تمام آسمانی اور وغیرہ آسمانی مذاہب برگزیدہ دانشوران انسانی اقدار کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کا انجام عدل و انصاف ہے ظلم و ستم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے تمام رہبروں کے دل و ضمیر اس بات پر گواہ ہیں دنیا کے حالات بہتر سے بہتر ہوسکتے ہیں اگر بہتری کی امید نہ ہوتی اور عوام الناس کو بہتری کی توقع نہ ہوتی تو نہ یہ سیاسی لوگ بہتری کا وعدہ کرتے اور نہ ہی عوام الناس ان پر اعتماد اور بھروسہ کرتے۔ یہ وعدہ اور بھروسہ ان کے ضمیر کی آواز ہے اور پوری دنیا کی یہی صورت حال ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے تمام لوگوں کے وجود میں یہ حقیقت موجود ہے اس دنیا کی حالت ایک دن ضرور سدھرے گی اور حالات ضروری بالضرور بہتر سے بہتر ہوں گے۔
خالق کائنات کا بے انتہا شکر اس نے ہمیں امامت و ولایت اہل بیت علیہم السلام سے متمسک قرار دیا ہمارے دلوں کو ان کی محبت سے سرشار کیا عقیدہ ولایت سے پاکیزہ کیا ان کی پیروی کی توفیق دے کر سعادت دارین کا راستہ ہموار کیا عقیدہ امامت صرف بیان احکام تزکیہ نفس نیز اخلاق و کردار تک محدود نہیں ہے بلکہ مکمل نظام عبادت ہے اور اتنا مکمل و ترقی یافتہ نظام حیات ہے دنیا کا کوئی نظام خواہ وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو اس کے مدمقابل کیا اس کے نزدیک بھی نہیں ہے کیونکہ اس نظام کو معین کرنے والا وہ خدا ہے جو بے مثل و بے نظیر ہیں، لانے والا وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو سب سے اعلی وافضل…… سے اس نظام کی حفاظت تشریح اور نافذ کرنے والے وہ ائمہ علیہم السلام ساری کائنات میں ان کا کوئی جواب نہیں ہے اگر اس وقت دنیا پر یہ نظام پوری طرح رائج نہیں ہے تو اس کی وجہ ہم لوگ ہیں جو دل و جان سے پوری طرح اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ خداوندعالم ایسے افراد ضرور تیار کرے گا ان کی تربیت کرے گا جو اس نظام کو پوری طرح پوری دنیا میں نافذ کریں گے۔
ہمارے آئمہ علیہم السلام نے دین مقدس اسلام کی تشریح اور حفاظت میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہیں کی جب موقع ملا اور حالات نے اجازت دی لوگوں کے سامنے بیان کیا اور جب حالات نے اجازت نہیں دی حکمرانوں نے ہر طرف سے پابندی عائد کردی تھی تو آئمہ معصومین علیہم السلام نے الہی تعلیمات دعاؤں کی شکل میں بیان فرمائیں یہ دعائیں بارگاہ خداوندی میں مناجات بھی ہیں اور تعلیمات اسلامی کا بہترین ذخیرہ بھی۔
یہ دعائیں جہاں خداوند عالم کی بارگاہ میں حاضری کا ادب سکھاتی ہیں گفتگو کا طریقہ بتاتی ہیں اور درخواست پیش کرنے کا سلیقہ بتاتی ہیں وہاں توحید سے لے کر آخری تعلیمات کا درس بھی دیتی ہیں۔
ہم سبھی کو یہ تمنا ہے کہ ہم سب حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام کے خدمت گزاروں میں شمار ہوں نوکری ہر ایک کو نہیں ملتی ہے، نوکری وہ غلامی کی کچھ شرطیں ہوتی ہیں چونکہ ہر ایک حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی غلامی کی آرزو رکھتا ہے امام زمانہ علیہ السلام نے دعاء اللہم ارزقنا توفيق الطاعه۔۔۔۔ میں معاشرے کے تمام لوگوں کی صفات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں یہ دعا گویا ظہور کا ایک آئینہ ہے اس وقت لوگ کن صفات کے حامل ہوں گے ذیل میں اس عظیم ترین اور جامع ترین دعا کے فقرات کی مختصر سی وضاحت کا شرف حاصل کرتے ہوئے خداوند رحیم و غفور و کریم کی بارگاہ میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی عظمتوں کا واسطہ دے کر دست بدعا ہیں خدا ہم سب کو اس دعا میں مذکورہ تمام صفات سے آراستہ کردے تاکہ وقت ظہور غلامی کا شرف حاصل ہوسکے یہ دعا سماج کے تمام طبقات کو شامل کرتی ہے اور ہر ایک کی ذمہ داریاں بیان کرتی ہے۔
1) انفرادی ذمہ داریاں:
ہر وہ شخص جو حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام کا انتظار کر رہا ہے ہر ایک میں فردا فردا یہ صفات ہونی چاہیے۔
الف – توفیق اطاعت -۔- اللهم ارزقنا توفيق الطاعه۔
سچا منتظر وہ ہے جسے خدا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی اطاعت و فرماں برداری کی توفیق حاصل ہو ۔ امام علیہ السلام نے ان باتوں کو رزق سے تعبیر کیا ہے۔ ہم صرف مادی غذاؤں کو رزق تصور کرتے ہیں امام زمانہ علیہ السلام اطاعت خدا کو رزق قرار دیتے ہیں یہ ہماری روح کا رزق ہے ہماری اصلی حقیقت ہمارا بدن نہیں ہے یہ تو ہمارا حیوانی پیکر ہے ہماری حقیقت جس کی بنا پر ہمیں تمام مخلوقات پر شرف حاصل ہے وہ ہماری روح ہے لہذا بہ اطاعت ہماری حقیقت کا رزق ہے اشرفیت کو برقرار رکھنے کے لئے اس رزق کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔
ب – گناہوں سے دوری – وبعد المعصيه
انسان کی تباہی و بربادی کا ایک اہم سبب گنا ہیں ہیں خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنے کی راہ پر سب سے بڑی رکاوٹ گنا ہیں ہیں۔ یہ گناہیں اطاعت کی توفیق بھی سلب کرتی ہیں اور سقوط کا سبب بھی ہوتی ہیں یہ گناہ خواہ وہ کتنے ہی مختصر کیوں نہ ہو خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی ہیں وہ لوگ جو واقعا دل و جان سے امام معصوم علیہ السلام کا انتظار کر رہے ہیں ہر طرح کی گناہوں سے دور رہنا ان کی ذمہ داری ہے۔ گناہوں سے دوری شیطانی وسوسوں اور نفس امارہ کی فریب کاریوں سے محفوظ رہے بغیر ممکن نہیں ہے ان دونوں کے شر سے محفوظ رہنا خدا کی عنایتوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ج – خالص نیت – و صدق النيه
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت ہے۔ انما الاعمال بالنيات ” عمل کا دارومدار نیت پر ہے نیت جس قادر خالص ہوگی عمل اتنا ہی قیمتی ہوگا نیت جس قدر شرک ،ریاکاری، دکھاوا،تعریف و توصیف کی تمنا سے خالی ہو گی اسی تناسب میں عمل گراں قدر ہوگا زندگی کے تمام اعمال کا مقصد صرف خدا اور صرف خدا بس خدا کی خوشنودی۔
د – محرمات سے آگاہی – وعرفان الحرمه ”
جب تک انسان کو خدا کی حرام کردہ چیزوں کی باقاعدہ معلومات نہ ہوگی اس وقت تک ان سے دوری اور اجتناب ممکن نہیں ہے حرام کا ارتکاب بھی اس پردے کو چاک کرتا ہے جو خدا نے انسان کی سعادت و ترقی کے لئے قرار دیا ہے سچّا منتظر کبھی بھی ان چیزوں کے قریب بھی نہیں جاتا جو خدا کو ناپسند ہیں۔
2) ترقی اور تکامل:
ایسے امام علیہ السلام کا انتظار جو تمام صفات و کمالات میں اپنی مثال آپ ہیں جن کے تمام کمالات کا تصور بھی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ منتظر میں کچھ تو منتطر کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ سب سے بڑا کمال ہدایت ہے جس کی درخواست ہم روزانہ اپنی نمازوں میں کرتے ہیں۔
الف – ہدایت تکوینی – “اكرمنا بالهدى”
خدایا ہمیں ہدایت سے عزت عطا فرما۔ دین الہی اور تقوی وہ عبادت کی طرف ہدایت جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں وہ نور کے راستے پر چل رہے ہیں اور جو لوگ ہدایت یافتہ نہیں ہیں وہ جہالت ،تاریکی اور انحراف کے راستے پر چل رہیں ہیں جس قدر آگے بڑھتے جاتے ہیں اس قدر خدا سے دور ہوتے جاتے ہیں منتظر کی ذمہ داری ہے کہ علمی اور عملی طور پر اس راستے پر چلے جہاں الہی ہدایت کے چراغ روشن ہوں ہدایت وہی ہے جو خدا کی طرف سے نصیب ہو۔
ب – ثبات قدم – “والاستقامه ”
ہدایت یافتہ ہونا ایک مرحلہ ہے اور اس پر ثابت قدم رہنا ایک دوسرا مرحلہ ایک ذرا سی غفلت اور کوتاہی راہ حق سے دور کر سکتی ہے نور ہدایت گمراہی کے اندھیرے میں تبدیل ہوسکتا ہے خاص کر اس دور میں جب ہر طرف قدم قدم پر انحراف کے اسباب موجود ہیں اس بنا پر آج کے دور میں ثبات قدم اوراستقامت کی دعا بہت ضروری ہے ہدایت اور ثبات قدم وہاستقامت اہل بیت علیہم السلام کی خصوصیت ہے۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
3) زبان – ” وسدد السنتنا با صواب ”
زبان عقل و فکر کی ترجمان ہے زبان انسان کے اخلاق و آداب کا آئینہ ہے اس بنا پر زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے انسان کی اکثر تباہی وبربادی زبان کی بنا پر ہے اس بنا پر یہاں زبان کے لیے دو بڑی درخواست کی گئی ہیں۔
الف – سیدھی اور سچی باتیں کرنا – زبان سے بس وہی باتیں نکلیں جو درست اور صحیح ہوں۔
“وسدد السنتنا با صواب”
ب – والحکمة – حکمت وہ بات جو بے کار بے مقصد اور بے فائدہ نہ ہو وہ بات خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسندیدہ ہو سچے منتظر کی زبان سے بس وہی باتیں ادا ہوتی ہیں جن میں خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی ہوتی ہے۔
4) قلب – “واملا قلوبنا”
تمام علوم اخلاق و آداب کا مرکز دل ہے مظروف کی کثافت ظرف کو بے قیمت بناتی ہے اور مظروف کی لطافت ظرف کی قیمت کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے اس لیے درخواست کی گئی ہے۔
الف – بالعلم – ہمارے دلوں کو علم سے بھر دے جب دل علوم آل محمد علیھم السلام سےبھرا ہوگا اس میں جہالت کی تاریکی کا گزر نہ ہو گا علوم آل محمد علیھم السلام سے اپنے دلوں کو آراستہ کرنا یہ سچے منتظر کی ذمہ داری ہے۔
ب – ۔والمعرفة – علم جاننا ہے اور معرفت پہچاننا سچّا منتظر صرف علم حاصل کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھائے معرفت حاصل کرے علم و معرفت کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔
اجتماعی ذمہ داریاں:
حضرت ولی عصر علیہ السلام کا ظہور صرف انفرادی اصلاح کی خاطر نہ ہوگا بلکہ اجتماعی صورتحال بھی پوری طرح بدل جائے گی ہر میدان میں اصلاح ہوگی۔
الف – اقتصادی – “و طهر بطوننا من الحرام ”
حرام غذا نہ صرف گناہ اور عذاب کا سبب ہے بلکہ فکرونظر اخلاق و آداب کی بھی تباہی کا سبب ہے خدایا ہمارے شکم کو حرام غذاؤں سے پاک کردے حلال غذا کے لیے تجارت کا حلال ہونا ضروری ہے۔
ب – مشکوک غذائیں – “و الشبهه”
مشکوک غذائیں ایسی غذائیں جن کا پاک ہونا اور نجس ہونا معلوم نہ ہو یا ان کا حلال و حرام ہونا معلوم نہ ہوں اسی طرح کی غذائیں ہوسکتا ہے گناہ کا سبب نہ ہو لیکن اپنا اثر ضرور رکھتی ہیں لہذا اس طرح کی غذاؤں سے بھی دوری ضروری ہے۔
ج) ظلم و ستم سے دوری۔ “واكفف ايدينا عن الظلم”
حرام اور مشکوک غذا ئیں خود انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں ظلم یعنی دوسروں کے حقوق کو پامال کرنا اس کی رعایت نہ کرنا ہر طرح کے ظلم سے دوری خواہ خدا کے حقوق ہوں یا حقوق الناس ہوں۔
د) چوری۔ “والسرقة”
اگر کوئی شخص کسی کی کوئی چیز چھپا کر اسے بتائے بغیر لے لیں یہ چوری ہے چاہے مادی امور سے متعلق ہو یا معنوی امور سے متعلق ہوں۔
ھ) پاک نگاہ۔ “و اغضض ابصارنا عن الفجور ”
آنکھیں بہت بڑی نعمت ہیں ان نعمتوں کا خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا تقویٰ ہے اور خدا کے حکم کے خلاف استعمال کرنا فجور ہے ایک منتظر کی ذمہ داری ہے کہ اپنی آنکھوں کو تمام حرام چیزوں سے محفوظ رکھے۔
و) “خیانت”
کسی عہدوپیمان کےخلاف کام کرنا خیانت ہے۔ ہم لوگوں نے اپنی زبان فطرت سے خدا سے اس کے احکام کی پابندی کا معاہدہ کیا ہے اس معاہدے کی خلاف ورزی خیانت ہے ۔وہ لوگ جو حضرت ولی عصر علیہ السلام کے دیدار نور کی تمنا رکھتے ہیں ان کے لیے خاص طور سے ضروری ہے کہ اپنی آنکھوں کو گناہ اور خیانت سے محفوظ رکھیں۔
ز) پاکیزہ کان ۔ “و اسدد اسماعنا عن اللغو”
آنکھوں کو ان تمام چیزوں سے محفوظ رکھنا جو حرام ہے اسی طرح کان کو ان تمام باتوں کے سننے سے محفوظ رکھنا جو حرام ہے ان میں ایک “لغو” بے ہودہ باتیں ہیں دوسرے
2۔ غیبت۔
کسی مسلمان کے پس پشت وہ باتیں کرنا جو اس میں پائی جاتی ہے اور دوسروں کو اس کا علم نہیں ہے لیکن ان باتوں کا تذکرہ نہیں کرنا پسند ہے اس سے کدورتیں ایجاد ہوتی ہیں بھائی چارہ اور خلوص اور اپنائیت ختم ہوجاتی ہے کان کو غیبت سے محفوظ رکھنا معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس جامع دعا میں انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے علاوہ سماج میں موجود مختلف طبقات کی بھی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں اور ان کی خصوصیات ذکر کی گئی ہیں یعنی ان طبقات کے افراد کو ان صفات کا حامل ہونا چاہیے۔
علماء ۔ “و تفضل على علمائنا”
وہ افراد جنہوں نے مکتب اہل بیت علیہم السلام سے علم حاصل کیا ہے اور جنھیں اہل بیت علیہم السلام کی طرف نسبت حاصل ہے اس دور غیبت میں ان کی ذمہ داریاں بہت ہیں ان کی عزت و احترام بھی بہت ہے تو ان کی صفات و خصوصیات بھی ہیں۔
الف – زہد – بالزهد –
خدایا ہمارے علماء کو زہد سے نواز دے، دنیا طلبی اور ریاست طلبی علماء اور دانشوروں کے لیے بہت بڑی آفت ہے دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے بلکہ آخرت آباد کرنے کی جگہ ہے آخرت کے بلند درجات کیلئے دنیا نفس وجان کی اصلاح کی جگہ ہے جس قدر آخرت نگاہوں میں ہوگی اتنا ہی دنیا سے بے رغبتی زیادہ ہوگی۔
ب) نصیحت – “والنصيحة”
نصح – خالص ترین چیز یعنی علماء اپنے قول و فعل بلکہ زندگی کی ہر چیز کو ان باتوں سے پاک صاف رکھیں جو خدائی نہیں ہیں ان کا مقصد صرف خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اپنی اور قوم کی اصلاح و ترقی ہونی چاہیے۔
طالبان علم – “وعلى المتعلمين”
علماء و دانشوروں کے بعد وہ افراد ہیں جو علم حاصل کر رہیں ہیں ہر وہ علم جو معرفت خدا، اصلاح نفس، قوم و سماج کی بہبودی اور ترقی کے لئے ہو یہ علوم حاصل کرنے والے ہیں کل قوم کا تابناک مستقبل ہیں یہی افراد کل قوم و ملک کے معمار ہیں۔
مبتدا ان کی ذمہ داری ہے کہ
الف – تلاش و کوشش – “بالجهد”
علم حاصل کرنے کے لئے جی جان سے کوشش کرنی چاہیے وہ معاشرہ جو ایسے امام کا انتظار کر رہا ہے جو باب مدینۃالعلم کا فرزند ہے اس کا انتظار کرنے والے طلباء، طالبان علوم اور حصول علم میں حد درجہ سعی و کوشش کرنی چاہیے خود کو علوم سے آراستہ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
ب) شوق و رغبت – “والرغبة”
علم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے ساتھ شوق اور رغبت بھی ہونا چاہیے علوم حاصل کرنے کی شدید خواہش اس میدان علم صرف آخری تحقیقات سے باقاعدہ آگاہ ہونا چاہیے بلکہ خود آخری تحقیقات پیش کرنی چاہیے منتظرین امام عصر علیہ السلام کو علوم کے قافلے کا سردار و سالار ہونا چاہیے جس طرح اہل بیت علیہم السلام تھے اور معاشرے کو اس طرح کے طالبان علوم کی باقاعدہ عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
آج ہمارے معاشرے میں ان طالبان علوم (یہاں صرف دینی تعلیم حاصل کرنے والے مراد نہیں ہے تمام انسانی علوم کے حاصل کرنے والے) یہ اس قدر توجہ نہیں دی جارہی ہے جس قدر ضروری ہے اور نہ اس میدان میں خاطر خوا ہ سرمایا گزاری ہو رہی ہے گرچے حالات پہلے سے قدرے بہتر ضرور ہیں۔
سامعین – “وعلى المستمعين”
ہمارے معاشرے میں ایک بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو نہ علماء و دانشوروں میں ہے اور نہ طالبان علوم ہیں لیکن ان لوگوں کی باتوں کو غور سے سننے والے ضرور ہیں “استماع” یعنی باتوں کو غور سے دھیان دے کر سننا اس دور غیبت میں ان کی بھی ذمہ داری ہے۔
الف – پیروی – “بالاتباع”
ان لوگوں کی ذمہ داری صرف سننا نہیں ہے بلکہ غور سے سننا اور اس پر عمل کرنا ذمہ داری ہے اتباع یعنی کسی کے نقش قدم پر چلنا ان لوگوں کی ذمہ داری بیٹھ کر سننا نہیں ہے بلکہ حرکت و قیام ہے نیک باتوں کو سن کر ان کی طرف قدم بڑھانا۔ حالات کو بدلنا ہے آگے بڑھنا ہے۔
ب) متاثر ہونا – “والموعظة”
وعظ یعنی حق کی طرف رہنمائی کرنا یہاں موئظہ سے مراد یہ ہے کہ حق کی باتیں سن کر متاثر ہونا قرآن و حدیث کی باتیں سن کر قرآن و حدیث کا رنگ اختیار کرنا جس امام بر حق کا انتظار ہورہا ہے وہ قرآن و حدیث کو نافذ کریں گے۔ منتظرین کو بھی اس راہ پر گامزن رہنا چاہیے۔
سن رسیدہ – “وعلى مشايخنا”
معاشرے میں زندہ رسیدہ افراد بھی ہیں یہ افراد معاشرے کا قابل قدر حصہ ہیں۔ یہ افراد معاشرے کی رونق و زینت ہیں لیکن عمر کی اس منزل تک پہنچتے پہنچتے مزاج ذرا بدل گیا ہے۔ یہ افراد نسل جدید کی تربیت میں اہم اثر رکھتے ہیں یہ ہر قوم کا نمایاں چہرہ ہیں ان کو خود بھی سراپا انتظار ہونا چاہیے اور حقیقی منتظرین کی تربیت بھی کرنی چاہئے ان حضرات کی بھی خصوصیات کا ذکر اس عظیم دعا میں موجود ہے۔
الف – وقار و متانت – “بالوقار”
وقار یعنی متانت ۔بھاری بھرکم۔ جو چیزیں سنگین ہوتی ہے وہ عام باتوں سے اور تبصروں سے متاثر نہیں ہوتی مشتعل نہیں ہوتی بلکہ مختلف حالات اور ماحول میں خود کو محفوظ رکھتی ہے سن رسیدہ افراد کی ذمہ داری ہے اس دور غیبت ميں معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات میں اس کے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے خود باوقار رہیں شرافت ومتانت ہمیشہ ظاہر ہوتی رہے۔
ب) سکون و اطمینان – “والسكينة”
سکینہ یعنی جسم اور روح کا پرسکون رہنا۔ ناگفتہ بہ حالات میں معاشرے کی بدسلوکی، بدزبانی، بداخلاقی کے مقابلے میں پرسکون رہناپیمان اور طیش میں نہ آنا غصہ اور جذبات کو قابو میں رکھنا یہی چیز معاشرے کو تباہی و تنزلی سے محفوظ رکھتی ہے۔
جوان – “و على الشباب”
ہر قوم کا بہترین قیمتی سرمایہ جوان ہیں ان میں اس قدر صلاحیت اور استعداد ہے کہ زمین کو آسمان کا جواب بناسکتے ہیں ۔قوم کو ترقی و تکامل کے عرش تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ اس وقت جب ان کی زندگی دین اور عقل سلیم کی تابع ہو۔ ورنہ یہ اگر نفس اور خواہشات کے راستے پر لگ گئے پوری زمین قتل و غارت گری، خونریزی وفساد اور تباہی و بربادی کا میدان بنا سکتے ہیں ۔ ان میں صلاحیتوں اور حساسیت کی بنا پر شیطان کی ان پر خاص نظر ہے۔ مبتدا ضروری کہ ہر ان اور ہر لمحہ خدا سے رجوع کرتے رہیں تاکہ سچے منتظرین بن کر دین و ملت کے لیے مثبت و مفید ثابت ہوں اس بنا پر ضروری ہے۔
الف – انابہ – “والانابة”
انابہ یعنی غیر خدا سے منہ موڑ لینا اور خدا کی طرف رخ کرنا خواہشات نفس کی پیروی کی بجائے تہذیب و تربیت نفس اور تزکیہ نفس پر توجہ دینا اپنی پاکیزہ اور با ارزش ترین نفس کو گناہوں کی کثافتوں سے دور رکھنا شیطان کے راستہ سے محفوظ رہتے ہوئے رحمٰن کا راستہ اختیار کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنا۔
ب) توبہ – “والتوبة”
جوان مسلسل شیطان کے نشانے پر رہتا ہے شیطان (خواہ انسانی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں) اور اس کا گروہ مرتب و منظم طورپر قوم کے اس گراں قدر سرمائے کو برباد کرنے پر لگا رہتا ہے۔ لہذا کبھی کبھی غفلت کی بنا پر نادانی اور جہالت کی بنا پر قدم پھسل جاتا ہے۔ نفس امارہ شیطان کی باتوں میں آجاتا ہے۔ اور ذرا بھٹک جاتا ہے۔ خداوند رحیم و غفور نے اپنی رحمت واسعہ سے جو ان کے لیے توبہ کا وسیع دروازہ کھلا رکھا ہے اگر خطا ہوگئی ہے،خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ۔خدا کی طرف واپس آؤ رحمت و مغفرت خدا تمہاری خطا سے اس قدر وسیع ہے جس کا تم انداز ہ بھی لگا نہیں سکتے ہو ۔جو دھبہ لگ گیا ہے اسے توبہ کے پانی سے دھو ڈالو خدا ویسا بنا دے گا گویا کبھی کیا ہی نہیں۔
یہ توبہ گرچہ جوافراد سے زبان اچھی اور قیمت ہے مگر ہر ایک ہر ایک سن و سال میں توبہ و انابہ سے خدا کی بارگاہ میں واپس آسکتاہے اور آنا بھی چاہیے۔
خواتین – “و على النساء”
معاشرے کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے ۔معاشرے کے امن و امان ترقی و تکامل تربیت و تعلیم میں خواتین کا بہت اہم کردار ہے ۔سچے اور واقعی منتظرین میں اور سچے واقعی منتظرین کی تربیت میں خواتین کا کردار بہت زیادہ حساس اور اہم ہے۔ ان شاءاللہ ظہور کے وقت اور ظہور کے بعد بھی ان کا کردار بہت اہم ہوگا اس عظیم الشان دعا میں ان کی بعض خصوصیات اور صفات بیان کی گئی ہیں۔
الف – حیا – “بالحياء”
حیا یعنی خود کو ہر طرح کی آلودگی سے محفوظ رکھنا ۔خداوندعالم نے خواتین کو جو عظمت ومنزلت و اہمیت عطا فرمائی ہے اس کی حفاظت ان کی بہت اہم ذمہ داری ہے۔ ان کو ایسے مستحکم حصار کی ضرورت ہے جس میں شیطانی وسوسے اور نفسانی خواہشات رخنہ نہ ڈال سکیں اور اخلاق و کردار کا یہ قلعہ ہمیشہ محفوظ رہے۔ اس کے لئے بہترین اور مستحکم ترین قلعہ حفاظت “حیا “ہے۔ ہر وہ کام جو قرآن و حدیث اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے خلاف ہو وہ خواتین کی عظمت و منزلت وہ اہمیت کو متاثر کرے گا لہذا ان کو ہر وقت اس مستحکم قلعہ “حیا” کا خیال رکھنا چاہیے۔
ب) عفت – “والعفة”
عفت يعنى پاکدامنی خود کو نفسانی خواہشات سے محفوظ رکھنا ۔ہو سکتا ہے کہ یہ جدید دنیا اس کی جدید تہذیب اور اس کے جدید طرز و انداز، مغربی فکر۔۔۔ کچھ اس طرح سے اپنے کوشش۔۔۔ پاک طینت خواتین اس کے دام میں گرفتار ہوکر ذرا سی سے دیر کے لیے حدود ۔۔۔ باہر قدم رکھ دے اور دنیاکی زرق و برق سے متاثر ہو جائیں اور شیطان کی خوشنودی کے اسباب فراہم کریں۔ عفت اور پاکدامنی اس طرح کے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے ۔ خواتین کو اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ ان کا سب سے بڑا اور گرانقدر زیور “عفت” ہے چاندی سونے ہیرے جواہرات کے زیور جسم کی زینت کا سبب ہے۔، “عفت” روح اور حقیقت نسوانیت کی زینت وشرف کا سبب ہے۔ جسم ایک دن اپنی رونق کھودے گا بوسیدہ ہوجائے گا پھر زیور بھی اس کو سجا نہیں سکتا ہے۔ لیکن عفت وہ زیور ہے جو روح نسوانیت کو ہمیشہ باعزت و باشرف و حسین و جمیل رکھتی ہے۔
وہ تمام خواتین جو حضرت ولی عصر علیہ السلام کا انتظار کر رہی ہیں انھیں ہمیشہ حیا اور عفت کے زیور سے آراستہ رہنا چاہیے۔
صاحبان ثروت و دولت – “وعلى الاغنياء”
صاحبان ثروت و دولت اس زمین پر خدا کے امانتدار ہیں ۔خدا نے ان لوگوں کو دوسروں کی نعمت کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ حضرت ولی عصر علیہ السلام جب تشریف لائیں گے لوگوں کے درمیان برابر سے مال تقسیم کریں گے۔ اس دور میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کر کے بہت سے لوگوں کو خدا کی نعمتوں سے محروم کر رہے ہیں وہ حقیقی انتظار سے بہت دور ہیں ذخیرہ اندوزی امانتداروں کا شعار نہیں ہے۔ خدا ان لوگوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا جو مال و دولت کو خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ دوست رکھتے ہیں۔ اس عظیم الشان دعا میں صاحبان ثروت و دولت کی بھی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔
الف – تواضع و انکساری – “بالتواضع”
تواضع و انکساری غرور و تکبر کی ضد ہے، غرور و تکبر کا احساس انسان کو خدا سے دور کر دیتا ہے۔ یہ مرض اس وقت اور زیادہ جان لیوا ہوجاتا ہے جب ثروتمند فرعون و قارون کی طرح سوچنے لگتا ہے اور اس کی فکر فرعونی اور قارونی فکر ہو جاتی ہے قارونی فکر یعنی اپنی دولت اور سرمایہ کو اپنی محنت وہ مشقت اپنی فکر و تدبیر کا نتیجہ سمجھنا۔ اس فکر کا حامل کیونکر اس امام کا منتظر ہو سکتا ہے جس کا ہر قدم خدا کے اذن سے ہے۔ اس بنا پر صاحبان ثروت کی خصوصیت یہ ہے وہ اپنے سارے سرمایہ کو خدا کی عنایت و امانت سمجھتے ہیں اس بات پر شکر ادا کرتے ہیں خدا نے ان کو دوسروں کی نعمت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب خدا کی عطا ہے ورنہ وہ اپنی ذلت میں فقیر محض ہیں۔ ہر وہ شخص جس کو اپنی فقیری اور احتیاج کا احساس ہوگا وہ انکساری اور تواضع سے پیش آئے گا۔
ب) بخشش و عطا – “والسعة”
جو شخص اپنے مال کو خدا کی عنایت و فضل سمجھتا ہے مال و دولت کے تعلق سے خود کو خدا کا امانت دار سمجھتا ہے۔ وہ خدا کے بندوں تک خدا کا مال پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیتا ہے بلکہ جس طرح سے خدا نے اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اسی طرح وہ دوسروں کو بھی دیتا ہے تاکہ دوسرے بھی چین و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔
ضرورت مند – “وعلى الفقراء”
سماج میں ثروت مند افراد ہیں وہی ساتھ ساتھ ضرورت مند اور فقیرو محتاج لوگ بھی ہیں حالات کے مارے مصیبت زدہ افراد بھی ہیں اس دعا میں ان کی بھی صفات بیان کی گئی ہے وہ غریب اور ضرورت مند افراد جو حضرت ولی عصر علیہ السلام کا انتظار کر رہے ہیں ان کو اس طرح ہونا چاہیے۔
الف – صابر – “بالصبر”
صبر یعنی خود کو جلد بازی اور بے تابی و اضطراب سے محفوظ رکھنا مشکلات میں خود کو قابو میں رکھنا اپنی مشکلات اور پریشانیوں سے بہت زیادہ گھبرائیں نہیں خدا پر بھروسہ رکھیں ذرا صبر سے کام لیں خدا ان کی مشکلات حل کر دے گا۔
ب) قناعت – “والقناعة”
ہر چیز کی خواہش زیادتی کی طلب ایک دوسرے کا مقابلہ اور ہسکا۔ ہر پریشانی اور مشکلات اضطراب کا سبب ہے۔ جبکہ موجودہ چیزوں پر قناعت کرنا اطمینان کا سبب ہے۔ خواہشات وہ بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں جبکہ قناعت وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا قناعت سے اقتصادی حالات درست رہتے ہیں عزت نفس میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر انسان کو حرص کرنا ہے تو اس فانی دنیا کی کیوں حرص کرے حرص کرے تو تقوی، ایمان، عمل صالح کی حرص کرے جو باقی رہنے والا ہے۔ سچّا منتظر قناعت پسند ہوتا ہے۔
حکمران – “و على الامراء”
سیاسی، اقتصادی، مذہبی، تہذیبی، ثقافتی۔۔۔ امور کو منظم کرنا امن و امان کو برقرار رکھنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے یہ لوگ بھی حضرت ولی عصر علیہ السلام کے ظہور پرنور کے لیے بہت زیادہ زمین ہموار کر سکتے ہیں۔ ملک و سماج مختلف المزاج لوگوں سے وجود میں آتا ہے ہر ایک کی ضرورت اور تقاضے الگ الگ ہوتے ہیں ہر ایک کا عکس العمل دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ توقعات الگ الگ ہوتی ہیں اس دعا میں ان حکمرانوں کی بھی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔
الف – عدل و انصاف – “بالعدل”
عدل یعنی ہر ایک کو اس کا حق دے دینا ، نہ افراط نہ تفریط بلکہ راہِ اعتدال تمام لوگوں کے درمیان عادلانہ برتاؤ ملک و قوم کی سلامتی کی ضمانت ہے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں “جس کے لیے عدل و انصاف میں وسعت نہیں ہے اس کےلیے ظلم و جور تو اور بھی تنگ ہے۔” یعنی اگر ملک اور معاشرہ عدل و انصاف سے پر امن و پرسکون نہیں رہ سکتا تو ظلم و جور سے اور ہی زیادہ پرامن و پر سکون نہیں رہ سکتا ۔ وہ حکمران جو خود کو امام عصر علیہ السلام کا منتظر جانتے ہیں انہیں اپنے دائرہ حکمرانی میں پوری طرح عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے۔
ب) مہربانی و شفقت – “والشفقة”
حکمرانوں کی جہاں عدل و انصاف سے پیش آنا ان کی منصبی ذمہ داری ہے وہاں لوگوں کے ساتھ نہایت محبت و شفقت سے پیش آنا بھی ان کی ذمہ داری ہے ان لوگوں کو رعایا کا درد مند اور دلسوز ہونا چاہیے وہ لوگ جو امام رؤف کا انتظار کر رہے ہیں ان کو ضرور بالضرور نرم مزاج رحم دل ہونا چاہیے۔ تاکہ پتہ تو چلے کہ انتظار کرنے والے حکمران اور امام وقت امام منتظر علیہ السلام میں کچھ مناسبت تو ہے۔
فوج وہ سپاہ – “وعلى الغزاة”
سرحدوں کی حفاظت اور ملک میں امن و امان قائم و برقرار رکھنے کے لئے فوج کا ہونا بہت ضروری ہے انتظار کرنے والوں میں اس کے محافظین ملک و قوم کا ہونا ضروری ہے۔ ان کو اس طرح ہونا چاہیے۔
الف – نصرت و کامیابی – “بالنصر”
تمام نصرت و کامیابی خدا کی ذات سے ہے “وما النصر الا من عند الله العزيز الحكيم” ( آل عمران: 126) ہر طرح کی نصرت و مدد بس اللہ کی طرف سے ہے۔ اور خدا کی یہ نصرت و مدد ان لوگوں کے ساتھ ہے جو خدا کے دین اور اولیاء دین کی نصرت و مدد کرتے ہیں۔ “ان تنصر الله ينصركم” (محمد:7) اگر تم اللہ کی مدد کرو گے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا مبتدا جو سپاہی میدان میں اللہ کی نصرت و مدد چاہتا ہے اسے اپنے امکان بھر دین خدا کی مدد کرنی چاہیے امامت دین خدا کی بنیاد اور اہم جز ہے۔
ب) کامیابی وبرتری – “والغلبة”
حضرت ولی عصر علیہ السلام جب تشریف لائیں گے دین توحید کو تمام ادیان عالم پر غلبہ عطا کریں گے اگر فوجی اور سپاہی اس کامیابی و برتری اور غلبہ میں شریک ہونا چاہیں تو ہر طرح کی تعلیم و تربیت ،تکنیک و طرز و انداز سے لیس رہیں صبر و استقامت کو اپنا شعار قرار دیں۔ خدا پر بھروسہ رکھیں دین خدا پر ثابت قدم رہیں امامت کے وفادار رہیں کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
عوام الناس رعایا – “وعلى الرعية”
معاشرے میں جہاں حکمرانوں اور ثروتمندوں کی ذمہ داریاں ہیں وہیں عوام الناس کی بھی ذمہ داریاں ہیں اگر معاشرے کا ہر طبقہ اپنی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے تو دشمنوں کو رخنہ اندازی کا موقع نہیں ملے گا معاشرہ فتنہ و فساد سے محفوظ رہے گا وہ عوام الناس جو اپنے امام علیہ السلام کا انتظار کر رہے ہیں ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔
الف – انصاف – “بالانصاف”
حکومت کے تعلق سے لوگوں کی پہلی ذمہ داری انصاف سے پیش آنا ہے۔ غیر معصوم حکمراں خواہ وہ کتنے ہی عادل اور انصاف پسند کیوں نہ ہوں ان کی طاقت اور کمزوری لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہے اگر لوگ انصاف سے کام لیں تو حکمرانوں کی کمزوری کو طاقت میں بدل سکتے ہیں اور طاقت وقوت کو حد اعتدال میں رکھ سکتے ہیں لیکن اگر ادھر سے انصاف نہ ہو تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔
ب) حسن سلوک “وحسن السيرة”
عوام الناس کی دوسری ذمہ داری ہر طرح کے تعصب بغض و عناد بداخلاقی سے دور رہتے ہوئے حسن سلوک سے پیش آنا ہے یہ باہمی حسن سلوک ملت کے اتحاد و انصاف کو مستحکم اور باقی رکھے گا بعض امور میں کوتاہی اور کمی حسن سلوک کو متاثر نہ کرے ۔حسن سلو ک بگڑتے ہوئے حالات کو سدھار سکتا ہے۔
دیگر فلاحی امور
حضرت ولی عصر علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں ظہور صرف۔۔۔۔ امور پر منحصر نہیں ہے بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو اور ایک ایک فرد کو شامل ہے۔
صحت عامہ – “وعلى المرض المسلمين بالشفاء والصحة”
عمومی صحت کی صورتحال یہ ہو، کوئی مریض بغیر علاج کے نہ رہے ۔کسی کی غربت و ناداری اس کے علاج کی راہ میں رکاوٹ نہ ہو۔ بلکہ کچھ ایسا انتظام ہو کہ ہر ایک کو شفا نصیب ہو اور ہر ایک صحت و تندرستی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
گزر جانے والوں کی بات – “وعلى موتاهم بالرافة والرحمة”
ایک سچے منتظر کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے، وہ ان لوگوں کو بھی یاد کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں یہ دنیا زندگی کی آخری حد نہیں ہے ، بلکہ اس کے بعد بھی ایک عظیم دنیا ہے وہاں بھی راحت و تکلیف ہے جو لوگ ابھی اس دنیا میں ہیں ان کی ذمہ داری ہے وہ دنیا سے گزرجانے والوں کے لیے مغفرت رحمت کی دعا کرتے رہیں، ان لوگوں کی دعائیں صاحبان قبور کی راحت و آسانی کا سبب ہوں گی۔ اگر آج ہم گزر جانے والوں کے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں کریں گے تو کل ہمارے لیے بھی لوگ دعائیں کریں گے جو ہمارے راحت وہ آرام کا سبب ہوگی۔
قیدیوں کی رہائی – “وعلى الاسراء بالخلاص والراحة”
اس دعا میں امام عصر علیہ السلام کی ایک تمنا یہ ہے کہ کوئی بھی شخص قید میں نہ رہے ایک طرف اسلام میں عدل و انصاف ہے عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ مجرم کو سزا دی جائے اسے قید کیا جائے اور دوسری طرف یہ دعا کہ قیدیوں کو رہائی نصیب ہو۔ اس کی صورتحال یہ ہے کہ سارا معاشرہ مل کر یہ کوشش کرے کہ جرم کم سے کم ہو۔ جرم جس قدر کم ہو گا اتنا ہی لوگ قید سے محفوظ رہیں گے۔ جرم کی روک تھام ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ جرم کو روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس طرح کی فکر رکھتے ہیں ان کی تربیت کی جائے، اصلاح کی جائے، ان کی ذہنی ساخت کو بدلا جائے ، مجرم ذہن کو مصلح پر تبدیل کیا جائے۔
حج و زیارت ۔ “وبارك للحجاج والزوار”
حج و زیارت کا ذکر بتاتا ہے کہ حضرت ولی عصر علیہ السلام کو یہ روحانی سفر کس قدر عزیز ہے حاجی اور زائر اپنے وطن سے دور جاتا ہے۔ وہاں کے اخراجات اور مسائل ہوتے ہیں۔ حج وعمرہ بجالانے کے شرائط و آداب ہیں اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ ادائیگی نہیں ہوتی تو واجب ادا نہیں ہوگا۔ اس بنا پر یہاں امام علیہ السلام نے ایک سفر روحانی میں ایک طرف ان کے اخراجات سفر میں برکت کی دعا کی ہے۔ ان کے زاد ونفقہ میں اس قدر برکت ہو یہ پورا سفر آسانی سے گزر جائے اور کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ ہو۔ اور دوسری طرف یہ بھی دعا کی ہے کہ حج و عمرہ اپنی شرائط کے ساتھ ادا ہو جائے، تاکہ کوئی واجب ان کے ذمہ باقی نہ رہے۔ یہی صورتحال سفر زیارت کی بھی ہے۔ سفر راحت سے تمام ہو اور زیارت قبول ہو۔
چند یاد دہانیاں
اس دعا کے مطالب و مقاصد کو اجمالی طور پر اس لئے رقم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ قارئین اس نعمت عظمیٰ کی طرف متوجہ ہوجائے جو اس دعا کے ذریعہ ہمیں ہمارے والد شفیق امام نے عطا فرمایا ہے۔ سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ دعا امام زمانہ علیہ السلام کے اوراد و وظائف میں شامل ہے۔ اور اس کی فصاحت و بلاغت کے ادراق سے ہر مومن ایک پاکیزہ طہارت آمیز زندگی کا حامل بن سکے۔ بشارت ہے ان افراد کے لیے جو اس دعا کو تعلیمات اسلامی کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ اس کے ہر جملے پر غور کرکے عامل ہوتے ہیں ۔ شرط خلوص ہے اور تمنا ہے کہ ہمارا امام ہم سے اس دعا کے آئینے میں مجھے محسوس ہونے لگے وہ خشنود ہے اور ہماری طرف متوجہ ہے۔
1) یہ دعا یہاں انتظار کرنے والوں کی ذمہ داریوں کو بیان کر رہی ہے وہاں یہ بھی بیان کر رہی ہیں کہ ظہور کے بعد جہاں یہ تمام باتیں عملی ہوچکی ہوں گی اس وقت دنیا کی صورتحال کیا ہوگی وہ دنیا کس قدر اخلاق و کمال و فضائل کی دنیا ہوگی۔
2) یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے یہ تمام صفات و کمالات ایک فرد یا ایک معاشرے میں پوری طرح موجود ہوں گے یہاں ان اوصاف سے متصف ہونے کی کوشش خود کرنی چاہیے۔
3) ہر ایک منتظر اپنے اپنے اعتبار سے ان کمالات و فضائل سے خود کو آراستہ کرنے کی کوشش کرے دوسروں پر نظر رکھنے اور تنقید کرنے کے بجاۓ خود اپنا جائزہ لے اور خود کی اصلاح کریں اگر ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داری پر عمل کرے گا تو معاشرہ خود بخود صالح و نیک ہو جائے گا۔
4) فضائل و کمالات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ بندے کا کسی ایک کمال و فضیلت سے متصف ہونے کے بعد ٹھہر جانا روا ں نہیں ہے بلکہ حصول کمالات کا یہ سفر ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہیے جس قدر کمالات میں اضافہ ہوگا اتنا ہی امام علیہ السلام سے قربت میں اضافہ ہوگا۔
ملاحظہ: اس مضمون کے مفاہیم آیت اللہ جواد آملی کی کتاب امام مہدی موعود سے اخذ کئے گئے ہیں۔ و السلام