کتاب المحجہ اور اس کے مولف علامہ سیدہاشم بحرانی پر مبنی بیان ایک تعریف حیثیت رکھنے والی ایک جھلک ہے۔ ایک طائرانہ نظر ہے۔ جس کتاب کے موضوعات اس منابع سے ہے کہ یہ دنیا یہ عرض خاکی پر فرزندان فاطمہ سلام اللہ علیہا کی امامت ہے اور حکومت ہی امامت کر سرچشمہ ہے۔ یعنی توجیہات اور تطبیق قرآن کریم نے واضح طور پر رشد و ہدایت کے لئے بیان کردیئے ہیں۔ جمہور اسلام نے امامت اور حکومت جسے ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا سیکڑوں الجھاوے پیدا کرکے اپنی اپنی فقیہ کی دستور بندی کردی۔ یہاں ہم کوشش کریں گے کہ کتاب ھذا اور اس کے مصنف کا تعارف چند سطروں میں کردیں اور کچھ سطریں امامت اور حکومت کے بارے میں اس کتاب سے نقل کر دیں۔ لیکن اصل مقصد تو کتاب اور مؤلف کا پہلے تعارف ہے اور اس کے متن پر مزید تفصیل ان شاء اللہ آئندہ زیر قلم لانے کی کوشش کریں گے۔ عین مقصد یہ ہے کہ سارے جوان جو تحقیق کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ یہ جان لیں کہ ہمارے علماء کی علمی خدمات اس موضوع پر بھرپور ہے اور ولی عصر علیہ السلام کی بارگاہ میں وہ کتنے عزیز ہوں گے۔ام الکتاب نے یہی سلیقہ اور طرز دیا ہے فضیلتوں کو بیان کرنے کا۔
مقدمہ:
کتاب المحجه فيما نزل في القائم الحجه اپنے نام ہی سے کچھ حد تک ظاہر کرتی ہے کہ حضرت قائم علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید میں نازل ہونے والی آیتوں کا مجموعہ ہے۔
قرآن مجید وحی الہی کا سرچشمہ اور مختلف موضوعات پر معارف خداوندی کا خزانہ ہے، کچھ باتیں گذشتہ زمانے کی بیان ہوئی ہیں جو بشریت کے حال اور آئندہ کے اہداف پیش کی گئی ہیں۔
فراوان و مختلف موضوعات قرآن مجید میں کسی ایک خاص جگہ پر اور خاص آیتوں میں بیان نہیں ہوئے ہیں، بلکہ پوری کتاب مقدس میں مختلف آیات میں پیش کئے گئے ہیں لیکن بعض موارد ایک جگہ پر بیان ہوئے ہیں جیسے چند آیتیں لگاتار ایک خاص سورہ میں بیان ہوئی مثلا داستان حضرت یوسف علیہ السلام۔
امامت و حکومت: قرآن مجید کے اہم موضوعات میں بحث “امامت و حکومت” ہے جو کہ متعدد آیتوں اور مختلف سورتوں میں- دو محور حق و باطل – میں بیان ہوئی ہیں۔
موضوع اہل بیت علیہم السلام اور ان کی آسمانی ولایت اور پیشوائی منجملہ مباحث حکومت اور امامت ہے جو قران میں موجود ہے۔ تفسیر موضوعی کی شکل میں کتب تفاسیر اور حدیث کی کتابوں میں نمایاں ہے۔
تفسیر روائی: قرآن کی تفسیر کا ایک طریقہ “تفسیر روائی” ہے جس میں آیات، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی پاکیزہ عترت کے ذریعے منقول ہونے والی روایات اور احادیث کی روشنی میں بیان ہوتی ہیں۔ اس روش میں نقل روایات کے سلسلے میں مفسرین دو حصوں میں تقسیم ہوئے ہیں:
اول: ایک گروہ جو عقیدہ رکھتا ہے کہ عین حدیث اور روایت کو نقل کرے، وہ اپنی اس رائے پر اصرار کرتا ہے اور عین حدیث کو نقل کرنے پر زور دیتا ہے۔
دوم: دوسرا گروہ عین حدیث کے نقل کرنے پر اصرار نہیں کرتا اور مضمون و مفہوم حدیث کے نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔
شیعہ اور سنی علماء مفسرین اس مسئلے میں جو فرق رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ اہل سنت صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ اور کچھ تابعین کی حدیثوں سے استفادہ کرتے ہیں اور اخبار اہل بیت علیہم السلام کہ جو معارف و معرفت کا خزانہ ہے سے غافل ہیں۔اس سے گریز کرتے ہوئے تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔
سب جانتے ہیں پھر بھی کوئی بولتا نہیں
دروازہ اٹھ کر مگر کھولتا نہیں۔(پیام اعظمی(
امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف در تفسیر موضوعی: اہل بیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معصوم اماموں علیہم السلام میں سے ایک قطب عالم امکان حضرت حجت بن الحسن المہدی عجل اللہ تعالی الشریف ہیں ۔ جن کے بارے میں خاندان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایات تفسیری آئیں ہیں۔ قرآن مجید میں حکومت الہی کی تفسیر موضوعی کی بحث میں قرار پاتی ہیں۔
قارئین کے لئے صیقل آئینہ ہنوز موزوں کا تقاضہ ہے براین بنا اس دنیا کے مستقبل اور قیام اور انقلاب جہانی اور اسی کے ساتھ پوری دنیا میں ایک اکیلی حکومت عدل کا قیام اور اسی کے ساتھ پوری دنیا میں اکیلی حکومت عدل کے قیام کے متعلق گزشتہ زمانوں میں کتابیں اور تالیفات کثرت سے لکھی گئی ہیں۔ قرآن مجید کے وعدوں کے مطابق اور کثرت سے روایات کی روشنی میں دنیا اس حکومت واحد الٰہی کی طرف اپنی نظروں کو جمائے ہوئے ہے اور تمام ریاستیں اور حکام کی توجہ اسی ایک محور کی طرف مرکوز ہیں، ضرورت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور وسیع تحقیق ان موضوعات پر ہو۔
گیارہویں صدی ہجری میں تحقیقی کاموں کا ایک گوشہ کتاب “المحجہ” کی شکل میں سید ہاشم بحرانی کے توسط سے وجود میں آیا ہے تجلیل قدردانی کا مستحق ہے۔
کتاب کے تعارف سے پہلے مؤلف کتاب کا تعارف ضروری سمجھتے ہیں لہذا مختصرا مؤلف کی سوانح حیات پیش ہے۔
نام: سید ہاشم حسینی بحرانی (یا بحرینی) ابن سید سلیمان کتکانی ( کتکان بحرین میں تو بلی کے علاقہ میں گاؤں کا نام ہے(
نسب: ہاشم بن سلیمان بن اسماعیل بن عبد الجواد بن علی بن سلیمان بن ناصر الموسوی الکتکانی التوبلی البحرینی، سید مرتضی علم الہدی کے خاندان سے اور امام موسی بن جعفر الکاظم علیہ السلام کے نسب سے۔
ولادت: آپ بحرین میں پیدا ہوئے آپ کی تاریخ وسن ولادت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے البتہ آپ نے گیارہویں صدی ہجری اور بارہویں صدی ہجری کے ابتدائی دور میں زندگی گزاری ہے اور 1107ہجری یا 1109 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔
مدفن: شیخ یوسف بحرانی نے اپنی کتاب “لولو البحرین” کے صفحہ 46 پر لکھا ہے کہ آپ کی وفات قریۂ نعیم میں الشیخ عبداللہ بن الشیخ حسین بن علی بن کنبار کے مکان میں ہوئی۔ ( آپ کا سسرالی مکان تھا)۔ آپ کے جسد مبارک کو آپ کے گاؤں توبلی لے جایا گیا اور وہیں دفن کیا گیا۔ آپ کا مقبرہ مشہور و معروف ہے اور اس جگہ پر ایک مسجد ہے۔ ( البرہان فی تفسیر القرآن جلد 1 صفحہ 5 اور 6(
مؤلف کا تعارف اس بنا پر لازم آتا ہے کہ آپ کے رشحات قلم ایک سقہ کی تالیف ہے۔
مقام و منزات:آپ کی علمی حیثیت شیعان جہان میں عام ہے۔ آپ کی تالیفات اور علمی کاموں کا شہرہ ہے اس کے علاوہ آپ اجتماعی کاموں میں بھی خاص مہارت کے حامل تھے یہاں تک کہ آپ مسقط میں مسند قضاوت پر بھی فائز رہے۔ متخاصمین اور متعصبین کے درمیان بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے بادشاہان اور سلاطین سے بھی بحث و مبارزہ کیا اور ورع وتقوی کا ساتھ کبھی نہ چھوڑا۔
تحصیل: آپنے تعلیم ،والد اور بحرین کے بعض علماء سے حاصل کی پھر نجف اشرف کا رخ کیا اور وہاں بزرگ علما و فقہاء کے درس سے استفادہ کیا، جن میں فخرالدین الطریحی النجفی صاحب کتاب “مجمع البحرین” اور سید عبدالعظیم استرآبادی کا نام نمایاں ہے۔ پھر آپ خراسان آئے اور بزرگ علماء کے درمیان رہے اور بعض علماء سے استفادہ بھی کیا۔ الشیخ الحرالعاملی سے بھی مستفید ہوئے۔ پھر مسقط آئے اور وہاں مسند قضاوت پر فائز ہوئے اور وقت وفات بحرین میں تھے۔
تالیفات: آپ کی تالیفات چھوٹی بڑی ملا کر پچھتر (75) سے زیادہ بتائی جاتی ہے ان میں اکثر دینی علوم پر ہیں منجملہ تفسیر البرھان، غایۃ المرام فی حجة الحضام فى تعين الامام عن طريق الخاص والعام، الىتىمة والدرة الثمينة، مدينه المعاجز، معالم الزلفى في معارف النشأة الاولى و الاخرى، المحجة فيما نزل فى القائم الحجة، مصابيح الانوار فى بيان معجزات النبي المختار، كشف المهم فى طريق خبر غدير خم، حليه الابرار فى فضائل محمد وال محمدعلیہم السلام ، الانصاف فى النص على الائمة الاثنى عشر الاشراف، تعريف رجال اور متعدد تصنیفات و تالیفات کا ایک اور ذخیرہ ہے۔
آپ کی اکثر کتابیں اردو، فارسی اور انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہیں آپ علامہ مجلسی، شیخ حر عاملی، ملا صدرا وغیرہ کے ہم عصر تھے۔
المحجہ: یہ کتاب شروع میں مؤلف کی کتاب “غایۃ المرام فی المعرفۃ الامام” کے ساتھ اس کے آخر میں چھپی تھی لیکن چاپ سنگی تھی اور کتاب کے ہمراہ تھی اور اس میں غلطیاں بھی بہت زیادہ تھی لہذا اپنی اہمیت و عظمت کو کھو دیا تھا۔
محقق و مصحح کتاب جناب محمد منیر میلانی نے کمرہمت کسی اور پھر یہ کتاب اصلاح شدہ اور دلپسند شکل میں وجود میں آئی اور علیحدہ شائع ہوئی اور بقول محقق محترم:
یہ کام ہماری گراں بہا اسلامی میراث کو زندہ کرنے کے لئے اور مؤلف محترم کی خدمت کے لیے کہ جنہوں نے اپنی محترم زندگی کو فضائل و مناقب اہلبیت علیہ السّلام کی نشر کی راہ میں اور ان حضرات کی حدیثوں کو جمع کرنے میں وقف کردیا انجام پایا ہے۔ ( محمد منیر میلانی مقدمہ کتاب المحجہ فی القائم الحجۃ / 9 بیروت 1403 ہجری۔)
مؤلف محترم کتاب نے ایک سو بیس 120 آیات قرآن کریم کی روایات کی مدد سے شرح و تفسیر کی ہے۔
آپ نے آیات کو سوروں اور آیتوں کی ترتیب سے یعنی سورہ بقرہ سے سورہ عصر تک یکے بعد دیگرے مرتب کی ہے اور کتاب میں منظم طریقے سے تحریر کیا ہے یہ کام آپ نے کتاب تفسیر البرہان کے لکھنے کے بعد انجام دیا، اور اسی لیے بعض جگہوں پر قاری کتاب کو تفسیر برہان سے رُجوع کرنے کے لیے کہا ہے یہ تحریر نہایت ظرافت و حکمت و دانائی کے ساتھ اور اپنی روش طرز کے اعتبار سے بے سابقہ انجام پائی ہے۔
حروف مقطعات: قرآن مجید کے بعض حروف مقطعات زیربحث آئے ہیں اور انہیں بھی آیت کے طور پر شمار کیا گیا ہے جو کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے متعلق ہیں اور ائمہ علیہم السلام نے ان اسرار کو اپنے خاص اصحاب سے بیان کیا ہے ان اسرار کو پوشیدہ رکھنے کی وصیت کی ہے سورہ اعراف، سورہ شوریٰ، اور سورہ دخان، میں مؤلف محترم نے انہیں نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو صفحات 71، 190 اور 220)
سوروں کی تفصیل:
مؤلف کی نظر میں جن سوروں اور ان کی آیات موضوع سے متعلق ہیں ان کی تعداد 62 ہے اور جو سورہ موضوع سے خالی ہیں وہ 52 ہیں جن سوروں میں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے متعلق آیات ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
بقرہ- آل عمران-النساء- مائدہ- انعام- اعراف- انفال- یونس- ھود- یوسف- ابراہیم- حجر- اسراء- مریم- طحہ- انبیاء- حج- نور- قمر- رحمن- قلم- لیل- قدر- بینۃ- عصر۔
مضمون کتاب:
مؤلف محترم نے کتاب کے مقدمہ میں جو بیان کیا ہے اسی کا خلاصہ یہاں نقل کر رہے ہیں جو خود مبین موضوع ہے۔
فرماتے ہیں یہ کتاب ایک ظریف نمونہ ہے جس میں قرآن مجید کہ جس میں کسی بھی طرح سے کوئی باطل بات نہیں آئی ہے۔ قائم آل محمد علیہم السلام کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہیں۔
ذکر نسب شریف و شجرہ طیبہ حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف:
مؤلف محترم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے نسب کہ آپ خاندان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں تاکید کی ہے اور اہل بیت علیہم السلام کے بیانات اور معارف میں آپ نسب کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔
“ابن الحسن العسکری بن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین الشہید بن امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہم السلام، امام هذا العصر والزمان وحجه الله وبقيته في عباده في هذا الاوان”۔ ( المحجه / ۱۰)
مزید لکھتے ہیں:
“کتنی آیتیں بارہویں امام علیہ السلام اور ان کے آباء طاہرین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں، لیکن میں نے اس کتاب میں ان روایتوں پر اکتفا کیا ہے جو فقط حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے متعلق ہیں اور روایتوں کے بقیہ حصے کو جو ان کے پاک اجداد علیہم السلام سے مربوط ہیں انہیں “البرھان فی تفسیر القرآن” میں رجوع کرنے کے لیے کہا ہے۔”
نام “المحجہ” کیوں؟
مقدمہ کے آخری حصے میں مؤلف محترم نے اپنی اس کتاب کو ایک شاہراہ اور ہموار راستہ بتایا ہیں کہ جو پڑھنے والے کو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے مربوط آیتوں کو پہچانتے ہیں رہنمائی کرے گا اس لئے اس کی وجہ تسمیہ میں فرماتے ہیں:
میں نے اس کتاب کا عنوان “المحجه في مانزل في القلئم الحجه” قرار دیا ہے۔
المحجہ یعنی رہنمائی، رہنما، دلیل کتاب کے نام کا مفہوم کچھ اس طرح ہوگا: “جو کچھ امام قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے کی شان میں آیتں نازل ہوئی ہیں ان کی طرف رہنمائی۔”
بشریت کو نجات دلانے والا:
مؤلف محترم نے اپنے زمانہ حیات کے لحاظ سے لکھا ہے کہ جب ہم مستضعفین کا استحصال مستکبرین کے ذریعے اور ضعیفوں کا طاقتوروں کے ذریعے دیکھتے ہیں، گرچہ وہ دسویں صدی ہجری میں یا اس سے پہلے کی صدیوں میں ہو، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ تاریخ انسانیت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلقت کے ابتدائی دور ہی سے جاری و ساری ہے قرآن مجید نے قابیل کے ذریعہ ہابیل کے قتل۔ ( معاہدہ5, 28 تا31) سے نمرود کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر مظالم فرعون کا حضرت موسی علیہ السلام کو جھٹلانا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار قریش (ابو جہل ابو لہب ابو سفیان) کے ذریعے اذیتوں کی داستان قرآن مجید میں صراحت و وضاحت کے ساتھ آئی ہے۔ (یعنی ہر دور میں ظالم و مظلوم کا مقابلہ رہا ہے اور آج بھی اس کا مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ استعماری طاقتیں کمزور کے خلاف نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا یہ اسی طرح چلتا رہے گا یا اس کا خاتمہ ہوگا؟ آیا اس ظلم و جور کا خاتمہ ہوگا؟
مشرق اور مغرب کے تمام مفکرین، ادیان و مذاہب اور مختلف گروہ اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا کو ان چیزوں سے ضرور نجات ملے گی لیکن وہ اس کا صحیح حل آج تک نہ دے سکے۔ البتہ ادیان و مذاہب نے یہ اشارہ دیا ہے کہ ایک نجات دہندہ آئے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ لیکن اسلام نے واضح طور پر اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے اور تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ وہ مصلح اور نجات دہندہ کون ہوگا، انبیاء الہی نے اشاروں، کتابوں میں اس مصلح کا ذکر کیا ہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ان کے جانشین حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہما السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام نے اس نجات دہندہ کا تذکرہ حسب و نسب و صفات و علامات، خدوخال انبیاء سے اس کی شباہتیں اس کی حکومت کی خصوصیات، ولادت اور اس کے غیب و ظہور و عمر طولانی، گویا ہر طرح کی تفصیلات کا ذکر کیا ہے دوسرے ادیان الہی کے مقابلے اسلام کا یہ امتیاز ہے یعنی دوسرے مذاہب نے اتنی تفصیل اس نجات دہندہ کے متعلق نہیں بیان کیا ہے اب اصل کتاب سے چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
1) سورہ بقرہ آیت نمبر 2و 3:
ابن بابویہ اپنی اسناد سے لکھتے ہیں کہ ہم سے نقل کیا علی بن احمد بن محمد الدقاق رضی اللہ عنہ انہوں نے کہا کہ ہم سے نقل کیا محمد (احمد) بن ابی عبداللہ الکوفی وہ کہتے ہیں ہم سے نقل کیا موسی بن عمران النخعی، انہوں نے اپنے چچا الحسین بن زید سے انہوں نے علی بن ابی حمزہ سے انہوں نے یحییٰ بن (ابی) القاسم سے انہوں نے کہا میں نے امام صادق علیہ السلام سے اللہ عزوجل کے قول “الم ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين الذين يؤمنون بالغيب” ( الم یہ وہی کتاب (خدا) ہے اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں یہ متقین کی رہنما ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔)
کے متعلق دریافت کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: المتقون شيعه علي عليه السلام والغيب فهو الحجه (الغائب)
“متقین سے مراد علی علیہ سلام کے شیعہ ہیں اور غیب سے مراد حجت غائب ہیں۔ اور اس بات کی دلیل خدا کا یہ قول ہے،”
“ويقولون لولا انزل عليه ايه من ربه فقل انما الغيب لله فن تاجير و اني معكم من المنتظرين” ( کمال الدین وتمام النعمہ جلد 2 صفحہ 340- 207، چاپ دارالکتب الاسلامیہ تہران بازار سلطانِی)
ترجمہ اور وہ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی معجزہ (ہماری خواہش کے مطابق) کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ غیبت تو صرف اللہ کے لئے ہے پس تم بھی انتظار کرو اور تمہارے ساتھ میں (بھی) یقینا انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ ( سورہ یونس آیت 20)
اسی طرح دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام نے داؤد بن کثیر الرقی سے قول خدا “الذين يؤمنون بالغیب” کے متعلق فرمایا کہ: من امنا (اقرا) بقيام القائم انه حق. (کمال الدین جلد 2 صفحہ 340 حدیث 19، المحجة صفحہ 16)
جو لوگ قیام قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف پر ایمان لاتے ہیں (اقرار کرتے ہیں) اور انہیں حق جانتے ہیں۔
2) ابوالقاسم جعفر بن محمد بن قولویہ نے اپنی کتاب کامل الزیارات میں لکھا ہے کہ مجھ سے نقل کیا محمد بن الحسین بن احمد، انہوں نے محمد بن الحسن الصفار سے انہوں نے العباس بن معروف سے انہوں نے محمد بن سنان سے، انہوں نے ایک شخص سے کہ جس نے کہا کہ میں ابوعبداللہ علیہ السلام سے خدا کے قول “ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا فلا يسرف في القتل انه كان منصورا” ( الاسراء آیت نمبر 33 اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص) کا حق دیا ہے تو اسے چاہیے کہ قتل میں (خون بدلہ لینے) میں زیادتی نہ کریں بے شک اس کی مدد کی جائے گی۔”)
حضرت قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اس چیز کا جو اسراف ہوتی ہے کوئی اقدام نہ کریں گے اور آپ نے فرمایا: “يقتل والله ذراري قتله الحسين عليه السلام بقعال آبائها۔”
خدا کی قسم حضرت قائم علیہ سلام سیدالشہداء علیہ السلام کے قاتلوں کی ذریت کو انکے آباؤ اجداد کے عمل کی وجہ سے قتل کریں گے۔( المحجہ صفحہ 127 نقل از کامل الزیارات صفحہ 63)
تذکر: امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی نسل جو بعد میں آنے والی ہے علی الظاہر آج کے دور میں بھی اور آئندہ بھی جو لوگ ہوں گے وہ حضرت کے ہاتھوں قتل کیے جائیں گے۔ وہ لوگ جو امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل سے راضی ہیں اور روز عاشور خوشیاں مناتے ہیں یہ کہہ کر کے امام حسین علیہ السلام نے قربانی پیش کردی اور اسلام بچ گیا اور یزید کو خدا معاف بھی کر دے گا، ایسے لوگ ہوشیار رہیں کہ امام حسین علیہ سلام کا وارث پردہ غیب میں ہے اور قرآن مجید کی رو سے وہ ولی دم ہے یعنی خون شہداء کا انتقام لینے والا ہے۔ وہ خدا کے اذن کا انتظار کر رہا ہے اور خدا بھی کسی مصلحت کے تحت منتظر ہے ،امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو ظاہر کرنے کے لیے۔
اللہم عجل لولیک الفرج وجعلنا من انصارہ و خدامہ۔