حاکم اور محکوم کی دیرینہ تاریخ حکومت سازی کے قدیم سلسلے کو بیان کرتی ہے اور ہر حکومتوں کے عہد میں ہونے والے حادثوں کا ایک ریکارڈ تیار کرتی رہی ہے۔تفصیلات سے درگذر کرتے ہوئے صرف اتنا بیان حقیقتوں کو روشن کرتا ہے کہ انہی حکومتوں نے اس دنیا کے پیمانے میں ظلم و جور کو بھر کر ہی مضبوط حکومت قائم کی ہے۔
ہر عہد حکومت میں ستم رسیدہ افراد ظلم برداشت کرتے رہے اور ایک طرح کی محکومیت کے عادی ہوگئے جنھیں تاریخ تیسری دنیا کے لوگوں کے نام سے موسوسم کرتی ہے۔
سوال: کیا خالق کائنات نے ان تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے عدل و انصاف کے تقاضوں کی آواز اٹھانے اور ان کی ہدایت کے لئے کوئی سلسلہ قائم نہیں کیا؟
جواب: انبیاء علیہم السلام کے سلسلوں کی تفصیل اذہان اور افکار کے دریچوں کو روشن کرنے کے لئے کافی ہے۔ منجملہ ان میں سے ایک بین مثال بنی اسرائیل کی سامنے ہے۔
لیکن دنیا ظلم و جور سے لبریز ہوتی جا رہی ہے اور اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا وعدہ کلام الہیہ بن کر گونج رہا ہے یہاں تک کہ اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمادیا ۔ہمارے بعد ہمارے بارہ خلیفہ ہوں گے اور آخری وہ ہوگا جو اس دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
اس حدیث کو توثیق جمہور اسلام میں بلا شک و شبہ کے تسلیم کر لی گئی ہے۔ اس کے باوجود مشیت خداوندی اس وعدہ کو بار بار اس لئے دہراتی رہی تاکہ روز محشر کوئی اس کا منکر نہ ہو سکے اور حجت تمام ہو جائے۔
اسی سلسلے میں راقم الحروف قارئین کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے اقوال کی طرف دعوت فکر دے رہے ہیں۔ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشگوئی کے مطابق گیارہ اماموں نے خدا کے اس وعدہ کو زندہ رکھنے کے لئے ایسے بیان دئے ہیں جو ہر ایک کے لئے انتباہ اور آگہی ہے۔ یعنی حکومت الہیہ قائم ہو کر رہے گی اور آخری دور حکومت عدل و انصاف کا ہوگا، جس کے سربراہ ہمارے بارھویں امام امام مہدی علیہ السلام ہوں گے۔ جن کی ساری نشانیاں روز روشن کی طرح سے موجود ہیں۔
اب آیئے دیکھیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر اماموں نے کس طرح اس پیشگوئی کی صداقت پر اپنے بیان کی مہر ثبت کر دی ہے تاکہ غفلت کی نیند بیداری پر حملہ آور نہ ہو سکے۔
سعید ابن جبیر نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’یقیناً علی ابن ابی طالب علیہما السلام میری امت کے امام ہیں اور میرے بعد ان پر میرے خلیفہ و جانشین ہیں۔ اور ان کی ولد سے قائم ہوں گے جن کا انتظار کیا جائے گا ۔ وہ دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح سے یہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ اس ذات کی قسم جس نے مجھے بشارت دینے والااور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے یقیناً ان کی (امام مہدی علیہ السلام کی) غیبت کے زمانے میں ان کی امامت کے عقیدہ پر ثابت قدم افراد سرخ کبریت سے زیادہ گراں قدر ہوں گے۔‘‘
جناب جابر ابن عبد اللہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ آپ کی نسل میں جو قائم علیہ السلام ہیں ان کے لئے غیبت ہوگی؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’ہاں، اللہ کی قسم ۔تاکہ اللہ صاحب ایمان کو چھانٹ کر الگ کرے اور کافروں کا مٹا دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے جابر! یقیناً یہ اللہ کی امور میں سے ایک امر ہے اور اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ خبردار اس میں شک نہ کرنا کیونکہ اللہ عز و جل کے امر میں شک کرنا کفر ہے۔‘‘
(اثبات الہداۃ ج ۵ ص ۲۷۲)
اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان جملوں پر غور کریں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ایک حدیث میں کئی باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے
ژ امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آن کےخلیفہ ہیں اور امام برحق ہیں۔ لہذا اگر کوئی شخص امام علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بلافصل جانشین نہیں مانتا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی نافرمانی کی بلکہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کی کیونکہ ولایت علی علیہ السلام کی تبلیغ کا حکم اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا تھا۔
ژ امام مہدی علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔ جن کے لئے غیبت ہوگی اور ان کی غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار کیا جائے گا۔ جیسا کہ زمانہ حاضر میں شیعیان علی ابن ابی طالب علیہما السلام ان کے فرزند امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کی آمد کے منتظر ہیں۔
ژ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں جو لوگ ان کے امامت کے عقیدہ پر ثابت قدم ہیں وہ گرانقدر ہیں۔
ژ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت میں لوگوں کا سخت امتحان ہوگا جس میں امام مہدی علیہ السلام کی امامت کے عقیدہ پر ثابت قدم رہنے والے افراد کامیاب ہوں گے۔
ژ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اللہ کا امر ہے اور اسرار الہی میں سے ایک ہے (جو حدیث کی لفظوں میں منکشف ہو رہا ہے)لہذا اگر کوئی شخص اس کا انکار کرےتو وہ کافر ہے۔
مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تاکید میں شدت کو محکم کرنے کے لئے ارشاد فرمایا:
’’میں تمہیں امام مہدی علیہ السلام کی بشارت دے رہا ہوں جو میری امت میں اس وقت مبعوث ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف اور تزلزل ہوگا۔وہ زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین ظلم و جور سے بھری ہوگی۔‘‘
(غیبت طوسی ص ۱۷۸)
یہ عہد ایسے بہت سے مناظر سامنے لارہا ہے جہاں اختلافات کی پرچھائیاں مقصد آوری کی دیوار پر دورڑتی نظر آرہی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ بقول فراز
بس اس قدر کہ دربار میں بلاوہ ہے
گدا گران سخن کا ہجوم سامنے ہے
آخری جانشین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام مہدی علیہ السلام ہر ایک کے قلب کی دھڑکن سے ابھرتے ہوئے احساسات کے مدو جزر سے واقف ہیں۔ لہذا محتاط رہنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہر لمحہ اس بات کا پاس و لحاظ رکھیں کہ کہیں کوئی ایسی فاش غلط باتیں ہماری زبان سے تو ادا نہیں ہو رہی ہیں جو ان کے غضب کا موجب بن جائے۔
اجمال کا لحاظ رکھتے ہوئے اب ہم دیگر ائمہ کی احادیث کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں۔
امیر المؤمنین علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:
’’اے حسین ! آپ کی ولد سے نویں حق کے ساتھ قیام کرنے والے ہوں گے جو دین کو غلبہ عطا کریں گے اور عدل کو پھیلائیں گے۔‘‘
امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا:
’’یا امیر المؤمنین !کیا یقیناً ایسا ہوگا؟‘‘
امیر المومنین علیہ السلام نے جواب دیا:
’’ہاں۔ اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا اور ان کو اپنی تمام مخلوقات پر منتخب کیا۔ لیکن ان کی غیبت کے بعد جس میں (لوگ) حیران و سرگرداں ہوں گے۔اس (غیبت کے زمانے) میں کوئی بھی اپنے دین پر ثابت قدم نہیں رہے گا سوائے ان مخلص بندوں کے جو روح ایمان تک پہونچے ہیں جن سے اللہ نے ہماری ولایت کا عہدو پیمان لیا ہے اور ان کے دلوں پر ایمان لو لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ ان کی تائید کی ہے۔‘‘
(کشف الغمہ ج ۲ ص ۵۲۱)
جب امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی تو لوگ امام حسن کے پاس آئے اور ان کے کچھ شیعوں نے صلح کرنے پر ان کی ملامت کی تو امام نے ان سے فرمایا۔تم کیا جانو کہ میں نے کیا عمل انجام دیا! اللہ كی قسم جو کچھ میں نے کیا وہ میرے شیعوں کے حق میں بہتر ہے بہ نسبت ہر اس چیز سے جس پر سورج طلوع و غروب ہوتا ہے۔کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہارا امام ہوں میری اطاعت تم پر واجب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نص کے مطابق دو جوانان جنت کے سرداروں میں سے ایک میں ہوں۔تو سب نے کہا۔ہاں۔
پھر امام علیہ السلام نے جناب خضر اور جناب موسیٰ علیہما السلام کے واقعہ کو بیان فرمایا کہ کیونکہ جناب موسی ٰ علیہ السلام کے لئے جناب خضر کے عمل کی وجہ پوشیدہ تھی لہذا جناب موسیٰ جناب علیہ السلام جناب خضر علیہ السلام کے عمل سے ناراض ہوئے۔ پھر امام حسن علیہ السلام نے امام مہدی علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کے وہ کسی سرکش کی بیعت میں نہ ہوں گے۔ ان کے پیچھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز ادا کریں گے۔ ان کی ولادت پوشیدہ طور پر ہوگی اور ان کے لئے غیبت ہوگی۔اللہ انھیں طولانی عمر عطا کرے گا اور جب اللہ انھیں ظہور کا حکم دے گا تو وہ ایک چالیس سالہ جوان کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔
(کفایۃ الاثر ص ۲۲۵)
اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہیں جسے شیخ صدوق نے اپنی گرانقدر کتاب کمال الدین ج ۱ ص ۳۱۸ پر نقل کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’اگر اس دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن باقی رہ جائے تو اللہ اس دن کو طولانی کردے گا یہاں تک کہ میری ولد میں سے ایک شخص خروج کرےگا جو زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح یہ زمین ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا۔ ‘‘
مندرجہ بالاحدیث میں صریحاً اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور اور ان کے ظہور کے بعد ان کا اس دنیا کو عدل و انصاف سے پُر کرنا ایک یقینی امر ہے۔ اس دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن باقی رہ جائے سے مراد یہ ہے کہ اگر قیامت کے آنے میں ایک دن باقی رہے تو اس وقت تک قیامت نہ آئے گی جب تک امام زمانہ علیہ السلام ظہور نہ فرمائیں اور دنیا کو عدل و انصاف سے پُر نہ کر لیں۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ان الفاظ میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے زمانے کو بیان فرمایا ہے:
’’جب ہمارے قائم قیام فرمائیں گے تو اللہ (ان کی برکت سے)لوگوں سے بلاؤں کو دور کردے گا اور ان کے دلوں کو فولاد کی مانند کردے گا۔ ان میں سے ہر ایک شخص کے پاس چالیس لوگوں کی طاقت ہوگی۔ ‘‘
اپنے اس مضمون کا اختتام حضرت امام صادق علیہ السلام کی اس حدیث کے ساتھ کر رہے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
’’جب امام حسین کو شہید کر دیا گیا تو ملائکہ نے اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر فریاد کی ۔ اے پروردگار! امام حسین علیہ السلام کو اس طرح شہید کردیا گیا جو تیرے منتخب کردہ ہیں تیرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرزند ہیں‘‘ تو اللہ نے ملائکہ کو امام مہدی کا نور دکھایا اور فرمایا میں ان کے ذریعہ حسین علیہ السلام پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لوں گا۔‘‘
(بحار الانوار ج ۴۵ ص ۲۲۱)
جب فرزند فاطمہ علیہا السلام غیبت کی نقاب الٹ کر ظہور فرمائیں گے تو اپنے اجداد کے خون کا انتقام لیں گے۔ ان لوگوں سے انتقام لیں گے جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا اور ان ملعونوں کو قبروں سے نکال کر جلائیں گے جنھوں نے سیدۃ نساء العالمین کے گھر کا دروازہ جلایا اور آپ پر وہ مظالم ڈھائے جس کی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔
پروردگار ہم تیری بارگاہ میں محمد اور آل محمدعلیہم السلام کے حق کا واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ تو اپنی آخری حجت کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں ان کے خادمین میں شمار فرما۔