کردگار عالم نے کار زار ہستی پر جو گراں بہا نعمت اپنی مخلوقات کی خاطر منجی بنا کر بھیجی وہ ہادی اور رہبر کی شکل میں غیر المغضوب سے لوگوں کو آگاہ کر انعمت علیہم کا سبق پڑھانے لگیں ۔ اور یہ سلسلہ روز اوّل سے لے کر صبح قیامت تک نہ منقطع ہونے والا بن گیا ۔
لیکن قرآن کریم کے مطابق لا ن شکرتم ( پوری آیت کفرتم تک ) کا اثر اس نعمت عظمی پر بھی رہا اور سب سے زیادہ اثر رہا کویہ نبی اور رسول ایسا نہیں گذرا کہ جس کی اُمّت نے اُس کی ناقدری کی اور ناقدری کا یہ عالم کے اُس کے خون ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگ ڈالا رحمت العالمین جو کہ لولاک لما خلقت الافلاک کے مصدر اور اخلاقِ حمیدہ کا منبہ تھے اُمّت نے کفرتم کے دائرہ ناقدری میں داخل ہوکر کبھی سنگ باری کی کبھی اس قدر مخالفت کی کہ شعب ابی طالب علیہ السلام میں سخت ترین حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا حتی کہ کاروانِ ظلم نہ رکا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ چھوڑنا پڑا ۔
اتنی عظیم نعمت جو کہ گراں بہا نگینہ جسے ایمان کہتے ہیں اُسے حاصل کرنے میں مدد کرتے تھے ۔ انسان کے خود ساختہ اوامر نے اُسے ضلالت اور گمراہی کے ایسے کنویں میں گرا دیا جس کی کوئی تہہ نہ تھی ۔
یہی وجہ رہی کہ بعد پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غدیر خم میں امیر المومنین علیہ السلام جیسے مینا ر ہدایت کو لوگوں پر آشکار کرنے کے باوجود اُسے منہدم کردیا گیا۔ اور منہدم بھی اس طرح کہ اُس کی شدید مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہدایت کا سلسلہ پس پردہ جاتا رہا ۔تاریخ کے مضامین کی سیاق و سباق کے حوالے سے تشریح کی جائے معلوم یہ ہوگا کہ ہر دور ہادی و رہبر کی با برکت ہستی سے پر نور تو رہا لیکن اِ س نور سے استفادہ حاصل کرنے والو ں کی تعداد نہا یت ہی قلیل رہی اور قلّت اس حد تک رہی کہ وہ قلّت اُس حجّت خدا کی تنہائی میں تبدیل ہو گئی اس تنہائی کا نتیجہ یہ بھی تھا کہ وہ اس بلند پایا شخصیت سے اور اُس کے اس دنیا میں آنے کے مقصد سے آشنا نہ تھے اور اس کی بلندی کی معرفت نہ رکھتے تھے اگر رکھتے ہوتے تو پیغمبر اکرم ﷺ کا جنازہ تنہا چھوڑ کر سقیفہ میں خود ساختہ انتخابات میں مشغول نہ ہوجاتے ، جناب زھراؑ کو بیت الاحزن کی درخواست نہ کرنا پڑتی ، امیر المومنین ؑ کو ۲۵ سال گوشہ نشینی اختیار نہ کرنا پڑتی ، امام حسن ؑ کو معاویہ (لعن ) سے صلح نہ کرنی پڑتی اور نہ ہی سیّد الشھداء حضرت امام حسین ؑ کو ۷۲ انصار اقرباء کے ساتھ جام ِ شہادت نوش نہ کرنا پڑتا ۔
حجّت خدا کو اس قدر تنہا چھوڑا گیا کہ دشمنو ں نے اُن پر اپنے شکنجہ آسانی سے کس لیے۔ تنہائی کیا ہے؟ اگر لغوی معنی کو ہی درج کریں تو فکر انسان منقلب ہو جاتی ہے تنہائی بہ معنی علیحدگی ، گوشہ نشینی ، جدائی، مفارقت اکیلا رہنا ہے ۔
امام زمانہ ؑ سے قبل تمام حجّت خدا کی تنہائی کا مفہوم الگ تھا ۔ الگ ان معنوں میں کہ ہر فضل پروردگار کی نشانی لوگوں کے سامنے ظاہر تھی ، اور لوگوں کے درمیان آشکار تھی ۔ لوگ کم از کم اُنھیں دیکھتے اُن کے جو مختصر سے چاہنے والے اُن سے براہ راست رابطہ کر سکتے تھے ہدایت سے بآسانی سیراب ہو جاتے وہ اپنا حال ِ دل اپنے خاص اصحاب سے بیان کرتے لیکن مظلوم زمانہؑ اُن تمام چیزوں سے دور ہیں ایک تو غیبت جو کہ طولانی ہے اور یہی طولانی غیبت والد کریم حضرت امام حسن عسکری ؑ کی شہادت سے شروع ہوئی ۔ تنہائی اُس وقت بھی طاری تھی جب آپ اس دنیا میں تشریف لا رہے تھے اس طرح کہ آپ کی ولادت کو دشمنوں کے خوف سے پوشیدہ رکھا گیا آپ کے حقوق کے پامال کرنے کی کوشش کی گئی اور آپ کے والد بزرگوار پر لا ولد ہونے کے الزامات عائد کئے گئے آپ اُس وقت بھی تنہا تھے اور غائبانہ زندگی بسر کر رہے تھے ۔ آج بارہ سو سال کے قریب آپ کی غیبت کا زمانہ طے ہو چکا ہے اور ہر دور کی طرح ہم نے بھی پروردگار عالم کی طرف سے ارسال کی ہوئی وہ بیش قیمتی نعمت سے دوری اختیا ر کی اور گزشتہ زمانے کے افراد کے طرز عمل پر خود کو گامزن کر لیا۔
کیا یہی قدر دانی ہے قرآن کے محافظ ، دین کے نگہہبان کی ہم نے آج تک کے تمام نعمت کی ناقدری کرنے والوں پر سبقت اختیار کی ، اگر نہ کی ہوتی ہم ضرور بہ ضرور اُس والد شفیق کی قدم بوسی سے محروم نہ ہوتے۔ ہم کبھی اُس کریم ذات کے سائے سے دور نہ ہوتے ، اُن کی خاک پا کو آنکھو ں سے لگانے سے محروم نہ ہوتے ، ہم نے خود کو دور کیا اگر نہ کیا ہوتا تو غیبت میں بھی امام علیہ السلام تک رسائی آسان ہوتی آج وہ امام جس کے سینہ میں اُن کے خاندان پرڈھائے گئے مظالم کا غم ہے اور ایسا غم کہ پہاڑوں پر بیان کیا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں آسمانوں پر بیان ہو تو وہ زمین پر آگریں زمین پر بیان کیا جائے تو شگافتہ ہو جائے ۔ اس قدر غم و اندو ہ کے بعد ہمارا امام کی طرف متوجہ نہ ہونا اُن کی تنہائی اور غم میں اضافہ کا سبب بن گیا ہے ۔
لوگوں کو گمراہی کی طرف بڑھتا دیکھ کر اُنھیں گناہوں کا مرتکب ہوتا دیکھ امام ؑ کا غم اور بڑھ جاتا ہے ہماری دعاوں نے امام ؑ کو تنہا چھوڑ دیا ہے کتنی ہماری دعائیں ہے جن کی ابتداء امام زمانہؑ سے ہوتی ہے؟ ، حد تو یہ ہے کہ پروردگار عالم سے تمام نعمتوں کا سوال کرتے ہیں لیکن جو نعمت عظمیٰ ہے اُس کی خاطر کوئی حاجت طلبی نہیں ہوتی ۔ کیا ہم یہ بھول گئے کہ قرآن کے وعدہ کے مطابق یَوۡمَ نَدۡعُوا۟ كُلَّ أُنَاسِۭ بِإِمَـٰمِهِمۡۖ )سورہ بنی اسرئیل :۷۱(بھی ہے ۔ اور ہم اسی آیت کے زیر سایہ میدان محشر میں شرکت کریں گے ۔ وہ تنہا ہیں جو ہدایت کے تنہا سر چشمہ ہیں، اِس پُر آشوب زمانے میں وہ تنہا ہیں جو تنہا بلاوں کو رد کرنے والے ہیں ، اس مشکلات کے دور میں وہ تنہا ایسے فرد ہیں جو تنہا ہی حاجت روائی کرسکتے ہیں ، وہ تنہا علم کے مرکز ہیں جو تنہا لوگوں کو جاہلیت کے اندھیروں سے دور کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔
امام ؑ کو تنہا چھوڑنا ہدایت سے محرومی ہے ، امام ؑ کو تنہا چھوڑنا بلا وں میں گرفتاری ہے ، امام ؑ کو تنہا چھوڑنایعنی مشکلات میں گھر جانا ہے امام ؑ کو تنہا چھوڑنا یعنی جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کھو جانا ہے جس کا خمیازہ گزشتہ اُمتوں نے اُٹھایا ہے اور ہم بھی اُٹھایئں گے اگر ہم بھی اُنھیں تنہا چھوڑ دین گے تو۔
ہماری کوئی مجلس کوئی محفل ایسی نہیں جو امام زمانہ ؑ کے وجود اقدس سے خالی ہو لیکن اس بزم میں تشریف فرما سامعین کی فکریں نہ جانے کیوں امام کی یاد سے خالی ہیں ، تنہائی یہ بھی ہے کہ ہم کسی سے اپنے مراسم کو منقطع کردیں اور یہ گراں نہیں ہوتی کیوں کہ کبھی نہ کبھی یہ چاہیں کہ وہ دکھا ئی دے گا اور اُس سے ملاقات ہوگی تنہائی کا سب سے تکلیف دہ حصہ وہ ہے کہ ہم اپنے عزیز اپنے ذکر اور فکر سے اُسے منقطع کردیں اور جانیے کہ یہ پہلے والے قطع تعلق زیادہ تکلیف دہ ہے آج ہم نے اُس امام ؑ سے قطع تعلق کرلیا ہے جو باب اللہ الذی منہ یوتی ہے ۔ یعنی وہ دروازہ جہا ں سے عطا ہوتی ہے پھر بھی ہماری خوشیوں میں امام ؑ کا تذکرہ شامل نہیں ہمارےغم اور پریشانیوں میں ہم دنیا بھر کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن مشکل کشاء کے فرزند کی طرف نظریں نہیں جاتی ۔ وہ تو بے قرار ہیں کہ ہم اُن سے ملیں اُن سے باتیں کریں لیکن یہ ہم ہیں کہ خود کو اُن سے دور کرلیا ہے ۔
کیا کوئی صبح اس بے چینی اور اضطراب کے عالم میں نمودار ہوتی ہے کہ جس میں کارزارِ ہستی پر ایسا پھول کہ جس کی بنا پر لاکھوں کانٹوں کو سیراب کیا جا رہا ہے ۔ اُس کے دیدا ر کی چاہت ہو ۔ یا کوئی شب اس غم و اندوہ کے ساتھ بسر ہو جبکہ ہم یہ جملہ دھراتے ہوئے اشکبار ہوں این طالب بدم مقتول بہ کربلا ، کبھی اس جملہ کی تکرار کرتے ہوں کہ عزیز علی ان اری خلق ولا تری، کہ کتنا سخت ہے میرے لئے کہ میں کائنات کو تو دیکھوں لیکن آپ کو نہ دیکھوں کون سا ایسا لمحہ پورے دن میں گذرتا ہے کہ ہم اپنے مظلوم امام کی طرف متوجہ ہوکر اُن کی تنہائی کے کچھ لمحے بانٹتے ہوں؟ ، اور کہتے ہوں کہ کیا کوئی سبیل ہے جو آپ کے وجود اقدس کے دیدار سے شرفیاب کرسکے ۔ وہ امامؑ جن کے ہم منتظر ہیں وہ بھی ہمارےمنتظر ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اُن کی بارگاہ میں حاضری دیں خود کو اُن کے سامنے پیش کریں اگر آج ہم ایک زبان اور ایک دل ہو کر پروردگار کی بارگاہ میں صدق دل سے اُس مقدّس ذات کے ظہور کی دعا کریں تو پروردگار لیقینا اُن کے ظہور میں تعجیل فرمائے گا شاعر نے ہمارے اور امام کے درمیانی فاصلے کو اس طرح بیان کیاہے کہ ۔
ہم دور ہیں امام زماں ؑ کب ہیں ہم سے دور
اعمال میں ہمارے خرابی ہے کچھ ضرور
ہم رجس کے قریب ہیں وہ طاہرو طہور
یا نور کے ملاپ کا ہم کو نہیں شعور
ہم غیبت و ظہور کی بس بات کرتے ہیں
ایسے بھی ہیں جو روز ملاقات کرتے ہیں۔
قارئین کرام نے مضمون ھذا میں تنہائی ،اس معنی و مطالب کے ساتھ جو ملاحظہ فرمایا اُس سے مراد وہ رجحان ہے جو ہماری طرف سے ہمارے افعال اور اقوال جو کردار ساز ہوتے ہیں وہ اسی طرح سےزندگی میں نمایا نہیں ہو پاتے یا بروئے کار نہیں آتے جو امام کے نزدیک اُن کی خوشنودی کاباعث بنے اور اس نہج سے اُنکا غم ہماری طرف سے تنہائی پر محمول ہوتا ہے۔ لیکن ہم ذرا ور ق پلٹ کر دیکھیں تو ہمارا امام ؑ ہماری مرادوں کا منتہا ہے، ہم خطا کار اور گناہ گار ہی صحیح لیکن کیا اُن کی بخشش کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا ہے؟ ۔ اس نظریہ کہ تحت غور طلب بات یہ ہے کہ شاید ہم اُن وظائف پر جو بارگاہ ِ امامت میں پسندیدگی یا قبولیت کا ظرف رکھتے ہیں اُن کا فقدان ہے ۔اس کے باوجود ہم اپنی کمزور آواز میں جب کبھی اُنھیں پکارتیں ہیں تو ہمیں کامیابی اور کامرانی ملتی ہے اورمنتہا ئے مطلب تک اُن کے سر چشمئہ فیض سے باریاب ہو جاتے ہیں ۔
اس تناظر کے تحت ہم توازن کرتے ہیں کہ ہمارا امام تنہا ضرور ہے لیکن صرف ہماری طرف سے ہے جبکہ اُس کے قبضہ قدرت میں خلاّق کائنات نے اختیارات کے ابرِ گوہر بار دے رکھے ہیں ۔ اسی لئے حافظ نے کہا ہے ۔
شکر خدا کہ ہر چہ طلب کردم از خدا
بر منتہای ہمت خود کامران شدم
ہماری طلب خدا سے ہے لیکن اُس شرف طلب کو باریابی کا مقام صرف امام زمان ؑ سے حاصل ہوتا ہے۔
قارئین کرام ہمارا امام ؑ ہم سے زیادہ ہمارا منتظر ہے ، اگر اُن تک رسائی چاہیے تو دلوں پر پڑے مادّی پردوں کا چھانٹنا ہوگا آپسی انتشار کو ختم کرنا ہوگا اور خود سے زیادہ فرزند زھرا ؑ کی محبّت پر آمادہ ہونا ہوگا تب کہیں جاکر ہماری ضلالت ،گمراہی کے بادلوں کے پیچھے ہدایت کا آفتا ب جلوہ افروز ہو گا ، جس دن ہم اُس آفتاب ہدایت کی شعا کی تمازت حاصل کرلیں گے اُسی دن ہماری لئے ثبت قلبی علی دینک کا انتظام ہوجائے گا اور الھم عرفنی نفسک، رسولک اور حجتک کی منزلوں کو طے کر پائیں گے اور وہ مقصد جو خود امام ؑ کی خوشی کا سبب ہے اور ہماری خلقت کا مقصد بھی ہے یعنی خالص عبادت پروردگار وہ پورا ہو جائے گا ۔
اپنی دعاوں میں امام ؑ کو یاد کریں ہر وہ عمل جو امام ؑ کی یاد کو تازہ کرتا ہے اُن کی تنہائی کو دور کرنے کی راہ میں ایک قدم ہے ہر عمل امام سے محبت میں اضافہ کا سبب ہے بس خلوص نیت سے اُنھیں یاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ کہ شاعر کہتا ہے ۔
ولا سے گھر کو سجالیں تو آبھی سکتے ہیں
دلوں کو کعبہ بنا لیں تو آبھی سکتے ہیں
ابھی تو صر ف زباں سے ہے التجائے ظہور
گر اُن کو دل سے بلا لیں تو آ بھی سکتے ہیں ۔