آج ہر طرف ہر وقت، ہر جگہ ہر ایک کی زبان پر یہ عام گفتگو ہے دنیا میں دہشت گردی تیز ہورہی ہے۔
ایک ملک سے دوسرے ملک میں اور دوسرے سے تیسرے چوتھے ملک میں یہ بلا عام ہورہی ہے عام شہریوں کا جینا دوبھر ہورہا ہے۔ لوگ اپنے آبائی ملک اور شہر اور گائوں کو چھوڑ چھوڑ کر غیروں کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں ہر ایک ان حالات کی روشنی میں مایوسی کا شکار ہے ہر ایک پر خوف و ہراس طاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں بھی موجودہ صورت حال کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں یا اپنے اسلحوں کی کساد بازاری کو دوبارہ رونق عطا کرنے کے لیے ناکامی کا مظاہرہ کررہی ہیں ۔ یہ دہشت گردی مسلم ممالک میں ہے۔ مسلمان ہی مسلمان کا قتل کررہا ہے۔قاتل بھی وقت،قتل اللہ اکبر کہہ کر قتل کررہا ہے اور مقتول بھی وقت قتل اللہ اکبر کہہ رہا ہے کلمہ پڑھ رہا ہے ایک غازی بن کر خوش ہے ایک شہید ہو کر مسرور۔ خود مسلمانوں کے ذریعہ اسلام برباداور بدنام ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دہشت گردی کے چکر میں اسلام نیست و نابود ہوجائے گا۔ مسلم ممالک میں جاری ظلم و ستم سے عاجز ہو کر مسلمان غیر مسلم ملکوں میں چلے جائیں گے اور رفتہ رفتہ وہاں کے غیر مسلم سماج اور غیر اسلامی تہذیب میں اس طرح گھل مل ہوجائیں گے کہ ان کا نام و نشا بھی نہیں رہے گا۔ اسلام دہشت گردی کی بنا پر ختم ہوجائے گا مسلمان غیر مسلم ممالک میں ہجرت کرکے ختم ہوجائیں گے اور اس طرح کے خدا کے آخری دین کا قصہ تمام ہوجائے گا۔کفر و شرک اور تمام غیر اسلامی طاقتیں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوجائیں گی۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکو سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اگر زمین کا کوئی خالق نہیں ہے اور یہ زمین خود بخود وجود میں آئی ہے۔ یہ ساری دنیا بس خود سے وجود میں آگئی ہے یا اس دنیا کا کوئی خالق تھا اب نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو عاجز و ناتواں ہے یا اس کو اب اس دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ہے تب تو یہ سارے اندیشے درست ہیں کہ دنیا ایک دن تباہ و برباد ہوجائے گی اور اس کا انجام خیر نہیں بلکہ شر ہے۔
لیکن اگر اس دنیا و زمین کا کوئی خالق ہے اور وہ اس وقت بھی موجود ہے طاقتور اور توانا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ حکیم اورقادر خدا اس دنیا کو اس طرح تباہ و برباد ہونے دے گا اور خاموش تماشائی بنا رہے گا اور وہ تمام وعدے جو اس نے قرآن کریم میں کئے ہیں وہ سب بھلا دے گا۔
خداوند عالم نے اس دنیا میں جس کو جس طرح کی جس میدان میں جس قدر مہلت دی ہے یہ خداوند عالم کی کمزوری اور عاجزی کی دلیل نہیں ہے یہ خداوند عالم کی آزمائش ہے تاکہ لوگ جی بھر کے اپنے ارمان نکال لیں اور جب ان کی مدت حیات پوری ہوجاتی ہے خداوند عالم ان کو اس حالت میں واپس بلاتا ہے جب گناہ اس قدر زیادہ ہوچکے ہوتے ہیں کہ اس کا انجام جہنم کے دردناک عذاب کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے مہلت گناہ کا سبب ہوتی ہے گناہ سے دل مردہ ہوتے ہیں ۔ مردہ دل توبہ و استغفار کی نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ انجام مہلت کی چند روزہ زندگی ختم ہوجاتی ہے پھر وہ عذاب نصیب ہوتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
لہٰذا دنیا کے بد سے بدترین حالات میں بھی یہ مت سوچنا چاہیے کہ دنیا کا انجام خدا کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ ساری دنیا خدا کے اختیار میں ہے وہ جس وقت چاہے گا اپنے تمام وعدہ پورے کردے گا۔ خدانے وعدہ کیا ہے وقت معین نہیں کیا ہے۔ خدا کا یہ وعدہ ہے اور حتمی و یقینی وعدہ ہے۔
۱) اگر اس دنیا کی عمر میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گاخداوند عالم اس دن کو اس قدر طولانی کرے گا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی نسل سے ان کا ہمنام و ہم لقب شخص سامنے آئے گا اور اس دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
(منتخب الاثر، ص ۱۵۳)
اس طرح اس دنیا کا انجام کسی بھی صورت میں تباہی و بربادی نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف ہے۔ قرآن کریم اپنے دامن میں دنیا کے مستقبل کی بشارتیں سمیٹے ہوئے ہے۔
۱۔ خداوند عالم نے جس وقت حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کا اعلان فرمایا:
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَہْ
اس وقت فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا ’’کیا ان لوگوں کو زمین پر اپنا جانشین قرار دے گا جو زمین میں فساد پھیلائیں اور خوں ریزی کریں ‘‘ یعنی فرشتوں کو معلوم تھا کہ فرزندان آدم اس زمین پر کیا کیا کریں گے۔ خدا نے فرشتوں کی بات کا انکار نہیں کیا بس اتنا کہا’’ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ہو‘‘ یعنی تم صرف، قابیل، فرعون، ہامان، نمرود، بنی اسرائیل، ابو سفیان، ابو جہل، یزید، معاویہ، بنی امیہ، بنی عباس، روس، امریکہ، یورپ، داعش، طالبان، القاعدہ…کو دیکھ رہے ہو جب کہ میں قائم آل محمد حضرت حجۃ بن الحسن العسکری؉ کے دور آخر اور ان کی حکومت کو دیکھ رہا ہوں ۔ یعنی شروع سے یہ طے تھا کہ زمین پر فساد تو ہوگا لیکن انجام عدل و انصاف ہوگا۔
۲۔ جب فرعون اور فرعونیوں نے زمین میں تباہی و بربادی مچائی خدا نے اس طرح بیان فرمایا:
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۱۰۵
(انبیاء۔ ۱۰۵)
ہم نے جناب موسیٰ کی کتاب توریت میں بھی لکھ دیا تھا اور اس کے بعد جناب دائود کی کتاب زبور میں بھی یہ لکھ دیا تھا خدا کا لکھنا یعنی خدا کا وعدہ ہے۔ میرے نیک بندے اس زمین کے وارث و مالک ہوں گے۔
آیت کے انداز سے یہ بات واضح ہے کہ بات پوری زمین کی ہے صرف ایک خاص علاقہ کی بات نہیں ہے۔
۳۔ سورۂ اعراف کی آیت ۱۲۸ میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس طرح بشارت دی۔
اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ۰ۣۙ يُوْرِثُہَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۰ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۱۲۸
زمین کا مالک اللہ ہے وہ جس کو چاہے اس زمین کا وارث و مالک قرار دے لیکن انجام صاحبان تقوی کے ہاتھوں میں ہوگا۔
۴۔ سورۂ مبارک نور میں کسی قدر تفصیل سے بیان فرمایا ہے:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۵۵
(سورہٴ نور (۲۴): آیت ۵۵)
اس آیت کریمہ میں خداوند عالم نے صاحبان ایمان اور نیک اعمال انجام دینے والے نیکوکاروں سے ۵ وعدہ کئے ہیں اور آخر میں ان لوگوں کا انجام بتایا ہے جو ان وعدہ پر یقین نہیں رکھتے ہیں ۔
پہلا وعدہ
ان لوگوں کو ضرور بالضرور اس زمین میں اپنا نمایندہ اور خلیفہ قرار دے گا جس طرح اس سے پہلے لوگوں کو اپنا جانشین معین کیا تھا۔ قرآن میں جناب آدم اور جناب داؤد علیہ السلام کی خلافت کا ذکر ہے۔ زمین پرخدا کی یہ جانشینی اور خلافت لوگوں کے انتخاب، شوری، اجماع وغیرہ سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ خدا خود اپنا جانشین (نمایندہ) مقرر فرمائے گا۔اور یہ نمایندگی صاحبان ایمان و عمل کو نصیب ہوگی۔
دوسرا وعدہ
یہ نمایندگان الٰہی اُس دین کو دنیا کا نظام قرار دیں گے جس سے خدا راضی ہوگا۔ خدا کا پسندیدہ دین دنیا کا دین اور نظام قرار پائے گا۔ خداوند عالم نے قرآن کریم میں اس دین کی بھی وضاحت فرما دی ہے جس سے وہ راضی ہے اور جو اس کا پسندیدہ دین ہے۔
سورۂ مبارک مائدہ آیت ۳ میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَۃٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ۰ۙ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۳
’’ ارتضی ‘‘،اور ’’رضیت‘‘ ایک ہے مفسرین کے مطابق یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ہوئی جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ولایت کا اعلان فرمایا۔
غدیری اسلام
ولایت و امامت اہل بیت علیہم السلام والا اسلام دنیا کا منشور اور نظام قرار پائے گا۔ اسلام کے۷۳ فرقوں میں صرف اثنا عشری اسلام دنیا کا نظام اور منشور قرار پائے گا۔ جب پردہ غیبت سے غدیری آفتاب نکلے گا تو سب چراغ گل ہوجائیں گے اور تمام ستارے ناپید ہوجائیں گے۔ دین ولایت و امامت اہل بیت علیہم السلام نصف النھار پر جلوہ فگن ہوگا۔ دنیا کا ہر گوشہ بس اسی کے نور سے منور اور روشن ہوگا۔ دنیا کے سارے نظام کیا اشتراکیت، کیا سامراجیت، کیا بادشاہت، کیا جمہوریت،کیا دفاق کیا مرکز، کیا انتخابی حکومتیں ، کیا خاندانی بادشاہتیں کیا فوج کی حکمرانی…اس وقت دنیا میں جتنے بھی نظام رائج ہیں سب ختم ہو جائیں گے۔ خدا کی زمین پر خدا کے منتخب کردہ دین کی اور خدا کے معین کردہ نمایندہ کی حکومت ہوگی۔ اس وقت اللہ کی زمین پر صرف اللہ کے دین کی حکومت ہوگی۔
تیسرا وعدہ
یہ تیسرا وعدہ پہلے دو وعدوں کے عمل در آمد كااثر ہے۔ جب حکومت خدا کے نمایندہ کی ہوگی اور نظام خدا کا پسندیدہ دین ہوگا اس کا لازمی نتیجہ یہ تیسرا وعدہ ہے ’’ ہم ضرور بالضرور ان کے خوف کو امن میں بدل دیں گے۔ ‘‘ اس وقت دنیا جو بھی بدامنی ہے۔ بھوک، پریشانی، گرانی، جنگ، دہشت گردی، تعصب، ایٹمی جنگ،گرم جنگ، سرد جنگ، نفسیاتی جنگ، اضطراب پریشانی بیماری آزاری…وہ صرف اورصرف اس بنا پر ہے کہ اس دنیا میں نہ خدا کے نمایندہ کی حکومت ہے اور نہ خدا کا نظام ہے۔ زمین خدا كی اور نظام کسی اور کا۔
جب پوری دنیا میں خدا کا نظام نافذ ہوجائے گا تو خوف خود بخود ختم ہوجائے گا۔ جب انسان راہ اعتدال سے خارج ہوجاتا ہے تو بیمار ہوجاتا ہے جب معاشرہ سے عدل و انصاف رخصت ہوجاتا ہے تو خوف و ہراس طاری ہوجاتا ہے۔
چونکہ بیمار کی تین کیفیتیں ہوتی ہیں ۔ دماغی، قلبی اور جسمانی۔ دماغی بیماری سے نخچیریت کا زور بڑھتا ہے۔ جس کے لئے علامہ اقبال نے کہا ہے۔ ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری، نخچیری ظلم کا لازمہ ہے۔ سماج بشریت میں یہ سب سے خطرناک نتائج کو سامنے لاتی ہے اس کے تحت دہشت گردی زور پکڑرہی ہے جسکی دستک سے انقلاب الہی کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں ۔
چوتھا وعدہ
یہ چوتھا وعدہ گذشتہ تین وعدوں کا اثرہے۔ جب لوگوں کے دلوں سے ہر ایک کا خوف نکل جائے گاتو بس خدا کی اور صرف خدا کی عبادت ہوگی۔غیرخدا کی عبادت ان کے خوف کی بنا پر ہے۔ یہ چاہے حکومتوں کا خوف ہوافراد وگرد،کا خوف ہو یا ہماری فقیری کا خوف ہو …اس وقت شرک و کفر کے تمام راستے ختم ہو جائیں گے۔لہٰذا عبادت صرف خدا کی ہوگی چونکہ اس زمانے میں عقلیں کامل ہوجائیں گی لہٰذا انانیت بھی ختم ہوجائے گی اورریا کاری کے لیے بھی کوئی جگہ نہ ہوگی۔ خلوص کے ساتھ عبادت ہوگی قرآن کی تعبیر کس قدر بلیغ ہے۔
يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا
بس میری عباد ت کریں گے اور کسی کو میراشریک قرار نہیں دیں گے۔
’’شیئا‘‘ کوئی ایک چیز بھی عبادت خدا میں شریک نہ ہوگی۔ اس وقت امام الموحدین، سید العابدین، قدوۃ المتقین، منار المخلصین امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب ؉ کے فرزند دلبند عزیز زہرا، یوسف اہل بیت حضرت حجۃ بن الحسن العسکری ؉ کی امامت و قیادت میں اس طرح کی عبادت ہوگی جس کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا:
عبادت تین طرح کی ہے۔
ایک غلاموں کی عبادت۔ جو خوف سے عبادت کرتے ہیں ۔
دوسرے تاجروں کی عبادت۔ جو لالچ میں عبادت کرتے ہیں ۔
تیسرے آزاد لوگوں کی عبادت۔ جو خدا کو عبادت کے لائق سمجھ کر عبادت کرتے ہیں ۔
مولی کی یہ تعلیم ان کے فرزند کی حکومت میں عمل پیرا ہوگی۔ اس وقت شجر خلقت انسان ثمر آور ہوگا
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۵۶
کا مقصد پورا ہوگا۔ اس شجر پر بس مخلصانہ عبادت خداوندی کے پھل ہوں گے۔
شب و روز كتنے پر بہار، روح پرور، پر كیف ہوں گےقلم اسے بیان كرنے سے عاجز ہے۔جب انسان پوری طرح خدا کا بندہ ہوگا۔ اس وقت فرشتوں کواپنے سوال کا جواب مل جائے گا خدا نے کیوں انسان کو زمین پر اپنا نمایندہ قرار دیا تھا:
اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
کی عملی تفسیر ظاہر ہوگی۔ میں نے اس دن کی خاطر انسان کو اپنا خلیفہ قرار دیا تھا۔
پانچواں وعدہ
فاسق کی ایک اصطلاح گناہگار ہے جو عادل کے مقابلہ میں ہے۔ جو گناہ سے اجتناب کرے وہ عادل ہے اور جو گناہ انجام دے وہ فاسق ہے۔ایک اور اصطلاح فاسق کی یہ ہے جو دین سے خارج ہو قرآن کریم نے سورۂ مائدہ آیات ۴۴،۴۵ اور ۴۶ میں ان لوگوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہا گیا ہے جو خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے ہیں ۔ اس آیت میں بھی پہلے کفر کا ذکر ہے پھر فسق کا ذکر ہے۔ کافر یعنی انکار کرنے والا یعنی جو شخص خدا کے ان وعدوں پر ایمان نہ رکھے اور اس کا انکار کرے وہ دین سے خارج ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی ایک حدیث میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
مَنْ اَنْكَرَ خُرُوْجَ الْمَہْدِیِّ فَقَدْ كَفَرَ
جو حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ وہ لوگ جو خداوند عالم کے ان وعدوں پر یقین و ایمان نہیں رکھتے ہیں وہ کافر ہیں اور دین سے خارج ہیں ۔
مذکورہ بیان کو پڑھ کر قارئین کرام دنیا کے طاغوتی شور و غوغا سے ہٹ کر اپنی توجہ ان آہٹوں کی طرف مبذول کریں جو ایک انقلاب الہی کے مرکز سے آرہی ہیں اور گوش گذار ہورہی ہیں ۔ مظالم کی بڑھتی ہوئی طغیانی اور بڑی طاقتیں کااس کی ترویج میں تعاون پھر اس سے دامن کشی وہ دہشت گرد گروہ جو بے سواد اور بے کار اور بے عقل جوانوں کا بہشت بریں کی طرف لہکتے ہوتے دل کے ساتھ معصوم بے گناہوں کی جانب بموں سے خود کشی پر آمادگی سب کچھ کیا ایسا نہیں لگتا کہ ظہور کے بعد جو امام مہدی علیہ السلام کے سامنے ایک کثیر فوج کے ساتھ مقابل میں آکھڑے ہونگے۔ اس لئے قابل غور ہے کہ ہم نہ صرف دہشت گردی کی مذمت کریں بلکہ اپنے کردار، اپنی آمادگی، امام کی آواز کے لئے جس پر لبیک کہیں گے ذہن، دل ، دماغ، فکر، شعور کی تربیت دین۔ انشاء اللہ۔