کَشْفُ الْاَسْتَارِ عَنْ وَجْہِ الْغَائِبِ عَنْ الْاَبْصَارِ

رخسارِ پنہاں سے پردہ کا اٹھنا
(خصوصی شمارہ شعبان ۱۴۳۸؁ھ سے پیوستہ)
گذشتہ شمارہ میں یہ نقل کرچکے ہیں کہ ۱۳۱۷ھ میں محمود شکری آلوسی کا لکھا ہوا ایک قصیدہ نجف اشرف میں پہونچا جو قصیدۂ بغدادیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ قصیدہ کامطلع اس طرح تھا:
اَیا عُلمائُ العَصْرِ یا مَنْ لَھُمْ خَبَرٌ
بِکُلِّ دَقِیقٍ حَارَفِی مِثْلِہِ الفِکْرُ
اے علماء عصر جن کے بارے میں یہ خبر ہے کہ ان کی فکر دقیق مسائل میں ہمیشہ حیران و پریشان ہے۔‘‘
آلوسی نے اس قصیدہ میں ۲۵اشعار میں امام عصر علیہ السلام کی غیبت، طول عمر ، آپ کے وجود وغیرہ پر شبہ پیدا کیا ہے۔ مرحوم محدّث نوری قدس سرہ نے اپنی تمام مصروفیت کو ترک کرکے اس قصیدہ کا جواب’’ کشف الاستار عن وجہ الغائب عن الابصار ‘‘ کی شکل میں لکھا۔ اس شمار ہ میں ہم آلوسی کے بعض اعتراضات جو اس نے کئے ہیں اور مرحوم محدث نوری نے جو جواب دیا ہے اس کی ایک جھلک پیش کریں گے۔پہلی فصل میںمحدث نوری قدس سرہ نے وجود امام مہدی علیہ السلام کو دونوں حدیثوں (حدیث ائمہ اثنا عشر اور حدیث ثقلین) کی روشنی میں ثابت کیا کہ سلسلہ امامت تا قیامت قائم رہے گا اس لئے کہ صادق مصدق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے اس کی پیشنگوئی کی ہے کہ
’’ اس دین کا خاتمہ اس وقت تك نہ ہوگا جب تک اس پر بارہ خلیفہ نہ گذریں۔‘‘
اس کے علاوہ مرحوم محدث نوری نے چالیس علمائے اہل تسنن کے حوالہ سے ثابت کیا کہ امام مہدی علیہ السلام کی ولادت ہو چکی ہے اور وہ اس وقت موجود ہیں۔ ان چالیس علماء کی مکتب عامّہ میں وثاقت و اعتبار کے تذکرہ کے ساتھ ان کی کتابوں سے نقل قول کیا ہے۔
دوسری فصل میں : محدث نوری قدس سرہ نے قصیدۂ بغدادیہ پر نقد لکھا ہے۔ بیان فرماتے ہیں کہ آلوسی کے اصل کلام کا خلاصہ دو مطالب پر ہے او ر بقیہ باتیں ’’ حاشیہ‘‘ ہیں۔ پھر آپ نے ان دونوں شبہات کا جواب دیا ہے۔
اشکال اوّل
یہ ہے کہ آلوسی کہتا ہے: ’’ اگر مہدی کے ظہور کی شرط دنیا کا ظلم و جور سے بھرجانا ہے اور وہ حیات ہیں تو انھیں ظاہر ہوجانا چاہیے لہٰذا عدم ظہور ، ان کی عدم حیات کا پتہ دیتا ہے۔
توضیح
والجوب: محدث نوری قدس سره فرماتے ہیں : دنیا کا ظلم و جور سے بھر جانا، ان حضرت کے ظہور کی شرائط میں سے ایک شرط ہے نہ کہ علت منحصر۔
مرحوم نوری نے لکھا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعہ صحاح میں موجود اخبار کے متون میں یہ ملتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ ’’ وہ ظاہر ہوگا اور زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی‘‘ پس وقت ظہور زمین پر ظلم عام کے وجود کی شرط ہے نہ کہ ظہور شرط ہے۔
ایک جملہ میں یوں کہیں کہ ’’ ظہور کی شرطوں میں سے ایک شرط دنیا کا ظلم و جور سے بھرجانا ہے لیکن یہ علت منحصر نہیں ہے یا یوں کہا جائے کہ ظہور اس کی علت پر منحصر نہیں ہے۔
اگر توجہ کی جائے تو صدیاں گذریں دنیا ظلم سے بھری ہوئی ہے اور اس کی تاریخ اہل تسنن کی حدیثوں کی بنیاد پر پہلی صدی کے مسلمانوں کی تاریخ پر پلٹتی ہے۔ اس کے علاوہ شرائط ظہور میں سے ایک شرط ظہور ، ایک بار سنگین کو اٹھانے کے لیے موافق و آزمودہ انصار و اعوان کا وجود ہے کہ جس کے تحقق کی آرزو تمام انبیاء و صالحین رکھتے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ، ایک زاویہ سے ان کے جدّ بزرگوارکی بعثت سے شباہت رکھتا ہے کہ ظہور سے پہلے گمراہیوں کا پھیلنا ، بعثت سے پہلے ضلالت و گمراہی کے پھیلنے کی یاد دلاتا ہے۔ یہ ایک ظاہر کفر ، اور وہ ایک ناروا تاویل کے ساتھ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ ان تمام گمراہیوں کے درمیان زندگی گذارتے رہے لیکن باوجود اس کے کہ آپ منصب نبوت و رسالت پر فائز تھے تا ہم اپنی رسالت و نبوت کی طرف مکہ والوں کو دعوت نہیں دی۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو انتظار کا ہے یعنی جب تک خالق کائنات کی طرف سے حکم نہیں آیا کہ اے رسول اب آپ اپنی رسالت کا اعلان کریں، اس وقت تک آپ اپنی سیرت نبوی کو اپنے عمل سے ظاہر کرتے رہے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ مکہ والوں کے اذہان و افکار میں تہذیب رسالت و نبوت کے قبول کرنے کی آمادگی پیدا نہیں ہوئی تھی۔
انہیں دو پہلوئوں کے مد نظر حکومت الہیہ کا دنیا پر قائم ہونا لازم ہے۔ یعنی ایک پہلو وہ انتظار ہے جس کے متعلق قرآن آواز دے رہا ہے ’فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ‘ کہ پھر انتظار کرو، میں بھی تمیارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔ اور اس کے دوسرے پہلو پر بھی قرآن نے جھکولے كھاتی ہوئی فکروں کو سکون بخشا ہے یہ کہہ کر کہ ’اِنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ‘ کہ آخر میں میرے نیک بندے زمین کے وارث ہو جائیں گے۔ یعنی ایک طرف خود امام زمانہ علیہ السلام حکم الہی کے منتظر ہیں تو دوسری طرف یہ زمین بھی ان نیک اور صالح بندوں کی فہرت کے تکامل کے لئے بیقرار ہے جو آپ کے ظہور کے لئے اعوان و انصار کی ضرورت ہے اور زمین آمادہ ہو جائے اس تہذیب کے لئے جو امام وقت کی حکومت کے پرچم تلے سارے عالم پر چھا جائیگی۔
اس فصل میں محدث نوری قدس سرہ نے تفصیل کے ساتھ اہل تسنن کی فراوان حدیثوں کی روشنی میں خوبصورت ترکیب عقل و نقل کا استعمال کرتے ہوئے دلیلیں قائم کی ہیں۔
اشکال دوم
آلوسی نے دوسرا اعتراض کیا کہ ایسے امام کا کیا فائدہ جو حکم او رفتویٰ نہ دیتا ہو او رامور میں اس کا کوئی تصرف نہ ہو۔‘‘
مرحوم محدث نوری قدس سرہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیا ہے اس مختصر مضمون میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے البتہ چند جملوں میں جواب کا خلاصہ یہ ہے:
اہل بیت علیہم السلام کے وجود کی حکمت اور ان کے ذریعے سے جو فوائد مرتب ہیں وہ بہت ہیں مثلاً:
ز اہل بیت علیہم السلام خدا او رخلق کے درمیان واسطۂ فیض ہیں۔
ز اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ اہل زمین پر نازل ہونے والے عذاب دفع ہوتے ہیں۔
ز اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ دین نابودی اور باطل تاویلوں سے محفوظ ہے۔ مومنین کو یہ فائدہ بھی پہونچتا ہے۔
اِن بحثوں کو کسی اور مضمون میں انشاء اللہ تحریر کریں گے۔
خاتمۂ کتاب پر محدث نوری نے آلوسی کے دو بیت کا جواب دیا ہے۔ اس دو بیت میں اس نے شیعوں پر ناروا باتیں منسوب کی ہیں۔ منجملہ یہ کہ شیعہ سرداب سامرا کو مکہ سے برتر جانتے ہیں۔ اور اس جگہ کو غیبت میں امام مہدی علیہ السلام کے چھپنے کی جگہ قرار دیتے ہیں کہ ایک روز وہ وہاں سے باہر آئیں گے۔
مولف نے آلوسی کی اس تہمت کو کہ سرداب سامرا ’’سرداب غیبت ‘‘ ہے یعنی سرداب میں امام غائب رہتے ہیں کا موشگافانہ جواب دیا ہے۔ دیکھا جائے تو کتاب کا یہ حصہ ایک درخشاں حصہ ہے۔ اس لئے کہ آلوسی کے عامیانہ خرافات کہ جس میں اس نے تاریخی حقایق کو یکسر کنارے کردیا اور شیعوں پر اس طرح تہمت لگایا کہ جیسے شیعہ اس کا کوئی جواب نہ دے پائیں گے۔
محدث نوری نے متقدمین شیعہ علماء و محدثین جیسے شیخ صدوق ، شیخ طوسی و شیخ مفید و سید مرتضیٰ و شیخ کلینی کے نظریات کو بیان کیا ہے اور آلوسی کے نظریہ کو افترائے محض قرار دیا ہے اور فرمایا کہ احادیث معتبر میں آغاز ظہور کو مکہ مکرمہ قرار دیا گیا ہے۔
اس کتاب کے آخری صفحات پر دو باتیں تحریر کیا ہے:
پہلی بات کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں استدلالی نکات او ربعض اہل تسنن کے منابع پر نقد و تنقید کی ہے اور دوسری یہ ہے کہ متعصبین اور معترضین کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ تاریخ میں ان تمام روشن دریچوں کو بند کر دیں جو امام غائب کے وجود اور ظہور پر مضبوط دلائل کے ساتھ خدا اپنی حجت کو تمام کرتا ہے۔ یہی وہ زمینہ یا آمادگی میں بڑی بڑی رکاوٹیں ہیں جس سے تعجیل ظہور میں تاخیر کا سبب ثابت ہو رہی ہے۔ پیش نظر ان مصنفین، معترضین اور معاندین جو امامت کی کھلی حقیقت پر پردہ ڈال رہے ہیں ان میں آلوسی، عبد العزیز دہلوی (مالف تحفہ اثنا عشریہ) اور ملا نصر اللہ کابلی (مالف کتاب الصوائق) پیش پیش ہیں۔
تقاضہٴ قدرت الہیہ کے بموجب ان تمام شکوک و اشکال کو ہمارے علمائے اول ذکر سیر حاصل جواب دے دیا ہے اور مطلع ظورر کا روز روشن کی طرح صاف کر دیا ہے۔ کسی گوشہ یا پہلو سے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے جس سے مخالفین اپنی زبان کھول سکیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ فکر و ذہن و شعور سے برطرف اس بات پر اڑے رہیں جس کے لئے شاعر نے مصرع اچھا کہا ہے:
اس پہ مچلے ہیں کہ ہم درد جگر دیکھیں گے
اسباب و علل اقصائے عالم میں منجانب خلاق کائنات وہ سارے تقاضہ پورے کر رہے ہیں جو ظہور کا زمینہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ مزید مرحوم محدث نوری قدس سرہ لکھتے ہیں کہ ان کتابوں کی ردّ ہندوستان کے شیعہ علماء نے لکھا ہے او ران کی تعداد چالیس جلدوں سے زیادہ ہے۔
ملحقاتِ کتاب
کتاب کشف الاستار میں قصیدۂ بغدادیہ کے آٹھ منظوم جواب جو جید شیعہ علماء کے ذریعہ لکھا گیا ہے اس کتاب میں ان قصائد میں سے تین قصیدوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
۱۔ قصیدۂ شیخ محمدحسین کاشف الغطاء (متوفیٰ ۱۳۷۳)
شیخ کاشف الغطاء محدث نوری کے شاگرد تھے۔ ۲۲ سال کی عمر میں متن کتاب کشف الاستار کو ۲۴۲ بیت میں منظوم کیا ہے۔
۲۔ قصیدۂ شیخ محمد جواد بلاغی (متوفیٰ ۱۳۵۳ھجری)
یہ قصیدہ ۱۱۰ بیت پر مشتمل ہے اور اس قصیدہ کی جامعیت اور علوم مختلف میں جدت کے اعتبار سے خاص مقام کا حامل ہے۔
۳۔قصیدہ سید محسن امین عاملی (متوفیٰ ۱۳۷۱ہجری)
۳۱۱ بیت پر مشتمل یہ قصیدہ آلوسی کے قصیدہ کے موضوعات کی تقسیم بندی کے بعد جواب دیا گیا ہے۔
خدایا! وہ لوگ جو انکار وجود امام زمانہ علیہ السلام کرتے ہیں ان کے قلب سیاہ کو اگر وہ قابل ہدایت ہیں روشن کردے اور اگر قابل ہدایت نہیں ہیں ذلیل و خوار کر۔ امام کے ظہور میں تعجیل فرما ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما۔
مراجع و علماء کا سایہ ہم پر قائم ودائم رکھ اور امام زمانہ علیہ السلام کی نگرانی میں مراجع عظام کی اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق مرحمت فرما۔
اللھم عجل لولیک الفرج واجعلنا من انصارہ و اعوانہ

اپنا تبصرہ بھیجیں