خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس دن سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور، ان کے ذریعہ دنیا کے عدل و انصاف سے بھرنے، ظلم و جور کے خاتمہ اور ظالم و جابر و ستم گر کی نابودی کی بشارت دی ہے، اس دن سے لوگوں نے ان کی دشمنی بھی شروع کردی ہے۔ امام مہدی علیہ السلام سے دشمنی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے جیسے جیسے ظہور کا وقت قریب آتا جارہا ہے دشمنی بڑھتی جارہی ہے اور دشمنی کے نئے نئے انداز بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس زمانہ میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اس دشمنی کو خوب اچھی طرح سمجھیں ان کے طرز و انداز کو درک کریں۔ ان حملوں سے خود كو محفوظ ركھنے كے لئے ہر طرح سے آمادہ رہنا چاہئے۔ ذیل میں دشمنی اور مخالفت کے چند اسباب ذکر کرتے ہیں۔
۱۔ جہالت
انسان كی فطرت میں ایك عنصر حیات یہ بھی تڑپتا رہتا ہے كہ وہ جس كو نہیں جانتا ہے یا نہیں پہچانتا ہے اس كی مخالفت كرتا ہے اور اپنی فكری طاقت كے ساتھ اس سے ٹكرانے كی كوشش كرتا ہے۔ جب مکہ والوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت شروع کی اور دشمنی پر کمربستہ ہوئےتو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح دعا فرمائی:
اَللّٰھُمَّ اِھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
خدایا میری قوم کی ہدایت کر یہ لوگ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔
یہ لوگ اس بنا پرمیری مخالفت کررہے ہیں دشمنی پر آمادہ ہیں کہ رسول اورسالت سے واقف نہیں ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوتا میں کیا ہوں، میرا پیغام کیا ہے تو یہ مخالفت نہ کرتے۔ یا جب بازار شام میں اس شامی بوڑھے نے اسیران کربلا کے سامنے خوشی کا اظہار کیا تواس کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ اس کو نہیں معلوم تھا یہ کون لوگ ہیں۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنا تعارف کرایا اور وہ حقیقت سے واقف ہو گیا توفوراً اس نے توبہ کرلی اور اس کی دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔
اس وقت کچھ لوگ صرف اس بنا پر حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی مخالفت کررہے ہیں كہ وہ ان کی عظمتوں سے واقف نہیں ہیں۔
۲۔ ذاتی مفاد:
کبھی ذاتی مفاد ، دنیا کی محبت ، شہرت پرستی، حب ریاست انسان کو حق کے راستے سے منحرف کردیتی ہے۔ حق بات قبول کرنے سے روک دیتی ہے۔ طلحہ و زبیر کو دنیا کی محبت نے ریاست طلبی نے حضرت علی علیہ السلام كے مقابل کھڑا کردیا تھا ان لوگوں نے باقاعدہ اور مسلسل حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کی حدیثیں سنی تھیں وہ جانتے تھے کہ حق صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام کے پاس ہے لیکن دنیا کی محبت اورریاست طلبی نے ان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا وہ جانتے ہوئے بھی حق قبول نہیں کررہے تھے بلکہ حق کی مخالفت کرر ہے تھے اور دشمنی پر جنگ و قتل پر آمادہ تھے۔ اس طرح کے افراد کے بارے میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے:
اِنَّ النَّاسَ عَبِيدُ الدُّنْيَا وَ الدِّينُ لَعْقٌ عَلَى اَلْسِنَتِهِمْ يَحُوطُونَهٗ مَا دَرَّتْ مَعَايِشُهُمْ فَاِذَا مُحِّصُوا بِالْبَلَاءِ قَلَّ الدَّيَّانُونَ.
یقینا لوگ دنیا کے غلام ہیں دین ان کے لیے زبان کا ذائقہ ہے جب تک ان کی روزی روٹی دین سے وابستہ ہے دین کی باتیں کرتے رہتے ہیںلیکن جب بلائوں میں گرفتار ہوتے ہیں اس وقت دیندار افراد بہت کم ہوتے ہیں۔
(تحف العقول، ص ۲۴۵)
یعنی دین اور دینداری بس اسی وقت تک ہے جب تک ذاتی مفاد اور دنیاوابستہ ہے اگر دنیا خطرہ میں پڑی تو دین سے کنارہ کشی کرلیتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
ہمارے چاہنے والے تین طرح کے لوگ ہیں:
(۱) فِرْقَةٌ اَحَبُّونَا انْتِظَارَ قَائِمِنَا لِيُصِيبُوا مِنْ دُنْيَانَا فَقَالُوا وَ حَفِظُوا كَلَامَنَا وَ قَصَّرُوا عَنْ فِعْلِنَا فَسَيَحْشُرُهُمُ اللهُ اِلَى النَّارِ
(۲) وَ فِرْقَةٌ أَحَبُّونَا وَ سَمِعُوا كَلَامَنَا وَ لَمْ يُقَصِّرُوا عَنْ فِعْلِنَا لِيَسْتَاْكِلُوا النَّاسَ بِنَا فَيَمْلَاءُ اللهُ بُطُونَهُمْ نَاراً يُسَلِّطُ عَلَيْهِمُ الْجُوعَ وَ الْعَطَشَ
(۳) وَ فِرْقَةٌ اَحَبُّونَا وَ حَفِظُوا قَوْلَنَا وَ اَطَاعُوا أَمْرَنَا وَ لَمْ يُخَالِفُوا فِعْلَنَا فَأُولَئِكَ مِنَّا وَ نَحْنُ مِنْهُمْ
(تحف العقول /۶۲۲)
۱۔ کچھ لوگ ہم سے اس لیے محبت کرتے ہیں اور ہمارے قائم کا انتظار کرتے ہیں تا کہ ان کو دنیاوی فائدہ حاصل ہو۔ ہماری باتیں کرتے ہیں۔ہماری حدیثیں یاد کرتے ہیں لیکن عمل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ خدا ان لوگوں کو جہنم میں بھیج دے گا۔
۲۔کچھ لوگ ہم سے اس بنا پر محبت کرتے ہیں ہماری باتوں کو سنتے ہیں ہماری باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن لوگوں سے مال و دولت حاصل کرنے کے لیے خدا ان کے شکموں کو آگ سے بھر دے گا اور ان پر بھوک و پیاس مسلط کردے گا۔
۳۔ اور کچھ لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں ہماری باتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے حکم کی اطاعت کرتے ہیں ہماری نا فرمانی نہیں کرتے ہیں یہ لوگ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں۔
یہ محبت دنیا سبب بنتی ہے کہ لوگ امام وقت کے لیے اس طرح کام نہیں کرتے جو کرنا چاہیے اور جو کرتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر امام وقت علیہ السلام سے واقعاً محبت و الفت ہے تو خوش ہونا چاہیے۔ ہمارا دشمن ہے مگر ہمارے امام کا نام تو لے رہا ہے۔ نفس امارہ ، ذاتی دشمنی کو امام وقت تک پہنچا دیتا ہے۔ جو شخص اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لوگوں کے حقوق پامال کررہا ہو اپنے برادران ایمانی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آرہا ہو وہ ظلم کے مقابلہ میں کیونکر کھڑا ہوسکتا ہے اور کیونکر ظلم و ستم کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اتحاد و اتفاق بین المسلمین كو برطرف كرتے ہوئے المومنین كے درمیان جو اختلافات، انحرافات، بے سبب جانبداری، سیاستگری ایسے بہت سے عوامل پائے جاتے ہیں وہ تمام اسی ذاتی مفاد كی اساس پر قائم ہیں۔ مركزیت پر جمع ہونے كے لئے یكجہتی ہماھنگی، ہمگامی، ہمنوائی معصومین كی طرف سے دعوت عمل دے رہی ہے اور ہمارے لئے مرجعیت كا ایك روش منار قائم كر دیا ہے۔ اس كے باوجود جب ہم قوم میں افراد كے درمیان نفس امارہ كا بڑھتا ہوا زور سامنے آتا ہے تو ائمہ معصومین علیہم السلام كی مذكورہ احادیث قلب كو روشن كرتی ہے كہ ذاتی مفاد كس قدر فعالیت ركھتا ہے۔
۳۔ خودبینی و انانیت:
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کے سب سے بڑے دشمن دنیا کے ظالم ترین ستمگر ترین افراد ہیں۔امام علیہ السلام کے روز ولادت سے آج تک وہی لوگ سب سے زیادہ مخالفت کررہے ہیں جو ظالم و جابر ہیں۔ کل کے ظالم و جابر بنی عباس نے اپنی پوری طاقت لگا دی کہ امام زمانہ زندہ نہ رہنے پائیں ان کے قتل کے جتنی کوششیں کرسکتے تھے كر ڈالی۔ آج کے ظالم بھی مختلف انداز سے عقیدہ مہدویت کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ مسلمان جو عقیدہ مہدویت کے قائل ہیں خاص کر شیعیان اہل بیت علیہم السلام وہ ہمیشہ ان ظالموں کی زد پر رہتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی ولادت کا انکار کرتے ہیں کبھی طولانی عمر کا مذاق اڑاتے ہیں کبھی غیبت میں وجود امام کے فوائدپر سوال اٹھاتے ہیں کبھی اصل عقیدہ مہدویت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔وہ ہر ممکن طرز و انداز وسائل و اسباب سے کوشش کرتے ہیں كہ اس عقیدہ کوکمزور کریں چاہنے والوں کو اپنے امام وقت سے غافل کریں یہ لوگ کبھی دوست بن کر عقیدہ مہدویت میں تحریف کرتے ہیں انتظار جیسے کردار ساز جیسے عقیدہ کی الگ الگ ڈھنگ سے تفسیر کرتے ہیں۔
۴۔ تحریف حقائق:
دشمنی کا ایک انداز یہ بھی ہے جو بہت ہی زیادہ خطر ناک ہے اس کو درک کرنے کے لیے تیز بصیرت کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اصل عقیدہ کو برقرار رکھا جائے اس کی ترویج کی جائے لیکن اس کے معانی ومفاہیم پوری طرح بدل دئے جائیں تحریف کردئیے جائیں مثلاً یہ ایک حقیقت ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے ساری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے ہر طرف ہر جگہ غدیری اسلام ہوگا۔ دشمن اس طرح بیان کرتے ہیں اس وقت ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے سب کام امام کریں گے۔ یہ بھی دشمنی کا ایک طریقہ ہے۔ جب کہ انتظار قدم قدم پر تعمیر کردار ہے۔ ظہور کے لیے زمین ہموار کرنا لوگوں کو آمادہ کرنا ان کو تقویٰ پرہیزگاری ،بہادری و شجاعت کا درس دینا ہر وقت نصرت و خدمت کے لیے تیار رہنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔ مہدویت کا وہ تصور پیش کرنا جو لوگوں کو غیر ذمہ دار بنا دے مسؤلیت کا احساس سلب کرلے یہ مہدی دوستی نہیں مہدی دشمنی ہے۔ روایتوں میں باقاعدہ جگہ جگہ یہ بات ملتی ہے جو ہمارے قائم علیہ السلام کا انتظار کررہا ہے اس کو متقی پرہیزگار اورباورع ہونا چاہیے۔
لوگوں کو مایوس کردینا، ظلم کے خلاف بے حس کردینا ، جہالت کا عادی بنا دینا مرجعیت کو کمزور کرنا…یہ سب تحریف ہے۔
کیونکہ عقیدہ مہدویت امید ہے تلاش و جستجو ہے، ظلم کی مخالفت ہے،انفرادی و اجتماعی کردار سازی ہے۔ …زمانہ غیبت میں ان کے نائبین عام یعنی مراجع عظام پر بھروسہ کرنا ہے۔اعتماد کرنا ہے ان کی عزت و احترام کرنا ہے۔
عقیدہ مہدویت سے دور کرنے کے بعض طریقے
۱۔ بڑے پیمانہ پر ایسی کتابیں کتابچہ مقالات نشر کرنا جن میں مختلف انداز سے عقیدہ مہدویت پر اعتراض ہوں۔
۲۔ سوشل میڈیا ، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر ایسے مباحثہ اورپروگرام منعقد کرانا اور ایسے لوگوں کو دعوت دینا جو سوالات کے معقول جوابات نہ دے سکتے ہوں۔
۳۔ بے جا مصروفیت:
کل کھیل کود اوردوسرے امور کے لیے خاص جگہیں معین تھیں لوگ وہاں جا کر اپنی ’’حسرتیں ‘‘ پوری کرتے تھے۔ اب کمپیوٹر اور موبائیل نے سارے اسباب گھر تو گھر ہر ایک کی جیب میں فراہم کردئے ہیں۔ اس میں وقت ضائع و برباد ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنوں میں جو شکوک وشبہات ایجاد ہوتے ہیں وہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ وہ خاموش بیماریاں ہیں جن کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ دشمن اس حربے سے باقاعدہ استفادہ کررہا ہے ایک سوال ایك اعتراض ڈال کر سب کو اس طرح الجھا دیتا ہے کہ سب اپنا کام اپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں۔ اس دشمنی کی وجہ یہ ہے كہ اس نے انسان کو اور خاص کر جوانوں کو حقیقت کی دنیا سے دور کردیا ہے سب کو دنیا کا دیوانہ بنا دیا ہے۔یہ وبا چونکہ مغرب سے آئی ہے لہٰذا مغرب کی تباہیاں بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔ … بے حیائی، بے غیرتی ، لاپرواہی ، توہم پرستی، خام خیالی … اب جو ان کی شخصیت اس کا وقار ،علم ادب اخلاق تہذیب و مروت نہیں ہے بلکہ کسی دنیا دار کی اندھی پیروی اور پھٹی پرانی جیز ہے۔یہ دہشت گردی یہ بے صبری ، یہ غیض و غضب، یہ طیش یہ بد زبانی …یہ سب مغربی تہذیب کی دین ہے۔ جو اس وقت ہر گھر میں ڈیرا جمائے ہوئے ہے۔
۴۔ انٹرنیٹ:
سب سے زیادہ تباہی و بربادی کا سبب انٹرنیٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ کے فائدہ بھی بے شمار ہیں۔ بڑے سے بڑے کام آسانی سے ہو جاتے ہیں انٹرنیٹ نے تحقیقات تلاش و جستجو آسان کردی ہے۔ رابطے بہت زیادہ آسان اور سریع ہوگئے ہیں۔ دوسرے سوشل میڈیا کے مقابلہ میں انٹرنیٹ کا میدان زیادہ وسیع ہے اور امکانات بھی بہت زیادہ ہیں اس کی اہمیت کے مد نظر دشمن نے اس پر خاصی نظر رکھی ہے۔ شکوک و شبہات ایجاد کرنے میںذہنوں کو خراب کرنے میں۔ عقائد کو سست و کمزور کرنے میں اس کا ایک خاص کردار ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے ہر چھوٹا بڑا صرف وابستہ نہیں ہے بلکہ دیوانہ ہے وائی فائی نے اور زیادہ قیامت ڈھا دی ہے۔
لہٰذا اس وقت ان اسباب ووسائل پر خاص نظر رکھنا نسل جدید کو ان کی تباہیوں سے محفوظ رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم جوانوں کو انٹرنیٹ سے تو دور نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس کا صحیح و معقول استعمال بتا کر ان کو ان کے عقائد کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔دشمن کے اس آلہ کار کو منفی کے بجائے مثبت چیزوں میں استعمال کرسکتے ہیں۔
اس انٹرنیٹ كے بڑے بڑے كرشمے ہیں جس نے ارباب تظر كو بھی اپنی فسونسازی كے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس كی جادوگری كے تحت میں یہ شعر ہمیں بیدار كرتا ہے كہ
دنیا كا ورق بینش ارباب نظر میں
ایك تاش كا پتا ہے كفِ شعبدہ گر میں
مہدویت كا عقیدہ اگر ارباب نظر میں اس شعبدہ گر كی پرچھائی بن جائے تو انٹرنیٹ اس كی قصیدہ خوانی كرنے لگتا ہے۔ یہی ضرورت ہے كہ ہم ایسے ارباب نظر كے مقابل ماضی كے ان تمام حقائق جو نعمت كی تفسیر ہیں اور جن كی كردار كی روشن قندیلیں ہماری راہ گذر میں ہرسنگ میل پر آویزاں ہیں۔ ہم اس سے ہمیشہ گریزاں رہیں ورنہ یہ ارباب نظر بھی ہمیں دھوكہ دے رہے ہیں اور ہمیں آخری امام كی حكومت سے غافل كرنے میں اپنی كوششیں بروئے كار لا رہے ہیں۔ (یہاں ارباب نظر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی تحریف كی كوششوں كو انٹرنیٹ سے جوڑے ہوئے ہیں)۔
علاج
(۱) جہالت کا مقابلہ اس طرح کریں زیادہ سے زیادہ اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہر امکانی صورت کے ذریعہ لوگوں کو مہدویت کے حقیقی و واقعی چہرہ سے واقف كرائیں حضرت حجۃ بن الحسن العسکری علیہ السلام كی وہ تصویر زمانہ کے سامنے پیش کریں جو ان کے آباء و اجداد نے بیان فرمائی ہے جب لوگ ان کی واقعی تصویر دیکھیں گے تو خود بخود ان کی دشمنی چھوڑ کر ان کی محبت کا دم بھرنے لگیں گے۔ جہالت دشمنی کا سبب ہے معرفت محبت کا سبب ہے۔اس کے لیے ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک فرد کا نہیں بلکہ سب کا کام ہے۔ تفقہ فی الدین میں نہایت اہم کام معرفت امام ہے۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ابا صلت سے فرمایا:
رَحِمَ اللهُ عَبْداً اَحْيَا اَمْرَنَا فَقُلْتُ لَهٗ وَ كَيْفَ يُحْيِيْ اَمْرَكُمْ قَالَ يَتَعَلَّمُ عُلُومَنَا وَ يُعَلِّمُهَا النَّاسَ فَإِنَّ النَّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحَاسِنَ كَلَامِنَا لَاتَّبَعُونَا
(وسائل الشیعہ ۱۴/۵۸۷)
خدا اس بندہ پر رحمت نازل كرےجو ہمارے امر کو زندہ کرے۔ میں نے عرض کیا کس طرح آپ کے امر کو زندہ کریں۔فرمایا: ہمارے علوم سیکھو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو جب لوگ ہمارے کلام کے حسن سے واقف ہوں گے تو ہماری پیروی کریں گے۔
(۲) ذاتی مفاد: اس سلسلہ میں بس اتنا کام کریں مفادات کو صرف دنیاوی امور میں محدود نہ رکھیں بلکہ آخرت کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کو چند روزہ زندگانی دنیا پر ترجیح دیں۔ دنیا میں ذرا سی قربانی آخرت میں بڑے بڑے ثواب و درجات کا سبب ہوگی۔ ‘‘
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۱۷ۭ
(سورہٴ اعلی، آیات ۱۶-۱۷)
تم لوگ زندگانی دنیا کو ترجیح دیتے ہوجب کہ آخرت بہتر ہے اورزیادہ باقی رہنے والی ہے۔
(۳) تکبر و انانیت: اس کا علاج یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو باور کرا دیں كہ آپ لاکھ رکاوٹیں ایجاد کرڈالیں کسی بھی صورت میں اور دنیا کی کوئی بھی طاقت خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کو روک نہیں سکتی ہے وہ آئیں گے اور ضرور آئیں گے لہٰذا آپ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ مخالفت چھوڑ کر اطاعت کا راستہ اختیار کریں خود کی اصلاح کریں تا کہ ظہور کے وقت آپ کا شمار حضرت کے خدمت گذاروں میں غلاموں میں ہو نہ کہ دشمنوں میں۔
(۴) تحریف حقائق: اس کا علاج لوگوں تک صحیح بات پہونچانا ہے اس میں وقت ضرور لگے گا دقتیں ضرور پیش آئیں گی مگر کامیابی ۱۰۰ فیصد یقینی ہے۔
جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۸۱
حق آگیا اورباطل نابود ہو گیا اوریقینا باطل کو نابود ہی ہونا تھا۔
اس کے لیے ان تمام شکوک و شبہات ، اشکال و اعتراضات کا باقاعدہ جائزہ لینا ہوگا جو سوشل میڈیا۔ پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ پر پھیلائے جارہے ہیں اگر دشمن باطل کی کمزور و ضعیف بنیادوں کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔ تو حق کی مضبوط ترین بنیادوں کی بنا پر ہم کامیاب کیوں نہیں ہوسکتے۔ ہمیں یہ بولنا چاہئے اور ہر قدم پر ورد زبان رہے:
دشمن اگر قویست نگہبان قویترست
اگر دشمن بہت قوی ہے تو ہمرا نگہبان اس سے زیادہ قوی ہے۔
اس کے لیے کتابچہ ، کتابیں ، رسالہ ، مقالات ، کانفرنس ، سیمینار ، علمی مباحثہ …… منعقد کریں۔ مستند ترین حوالوں کے ذریعہ بات کو واضح کریں اور یقین جانیں کہ اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت میں وہ تاثیر ہے باطل کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا انصاف پسند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
امام زمانہ علیہ السلام کی راہ میں اٹھایا جانے والا خلوص کا ہر قدم تائید خداوند سے محروم نہیں رہے گا۔ ہر ہر قدم پر خدا کی تائید اور اہل بیت علیہم السلام کی دعائیں ساتھ ساتھ رہیں گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث پر گفتگو کو حسن اختتام دیتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
شِيعَتُنَا مَنْ لَا يَعْدُو صَوْتُهٗ سَمْعَهٗ وَ لَا شَحْنَاؤُهٗ بَدَنَهٗ وَ لَا يَمْتَدِحُ بِنَا مُعْلِناً وَ لَا يُجَالِسُ لَنَا عَائِباً وَ لَا يُخَاصِمُ لَنَا قَالِياً اِنْ لَقِيَ مُؤْمِناً اَكْرَمَهُ وَ إِنْ لَقِيَ جَاهِلًا هَجَرَهٗ
(شرح اصول كافی، ج۹ ، ص۱۶۳- ۱۶۴)
ہمارے شیعوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی آواز کان سے تجاوز نہیں کرتی ہے۔ اگر كسی سے متنفر ہوتے ہیں تو دوسروں كے لئے ایذاترساں نہیں ہوتے۔ وہ علی الاعلان غیر کے مجمع میں ہماری باتیں نہیں کرتا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ اس کی نشست و برخاست نہیں ہے جو ہمارے لئے عیب جو ہوتے ہیںان لوگوں سے بحث و مناظرہ نہیں کرتا ہے جو ہمارے دشمن ہیں جب مومن سے ملاقات کرتا ہے تو عزت و احترام کرتا ہے اورجب جاہل کا سامنا ہوتا ہے تو اس سے کنارہ کشی کرتا ہے۔
حدیث كی صداقت آواز دے رہی ہے:
شور دریا سے یہ كہتا ہے سمندر كا سكوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
خدا کرے ہماراشمار بھی ان لوگوں میں ہو۔
آمین۔