تحریک کا طوفانی سیلاب

عنوان تحریک سے مراد وہ منصوبہ بندی کے سلسلے جو تہذیب انسانی کی ابتدا ءسے چلے آ رہے ہیں ۔ ایک جانب انبیاء، اوصیاء، صالحین اور بعدہٗ مرسلین اور ان کی ہدایات پر عمل کرنے والوں کا گروہ عہد بہ عہد خدا کا پیغام دیتے ہوئے کاروان در کارواں چلے جارہے ہیں تا کہ انسان اپنی خلقت کے مقصد کو پہچانے اور اس ارض خاکی میں چند روزہ زندگی میں بالقسط پرامن طور سے اپنے دن گذار کر ابدیت کی طرف سفر آخرت کے دوام کی حیات کا حقدار ہو جائے۔ اس جانب تاریخ کے نشانات ثابت کرتے ہیں کہ نہ ان کے پاس لشکر کشی نہ امارت سازی کے منصوبے تھے، مگر یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں ۔ غیر مغضوب ہیں اورولا الضالین کے مصداق ہیں اور دوسری جانب ایک بڑی اکثریت ان کے خلاف اپنا محاذ کھولے ہوئے ہے جو نئی نئی تحریکات کے ذریعہ انسان کے حقوق کی پامالی پر ہمیشہ آمادہ رہا کرتے ہیں۔
جہاں سے انسان کی پیش رفتی کے آثار و نشانات ملتے ہیں دو طاقتیں آمنے سامنے کھڑی نظر آتی ہیں ۔ ایک کی ردیف میں تحریک ہی تحریک ہے ۔ یہاں تحریک سے مراد وہ منصوبے جو حصول مقصد اور حکمرانی اور سیاست گرانی کے منصوبوں پر محمول ہوتےہے اور حکومت سازی کے مختلف النوع دستور سازی کی اساس پر ہے ۔ جیسے نمرود ایک شخص تھا ایک ذات تھی نمرودیت اس کی وہ تحریک تھی جس کی بنا پر وہ حکومت اس طرح کرتا تھا کہ خود کو موت و حیات کا مالک قرار دیتا تھا ۔ اسی طرح فرعون ایک انسان تھا اور فرعونیت نے اس تحریک کو جنم دیا کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ خدا ہے ۔ اس تحریک کے قوانین و ضوابط مرتب ہورہے تھے ۔ اور آج بھی مزاج کا خچر اسی نوعیت سے گوندھا جا رہا ہے حالانکہ بظاہر خدا کی قدرت کے قائل ہونے کی بھی بات کرتے ہیں ۔اور مزاج میں وہی نمرودیت اور فرعونیت کے جراثیم طاقت پکڑ رہے ہیں۔
اس مختصر سے مقدمہ کے بعد ہم اصل مقصد پر آتے ہیں یعنی اس دنیا کی خلقت اور اولاد آدم سے بسائی ہوئی یہ دنیا نہ بے مقصد اور نہ فقط ظلم و استحصال یا گروہان مردم میں تصادم اور تصارف کے لیے ہوتی ہے اس میں اگر خزاں اور خزاں کے نام پر اخیار کا دور دورہ فریب دیتا رہا ہے تو اسباب بہاراں کا بھی نزول ہوتا رہا ہے اور خالق کائنات نے ساتھ ساتھ انبیاء اور اوصیاء کا سلسلہ بھی قائم رکھا اور اپنے عدل و انصاف کے ساتھ ان افراد کے گروہ کو بھی ایک ایسے کارواں کی طرف توفیقات عطا فرمائی جو ان انبیاء اور اوصیاء کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے ان کی ہدایات پر عمل کرنے میں زندگی صرف کی یہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایک دائمی خوش بختی کے حامل رہے۔ مصیبتیں بھی آئیں، ٹکرائیں اور چلی گئیں ۔ بد بخت وہی رہے جو تکبر اور غرور میں ظلم و ستمگری یا استحصال کی تحریکوں کے ساتھ زندہ رہے۔ رنج و غم اور عاقبت کی آگ پر چلے اور کسی حساس شاعر نے سچ کہا ہے:
کل جس میں بھرا تھا وہ غرور آج کہاں ہے
اے کاسۂ سر بول ترا تاج کہا ں ہے
اور جوش ؔ نے اس کی ترجمانی اور اچھے انداز میں کی ہے جس کو میں نے بہار زندگی سے معنون کیا ہے۔
شاہوں کے سروں پر تاج گراں کا درد سا اکثر رہتا ہے
جو اہل صفا ہیں ان کے دل میں نور کا دریا بہتا ہے
چونکہ موضوع بحث وہ تحریکات ہیں جن کے تحت عہد بہ عہدحکومتیں بنی، سماج اور معاشرہ کے قوانین و ضوابط بنائے گئے اور ہر گوشہ سے جائز یا ناجائز سے قطع نظر بڑی بڑی تبلیغات اور نئے اسلوب اور نئے نام کے عنوانات سے فریق بنے، پارٹی بنائی لیکن ایک عہد تک گذران کی طاقت چلنے کی رہی بعدہٗ ٹھوکروں میں آگئی۔ نہ نمرود رہا نہ نمرودیت ۔ نہ فرعون رہا نہ فرعونیت لیکن ان کے منصبوں کے پرتو اور سائے باقی ہیں اور نئے نئے بھیس میں زور پکڑتے رہے اور ہوا و ہوس کی آندھیوں میں تنکوں کی طرح بکھرتے رہے ۔باقی رہا وہی کارواں جو انبیاء اور اوصیاء کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہا اور ان تحریکات سے گریزاں اور دامن کش رہا۔
امام مہدی علیہ السلام اور تحریکات کا موازنہ
امام مہدی (عج) ایک ذات (اقدس ) ہے اور مہدویت ایک تحریک نہیں ہے۔ مہدویت مشیت خدا کی وہ حجت ہے جس کو عدل الٰہی کی اساس پر تکوین عالم سے جلوہ گری کرتی رہی تا کہ انسان خدا کے فیصلوں پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
ماضی کی تفصیل برطرف ، ہمارا موضوع بیان ہے :”تحریکات باطلہ اور مہدویت “اس پرانی اور قدیم دنیا میں خداوند سبحانہٗ نے اپنی حجت کو تمام کرنے کے لیے اپنا وہ آخری محبوب بندہ بھیجا اور رسالت کے ساتھ میزان اور کھلی نشانیاں ہمراہ کردیں تا کہ انسان پر امن زندگی بسر کرسکے اور نجات پا کر ایک دائمی زندگی کے دائرے میں قدم رکھنے کا اہل بن سکے ۔ اپنے کلام کی تدوین ہوئی اور کلام خدا ہے : لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (حدید57:25)
اور یہ بھی فرمایا ما محمد الا رسول(ال عمران 3:144)۔ اب شکایت بھی کی کہ آیات قرانی پر غوروفکر کیوں نہیں کرتے۔وہ رسول جو خدا کی طرف سے آیا ایک حدیث ایسی چھوڑ دی جس کا کوئی فرقہ منکر نہیں ہے یعنی روایات نے محکم قرار دیا ہے کہ ہمارے بعد ہمارے بارہ جانشین ہوں گے۔
تحریکات بہ تحریکات مخالف جانب سے آتی رہیں لیکن حقیت بیانی کا یہ سر چشمہ اپنی راہ پر چلتا رہا۔
رحلت: مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت پر سقیفہ ایک تحریک تھی اور حضور سرورکائنات کی تجہیز و تکفین ایک منصب وصایت کی ذمہ داری تھی۔
صلح حسن علیہ السلام: صلح حسن علیہ السلام صلح حدیبیہ کا وہ سبق تھا جو لوگوں کے اذہان کو حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے اور کربلا کا مقدمہ سیاست گر ان زمانہ کو وہ تمام تحریکات کو بروئے عمل لانا ہے جن سے ذہن فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو جانشینی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری کڑی ہے اس سے منحرف ہو جائیں اور یہی ہوا ۔ ۶۱ھ تک حالات نے ایسا پلٹا مارا کہ حفاظ قرآن بھی حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں آگئے۔
کربلا: جانشینی رسالت کی وہ تیسری کڑی تھی جس نے ماضی اور مستقبل تا روز قیامت اپنی اس حقیقت کو جو مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث تھی ایسی کسوٹی دے دی جسے حکومتوں کی تمام تحریکات پر پانی پھیر دیا اور اتمام حجت کے لیے مستقبل میں آنے والی تمام نسلوں کے لیے ہدایت کی راہ پر سنگ میل قائم کردئیے ۔
حضرت عابد سید الساجدین علیہ السلام: بنی امیہ کی ڈیڑھ سو سالہ حکومت میں وہ کونسی ہلچل تھی کیسا تلاطم تھا کس طرح کی بے چینی تھی کہ فرزند رسول کو زہر سے شہید کرنے کا مجرمانہ فیصلہ (عبدالملک) نے لیا۔
مختصر یہ کہ بنی عباس کا جب دور آیا تو خلیفہ عباسی پر وہ کون سی مصیبت پھٹ پڑی تھی کہ مدینہ میں فرزند رسول امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کو بلا کر سامرہ میں نظر بند کردیا۔ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی بول رہی تھی، اعلان کررہی تھی اور کلام الٰہی کی تائید کررہا تھا کہ جب یہ زمین مردہ ہو جائے گی تو خدا اپنی قدرت سے اسے پھر حیات نو بخشے گا پھر دوران نظر بندیٔ امام علی نقی اور امام عسکری علیہما السلام ایک سخت پہرہ لگا ہوا تھا ۔ آج تاریخ سوتے ہوئے گمراہان زمانہ کو بیدار کررہی ہے ۔ عصبیت برطرف انصاف کا لفظ دنیا سے محو نہیں ہوا ہے ۔ برائے یاد دہانی عرض کردوں امام موسیٰ کاظم کو اتنی طویل مدت تک زندان میں رکھا اور یہ عرب فرزند رسول کی موافقت میں کھڑے نہ ہوئے سوائے ان حق پرستوں کے جو صابر و شاکر ہو ہو کر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کررہے تھے ۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ حق حق ہے اسے ان عباسی خلفاء کی تحریکات کیا دبائے گی ۔ زائرین کا سیلاب امڈ رہا ہے کاظمین میں۔
بات میں بات نکلی تو ذکر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا آگیا ۔ بے چینی، تلاطم، خوف و ہراس یہ سب کیوں تھا خلفاء عباسی میں ۔ کیا امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کے پاس کوئی بہت بڑی فوج تھی ، لشکر تھا جو حکومت پر چڑھائی کرنے کے لیے تیار تھے ۔ اور اگر ایسا کچھ نہیں بلکہ اس کا شائبہ بھی نہ تھا تو خلیفہ نے یہ اقدام کیوں کئے۔ کربلا سے لے کر سامرہ تک تقریباً ڈھائی سو برس تک زندانوں میں قید و بند کی تاریخ۔ گوشہ نشینوں کی خاموشی سے ہیبت کا خلفا میں چرچا۔ عیاری، مکاری، چالبازی سے نظر بندی کے علاوہ زہر سے شہید کرنے کے مختلف طریقے سب وہ حربے آزمائے جا رہے تھے اور وہ پاکیزہ اور طاہر خون جس کی طہارت کے لیے ثار اللہ کا لقب منسوب کیا گیا تھا بہایا گیااس کے پس منظر میں خلافت، حکومت، بادشاہت جسے خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کیا گیا تھا اس کی تباہی، بربادی، رفتہ رفتہ ذلت و رسوائی کی پیش آمد کے مستقبل کا ایک بڑا خوف رگوں میں ظالموں کے دوڑ رہا تھا۔ انجام کار ڈیڑھ سو برس کے بعد بنی امیہ کے رؤسازمین میں ایک گڑھے میں لٹا کر ان پر تختے جڑ دئیے گئے اور بنی عباس نے ایک جشن منایا اور پھر ان پر زوال آیا اور دو صدی نہیں گذری تھی کہ بغداد کی سڑکیں خون سے رنگین ہوگئیں اورپھر تاریخ کاتیسرا خونچکا دور شروع ہوا۔یہ اسلام دشمنوں کا وہ دور تھا جسے فتوحات اسلامی کا دور کہا جاتا ہے لیکن دوسری طاقتیں جو اسلام مخالف تھیں وہ بھی سب نئے نئے منصوبوں کے ساتھ ابھر رہی تھیں۔تاریخ کا ایک سلسلہ ہے جو اہل بیت کے خلاف ان گروہان مردم کی داستان دہراتا ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر حصول مقصداور حکومت اور حکمرانی کے نصب العین پر ہر طرف حملہ آور ہوئے ۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دواڑئے اوران کے قصیدے پڑھے جانے لگے۔
مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ امانت جسے شریعت کہتے ہیں اس کے نام پر شان و شوکت کے مسند بچھے شہنشاہیت جلوہ افروز ہوئی اور ان کے حکم پر مظلوم کی گردنیںزیر خنجر کے خوف سے اسی کو اسلام سمجھ لیا جوشہنشاہیت کے رعب و جلال اور حکومت کے دبدبے کے سامنے جھکی ہوئی تھیں۔
راقم الحروف نے ایک پہلو پر جو اسلام کے ساتھ ہوا اس کا عکس مرقوم کے قلم سے آئینہ داری کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اب اس کا دوسرا پہلواجاگر کرنے کے لیے قلم رک گیا تھاجو اب زیر بحث حقیقت کا وہ کھلتا اور مہکتا ہوا گلشن جومصیبتوں کی بہاروں میں اپنی دائمیت اور معجز نمائی کے ساتھ اپنے عزم و استقلال سے آنے والے حادثات اور طوفانوں کو اپنے کردار سے جو رضائے الٰہی سے مربوط تھے چٹکیوں سے مسلتے ہوئے اسلام کی اصالت اور اس کی شریعت کو تازگی بخشتے رہے۔
وہ حادثات اور حالات کیا تھے قارئین کرام کو یہاں تک لا کر ان کی توجہ مبذول کرنا مطلوب تھا۔ ۱۳ سال مکہ کی اسلامی زندگی پر نظر ڈالئے تو اندازہ ہوگا وہ حادثات جن کا مقابلہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخلص اصحاب کے ساتھ کیا تھا اس کی تاریخ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ سمیہ اور یاسر کی شہادت، شعب ابو طالب میں محصور، بلال کے سینے پر جلتا ہوا پتھر، حبش کی ہجرت اس وقت جو کچھ ہوا اس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے اور کم دہرائی جاتی ہے ۔ دس یا گیارہ سال اسلام بعد از ہجرت از مکہ مدینہ منورہ میں غزوات کا ایک سلسلہ سات سال بعد مکہ فتح ہوگیا اور تین سال میں وہ افراد شامل ہوئے جن لوگوں نے اسلام کی بیخ کنی میں وہ ظلم کے کارنامے انجام دئیے تھے جن کی مثال آج تک دنیا کے کسی مذہب اور تہذیب کی مخالفت میں نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر کیا ایسا کبھی یا کہیں ہوا ہے کہ دشمنی میں ایک عورت امیر حمزہ کا سینہ چاک کرے اور کلیجہ نکال کر شہید کے سینے سے اور چبائے۔ وہ بھی کیا سے کیا بن گئی ہو؟؟؟؟(دعوت فکر مطلوب ہے)
غرض یہ تین سال فتح مکہ کے بعد اسلام کے شاندار وہ عوامل جو انسان کو انسانیت کے ساتھ جینا سکھاتے تھے اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عوامل کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انھیں کے ذریعہ اسلام کی بنیاد کو مضبوط کردیا جس کے نتیجے میں مذکورہ بالا حادثات اور حالات کے اجالوں کا ذکر تاریخ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے:
مولائے کائنات دعائے کمیل میں فرماتے ہیں ۔ “اللھم انی اسئلک بقدرتک التی غلبت علیٰ کل شئیٍ”۔ اسی جملہ کے تحت جب اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ جو آسمان سے زمین پر وارد ہوا تو شریعت اسلامی اور دین اسلام کی وہ امانت ساتھ میں لایا تھا جو سبحانہٗ تعالیٰ نے ابلاغ کے لیے رسالت کا مقصد باتعین تھا اور مرسل اعظم نے اعلان کیا “انی لکم رسول امین فاتقو اللہ واطیعون”۔ (شوریٰ (26:107-108اور یہ بھی فرمان الٰہی تھا کہ ’’ما محمد الا رسول‘‘لفظ رسول کے معانی و مطالب اس کے راز و رموز عالمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ منکشف ہوئے لیکن جب مذکورہ حالات و حادثات کے خطر ناک منصوبوں کی تحریکوں کا سیلابی حملہ اس پر ہو رہاتھا کہ اس کی حفاظت کے لیے تمام اسباب بھی موجود رہے تا کہ حجت خدا کی دائمیت پر آنچ نہ آنے پائے۔ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث یا قول اس بات کا ایسا پختہ ثبوت ہے جو مالک یوم الدین کے سامنے عدالت الٰہیہ کا میزان ہے ۔ وہ قول ہے میرے بعد میرے ۱۲ جانشین ہوں گے اور بارہواں جانشین وہ ہوگا جو اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
اس قول کے تناظر کے تحت دنیا ظلم و جور سے بھررہی ہے تو بارہویں جانشین کا وجود بھی اسی آفتاب کی طرح روشن ہے جو بادلوں کے نقاب سے اپنی کرنوں سے امید کے چراغ کی لو کو مدھم نہیں ہونے دیتا اور حق پرستوں کے وجود میں ذہنی ،قلبی ،فکری، شعوری وسعتوں میں اپنے نور سے منور کردیتی ہے ۔
قارئین کرام !اسلام کی دشمنی کے سلسلہ جس طرح موسم بدلتے ہیں اسی طرح اپنا چولہ بدل بدل کر آندھی اور گردوغبار سے بھرے بہت بڑے بڑے طوفانوں کی طرح سے آتے رہے لیکن اس میں اہل بیت علیہ السلام کی وہ سرپرستی اور حفاظت کے حصار میں ہر خطرے کو چٹکیوں میں مسلنے کے لیے قدرت رکھتا ہے کہ اللہ وہ اللہ ہے جس کی قدرت ہر شئے پر غالب ہے ۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی خلقت کا سبب ہی اسلام کی حفاظت کے لیے ہے ۔ ذرا تاریخ پرایک طائرانہ نظر ڈالئے ایک طرف مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے میرے بعد میرے ۱۲ جانشین ہوں گے دوسری طرف استحصال اور تحریکات مخالفانہ کے عہد بہ عہد نو بہ نو زور دار حملوں پر غوروفکر کو مہمیز کرلئے۔مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی بابت جانشین کے سامنے رکھیے۔
۱) اسلام کی تبلیغ زیر اقدام رسالت مآب کی مدت ۲۳ سال۔
۲) فتح مکہ کے بعد صرف ۳ سال گذرے تھے کہ آنحضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ہوگئی۔
۳) ان تین سالوں کی مدت کے اثرات :
۱) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنازہ تجہیز و تکفین و تدفین میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
۲) علی علیہ السلام گوشہ نشین ہوگئے ۔اسباب تاریخ بیان کرے گی۔
۳) کیسے کیسے کردار فضیلت مآب ہوگئے۔ بدر سے ولید کو ہٹا دیا ۔ خالد بن ولید سیف اللہ ہوگئے۔
۴) باغ فدک کی آدھی آمدنی مروان بن حکم کو دے دی۔
۵) معاویہ امیر المومنین بن گیا۔
۶) بنی امیہ کا ڈیڑھ سو سال کاطوفان خیز دور عروج پر آیا یزید رضی اللہ ہوگیا۔
اجمالی جائزہ حق بینوں کے لئے تاریخ کے مطالعہ کی دعوت دے رہا ہے ۔
سوالیہ نشان…… بنی عباس کی حکومت کیوں لرز رہی تھی۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی طویل مدت تک زندان کی صعوبتوں کا منظر سامنے رکھئے تورونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کو کس چالاکی سے زہر سے شہید کیا۔کیوں امام ہادی علیہ السلام کو امام عسکری علیہ السلام کے ساتھ سامرہ کے محلہ عسکر میں کیوں نظر بند کیا گیا ۔
کیا وجہ تھی کہ کچھ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ ایک قصیدہ یہ بیان کرتا ہوا آیا کہ امام مہدی علیہ السلام پیدا نہیں ہوئے ہیںاور وہ قصیدہ بغداد میں گردش کررہا تھا۔ اس کے جواب میں محدث نوری نے کشف الاستار لکھا۔
خوف: مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بلند بانگ تھی ۔رہی باقی ہے ۔جس کے نتیجے میں تلوار۔ قلم۔ علمی بغاوت سیاست کی تحریکیں ۔شہنشاہیت اور حکومت کی طرف سے مخالفت کے نئے نئے اسلوب بقول شاعر:
یہی لوگ ہیں ازل سے جو مجھے ستا رہے ہیں
کبھی سامنے سے آکر کبھی اوڑھ کر لبادہ
غیبت قادر مطلق کی مشیت
اللہ تبارک و تعالی کی مشیت کوئی بے سبب نہیں ہوتی۔ اپنے ولی کی غیبت کبریٰ ذات اقدس خداوندی جس کی قدرت سے یہ دنیا خلق ہوئی بے سبب نہیں ہے۔ اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان کروا دیا کہ ہمارے بارہ جانشین ہوں گے اور بارہواں اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
عدل الہی کے سامنے بانیان ظلم و جور کے تقاضے ہیں کہ ہم ان گنت مخالف منصوبوں اور تحریکات کے ذریعے اس دنیا کو ظلم و جور سے بھر دیں گے اور معین مدت کا ہر لمحہ استحصال و ظلم و ستمگری کی زبان بولے گا۔مشیت خداوندی نے اپنا ایک ولی اس دنیا میں قائم کردیا۔ مشیت خداوندی تبسم ریز لب ہے تم معین مدت کے پیمانے کو ظلم و جور سے بھرنے کی اتنی حسرت پوری کر لو یہاں تک کہ حجت تمام ہوجائے پھر دیکھو یہ تمہارے ایٹمی اسلحے یہ سیاسی تحریکیں یہ کافرانہ برہنہ رقص یہ زمین کے جگر کو کاٹنے والے تمام حربے جو ہمارے حق پرستوں پر گراؤ گے ہمارا ولی کس طرح ایک ایک کرکے اس کے تمام تانے بانے توڑ کر تمہارے منہ پر مار دے گا۔ اعلان نبوی وہ خدا کی مشیت کی آواز ہے جو افضائے عالم میں گونج رہی ہے ۔معین مدت کا پیمانہ بھر نے تو دو پھر ظہورکی صدا بلند ہوگی غیبت کی نقاب اٹھے گی۔ ذوالفقار کی تشنگی بجھے گی علی کالعل تنہائیوں کے پس منظر سے باہر آئے گا اور تمام مخالف و معاندین کے منصوبوں کی کلائی کس طرح توڑے گا دیکھ لینا۔
خبردار کر دینا مشیت کا کام ہے، وظیفے پرعمل کرنا تمہاری عقل و خرد کا تقاضہ اسے پورا کر لو ورنہ پچھتاؤ گے۔
پیش داور یہ منافقت بروئے کار نہ آئے گی کہ:
سجدہ خالق کا ہے ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عبادت کا صلہ مانگو گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں