المعطلة و القصر المشيد و تأويل السحاب و المطر و الظل و الفواكه و سائر المنافع الظاهرة بعلمهم و بركاتهم علیہم السلام
بیشک آل محمّد علیہم السلام (قران کریم کی عبارات) میٹھا پانی، وہ کنواں جسے لوگوں نے چھوڈ دیا ہو، مضبوط قلعہ ، آسمان ، بارش ، سایہ، پھل اور وہ تمام اشیا جو مخلوقات کے لئے ظاہرا مفید اور سودمند ہیں کی مصداق ہیں اپنے علم اور برکتوں کی بنا پر۔
وَ مُنْزِلَ الْقُرْآنِ الْعَظِيْمِ وَ رَبَّ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِين
اور (اےالله) اے قرآن عظیم کے نازل فرمانے والے، اور اے مقرّب فرشتے ، نبیوں اور رسولوں کے پروردگار۔
قران کریم کا دیگر آسمانی کتابوں سے ہٹ کر ذکر کرنا اسکے اعلیٰ مقامی پر دلالت کر رہا ہے ۔
ملائكة ملک کی جمع ہے۔ جس طرح ہر مخلوق میں الله نے اپنے لئے ایک یا چند کو منتخب کیا ہے جیسے بیت الله (الله کا گھر) یعنی تمام مسجدیں الله کا گھر ہیں بالخصوص بیت الحرام، روح الله (الله کی روح) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے، نفس الله (امیر المومنین علیہ السلام ) ہیں ، وغیرہ اسی طرح فرشتوں میں الله نے اپنے لئے چار فرشتوں کو منتخب کیا اور انہیں ملائکہ مقرّبین کہا۔ یہ مقرّب فرشتے کون ہیں ؟
عَنْ اَبِي الْحَسَنِ الْاَوَّلِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ اِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰى اخْتَارَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ اَرْبَعَةً اخْتَارَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ جَبْرَئِيلَ وَ مِيكَائِيلَ وَ إِسْرَافِيلَ وَ مَلَكَ الْمَوْتِ
امام کاظم ( علیہ السلام ) نے پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ ) سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا:بیشک ذات حق جو با برکت اور متعال ہے نے ہر شیء میں سے چار چیزوں کو منتخب کیا- فرشتوں میں اسنے جبرئیل، میکائیل ، اسرافیل اور عزرائیل (ملک الموت) کو منتخب فرمایا۔
(الخصال ، شیخ صدوق رحمة الله عليه ، ج ۱، ص۲۲۵، ح۵۸؛ بحار الانوار، ج ۶، ص ۱۴۴، ح۱۴)
آگے بڑھنے سے پہلے ایک یاد دہانی ضروری سمجھتے ہیں ۔ مقرّب فرشتوں کی خلقت کی بحث میں کچھ روایتیں ایسی ہیں جو ہماری عقل اور فہم کے ما ورا ہیں ۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان روایات کو یہ کہہ کر رد کر دیں کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے گویا وہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ الله کی تمام مخلوقات اور انکے مناصب ، مقامات اور کیفیتوں سے واقف ہے۔ جب کہ یہ دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا ہے سواے ان افراد کے جنکو الله نے اپنے علم سے نوازا ہے۔ عربی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ عدم الوجدان لا یدل علی عدم الوجود یعنی اگر ہم کسی چیز کو نہیں پاتے ہیں اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ چیز موجود نہیں ہے۔ اب جب یہ بات واضح ہو گئی تو آیئے مقرّب فرشتوں کی خلقت کے متعلق ایک روایت دیکھ لیتے ہیں ۔ پیغمبرم اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ ) فرماتے ہیں
جب مجھے معراج پر لے جایا گیا ہم لوگ ایک نہر کے پاس پہونچے۔ جبریل نے مجھ سے کہا
يَا مُحَمَّدُ اعْبُرْ عَلَى بَرَكَةِ اللهِ فَقَدْ نَوَّرَ اللهُ لَكَ بَصَرَكَ وَ مَدَّ لَكَ اَمَامَكَ فَإِنَّ هٰذَا نَهَرٌ لَمْ يَعْبُرْهُ اَحَدٌ لَا مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ غَيْرَ اَنَّ لِيْ فِيْ كُلِّ يَوْمٍ اغْتِمَاسَةً فِيْهِ ثُمَّ اَخْرُجُ مِنْهُ فَاَنْفُضُ اَجْنِحَتِي فَلَيْسَ مِنْ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ اَجْنِحَتِيْ اِلَّا خَلَقَ اللهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰى مِنْهَا مَلَكًا مُقَرَّبًا
اے محمّد! الله کی برکت سے اس نہر پر سے گزر جائے۔ یقیناً الله نے آپ کی نظروں کو منور کیا ہے اور آپ کے سامنے جو منظر ہے اسے کشادہ کر دیا ہے۔ یہ نہر وہ ہے جس پر سے نہ کوئی مقرّب فرشتہ گزرا ہے اور نہ ہی کوئی نبی مرسل۔ مگر یہ کہ میں روزانہ اس نہر میں غوطہ لیتا ہوں پھر اس سے باہر آتا ہوں اور اپنے پروں کو جھڑکتا ہوں ۔ میرے پروں سے کوئی قطرہ نہیں گرتا ہے مگر یہ کہ الله تبارک و تعا لی اس قطرہ سے ایک مقرّب فرشتہ خلق کرتا ہے ۔
(امالی صدوق رحمة الله عليه ، ص ۳۵۴، مجلس ۵۸)
جملے کے آخری دو لفظ الْاَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِين ہیں ۔ انبیاء نبی کی جمع ہے اور مرسلین مرسل کی۔ نبی اس سفیر الہی کو کہتے ہیں جسے خبر دی گئی ہو۔ نبی یا تو ن ب ا سے بنا ہے جس کا مطلب ہے خبر اور نبی وہ ہوگا جسے خبر دی گئی ہے یا تو پھر ن ب و سے بنا جس سے مراد وہ ذات ہے جو بلند اور آسمانی ہے۔ مرسل اور رسول ان نبیوں کو کہتے ہیں جو صاحبان شریعت ہیں ۔ روایت کی روشنی میں رسولوں کی تعداد ۳۱۳ہے۔ اور نبیوں کی تعداد ۱۲۴۰۰۰ہے۔ رسولوں میں پانچ اولوالعزم ہیں ۔ اور وہ اس طرح ہیں حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسی علیہم السلام اور سرور کائنات حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ ۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام پہلے نبی ہیں اور ابو البشر ہیں لیکن اسکے با وجود اولو العزمیت سے محروم رہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟ اسکا جواب بھی تعلیمات اہل بیت علیہم السلام میں موجود ہے:
عِدَّةٌ مِنْ اَصْحَابِنَا عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ اَبِي جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِي قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَقَدْ عَهِدْنا اِلٰى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً قَالَ عَهِدْنَا اِلَيْهِ فِي مُحَمَّدٍ وَ الْاَئِمَّةِ مِنْ بَعْدِهِ فَتَرَكَ وَ لَمْ يَكُنْ لَهٗ عَزْمٌ اَنَّهُمْ هٰكَذَا وَ اِنَّمَا سُمِّيَ اُولُوْ الْعَزْمِ اُوْلِي الْعَزْمِ لِاَنَّهٗ عَهِدَ اِلَيْهِمْ فِي مُحَمَّدٍ وَ الْاَوْصِيَاءِ مِنْ بَعْدِهٖ وَ الْمَهْدِيِّ وَ سِيرَتِهٖ وَ اَجْمَعَ عَزْمُهُمْ عَلٰى اَنَّ ذٰلِكَ كَذٰلِكَ وَ الْاِقْرَارِ بِهٖ
جابر روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو جعفر یعنی محمّد الباقر علیہ السلام سے الله کے اس قول ’’بیشک ہم نے آدم سے پہلے ہی سے عہد لیا تھا لیکن وہ بھول گئے اور ہم نے انھیں صاحب عزم نہیں پایا‘‘ سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے جواب میں فرما
’’(الله کی مراد یہ ہے کہ) ہمنے انسے محمّد اور انکے بعد ائمہ کے بارے میں عہد و پیمان لیا مگر انہونے اسے ترک کر دیا اور وہ بھول گئے کیوں کہ انمیں یہ عزم اور پختہ یقین نہیں تھا کہ اس طرح ہوگا۔ محمد وآل محمد علیہم السلام کے درجات کو درک کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے اس کے لئے خدا کی خاص عنایت درکار ہے خدا کی عنایتیں بھی ہر ایک کے لئے ایک جیسی نہیں ہیں ۔ جس طرح انبیاء علیہم السلام کے درجات مختلف ہیں خدا کی عنایتیں بھی درجہ بدرجہ ہیں ۔
دیگر روایتوں کی روشنی میں یہ عزم ظھور امام زمانہ علیہ السلام کے متعلق تھا۔ نتیجتاًوہ اس عظیم مقام سے محروم ہو گئے یا کر دئے گئے۔ ہم سب کو خدا وند متعال کی بارگاہ میں رو رو کر مانگنا چاہئے کہ پروردگارا ہمیں ایک لمحے کے لئے بھی در اہل بیت علیہم السلام سے دور نہ کرنا ورنہ ہم ہلاک ہو جاینگے۔ پروردگارا ہمارے امام کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں انکے مددگاروں میں شمار فرما۔
آمین رب العالمین ۔
(بقیہ آیندہ شمارہ میں ان شاءاللہ )