نصرت امام زمانہ علیہ السلام

انسان کی زبان میں اتنی طاقت یا صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے خالق کی حمد و ثناء کا حق ادا کر سکے۔یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے انسان کو تمام مخلوقات پر اشرفیت عطا فرمائی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بشارت دے دو ہمارے ان بندوں کو جو ہمارے قول کو غور سے سنتے ہیں اور اس پر بھرپور عمل کرتے ہیں۔ اسی بشارت کے تحت پروردگار نے اپنے جملہ احسانات کا بھی تذکرہ اس لئے کر دیا تا کہ انسان کا قلب اور اس کا شعور ہمیشہ روشن رہے اور وہ اپنے خالق کے احسانات سے کبھی فراموشی یا غفلت نہ برتے۔ چنانچہ آگے چل کر سورہ رحمن میں مزید ارشاد ہو رہا ہے :
الرَّحْمٰنُ(۱)عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيانَ (4)
’’وہ خدا بڑا مہربان ہے۔اس نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔ انسان کو پیدا کیا ہے۔اور اسے بیان سکھایا ہے۔‘‘
(سورۂ رحمٰن، آیت ۱-۴)
اس پیکر خاکی میں اشرفیت کا اجالہ کہاں سے آتا اور ہمیشہ عقل سرگرداں رہتی اگر خداوند عالم نے کوئی ایسا معلم اپنی طرف سے نہ بھیجا ہوتا جو ہمیں اس آیت کے معنی و مطالب کو سمجھا سکتااور اپنی سیرت کے ساتھ ہماری رہبری کر سکتا۔
انسان کی زندگی ایک سفر ہے جو مھد سے لے کر لحد تک تمام ہوتا ہے۔ اس سفر میں معلوم نہیں کتنے حوادث رونما ہوتے ہیں۔ ارض خاکی کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں گناہوں کے طوفان نہ اٹھتے ہوں۔ جہاں انسانیت پر متواتر حملے نہ ہوتے ہوں۔ جہاں شرافت کو پامال کرنے کے منصوبے اور خاکے نہ ابھرتے ہوں۔ ابلیسیت نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ ہم خدا کی اس مخلوق کو جسے اس نے اشرفیت دی ہے گمراہی کے پرخطر ماحول میں ڈھکیلتے رہیں گے۔ چنانچہ قرآن کی آیت ہے کہ شیطان نے پکہ ارادہ کر لیا ہے کہ میں بغض و عداوت انسانوں کے درمیان پھیلا دوں گا نشاآوری اور جوئے کے ذریعہ انھیں نماز سے روک لوں گا۔ کلام الہی نے قلوب و ذہن و شعور و ضمیر و عقل کو شیطان کے اس ارادہ سے اچھی طرح واقف کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ہدایت کے لئے معصوم رہبر کی رہبری بھی عطا فرمائی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں۔
اس بیان کے سامنے ایک معصوم رہبر اس دنیا میں جن کی رہبری کر رہا ہے اس کے لئے کتنی آفتیں کتنی مصیبتیں کتنی تکلیفیں کتنی رکاوٹیں اور کتنی مخالفتیں ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن رہبر تو وہی ہے جو ان آفتوں مصیبتوں تکلیفوں رکاوٹوں مخالفتوں حادثوں کو توڑتا ہوا اپنے رہ روان منزل کی ہدایت پر مضبوطی کے ساتھ مامور رہے۔ یہاں ٹھہر کر رہبر اور راہ رو کے درمیان رابطہ کتنا مضبوط ہونا چاہئے اس کے لئے ہم نے مقدمہ میں اللہ کے کلام کی طرف قارئین کو دعوت فکر دی ہے۔ اس رابطہ کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے رہبر کے مطیع، فرمانبردار اور بہترین نصرت کرنے والے بنیں۔ہم اس نصرت کی وضاحت کے لئے کچھ اقوال معصومین قارئین کے لئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے تاکہ اس نصرت کی عظمت ، بزرگی ،افلاکیت کا کچھ حق ادا ہو سکے۔
کتاب محاسن برقی میں روایت ہےکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے فرمایا:
’’آپ کی مثال ’قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ‘ جیسی ہے جس نے اسے ایک بار پڑھا اس نے ایک تہائی قرآن کی تلاوت کی اور جس نے دو بار پڑھا اس نے دو تہائی قرآن کی تلاوت کی اور جس نے تین بار پڑھا اس نے پورے قرآن کی تلاوت کی۔ اور اسی طرح جوشخص دل سے آپ سے محبت کرے گا تو اسے بندگان خدا کے ایک تہائی (نیک) اعمال کا ثواب ملے گا اور جو کوئی آپ سے دل سے محبت کرے گا اور اپنی زبان سے مدد کرے گا تو اسے بندگان خدا کے دو تہائی (نیک) اعمال کا ثواب ملے گا اور جو کوئی آپ سے دل سے محبت کرے گا اور زبان اور ہاتھوں سے مدد کرے گا تو اس کا ثواب تمام بندگان خدا کی نیکیوں کے برابر ہے۔ ‘‘
(محاسن ج ۱ ص ۱۵۳، بحار الانوار ج ۲۷ ص ۹۴)
کتاب محاسن سے ایک اور حدیث نقل کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’جنت میں تین درجات ہیں اور جہنم میں بھی تین طبقے ہیں ۔جنت کا سب سے اعلی درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دل سے ہم سے محبت کرتے ہیں اور اپنی زبان اور ہاتھوں سے ہماری مدد کرتے ہیں اور دوسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دل سے ہم سے محبت کرتے ہیں اور اپنی زبان سے ہماری نصرت کرتے ہیں اور تیسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دل سے ہم سے محبت کرتے ہیں۔اور جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے دل میں ہماری عداوت رکھتے ہیں اور اپنی زبان اور ہاتھوں سے ہمارے خلاف (ہمارے دشمنوں کی) مدد کرتے ہیں اور دوسرا طبقہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے دل میں ہماری عداوت رکھتے ہیں اور اپنی زبان سے ہمارے خلاف (ہمارے دشمنوں کی) مدد کرتے ہیں اور تیسرا طبقہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے دل میں ہماری عداوت رکھتے ہیں۔‘‘
(محاسن ج ۱ ص ۱۵۳، بحار الانوار ج ۲۷ ص ۹۳)
نصرت امام کا طریقہ
۱) دل سے نصرت:صاحب ایمان کب اپنے کو مومن کہنے کا حق رکھتا ہے اگر اس کے دل میں اس کے قلب میں نصرت امام کا جذبہ موجیں نہ مار رہا ہو۔ ہر لمحہ اس کے دل کے مضراب سے نصرت امام کا نغمہ نہ ابھر رہا ہو۔ قلب مومن اس احساس کا حامل ہوتا ہے جو جذبہ نصرت امام سے اتنا قوی ہوتا ہے جس کے لئے شاعر نے کہا ہے
ہوحلقہ یاراں تو ہے ریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
۲) زبان سے نصرت: تقویٰ ،طہارت ، احتیاط، پرہیزگاری زبان میں ایک عجیب و غریب تاثیر پیدا کرتے ہیں۔ اس کی باتیں جو ناصر امام ہوتا ہے گوش گذار ہونے کے بعد دل گداز ہوتی ہیں ورنہ جب امام حسین نے حر ؒ سے کہا جا تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے اس وقت حر ؒ لرزاں براندام تھا لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا تھا اے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ کی مادر گرامی کی شان میں ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا ہوں۔ زبان کی اس تاثیر کو پیدا کرنے کے لئے نصرت امام کا ذریعہ علم اور عمل ہے جیسا کے میں نے پہلے بیان کیا ہے۔
۳) ہاتھ سے نصرت: شاعر نے کیا خوب کہا ہے
تجھے ہے شوکت شمشیر پر گھمنڈ بہت
تجھے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
سلطنت جہانگیری کے تمام آثار و نشانات مٹ گئے لیکن شہید ثالث نور اللہ شوستری کے دست مبارک سے لکھی ہوئی کتاب احقاق الحق آج تک سارے عالم کے منصف مزاج دانشوروں کو حق کی طرف دعوت دے رہی ہے۔
سنا ہے ہمارے امام وقت کا دست مبارک ذوالفقار پر ہے جس کی تاسی میں ہم شب و روز دعائے عہد کا یہ فقرہ دہراتے ہیں ۔ اے اللہ جب ہمارے امام کا ظہور ہو اور ہم زندہ نہ ہوں تو قبر سے اس طرح اٹھائے جائیں کہ کفن بردوش ہوں اور نیزہ ہاتھ میں ہو اور ہم اپنے ہاتھوں سے دشمن پر حملہ آور ہوں۔
علامہ مجلسیؒ روایت کرتے ہیں : ہشام امام جعفر صادق علیہ السلام کی نشست میں داخل ہوئے، وہاں بزرگ اصحاب بھی موجود تھے جب کہ وہ ابھی نوجوان تھے امام نے ان کا احترام کیا اور اپنے پہلوں میں بٹھایا۔ جب امام نے دیکھا ان کا یہ عمل کچھ اصحاب پر گراں گذرا تو امام نے فرمایا:
هَذَا نَاصِرُنَا بِقَلْبِهِ وَ لِسَانِهِ وَ يَدِهٖ
’’یہ ہمارا ناصر و مددگار ہے دل سے، زبان سے اور ہاتھ سے۔‘‘
ہشام اس لئے لائق احترام تھے کہ وہ امامت و ولایت کی دفاع کیا کرتے تھے۔
۴) عمل کے ذریعہ امام کی نصرت: عمل کارشتہ یقین اور محبت سے اٹوٹ ہے ۔ یقین جتنا گہرا ہوگا محبت اس گہرائی کا ثبوت عمل کے ذریعہ دیتی رہے گی۔ عمل اس وقت تک عمل نہیں ہے جہاں پاؤں لڑکھڑاتے ہوں اور ذہن میں تزلزل پیدا ہو۔ عمل نام ہے اس ثبات قدمی کا جو علم سے وابستہ ہو اور وہ علم جس کے ذریعہ انسان خود کو پہچانے اور جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے امام کو پہچانا اور جس نے اپنے امام کو پہچانا اس نے خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہچانا۔ اس جملہ کے ذریعہ انسان اپنی زندگی میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے کہ اس کا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو اس کے امام کی مرضی کے موافق نہ ہو۔
عمل شخصیت کو سجاتا ہے۔ شخصیت میں نور کی کرنیں پیدا کر دیتا ہے۔ وہ نور جو نور امامت كا پرتو ہو۔ بظاہر ہم عمل کے نام پر کبھی کبھی منفی پہلوؤں سے بھی سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ اگر عمل کے اس رویہ پر احساس جاگ اٹھے تو انسان کو پروردگار نے وہ عرصہ دیا ہے کہ وہ مایوسی کا شکار نہ ہو۔ لیکن پھر توبہ کرنے کے بعد اپنی غلطیوں پر اسرار نہ کرے۔ یہ ایک ہلکہ سا تجزیہ ہم عوام کے لئے ضرور ہے لیكن لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللہِ کا تقاضہ ہے کہ ہم رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں۔
عمل ہی سے زندگی بنتی ہے عمل ہی سے جنت بھی ہے عمل ہی سے جہنم بھی ہے۔ اس لئے ہر وقت انسان کو بیدار رہنا چاہئے اور اپنے اعمال پر بھرپور نظر رکھنا چاہئے۔ اگر ہمارا یہ عمل ہمارے امام کی امامت پر پھرپور یقین کے ساتھ ہے اور اس کی سے محبت سے وابستہ ہے تو ہمارا امام ہمارا رہبر اپنی رہبری کی شان کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے لغزشوں کو معاف بھی کردیتا ہے اور ہمیں گمراہی سے بچاتا بھی ہے۔خدا ہم کو عمل صالح کی توفیق دے۔
پس ’نَاصِرُنَا بِیَدِہٖ‘ اسے کہا جاتا ہے جو عمل سے امام کی نصرت کرتا ہے۔اس وضاحت کے ساتھ کہ سب سے اہم ترین ذریعہ امام کی نصرت کا یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق اور انفرادیت اور سماجیت میں ائمہ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھے۔ اور دین کی تبلیغ کرے اور امام کی نصرت اپنے عمل و اخلاق سے کرے۔
امام زمانہ علیہ السلام کی صحیح تبلیغ صرف زبانی یا قلمی جیسے درس دینا اور کتابت نہیں بلکہ ہر وہ عمل جو لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کرائے اور امام اسے پسند کرے اسے دینی تبلیغ کہا جائے گا۔اگر کوئی چاہے کہ وہ قلم کے ذریعہ تبلیغ کرے اور اس کا عمل، قلم کی تصدیق نہ کرے تو اس کا منفی اثر ہوگا۔ لہٰذا دین کی تبلیغ کے معاملہ میں زبان سے زیادہ عمل اثر انداز ہوتا ہے ۔ لوگ آپ کی باتوں پر زیادہ توجہ کرینگے اگر آپ کا قول،آپ کے عمل سے مطابقت رکھتا ہو۔
اما م صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
كُوْنُوْا دُعَاةً لِلنَّاسِ‏ بِالْخَيْرِ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ لِيَرَوْا مِنْكُمُ الْاِجْتِهَادَ وَ الصِّدْقَ وَ الْوَرَعَ
’’لوگوں کو خیر کی دعوت دینے والے بنو بغیر اپنی زبان کا استعمال کئے۔ لوگ تم میں جدو جہد، صداقت اور پرہیزگاری مشاہدہ کریں۔‘‘
(بحار الانوار، ج ۶۸، ص ۷)
اگر کوئی صحیح عقیدہ رکھتا ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے متمسک ہے او روہ ایسا عمل کرتا ہے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے پھر حقیقتاً نہ وہ اہل بہت علیہم السلام پر ایمان رکھتا ہے اور نہ تو ان سے متمسک ہے۔ اس لئے کہ جو امام چاہتا ہے وہ اللہ کی رضامندی کے بالکل مطابق ہوتا ہے۔ رضائے الہی مطلوب و محبوب ہے امام کو اور یہی توقع امام اپنے چاہنے والوں سے رکھتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ‏ أَنْ‏ تَعْمَلُوا عَمَلًا يُعَيِّرُونَّا بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ‏ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً
’’خبردار وہ عمل انجام نہ دینا جس کے وجہ سے لوگ ہماری مذمت کریں۔ کیونکہ بری اولاد اپنے عمل کی وجہ سے اپنے باپ کی مذمت کا سبب ہوتی ہے۔ تم جس سے تعلق رکھتے ہو اس کے لئے باعث زینت بنو اور اس کے لئے باعث ذلت نہ بنو۔‘‘
(الکافی ج ۲ ص ۲۱۹)
اگر بیٹا کوئی نامناسب فعل انجام دیتا ہے تو اس کا الزام والد پر ہوتا ہے اور لوگ اس کے مربی کی سرزنش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیوں بیٹے کی صحیح تربیت نہیں کی۔ ائمہ اپنے شیعوں کو سب سے قریب جانتے ہیں اور ایک شفیق باپ کی مانند اپنے بیٹوں کے ہر عمل پر نظر رکھتے ہیں ۔ جب کوئی شیعہ نامناسب فعل انجام دیتا ہے تو وہ غمگین ہوتے ہیں اور اس کی غلطی کو اپنے لیے باعث ذلت جانتے ہیں اور ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے باعث فخر بنیں۔
شیعہ ،امام زمانہ علیہ السلام کی معرفی اپنے ہی اخلاق سے کراسکتے ہیں
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
أَلَا وَ إِنَّ لِكُلِّ مَأْمُومٍ إِمَاماً يَقْتَدِي بِهِ وَ يَسْتَضِي‏ءُ بِنُورِ عِلْمِهِ أَلَا وَ إِنَّ إِمَامَكُمْ قَدِ اكْتَفَى مِنْ دُنْيَاهُ بِطِمْرَيْهِ وَ مِنْ طُعْمِهِ بِقُرْصَيْهِ أَلَا وَ إِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَ لَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَ اجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ
’’ہرماموم کا امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کے علم سے نور کو لیتا ہے خبر دار تمہارے امام کو اس دنیا سے دو بوسیدہ لباس اور دو روٹیاں کافی ہے یقینا تم اس طرح نہیں ہوسکتے لیکن ورع، اجتہاد، عفت او راستقامت کے ذریعہ ہماری مدد کرو۔‘‘
(بحار الانوار ج ۳۳ ص ۴۷۴)
ہم اپنی زندگی امام علیعلیہ السلام کی طرح بالکل بسر نہیں کرسکتے لیکن ہم ان کی پیروی کرسکتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ اہل دنیا کی طرح نہ بنیں۔ دنیا میں کشش بہت ہے اور عام طور سے انسان کو مصروف رکھتی ہے اور انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور کردیتی ہے۔
سید ابن طاؤسؒ اپنے فرزند سے فرماتے ہیں:
بہت سے لوگ امام زمانہ علیہ السلام پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ان کے اعمال اور گفتار صحیح نہیں ہے ۔ ان کا امام کے وجود پر ایمان تو ہے اور ان کے ظہور پر یقین بھی رکھتے ہیں لیکن اپنے اعمال سے ظہور اور ذکر کو بھلا دیا ۔
امام زمانہ علیہ السلام اپنی توقیع میں فرماتے ہیں:
إِنَّا غَيْرُ مُهْمِلِينَ‏ لِمُرَاعَاتِكُمْ وَ لَا نَاسِينَ لِذِكْرِكُمْ وَ لَوْ لَا ذٰلِكَ لَنَزَلَ بِكُمُ اللَّأْوَاءُ وَ اصْطَلَمَكُمُ الْاَعْدَاءُ فَاتَّقُوا اللهَ جَلَّ جَلَالُهُ وَ ظَاهِرُونَا عَلَى انْتِيَاشِكُمْ مِنْ فِتْنَةٍ قَدْ اَنَافَتْ عَلَيْكُمْ‏
’’یقینا ہم تمہاری نگہداشت سے ہرگز غافل نہیں ہیں او رتمہارے ذکر کو نہیں بھلاتے اگر ایسا نہ ہوتا تو پریشانیاں تمہیں گھیر لیتی او ردشمن تمہیں کچل دیتے ۔ پس تقویٰ اختیار کرو اور ہماری مدد کرو کہ ہم تمہیں فتنوں سے بچائیں جو تمہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ‘‘
(الاحتجاج ج ۲ ص ۴۹۷)
حاج شیخ حبیب اللہ کے ایک عالم دوست نے فرمایا: ایک بار میں بس میں تہران سے مشہد کے لیے سفر میں تھا، ایک جوان بہترین لباس مثل یورپی میرے بغل میں بیٹھا تھا ۔ راستے کے درمیان جب نماز کا وقت ہوا، اس جوان نے ڈرائیور پر زور دیا کہ نماز اول وقت ادا کرسکے۔ اس کی باتوں سے مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ اس کے حلیہ سے ان باتوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں نے اس سے دریافت کیا : اتنے زور دینے کی کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا: میں حال ہی میں یورپ سے آیا ہوں اور میں وہاں پڑھائی کرتا ہوں ۔ جب میں وہاں تھا، بہت ہی کم وقت میں ضروری ہوگیا تھا کہ میں دو امتحان دوں جو دو الگ شہروں میں تھا۔ میں گاڑی سے ایک شہر سے دوسرے شہر جارہا تھا کہ ناگاہ بیچ راستے میں گاڑی خراب ہوگئی اور بہت کوششوں کے بعد بھی وہ ٹھیک نہیں ہوپائی ۔ آہستہ آہستہ میں ناامید ہوتا جارہا تھا کہ اگر امتحان ہال میں نہ پہونچ سکا تو میرا پورا سال برباد ہو جائے گا ۔ میں اسی کشمکش میں تھا کہ مجھے اپنی والدہ کی باتیں یاد آئیں، جو ہمیشہ کہتیں تھی: جب بھی کوئی پریشانی آپڑے تو امام زمانہ علیہ السلام سے توسل کرنا ۔ امام عنایت فرمائیں گے۔ اسی لمحہ میں امام زمانہ علیہ السلام سے متوسل ہوا اور میں نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ اگر امام عنایت کریں اور میں امتحان گاہ تک پہونچ گیا تو میں نماز ہمیشہ اول وقت پڑھا کروں گا ۔ فوراً ایک شخص آیا اور بونٹ کو اٹھایا اور اس نے کچھ کیا اور گاڑی سہی ہوگئی ۔ پھر وہ گاڑی میں کچھ دور ساتھ چلا اور جب وہ چلنے لگا تو اس نے مجھے دیکھا او رکہا: جو تم نے اپنے امام علیہ السلام سے عہد لیا ہے اسے نبھانا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔اس لیے میں اول وقت نماز پڑھنے کا پابند ہوگیا۔
ہر انسان چاہے وہ مشرق کا ہو یا مغرب کا زمانہ سے شکایت کرنے پر مجبور ہے ۔ بد اعمالیوں نے قانون کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ قباحت اچھایئوں میں گنی جانے لگی ہے۔ سماج شہوت پرستی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ صالحین کے لئے راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ سب صحیح ہے لیکن ہمارا امام غائب بھی ہے اور حاضر بھی ہے۔اللہ ہمیں ان کی بتائی ہوئی روش پر چلنے کی توفیق عطا کرے تا کہ بداعمالیاں برائیاں خرابیاں فساد فتنہ یہ تمام راستہ کو مسدودکرنے والے خودبخود کنارے لگ جائیں اور ہماری راہ بالکل خیمہ گاہ امام کی طرف صاف نظر آنے لگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں