ظہور امام مہدی کے لئے دعا، آپ کے ظہور میں تعجیل ہو، ہر ایک آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر ہر نماز، ہر درود کے بعد دعا کرتا ہے۔ ظہور امام عصر کی خوش آئند باتیں خوب خوب بیان ہوتی ہیں ۔ مجالس و محافل میں روشن بیانی کی کثرت ہے۔ ذرا ٹہر کر روایات اور علامات کے بارے میں ذکر تو ہوتا ہے لیکن کم کم، یہاں ہم چند باتیں اس عبوری دور کی بھی کریں گے جو بعد ظہور سے لے کر آپ کی حکومت جو عالمی تسلط کی ہوگی، کریں گے۔ اور اس کے بعد جب آپ اپنے نظام الہی کا پوری طرح سے اجرا فرمائیں گے۔ لہذا ضرورت ہے کہ اس عبوری دور پر روشنی ڈالی جائے جس کے لئے ہر شیعہ بچہ، جوان اور بزرگ کو چاہئے کہ اس کی تیاری میں کمر کس کر رکھے۔
چھنٹائی کا دور
اس دور میں افرادبا سواد اور سیاست اور مصلحت زدہ بے سواد منقسم ہوجائیں گے۔ادھر ظہور امام کی آواز فضا میں گونجی ادھر طاغوتی اور باطل طاقتوں کی طغیانی آندھی طوفان کی طرح سامنے آئے گی۔ بہت بڑے سیاسی اور حکمرانوں کے لشکراپنی پوری قوت سمیٹ کر سامنے مقابل میں آجائیں گے۔ بڑے بڑے جادوگر اور دھوکے باز اور کلاکار کا ایک سیلاب امنڈتا ہوا آپ کے سامنے ہوگا۔ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے بس اتنا روایات کے بیان کا خلاصہ کافی ہے جب ذوالفقار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکے گی تو مقابل کے لشکر کی دھجیاں اس طرح اڑیں گی کہ چاروں طرف باطل کو شکست و ذلت آمیز شکست نصیب ہوگی۔حضرت حجت علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے بڑی تیاری کی ضرورت ہے۔ اگر مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔
تیاری کے لئے کیا کرنا ہوگا
یقین: حضرت کے ساتھ آپ کے ہم رکاب ہونے کے لئے قوم کے ہر فرد کو اپنے یقین کا جائزہ لینا ہوگا۔
علم: حصول علم دینی کے لئے علماء کی نشست اختیار کرنے کے بعد اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہوگا۔
عمل: عمل اور علم میں مضبوط رابطہ قائم کرنا ہوگا۔
ہم فکری
ہر فرد قوم کا ہم فکر، ہم مزاج، ہم کردار ،ہم ساز، ہمنوا……اگر نہیں ہوگا تو دھوکے میں آسکتا ہے اور بہت سے اخلاقی اور معاشرتی ہمنوائی کا ذکرممکن نہیں لیکن آگہی کے لئے ہم سب کے لئے یہی کافی ہے۔ اس کے بعد حضرت مہدی علیہ السلام کا جب پورا تسلط ہوگا ملقن احکام قرآن کی آواز پر اجرائیہ اور انتظامیہ کا عمل درآمد ہوگا اس وقت کے ہر متمکن کا ظرف اور صلاحیت کیسی ہوگی، یہاں ہم بیان کریں تواس کی وضاحت اور اس کا نظام و انصرام یہ بڑا دقیق اور مشکل کام ہے اس لئے کہ وہ دنیا ہی الگ ہوگی اور وہ لوگ اپنی اپنی ذمہ داریوں پر معمور ہونگے ان کے خصائص کا بیان کرنا ایک امر محال ہے۔
انھیں باتوں پر غور کرنے سے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد دنیا کی حالت كیسی ہوگی چونکہ وہ دنیا ہم نے دیکھی نہیں ہے لہٰذا اس کا پورا اور واقعی تصور نہیں کیا جاسکتا ہے جس طرح ہم اس وقت جنت کی نعمتوں کا واقعی تصور نہیں کرسکتے ہیں جنت کی واقعی تصویر تو بس اسی وقت سامنے آئے گی جب ہم انشاء اللہ آل محمد علیہم السلام کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے اسی طرح ظہور کے بعد کی واقعی تصویر تو بس ظہور کے بعد ہی سامنے آئے گی۔ بس اتنا جان لیں وہ دنیا اس موجودہ دنیا سے بالکل مختلف ہوگی۔ زمین و آسمان سب یہی ہوں گے مگر ان کا رنگ و انداز بالکل مختلف ہوگا۔ظہور سے پہلے جس کا انتقال ہوا ہو اور وہ ظہور کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے تو اس دنیا کو پہچان نہیں پائے گا وہ یقینا یہی کہے گا میں کسی نئی دنیا میں آگیا ہوں ۔
زمانۂ ظہور کے بعدبعض اہم اور بنیادی حالات اس طرح بیان کرسکتے ہیں :
کمال عقل
اس وقت دنیا پر تباہی و بربادی کی ایک وجہ مسائل سے ناواقفیت ہے لوگ مسائل کی تہ تک نہیں پہونچ پاتے ہیں ۔ ہوشیار لوگ بہت آسانی سے عوام الناس کو بے وقوف بنا لیتے ہیں ۔ داعش اور القاعدہ وغیرہ اس کی ایک مثال ہے جب حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا اس وقت لوگوں کی عقلیں کامل ہوجائیں گی۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
اِذَا قَامَ قَائِمُنَا وَضَعَ اللهُ يَدَهٗ عَلٰى رُءُوْسِ الْعِبَادِ فَجَمَعَ بِهَا عُقُولَهُمْ وَ كَمَلَتْ بِهٖ اَحْلَامَهُمْ.
(کافی ج ۱ ص ۲۵)
جس وقت ہمارے قائم کا ظہور ہوگا خداوند عالم لوگوں کے سر اور دل پر اپنا دست رحمت پھیرے گا جس سے ان کی عقلیں یکجا ہو جائیں گی اور فکریں کامل ہوجائیں گی۔
ہمارے فساد کی جڑ دنیا پرستی ہے اور دنیا پرستی کی وجہ عقل پر خواہشات کی حکمرانی ہے عقلیں مغلوب ہیں خواہشات غالب ہیں ۔
جب ظہور کے وقت عقل خواہشات کے قید و بند سے آزاد ہو جائے گی فکریں کامل ہوجائیں گی تو فساد کی جڑیں خشک ہوجائیں گی۔ حضرت علی علیہ السلام نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد عقلوں کا کامل ہونا قرار دیا ہے:
لِیُثِیْرُوْا لَہُمْ دَفَائِنَ الْعُقُوْلُ
قرآن کریم بھی جگہ جگہ اولوالباب کو مخاطب قرار دیتا ہے۔ صاحبان عقل سے گفتگو کرتا ہے۔ اس طرح ظہور کے وقت انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بھی پورا ہوگا اور قرآن کریم کو اپنے واقعی مخاطبین ملیں گے۔
سائنس
اس وقت ترقی یافتہ ممالک سائنس اورٹکنالوجی کی بنا پر ترقی یافتہ کہلاتے ہیں اور یہی سائنس اورٹکنالوجی کی بنا پر دنیا پر حکومت کررہے ہیں اور ساری دنیا کے جوانوں کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں ہر ایک اس سائنس اور ٹکنالوجی کا دیوانہ ہے اور بے دام کا غلام ہے۔ جب حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور پر نور ہوگا اس وقت سائنس اورٹکنالوجی کا عالم کیا ہوگا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے آج سے ہزار سال پہلے اس طرح بیان فرمایا ہے:
(یہ بات ذہن میں رہے امام کی یہ حدیث اس وقت کے لوگوں کی ظرفیت کے لحاظ سے تھی لہٰذا یہ صرف ایک معمولی سا استعارہ ہے واقعی تصویر تو ظہور کے بعد ہی سامنے آئے گی۔)
اِنَّ قَائِمَنَا اِذَا قَامَ مَدَّ اللهُ – عَزَّ وَ جَلَّ – لِشِيعَتِنَا فِي اَسْمَاعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ حَتّٰى لَا يَكُوْنَ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقَائِمِ بَرِيْدٌ يُكَلِّمُهُمْ فَيَسْمَعُوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْهِ وَ هُوَ فِي مَكَانِهٖ
(منتخب الاثر، ص ۴۸۳)
جس وقت ہمارے قائم کا ظہور ہوگا خداوند عالم ہمارے شیعوں کے کانوں اورآنکھوں کو اس قدر تیز کردے گا ان کے اورقائم کے درمیان کسی مواصلاتی رابطہ کی ضرورت نہ ہوگی جب وہ گفتگو فرمائیں گے یہ لوگ سنیں گے امام اپنی جگہ ہوں گے اور ہر جگہ سے لوگ ان کو دیکھ رہے ہوں گے۔
کان براہ راست ان کی آواز سنیں گے اور آنکھیں براہ راست ان کا دیدار کریں گی مواصلاتی رابطہ نہ ہوگا یعنی سننا اور دیکھنا ریڈیو اورٹی وی وغیرہ کے ذریعہ نہ ہوگا بلکہ ترقی اس قدر ہوگی خود مومنین کے درمیان مواصلاتی نظام کی ضرورت نہ ہوگی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّ الْمُؤْمِنَ فِي زَمَانِ الْقَائِمِ وَ هُوَ بِالْمَشْرِقِ لَيَرٰى اَخَاهُ الَّذِيْ فِي الْمَغْرِبِ وَ كَذَا الَّذِيْ فِي الْمَغْرِبِ يَرٰى اَخَاهُ الَّذِيْ فِي الْمَشْرِقِ.
(منتخب الاثر، ص ۴۸۳)
قائم کے زمانہ میں مومن اس قدر ترقی یافتہ ہوجائے گا مشرق میں رہنے والے مغرب والوں کو دیکھیں گے اور مغرب میں رہنے والے مشرق والوں کو دیکھیں گے۔
علم
یہ ساری ترقیاں اور کمالات معجزاتی طور پر نہیں ہوں گے بلکہ یہ بھی علم کی ترقی کی بنا پر ہوں گے۔ روایتوں میں ہے
’’ جہالت ہر برائی کی جڑ ہے اور علم ہر نیکی کی اصل ہے‘‘
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وقت ظہور علم اپنی ترقی کی اس منزل پر ہوگا جس کو آج کا ترقی یافتہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اَلْعِلْمُ سَبْعَةٌ وَ عِشْرُونَ حَرْفًا فَجَمِيْعُ مَا جَاءَتْ بِهِ الرُّسُلُ حَرْفَانِ فَلَمْ يَعْرِفِ النَّاسُ حَتَّى الْيَوْمِ غَيْرَ الْحَرْفَيْنِ فَاِذَا قَامَ الْقَائِمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَخْرَجَ الْخَمْسَةَ وَ الْعِشْرِينَ حَرْفًا فَبَثَّهَا فِي النَّاسِ وَ ضَمَّ اِلَيْهَا الْحَرْفَيْنِ حَتّٰى يَبُثَّهَا سَبْعَةً وَ عِشْرِينَ حَرْفًا.
(بحار الانوار، ج ۵۲، ص ۳۳۶)
علم کے ۲۷ حروف ہیں آج تک تمام انبیاء جو علم لائے ہیں وہ صرف دو حرف ہیں لوگ آج تک ان دو حرفوں کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے ہیں ۔ جب ہمارے قائم کا ظہور ہوگا وہ بقیہ ۲۵ حروف ظاہر فرمائیں گے اور لوگوں میں ان کو عام کریں گے اور پہلے کے دو حرف بھی اس میں شامل کردیں گے یہاں تک کہ تمام ۲۷ حروف لوگوں میں عام ہوں گے۔
بس ذرا غور فرمائیں آج تک کہ تمام ترقیاں بس دو حرفوں کا نتیجہ ہیں جب دو حرفوں کی ترقی سے عقل حیران ہے تو جب اس میں ۲۵ حروف اور اضافہ ہوجائیں گے اور ترقی کی رفتار ۱۲۰۰ گنا زیادہ ہو جائے گی اس وقت ترقی کا کیا عالم ہوگا۔
جس وقت عقلیں کامل ہو چکی ہوں گی علم بھی اپنے کمال پر ہوگا فکر یں پاک و پاکیزہ ہوں گی اس وقت حضرت ولی عصر علیہ السلام کی زبان مبارک سے توحید اور ولایت اہل بیت علیہم السلام کے وہ معارف بیان ہوں گے جس کی روشنی میں تلاوت قرآن، دعا مناجات اور عبادت کا وہ سماں ہوگا جو قابل بیان نہیں ہے۔ روایتوں کے مطابق اس وقت لوگ مسجدوں میں حلقہ در حلقہ لوگوں کو قرآن و اسلام کا درس دے رہے ہوں گے یعنی ہر طرف اپنی کلاسوں کا رواج ہوگا۔
سورج کی ضرورت نہ ہوگی
اس وقت حضرت ولی عصر علیہ السلام کی امامت و ولایت کا نور اس قدر روشن و منور ہوگا لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہو جائیں گے۔
(بحار الانوار)
اس وقت سورج روشنی کے علاوہ انرجی کا بھی مرکز ہے اور نظام شمسی کا نقطہ مرکزی ہے۔ ظہور کے بعد نہ سورج کی روشنی کی ضرورت ہوگی نہ اس کی انرجی کی نہ اس کی مرکزیت یہ سب چیزیں امام عصر علیہ السلام کے جمال نورانی سے حاصل ہوں گی۔ قرآن کریم کی یہ آیت :
وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا
(سورہٴ زمر (۳۹): آیت ۶۹)
زمین اپنے رب کے نور سے منور ہوجائے گی۔
یعنی اپنے امام کے نور سے منور ہوگی۔
اُس وقت پوری دنیا امام عصر علیہ السلام کے سامنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح ہوگی۔ یعنی زمین کاایک گوشہ بھی ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ ہوگا۔
ان کو یا ان کے اصحاب کو سفر کرنے کے لیے ہوائی جہاز یا دوسرے وسائل کی ضرورت نہ ہوگی۔ بادل اپنی گرج و چمک کے ساتھ ان کے فرمانبردار ہوں گے۔
(بحار الانوار)
جب چاہیں گے جہاں چاہیں گے سفر کریں گے۔
تعمیر و آبادی
اس زمانہ مبار ک میں فتنہ و فساد کے تمام راستے بند ہوں گے زمین پر کہیں بھی فساد اور خوں ریزی نہ ہوگی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت ہے :
اِذَا قَامَ الْقَائِمُ حَكَمَ بِالْعَدْلِ وَ ارْتَفَعَ فِي اَيَّامِهِ الْجَوْرُ وَ اَمِنَتْ بِهِ السُّبُلُ وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ بَرَكَاتِهَا وَ رَدَّ كُلَّ حَقٍّ اِلٰى اَهْلِهٖ وَ لَمْ يَبْقَ اَهْلُ دِيْنٍ حَتّٰى يُظْهِرُوْا الْاِسْلَامَ وَ يَعْتَرِفُوْا بِالْاِيْمَانِ اَ مَا سَمِعْتَ اللهَ سُبْحَانَهٗ يَقُولُ وَ لَهٗ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَ كَرْهًا وَ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ وَ حَكَمَ بَيْنَ النَّاسِ بِحُكْمِ دَاوُدَ وَ حُكْمِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ و آلہ فَحِينَئِذٍ تُظْهِرُ الْاَرْضُ كُنُوْزَهَا وَ تُبْدِيْ بَرَكَاتِهَا وَ لَا يَجِدُ الرَّجُلُ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ مَوْضِعًا لِصَدَقَتِهٖ وَ لَا لِبِرِّهٖ لِشُمُوْلِ الْغِنٰى جَمِيْعَ الْمُؤْمِنِيْنَ.
(بحار الانوار)
اس حدیث کا ایک ایک جملہ قابل غور ہے۔
جب قائم کا ظہور ہوگا۔ عدل کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ ظلم و جور ختم ہو جائے گا، تمام راستے پر امن ہوں گے، زمین اپنی برکتوں کو ظاہر کرے گی، ہر صاحب حق کو اس کا حق ملے گا، وہ لوگوں کے درمیان جناب دائود علیہ السلام اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی طرح فیصلہ کریں گے۔ (جب الٰہی قانون کے مطابق فیصلہ ہونے لگے گا) تو زمین اپنے خزانوں کو ظاہر کرے گی اور اپنی برکتوں کو اجاگر کرے گی (اس وقت جوساری دنیا میں کساد بازاری ہے تجارت و اقتصادیات برباد ہو رہے ہیں قیمتیں آسمان پر ہیں اس کی ایک وجہ عدالتوں کے ظالمانہ فیصلے ہیں )اس وقت کسی کو اپنا صدقہ یا دوسرے کار خیر کے لیے لوگ نہیں ملیں گے کیونکہ تمام مومنین بے نیاز و مستغنی ہوں گے۔
زمین کی برکتوں کے ظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زراعت اپنے اوج پر ہوگی زمین کے پوشیدہ تمام خزانے ظاہر ہوں گے تمام معدنیات ظاہر ہوں گے ابھی صرف تیل کی دولت اس قدر ہے جب زمین میں موجود دوسرے خزانے ہوں گے اس وقت اقتصادی حالت ایسی ہوگی كہ پوری دنیا میں کوئی ایک بھی فقیر نہ ہوگا چاہے وہ ہندوستان ہو چاہے افریقہ کے ممالک ہوں نہ صرف فقر و فاقہ نہ ہوگا بلکہ عقل اورعلم کے کامل ہونے کی بنا پر لوگوں کی نیتیں اس قدر سیر ہوں گی وہ صدقات قبول نہیں کریں گے۔
جب فقر و فاقہ نہ ہوگا نیتیں سیر ہوں گی تو چوری اورراہ زنی کے واقعات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ راستے اس قدر پر امن ہو جائیں گے عورتیں جواہرات کے ساتھ بے خوف و خطر نکلیں گی کوئی ایک بھی ان پہ نظر نہیں ڈالے گا۔
عادلانہ تقسیم
اس وقت دنیا میں فقر و فاقہ اور گرانی کی وجہ صرف پیداوار کی کمی نہیں ہے بلکہ ظالمانہ تقسیم بھی ایک اہم وجہ ہے غریب بھوک سے مررہے ہیں اناج گوداموں میں سڑ رہے ہیں ابو سعید خدری نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے یہ روایت نقل کی ہے:
میں تم کو مہدی کی بشارت دیتا ہوں وہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی ان سے اہل آسمان بھی خوش ہوں گے اور اہل زمین بھی وہ لوگوں کے درمیان صحیح طور سے مال تقسیم کریں گے ایک شخص نے دریافت کیا صحیح تقسیم سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا: لوگوں کے درمیان برابر سے تقسیم کریں گے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے امتیوں کے دل بے نیازی اور استغنا سے سرشار ہوں گے ہر جگہ عدل ہی عدل ہوگا۔
ایک شخص آواز دے گا جس کو مال کی ضرورت ہو آکر لے لے کوئی نہیں آئے گا صرف ایک شخص آئے گا وہ آگے بڑھ کرمال لے گا پھر شرمندہ ہوگا اور واپس کردے گا۔
(نور الابصار)
اس روایت پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے۔ ان کی طرز حکومت سے آسمان کے فرشتے بھی راضی ہوں گے ان کی حکومت زمین کے علاوہ آسما ن پر بھی ہوگی ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں علم اور سائنس ترقی اس منزل پر ہو کہ اہل زمین آسمانوں کا سفر کریں اور وہاں کا بھی نظام سنبھالیں ۔
دولت، ثروت، زراعت کی فراوانی کے باوجود تقسیم عادلانہ ہوگی نہ اسراف ہوگا اور نہ ہی بخل۔ تقسیم میں کوئی بھید بھائو نہ ہوگا۔
ایک اہم بات یہ ہے تمام لوگ اس طرح تربیت یافتہ ہوجائیں گے کوئی ایک بھی ضرورت سے زیادہ کی تمنا نہیں کرے گا۔
یہ ہیں معصوم قیادت کے اثرات۔
شہری تعمیرات
اس زمانہ میں تمام شہر آباد ہوں گے اور نہایت وسیع ہوں گے بڑی بڑی مسجدیں ہوں گی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت میں ہے:
وہ کوفہ کے باہر ایک مسجد تعمیر کریں گے جس میں ایک ہزار دروازے ہوں گے۔ کوفہ کے گھر کربلا کی نہر اور بصرہ سے مل رہے ہوں گے۔
(بحار الانوار)
اس وقت کوفہ اور کربلا کے درمیان تقریباً ۷۰-۸۰ کلو میٹر کا فاصلہ ہے آپ تصور کریں وہ شہر جو ۸۰ کلو میٹر میں پھیلا ہو وہ کس قدر وسیع ہوگا۔
قانون تعمیرات
اس زمانہ میں جو مسجدیں تعمیر ہوں گی دیواریں چھوٹی ہوں گی کنگورے نہیں ہوں گے مسجدیں اس طرح تعمیر ہوں گی جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانہ میں تعمیر ہوتی تھیں ۔(آج مسجدوں کی سجاوٹ پر زیادہ زور ہے جب کہ مسجدیں سجاوٹوں اور قیمتی پتھروں سے آباد نہیں ہوتی ہیں وہ تقویٰ و پرہیز گاری اور ذکر خدا سے آباد ہوتی ہیں ۔)
راستہ چوڑے ہوں گے یہاں تک کہ ہر راستہ ۶۰ ہاتھ کا ہوگا۔راستوں میں جو عبادت خانے آئیں گے (اور عمومی زندگی کے لئے رکاوٹ ہوں گے)وہ منہدم کردئے جائیں گے عام راستوں کی طرف کوئی کھڑکی اور نالی نہیں ہوگی بالکونیاں اور پرنالے راستہ کی طرف نہ ہوں گے۔ ‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے اس زمانہ میں لوگوں کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا جائے گا عام راستوں پر دوسروں کے گھروں کا پانی تک نہیں گرے گا۔ آج کل تو دوسروں کی زمین پر چھجا نکال کر مکان تعمیر کرلیتے ہیں ۔
اُس زمانہ میں علم و عقل کی ترقی کے ساتھ اخلاقیات میں بھی ترقی ہوگی اور اس طرح حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کا مقصد مکمل ہوگا۔ ’’ میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں تاکہ اعلی اخلاق کو کمال کی منزلوں تک پہونچا دوں ۔ اس زمانہ میں صرف انسانوں کا نہیں بلکہ جانوروں کا بھی مزاج بدلے گا۔ شیر اور بکری ایک ساتھ رہیں گے۔
یہ بات بھی خاص طور سے قابل توجہ ہے کہ اتنی ساری تبدیلیاں اوریہ تمام انقلابات معجزاتی طور پر نہیں ہوں گے لوگ جب صبح اٹھیں گے تو بدلے بدلے سے ہوں گے یہ تمام تبدیلیاں لوگوں کے اپنے اختیاری اعمال کی بنا پر ہونگی کیونکہ جب عقلیں کامل ہوں گی فکریں پاکیزہ ہوں گی علوم اپنی بلندیوں پر ہوں گے ہر ایک عقل و فکر وعلم سے مالامال ہوگا تو اس کے اخلاق و آداب میں یقینا تبدیلی ہوگی جب علم و عقل برائیوں کی گندگی کو اور اچھائیوں کی خوبصورتی کو خوب اچھی طرح واضح کردیں گے تو انسان اختیار ی طور پر اچھا ئیوں کو اختیار کرے گا اوربرائیوں سے دور رہے گا۔
یہ تو بس ایک ذرا سا خاکہ تھا سماعت اور مشاہدہ میں فرق ہے مشاہدہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ خدا کرے وہ دن جلد آئے جب ہم لوگ اپنی نگاہوں سے امام عصر علیہ السلام کے چہرہ منور کی زیارت کریں اور عصر ظہور کی ترقیوں میں شامل ہوں ۔ اور اگر موت نے مہلت نہ دی تو خدا ان کے ظہور کے وقت ہم سب کو دوبارہ زندگی عطا کرے تا کہ حضرت زہرا کے فرزند کا جاہ و جمال و جلال دیکھ سکیں ۔آمین یا رب العالمین ۔
امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں دیگر معصومین علیہم السلام کا بیان
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
’’يَعْطِفُ الْهَوَى عَلَى الْهُدَى إِذَا عَطَفُوْا الْهُدَى عَلَى الْهَوَى وَ يَعْطِفُ الرَّأْيَ عَلَى الْقُرْآنِ إِذَا عَطَفُوْا الْقُرْآنَ عَلَى الرَّأْيِ‘‘
وہ (امام مہدی )خواہشات کو ہدایت کا تابع بنائیں گے جب کہ لوگوں نے ہدایت کو خواہشات کا تابع قرار دیا ہوگا۔اور وہ (لوگوں کی) رائے کو قرآن کا تابع بنائیں گے جب کہ لوگوں نے قرآن کو (اپنی) رائے کا تابع بنایا ہوگا۔
(بحار الانوار، ج ۵۱، ص ۱۳۰، ح ۲۵؛ نہج البلاغہ، ص ۱۹۵،خطبہ ۱۳۸)