مظلومیت امام عصر علیہ السلام

کن فیکون کی اساس اللہ تعالی کی مشیت ہے۔ مشیت ایسے مقصد کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے جو ایک مکمل اور مستحکم نظام کی جلوہ گری کرتا ہے اور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اسرار اور رموز منکشف ہوتے ہیں جب انسان عقل و خرد کے دریچوں کو روشن کرتا ہے۔ اور یہی انسان کی خلقت کی اشرفیت اور افضلیت کا سبب ہے جس سے ایک رشتہ خالق اور مخلوق کے درمیان قائم ہوتا ہے اور وہ اپنی خلقت کے بارے میں غور وفکر کے تحت بجائے متحیر ہونے کے معرفت کی روشنی میں اپنے قلب کو اطمینان کا حامل کرتا ہے۔
امام علیہ السلام کا جاننا اور پہچاننا
لفظ امامت اپنے معنی اور مطالب کے لحاظ سے اپنے دائرے اختیار سے پوری کائنات پر برس رہا ہے جہاں امامت سے مقصود وہ امامت جو منصوص من اللہ ہے جو منصب قادر مطلق نے اس کو عطا فرمایا ہے جو معصوم عن الخطا ہے وہ ایک فرد ہے، ایک انسان ہے، مثل بشر ہے اور ساری بشریت کے جتنے شعبیں اور جتنے منطقیں ہیں سب پر اس کی نظریں ہیں اسی لئے وہ اتنے عظیم مرتبہ پر فائز ہے جہاں اسے اللہ کا جانشین یا خلیفہ کہا گیا ہے۔تمہید حقیقت پر اساس کرتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ جس طرح بادل برستا ہے اور سارے عالم کو زرخیزی عطا کرتا ہے اور ان فصلوں کو بھی بہاریں عطا کرتا ہے جو بلا تشخیص مذہب و ملت کے قبضہ میں ہوتی ہے۔بعدہ یہ نظام الہی ہے کہ اس ذات بابرکات تقدس مآب کو اپنے پسندیدہ دین کے ماننے والوں میں قائم کیا۔ لیکن حکومت سازی ،سیاست گری، لشکر کشی، استبادیت کا خوگر انسان دائرے اسلام میں رہ کر بھی اپنے محبوب خالق خدا متعال کی اس عظیم نعمت کو فراموش کرتے ہوئے اپنی غفلت میں ایک ایسا خواب گراں کا شکار ہے جو حقیقت کے سود وزیاں سے ناواقفیت رکھتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے جو اس ولایت کےورثہ دار کو کوئی گروہ انسانی نہیں جانتا ہے وہ گروہ انسانی وہ ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے در سے منسلک ہے اور اس گروہ کے افراد مستقل صدیوں سے گوش گزار کر رہے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے زندگی کے آخری لمحات میں قلم و قرطاس کا تقاضہ کیا تاکہ وہ ایک تحریر لکھ دیں جس سے ان کی امت گمراہ نہ ہو۔مسئلہ یہ اس بیان کے لکھنا یا نہ لکھنے کا نہیں ہےبلکہ اس حجت کو تمام کرنے کا ہیں جس کی بنیاد پر رسول خدا نے غدیر خم سے لے کر اپنی اکھڑتی ہوئی سانسوں تک متواتر ولایت کے بارے میں اعلان کیا اور اس اعلان کو جاری رکھا۔ پیشن گوئی میں ابتدائے ولایت سے لے کر کے واسطے ولایت کا وہ اعلان جو آخری زمان میں پوری کائنات کے گوشے گوشے میں گونجتا رہے گا اس کی تکمیل اتممت نعمتی کے ساتھ کردیا۔
اعلان حق میں خطرۂ دار و رسن تو ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد
یہاں رک کر دلسوز اور دل گداس نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ وہ پیشن گوئی جو رسول اکرم نے اپنے بارہ جانشین کے بارے میں کی تھی اور یہ تاج ولایت جس کے سامنے انوارہدایت گردش کررہے ہیں ان کا بارہواں جانشین غیاب میں بھی ہیں اور حاضر بھی ہیں اس کے باوجود اس قوم کے افرادیہ جانتے نہیں ہے یا جان کر پہچاننے کا حق ادا نہیں کرتے۔
کون ہیں دنیا میں ایسا وہ فرد جو ولایت کا معتقد ہے اور اپنے بارہ اماموں سے ناواقف ہے؟ شاذ و نادر شاید ہی کوئی ایسا ہوگا ان بارہ جانشیوں کا علم نہیں رکھتا ہو۔ صدیاں گذر گئی شہادت دیتی ہوئی کہ ہمارے بارہ امام ہیں اور بارہواں وہ ہیں جو اس دنیا کو ظلم و جور سے آزاد کرائے گا اور عدل و انصاف سے بھر دیگا۔
عقل انسانی تحیر اور استعجاب بری ہوکر معترض نہ ہو کہ ایک انسان ساری دنیا کو بعد ظہور کس طرح عدل و انصاف سے بھر دیگا۔ اس لئے کہ وہ تمام انبیاء کا وارث ہے، تمام ہدایات کا مرکز ہے، اور تمام حجت خدا کو اس نے نقطۂ اتمام تک پہنچادیا ہے اور جانشینیٔ الہیاں کی صفت سے متصف ہے اس لئے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینا ناممکن نہیں ہے۔
لیکن سیرت اہل بیت جس کے لئے ہزاروں منبر سے خطباء، علماء، محدثین، اپنے بیان سے قوم کے تمام افراد کو آگہی دیتے رہتے ہیں۔ اس قوم کے افراد اگر اس تناظر کے تحت کہ وہ امام غائب سے اپنے کردار کو ایسا سنوار چکے ہیں کہ قربت اب محال کے دائرے میں نہیں ہے۔ کیا یہ ایک سوالیہ نشان نہیں ہے؟
اگر ولایت اور مولایت کےمعنی خیز ہدایت کے روشن راستے پر ہماری قوم کے افراد ایک ہمہ ہنگی، ایک رفاقت، ایک ہمدردی، ایک دوسرے کےلئے دلسوزی، اقتصادی، معاشرتی، معاشی، سماجی، رسمی طور پرگامزن ہوجائے اور وہ نشانات، اور سنگ میل جو ہمارے ائمہ معصومین نے ہمارے آخری امام کے لئے متعین کردیا ہے اس پر عمل پیرا ہوجائے تو ہمارے آقا امام زمانہ کو یہ نہ کہنا پڑےگا کہ ہم تمہاری یاد سے غافل نہیں رہتے ورنہ دشمن تمہاری ہڈیوں کو سرمہ کردیتے۔ ہماری سوکھی ہوئی ہڈیوں میں سرور کی لہر نہ دوڑتی اگر امام کا رحم و کرم ہمارے اوپر نہ ہوتا۔ ان تمام اسباب و علل کو سامنے رکھتے ہوئے جب اپنی غفلتوں، خطاؤں، حسد، اختلافات، خودغرضیاں، سیاست گری،گروہ بندی،ہم سائیگی کی پرچھائیاں ہمارے درمیان نہ ہوتی تو یہ قوم کو خدا وندمتعال نے اپنے خلیفہ کی حکومت کے تحت دانشوری، عقل و ہوش، جوش و خروش، حوصلہ وہمت،صبر اور قناعت سے ہر قوم، سے زیادہ نوازا ہے۔ بقول ایک دانشور کے ہم نے بادشاہت نہیں کی، شہنشاہیت نہیں کی، حکومت نہیں بنائی، سیاست گری نہیں کی، کسی قوم ہر لشکر کشی نہیں کی، اس کے باوجود آج ہم ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کرم،یہ تقویت، یہ حمایت، یہ حوصلہ، جو کچھ بھی مقدر ہوا ہے وہ منجانب فرزند زہرا کی طرف سے ہے۔ اس کی طرف سے ہے جو صاحب ولایت ہے، اس کی طرف سے ہے جو خلیفہ خدا ہے۔
مظلومیت امام زمانہ علیہ السلام
یہ قانون قدرت ہے جو عقل و ہوش کے دریچے کھولتا ہے کہ الوہیت واجب الوجود ہے ورنہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ ظالم بزدل،کمزور،کم عقل،کم ہوش ہوتا ہے۔مظلوم،طاقتور،صابر ثابت قدم اور باہوش ہوتا ہے۔اس مسلمہ کو سب سے زیادہ کسی نے اگر معراج بخشی ہے تو وہ ذات امام حسین علیہ السلام کی ہے۔شمر قتل حسین کے بعد بہت خوش ہوکر کے اعلان کرنے لگا کہ میں نے حسین کا سر ان کے جسد مبارک سے جدا کردیا ،حسین کو قتل کردیا۔مظلومیت اس سناٹے کی طرح تھی اور اس تاریکی کی طرح تھی جس کے لئے شاعر نے کہا ہے۔
ایسا سناٹا کہ جیسےہو سکوت صحرا
ایسی تاریکی کہ آنکھوں نے دہائی مانگی
قتل حسین کے بعد ایسا ہی لگتا تھا لیکن
ظلم پھر ظلم ہیں بڑھتا ہے تو گھٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہیں گرتا ہے تو جم جاتا ہے
مظلومیت کی طاقت سورج بن کے طلوع ہوئی اور اس تاریکی کو روندھتی ہوئی اجالے میں تبدیل کردیا اور اس سکوت کو جو صحرا کا سکوت تھا توڑ کر ایسا بیان اقصائے عالم میں پھیلایا کے دشمن بھی حسین حسین کہنے لگے۔تم مظلومیت کی طاقت اس کا اندازہ کچھ ٹھہر کے صبر کے ساتھ وقفہ لے کرکے اپنے وجود کو آئینہ دار کرتا ہے۔ ظلمت چھٹتی ہے اور ظالم پسپہ ہوتا ہے اور ظلم برپا ہوتا ہے۔ آج ہم تعجب میں ہیں ،ہم کو استعجاب ہے،حیرت ہےکہ ہمارا امام کہاں ہے؟ اس کا خیمہ کہاں ہے؟کس حال میں ہے؟اس نے کتنا ظلم برداشت کیاہے؟جتنا ظلم اس نے برداشت کیا ہے اس کاجیسے جیسےاحساس جاگنے لگتا ہے اور کوئی ریشہ احساس کا روشنی کی کرن بن کے ذہن میں،فکر میں،شعور میں، پھوٹتا ہے ۔تو ایسا لگتا ہے کہ میرا امام کتنا طاقتور ہے وہ امام جو ولادت کے بعد جب امامت پر مبعوث ہوا اس کے بعد سے آج تک ظلم کے بڑے بڑے پہاڑوں کو توڑتا ہوا صدیوں کو روندھتا ہوا آج اپنی قوم کی سرپرستی کررہا ہے۔اور کہہ رہا ہے کہ ہم تم سے غافل نہیں ہے۔ یہ اس کی مظلومیت کی طاقت ہے۔
کتنی دلکش ہے تیری صبح کہ دل کہتا ہے
یہ اجالا تو کسی دیدۂ نمناک کا ہے
اے کاش ہماری قوم کا ہر فرد ہمارے امام زمانہ کی مظلومیت پر غور و فکر کرتا جو بعد ولادت منصب امامت پر فائز ہونے تک بعدہ غیبت صغری میں اور بعدہ غیبت کبری میں آپ نے جس حیث حیثیت کے ساتھ رہبری کی ہے اور مظلومیت ساتھ ساتھ بڑتی چلی گئی ہے اس کا اندازہ سوائے خدا متعال کے دوسرا نہیں لگا سکتا۔بعد ولادت پانچ سال تک اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری کے ساتھ کن حالات اور خطرات کے ساتھ آپ نے اپنی حیات طیبہ گزارا۔اپنی رعایہ سے بھی آپ مل نہیں سکتے تھے۔ نظر بندی تھی،لشکر کی چھاؤنی محلہ تھا، جعفر کذاب جاسوس کی حیثیت سے ہر وقت گھر میں داخل ہوتے رہتے تھے جو حکومت اور امامت کے مابین ایک سازش کا ذرعہ تھا تفصیل کے لئے قارئین کمال الدین وتمام النعمۃ یا در منثور پڑھے۔جب آپ مبعوث بہ امامت ہوئے تو کن حالات میں اپنے پدر بزرگوار کی تجہیز و تکفین کی ہے اور بعد از تدفین احمد بن اسحاق کے لائے ہوئے خطوط کا جواب، کن حالات میں آپ نے لکھوایا اس طرح کے مضبوط روایتیں قلم بند ہوجائے اور تاریخ خاموش نہ بیٹھیں اور کوئی نافرمان مسلمان آپ کے وجود اقدس کا انکار نہ کرسکے۔
حجت خدا کا وجود بقاء عرض و سماء ہے اور اس کے لئے مضبوط اور مستحکم روایات کا تاریخ میں آنا لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔حکومت اپنے پورے شباب پر مخالفت کے لئے تیار ہے۔خود غرض بیکے ہوئے محرخین کے قلم حکومت کے ساتھ ہے۔گائے بہ گائے گھر کا بھیدی بھی حکومت کا تعاون کررہا ہے اس دور میں ہم جسے غیبت صغری کہتے ہیں کتنے مشکل حالات سے ہمارا امام گذر رہا تھا۔آپ کی رعایہ اور آپ کے درمیان جو آپ کے نواب خاص تھےوہ کچھ روغن فروش کی حیثیت سے اپنے کو ظاہر کررہے تھے لیکن تاریخ لکھی گئی، اندھیرے کاجگر چیرتے ہوئےحقیقت کی کرن صداقت کا پیغام لے کر دنیا پر چھاگئی اور تاریخ نے غیبت صغری میں آتے ہوئے تمام توقیعات کا ریکارڈ قائم کردیا۔حتی کہ وہ وقت آیا کہ آپ کا آخری نائب علی ابن محمد سیمری کے نام آپ کا توقیع مبارک آیا کہ اب ہماری غیبت کبری شروع ہورہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ علی بن محمد سیمری کو اپنے امور کو سمیٹنے کے لئے چھ دن کی مہلت دی یہاں رک کر کہ ایک نقطہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارا امام وہ ہے کہ موت اور زندگی دونوں کی خبر رکھتا ہے۔ اتنا طاقتور امام اتنا مظلوم؟
اتمام غیبت صغری اور ابتداء غیبت کبری
ایک طرف حکومت کی بھاری اکثریت، اس کی سازشیں، اس کا مکر و فریب، اس کے بکے ہوئے علماء، اس کے بکے ہوئے مورخین، اس بات پر تلے ہوئے ہیں بارہویں امام کی ولادت پر پردہ ڈال دیا جائے۔لیکن کیا ایسا ہوسکا؟روز روشن کی طرح حقیقت اور صداقت سامن ے آئی۔علماء بزرگ شیخ مرتضی انصاری، حسن حلی، ابن طاؤس، ایسی کتنی مثالیں ہیں جو تاریخ ساز ہے جو حقیقت پر پڑے ہوئے باطل کےپردہ چاک کردئے۔ثبوت کے لئے علامہ اقبال کے ایک مصرع کی نصر ہے کہ ’جب مہدی بیرون آمد‘اس پر اسرار احمد جیسےمتعصب نے کہا کہ یہ ایک شیعہ عقیدہ ہے ہم یہ بیان مخالف صف سے لے کردے رہے ہیں۔
تقریباً بارہ سو سال گذر گئے کیسی کیسی مصیبتیں سامنے آئی ہیں۔کیسی کیسی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اہل قلم کا قلم، سیتوت شاہی کی تلوار،بڑے بڑے مکر وفریب اذہان کی کاوشیں،مغربی طاقتوں کی عریانیاں،اگر ان تمام عوامل کو جو بے شمار ہے ان کا محاسبہ کیا جائے تو ایک مظلوم امام ان سب سے ٹکراتا ہوا، ان کے مظالم کی کمرتوڑ چکا ہے۔اور نئی پیداوار کی کمر توڑ رہا ہے جس میں اپنے پرائے سب شامل ہے۔اس دور غیبت کبری کے اواخر میں جو ارتقاءہوئی ہے اس میں تبلیغ باطلہ کا زور بڑھتا چلا گیا لیکن جہاں جہاں اسلام دشمنی کی شہ رگ سے خون ٹپکا ایک آواز اس جگہ سے بلند ہوئی یا مہدی ایک فرقہ نے کہا پیدا ہوجاتا تو ہماری مصیبتیں ٹل جاتی ایک فرقہ کہہ رہا ہے عجل اللہ تعالی فرج شریف۔
زمانہ منقلب ہورہا ہے ،فرزند زہرا کی آمد کا آوازاں بلند ہورہا ہے۔ ذراٹھہر کر ہر فرد کو انصاف سے کام لینا پڑےگا کس کو پکار رہے ہو؟ کیوں پکاررہے ہو؟ کیا ہوگیا ہے؟کیا اس کو بلا رہے ہو جس کے آنکھوں کے نیچے سیاہ پڑگئے ہیں روتے روتے؟کیا اس کو بلا رہے ہو جو شب و روز اپنے جد پر گریہ کرتا ہے اور جس کی آنکھ سے آنسوں کے بجائے خون کے قطرے گرتے ہیں؟جو ذوالفقار کو تسکین دے رہا ہے؟ بے چین ذوالفقار،ترپتی ذوالفقار جو انتقام کا انتظار کررہی ہے؟ جو اپنی قوم سے کہہ رہا ہےکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔لیکن اگر تمہاری وہ خبریں نہ ہوتیں جو ہم تک پہنچ رہی ہیں جن کی تم سے توقع نہیں تو ہمارے آنے میں تاخیر نہیں ہوتی۔

کیٹاگری میں : 1439

اپنا تبصرہ بھیجیں