عقیدہ اِنتظار – قبولیت اعمال کی ایک شرط

ہر شی کے ساتھ کچھ شرائط مربوط ہوتی ہیں جس کے بغیر وہ قابل قبول نہیں ہوتی۔ مثلا ہندوستان کے الیکشن میں ووٹر کا ہندوستانی شہری ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح کی کورس میں کامیابی کے لئے بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں جس کے بغیر کسی کو کامیاب نہیں سمجھا جاسکتا۔
اسی طرح اللہ کے نزدیک قبولیت اعمال کے واسطے بندوں کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں۔ الٰہی شرائط کے مجموعہ کو مذہب کہتے ہیں لیکن یہ مذہب اللہ کے نافذ کردہ قوانین پر ہونا چاہئے۔ یقینا صحیح عقیدہ عمل پر مقدم ہوتا ہے۔ اور اعمال کی قبولیت کے لئے عمل سے پہلے عقیدہ توحید کا ہونا لازمی ہے۔ اللہ نے قرآن میں اس طرف اشارہ بھی کیا ہے: “یقینا اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے“
(سوره آل عمران (3)، آیت ۱۹)
امیر المومنین علیہ السلام لوگوں کو دین اسلام پر چلنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“اے لوگ اپنے مذہب کا خیال رکھو، اس سے متمسک رہو اور کسی کو یہ موقع نہ دو کہ وہ تمہیں بہکائے کیونکہ تمہارے اپنے مذہب میں انجام دیا ہوا برا عمل دوسرے مذہب میں انجام دئیے ہوئے اچھے عمل سے بہتر ہے کیونکہ تمہارے مذہب کے برے اعمال معاف کئے جاسکتے ہیں جب کہ دوسرے مذہب کے اچھے اعمال قابل قبول نہیں ہیں۔“
(معانی الاخبار ص ۱۸۵ / ۱۸۶)
کسی بھی قسم کا اچھا عمل قابل قبول نہیں ہے جب تک توحید اور رسالت کا عقیدہ نہ ہو لیکن عقیدہ توحید و رسالت رکھنے والا ایک شخص اگر برے عمل بھی کرتا ہے تو بھی وہ امید کرسکتا ہے کہ الله اس کے اعمال قبول کر لے گا۔
اب اگر کوئی خواہش رکھتا ہے کہ اس کے اعمال قبول ہوں تو اسے شرائط و قوانین دین کا جاننا اور اس کی پیروی کرنا لازم ہے اور یہ شرائط و قوانین ائمہ کی احادیث کے ذریعہ ہمارے لئے واضح ہو جاتے ہیں۔
یہاں ہم اس بات کو واضح کر دیں کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول ہے تو ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ الله اس کی جزادے گا سزا نہیں۔ اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد بھی لیکن صرف اس شخص کے اعمال جو قابل نظر ہوں۔
ایک شخص کچھ کاغذات لئے ہوئے امام محمد باقر علیہ السّلام کے پاس آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ کاغذات کھولتا امام علیہ السّلام نے فرمایا ” یہ متنازع کاغذات ہیں جو اس مذہب پر سوال اٹھاتا ہے جس میں عمل قبول ہے۔” اس شخص نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے۔ وہی شی ہے جو میں چاہتا ہوں، اس وقت امام علیہ السّلام نے کہا:
“میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے اور محمّد اس کے بندے اور رسول ہیں اور تم اسے جانتے ہو جو وہ الله کی طرف سے لائے ہیں۔ ہم اہل بیت علیہم السلام سے متمسک رہنا اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اور ہمارے احکام کو قبول کرنا اور

ہمارے قائم کا انتظار کرنا کہ بالآخر ہماری حکومت ہوگی کیونکہ جب الله ارادہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔“
(الکافی کتاب الایمان والکفر، باب ۳، حدیث ۱۳)
اس حدیث کے اعتبار سے حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار کرنا عقیدہ توحید و رسالت اور اہل بیت کی ولایت اور اس دین کی اساس ہے جس کی بنا پر عمل قبول ہوتا ہے۔
ابو بصیر سے ایک اور حدیث مروی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ قائم آل محمد علیہ السلام کا انتظار قبولیت اعمال کی شرط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک روز امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: “کیا میں تمہیں اس کی اطلاع دوں جس کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کاعمل قبول کرے گا؟ ابو بصیر نے کہا “ہاں فرمائے۔” امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
” یہ شهادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور یقینا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور ان تمام چیزوں کا اقرار کرنا جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ہماری ولایت کو قبول کرنا اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی رکھنا… اور ان کے سامنے تسلیم ہونا اور ورع و اجتهاد اور اطمینان اور ان کا انتظار کرنا۔”
(غیبت نعمانی باب ۱۱, حدیث ۱۹)
آئیے ہم عقیدہ انتظار کا تجزیہ کریں۔ شیعیت کے نظریہ سے عقیده انتظار کا معنی رسول کے بارہویں جانشین کا انتظار کرنا ہے جن کا مشہور لقب مہدی ہے جو اپنے ظہور کے بعد دنیا میں صحیح اسلام رائج کریں گے اور دنیا کو انصاف اور عدل سے بھر دیں گے لیکن ان کے ظہور کا وقت نامعلوم ہے۔ عقیدہ انتظار ایک ایسا عقیدہ ہے جس کے بغیر کسی کا عمل قبول نہیں ہوگا اور وہ دائرہ اسلام سے باہر ہے جو انتظار پہ عقیدہ نہیں رکھتا۔
مثال کے طور پر ایک کا منتظر جو عقیدہ رکھتا ہے کہ مہدی علیہ السلام جس کا وہ انتظار کر رہا ہے وہ اس کے وقت کے امام ہیں۔ یہ عقیدہ امامت کو ظاہر کرتا ہے جو توحید اور نبوت کے بعد سب سے اہم ہے کسی کے اعمال کی قبولیت کے لئے۔ در اصل عقیدہ امامت ٹکمیل عقیدہ توحید و نبوت ہے۔ اس موضوع پر اہل بیت علیہم السّلام سے متعدد
احادیث ہیں۔
محمد بن مسلم نے کہا: میں نے ابو جعفر کو یہ کہتے ہوئے سنا:
“ہر وہ شخص جو اللہ کی عبادت کے ساتھ اس کی پیروی کرے، اپنے نفس کو مشقت میں ڈالے لیکن اس کے پاس اس کی جانب سے (منتخب کردہ) امام نہ ہو تو اس کی کوشش قبول نہیں کی جائے گی۔
اللہ کی قسم اگر کوئی شخص اس امت میں ایسے صبح کرے کہ اس کا اللّٰہ کی جانب سے ایک ظاہر و عادل امام نہ ہو تو اس نے گمراہی میں صبح کی اور اگر وہ اسی حالت میں مرجائے تو اس کی موت کفر کی موت ہوگی۔ اے محمد جان لو یقینا ظلم وجور کے امام اور ان کی اتباع کرنے والے اللہ کے دین سے خارج ہیں وہ گمراہ ہیں اور (لوگوں کو) گمراہ کرتے ہیں. بس ان کے اعمال راکھ کی مانند ہیں جسے آندھی کے دن ہوا نے شدت کر کے اڑا دیا ہو، وہ اپنی کمائی پر بھی اختیار نہیں رکھیں گے اور یہی بہت گہری گمراہی ہے۔
(الکافی کتاب الحجّت باب ۷ ح ۸)
حدیث بالا واضح کرتی ہے ک قبولیت اعمال کا دارومدار عقیدہ امامت پر ہے۔ عقیدہ انتظار عقیدہ امامت میں شامل ہے۔

امام عصر علیہ السلام کی ایک زیارت جو مفاتیح الجنان میں آئی ہے ہمیں ملتا ہے۔
“میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ کی ولایت کے ذریعہ اعمال قبول ہوتے ہیں، پاکیزہ ہوتے ہیں نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور گناہ مٹائے جاتے ہیں پس جو آپ کی ولایت کا اقرار کرے اور آپ کی امامت کا اعتراف کرے تو اس کے اعمال قبول ہوتے ہیں اس کے اقوال کی تصدیل ہوتی ہے اور اس کی نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور اس کے گناہ مٹا دئے جائیں گئے۔”
ابیہ مکمل طور پر واضح ہے کہ عقیدہ انتظار جو عقیدہ امامت میں شامل ہے، کسی عمل کو عبادت میں بدلنے کے لئے اور الله تعالی کے ذریعہ اعمال کے قبول ہونے کے لئے ضروری ہے۔
خلاصۃ عقیدہ انتظار کے معنی ہم یوں بیان کر سکتے ہیں:
(۱)اللہ کی توحید میں عقیدہ، جیسا کہ اللہ نے عالم زر میں ہمیں اپنی معرفت دی تھی امام عصر علیہ السلام اپنے ظہور کے بعد ہمیں اس کی یاد دہانی کرائیں گے۔
(۲) الله کی عدالت کا عقیده، پس امام علیہ السّلام ایک انصاف سے پر حکومت قائم کریں گے جو امام عصر علیہ السلام کی ہدایت کے سائے میں چلے گی۔
(۳) یہ عقیدہ رکھنا کہ امام عصر علیہ السلام کا ظہور کلی طور سے الله کے ارادے پہ منحصر ہے۔
(۴) یہ عقیدہ کہ اللّٰہ کی ایک دلیل (حجت) روئے زمین پر موجود ہے اور حدیث ثقلین کا اقرار کرنا۔
(۵) اہل بیت کے خلاف جونا انصافی اور ظلم ہوئے ہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ امام عصر علیہ السلام ان سے پبدلہ لیں گے بالخصوص اپنی جدہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور ان کے فرزند امام حسین علیہ السّلام کے دشمنوں سے۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ امام عصر علیہ السلام کے لئے ہماری معرفت میں اضافہ فرمائے اور ہمیں امام عصر علیہ السلام کے منتظرين میں شامل ہونے کی توفیق عطا کرے جس کے ذریعہ ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی ملے اور ہم ان کے پیروکاروں میں شامل ہوں اور آخرت میں ان کا پڑوس نصیب ہو۔ آمین۔