مقدمہ
اللہ کی مثبت
ارشاد باری تعالی ہے کہ میں ہمارے اسماء حسنہ کے ساتھ پکارو ہم تمہاری آواز پر لبیک کہنے کو تیار ہیں ۔ پیغام لے کر انبیاء اور مرسلین اور ان کے اوصیاء فریادی کی فریاد رسی کیلئے آتے رہے۔ یہ سلسلہ تکوین عالم سے آج تک اور قیامت تک کسی بھی صورت میں جاری ہے اور جاری رہے گا۔ اس طویل یعنی بہت دور سے آنے والی اور بہت دور تک جانے والی مدت کا مرکزی اور محوری نکتہ پر کار روز عاشور محرم ہے جو الوہی منصوبے کی تشکیلات کو ایک طرف ماضی کے ہدایاتی نشان کے بیان قائم کرتا ہے اور زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف مستقبل میں انسانیت کی ضمانت کیلئے ہر منزل پر روشنی کا مینار کھڑا کر دیا ہے تا کہ بروز سزا اور جز بقول علامہ اقبال
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
کہنے کا کوئی جواز باقی نہ رہے
سیاست کرسی یعنی برائے حکومت سازی
کیا تو ان کو اپنا یقینی بنائے گا جو دنیا میں خونریزی کر دیں گے۔ یہی آواز بزم ملائکہ سے بند ہوئی تھی اور یہ آواز سن کر وہ مخلوق جو ملائکہ کے صف میں آئی تھی یعنی شیطان نے مخالفت میں ہم اس کی خاکی بندہ و پر برتری رکھتے ہیں یہ آواز اٹھائی۔ یہ آواز اس مخلوق کی تھی جس نے اپنی عبادت کے ذریعہ ملکوتی مخلوق کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ یہاں ہر صاحب عقل وشعور اس حقیقت سے تو انکار نہیں کرسکتا کہ جرات طاغوتی کتنی ہے کہ صاحب کن فیکون کے مقابلے میں کھڑا ہوگیا اور اپنے عادل ہونے کی بنا پر الله تعالی نے فیصلہ کیا اور اسے بہکانے اور گمراہ کرنے کیلئے مدت معینہ کی مہلت مل گئی۔ اور وہ اپنی رحیمیت کے ساتھ راندہ درگاه خداوندی ہوا۔ قابیل جو ایک سو برس تک ہابیل کی لاش سے شیطان کے ہمراہ کھیلتا رہا اسوقت سے لے کر آج تک یہی ملک گیری کی سیاست مظلوموں کے حقوق کے استحصال کی سیاست، بحر ظلمات میں ہی نہیں خون کے بہتے ہوئے دریاؤں میں پہلے گھوڑے دوڑتے تھے اب بموں کے مقچّر اور زہریلی گیس سے بیکسوں کے گھرڈھائے جارہے ہیں۔ نظر آتش ہورہے ہیں معصوم بچے اگر زندہ ہیں تو اپنی ان ماؤں کے سینے سے لپٹے ہوئے ہیں جن کا دودھ خشک ہو چکا ہے۔
۲۲ ستمبر ۲۰۱۴ کا ٹائمز آف انڈیا پڑھئے۔ عراق کے فوجی سربراہوں نے بیان دیا آئی ایس آئی ایس امریکہ کی تشکیل دهنده ہے۔ اور امریکہ بیان پڑھیئے نہایت شرافت کے ساتھ اِنکار بھی ہے اور اسے ختم کرنے کی باتیں بھی ہیں ۔ آج کی دنیا میں یہی دہشت گر غلام بنارہے ہیں اور کنیز عورتوں کے نصیب میں پھر آئی۔ لیکن یہی کربلا اور اطراف کی زمین ہے جہاں کے جانباز سپاہی اس ظلم کے سیلاب سے آج بھی نبرد آزما ئیں۔
کربلا کے ما سبق اور کربلا کے ما بعد (میری مراد کربلاء سے روز عاشور ہے) ان مظالم کا سامنا انبیاء، اوصیاء، اولیاء اور ان کی ہدایت کے پیروکار ہی کرتے رہے اور طاغوتی طاقت جیسے اوپر بیان کر چکے ہیں اس کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کر رہے ہیں۔
آئے روز عاشور کربلا کس طرح مرکز جلوہ گاہ شان خداوندی ہے۔ جو ماضی میں ہادیان بر حق کے ابلاغ کی روح اور مستقبلِ میں صدیوں سے لے کر ظہور امام علیہِ سلام تک احمد مُرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کا روشن آفتاب ہے، اس کا ایک نصف جائزہ لیں۔ نصف جائزہ اس لیئے کہا کربلا منزل تسلیم و رضا دو ذوات مقدسہ کی بناپر قرار پائی۔ ایک امام حسین علیہ السلام فرزند رسول ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسری ذات جناب زینب کی جو سیده النساء العالمین خاتون جنت سلام اللہِ علیہا، اور جناب آسیہ، جناب مریم، جناب حوّا کی ورثہ دار تھیں۔
جناب زینب علیہا السلام کا کردار روز عاشور جو تمام اہل اسلام کی خواتین کیلئے ایک معیار اور مثال بے عدیل ہے اور مبالغہ نہ کیا جائے تو گویا اس روز آپ کی حیات کا ہر لمحہ ایک ایسی کتاب ہے جو حوصلہ کن اور کڑی مصیبت میں ہمت، جرات ، صبر، پاسبانی حدود شریعت، تلقین صوم،صلاۃ، عفت عصمت، عزت، وقار غرض تمام وہ اوصاف حمیدہ جو ایک اللہ کی طرف سے تعین رہنمائی کرنے والی ذات میں پائی جاتی ہے، بروئے کار آئی اور دنیا کی تمام عورتوں کیلئے معیار آسمانی ہے جو ثار اللہ کی روشنائی سے، جان لیوا پیاس کی شدت کے صفحات پر لکھی گئی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دائرہ اسلام میں رہنے والے دو افراد جن کے ہاتھ میں قلم ہے، ذہن ہے، فکر ہے، حافظہ قوی ہے، تاریخ اسلام کا وہ سب سے بڑا حادثہ جسے کربلاءیت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا سامنے ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ حقائق کی روشنی پر باطل کے اندھیرے چھائے ہیں لیکن اس سے تجاہل عارفانہ برت رہے ہیں۔
عصبیت کے دبیز پردے عقل و شعور پر پڑ گئے اور ملک گیری کے مہمات میں عورتوں نے جو حصہ لیا اور کردار نبھایا ہے اس پر قلم طراز ہیں ۔ ایسی ہی اسلام کی بہادر خواتین کے عنوان سے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک قلمکار نے لکھی ہے۔ دیگر غیر اسلامی اقوام میں ایسی ہزاروں مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ اسلام کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے کہ انصاف پسند بنی ہاشم کی ان جیالی، بہادر، صبر و استقلال کا پیکر، ایثار و قربانی پر مفاخر باوقار مخدرات کی طرف سے بر بنائے عصبیت رو پوشی کرتے رہے ہیں ۔ چنانچہ اس کے جواب میں پروانہ اور و دولوی مرحوم نے کربلا کی بہاد خواتین لکھ کر منہ توڑ جواب دیا ہے۔
حضرت زینب ثانی زہر علیہا السلام ایسی ہی خواتین کی سردار تھیں جنہوں نے روز عاشور اپنے بھائی کے مشن میں بعد ہنگام ظہر تک بھر پور طریقہ سے معین و مدد گار ہیں اور بعد و هنگام شام غربیان تک اکیلے تن و تنها، ایک طرف امام وقت کی حفاظت اور دوسری طرف مخدارت عصمت طہارت اور تقریبا ۳۸ نو نہالان بنی ہاشم کو بچانے میں، کسی شاعر کے بقول زینب کبھی عباس تھیں تو کبھی شیر خدا علی تھیں۔ قارئین کرام روز عاشورا قیامت خیز ہنگام اور عترت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان حالات میں کسی طرح مصیبت کا مقابلہ کیا ہے کلیجے میں صرف سج کر دار پڑنے لگتی ہے کہ اس بی بی نے جس کا نام زینب علیہا السلام تھا اس طرح ان بیکسوں کے لئے قلعہ بندی کے فرائض انجام دیے ہونگے۔ اس حقیقت کو جوش نے اپنے ایک بند میں نہایت واضح اور وقت کی ایسی تمازت، که نگاه میں چھالے پڑ جائیں ایک جھلک دی ہے :
لو کے جھکڑ چل رہے تھے غیض میں تھا آفتاب
سرخ زروں کا سمندر کہا رہا تھا پیچ و تاب
تشنگی، گرمی،طلالم، ایک دہشت اضطراب
کیوں مسلمانوں پہ منزل اور آل بو تراب
کس خطا پر تم نے بدلے ان سے گن گن کرلئے
فاطمہ نے ان کو پالا تھا اسی دن کیلئے
اِسی کڑی منزل پر امام حسین علیہ السلام کے اس امتحان کا وقت آگیا تھا جب قدرت خداوندی آواز دینے والی تھی۔ ارجعی اور اس وقت جناب زینب علیھا السلام کا کردار ہر لمحہ کی ایک تاریخ لکھ رہا تھا جسے جوش نے اپنے بند میں رقم کر دیا ہے۔
ظہر کے ہنگام جب جھکنے لگا کچھ آفتاب
ذوق طاعت نے دل مولا میں کھایا پیچ و تاب
آکے خیمے سے کسی نے دوڑ کر تھامی ارکاب
ہوگئی بزم رسالت میں امامت بار یاب
تشنہ لب زروں پر خون مشک بو بہنے لگا
خاک پر اسلام کے دل کا لہو بہنے لگا
اِس بند میں جناب زینب علیھا السلام کی ہمت اور خداداد شجاعت کی ایک پوری داستان سامنے آجاتی ہے۔
بوقت رخصت جناب زینب علیھا السلام نے ان کو آپ کے مرکب پر سوار کیا تھا۔ جنگ ہوئی تھی حسین علیہ السلام نے جنگ کی اور جناب زینب علیھا السلام نے بھائی کی جنگ دیکھی اور آپ کی نگاہیں میں حسین علیہ السلام جب نبردآزما تھے جب آپ کی تلوار کے حرب و ضرب سے کوفی و شامی پسپا ہو رہے تھے۔ یہ منظر جناب زینب علیھا السلام نے نہ دیکھا ہوتا تو شام کے بھرے دربار میں شمر ملعون کو منہ توڑ اور دنده شکن جواب یہ کہ کر نہ دیا ہوتا کیا بکتا ہے او ملعون جب میرے بھائی حسین علیہ السلام نے حملہ کیا تھا تو تیری فوج کے بزدل سپاہی کوفے کی فصیل ٹکڑا رہے تھے۔ یہ بھی اس جنگ کا تذکرہ ہے جسے ایک طرف جنگ کہی جائے۔ بھلا کہیں کبھی ایسا ہوا ہے تین روز کے تشنہ لب حسین علیہ السلام اس نمک حرام لشکریوں میں تلوار سے حملہ کر رہے تھے جسکی تعداد کم سےکم تیس ہزار بتائی جاتی ہے اور خیمہ گاہ حسينی میں اب کوئی باقی تھا نہ تھا سوائے ایک بہن تھی جس کی سرکردگی اور پناہ میں سارا قبیلہ تھا۔ ذرا عاشور کا دن کیسے شروع ہوا اور کیسے اس کی شام آئی اس کی ایک جھلک دیکھ لیں۔
عاشور کا دن
آئے جناب زینب علیھا السلام نے صبح عاشور سے شام غریبان تک وہ کون سا کردار ادا کیا ہے جس مصائب کی منزل پر پیکر انسانی میں رہ کر کوئی دوسری ذات صبر و تحمل پر قائم رہنے کے لئے دعوی کرنا دور کی بات ہے سوچ بھی نہیں سکتی۔ شاید اسی لئے آپ کو ام المصائب کہا گیا ہے۔
صبح ہوئی، دروازه خاور کھولا، آفتاب کی کرنیں ابھی زمین پر پھیل رہی تھیں ۔ اذان علی اکبر فضا میں گونج چکی تھی ۔ اصحاب باوفا معصوم امام کی قیادت میں نماز فجر ادا کر چکے تھے۔ سعید نماز گزاروں کی حفاظت میں اتنے تیر اپنے سینے پر روک چکے تھے کہ نمازیوں کی نماز ختم ہونے تک زندہ رہے اور پھر زخموں کی تاب نہ لا سکے اور شہید ہو گئے۔
آمدم بر سر مطلب امام کی مصروفیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ (یعنی بقول شاعر :
کبھی لاش اٹھائی کبھی رو دئیے
اسی شغل میں شاہ دن بھر رہے
یہاں رک کر اس روز اسلام کی تہذیب کے خاص عناصر نے اپنی قدروں کو قائم رکھا ہے اور پورے کلچر کا منظر سامنے آیا ہے اس میں جناب زینب علیھا السلام کا کردار کس طرح جگمگا رہا ہے اس کو اجمالاً بیان کر دیں
جناب زینب علیھا السلام اور اسلامی تہذیب
اسلامک کلچر یا اسلامی تہذیب کی بنیاد ان اصولوں پر قائم ہے اس کے دو شعبہ ہیں ۔ ایک حصہ مستورات کا ہے اور دوسرا حصہ مردوں کے بیرون خانه روابط ہے۔ جس میں بہت سے شعبے ہیں۔ مثلاً رسم و رواج، شادی بیاه ، تجارت، لین دین، زراعت یا دیگر اقتصادیات سے متعلق مُختلف میدان میں فعالیت اسلام نے مرد کی فعالیت کا شعبہ عورتوں کی فعالیت کے شعبے سے کچھ اسطرح الگ رکھا ہے یہ دونوں بس اپنے اپنے میدان میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں جن کے اصول شریعت کے لحاظ سے مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کا مظہر سامنے آیا ہے یہ ایک با موضوع ہے جس پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی بس اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پورا نظام حیات اسلامی انفرادی اور اجتماعی طور طریقوں کو سیرت حیات طیبہ رسول ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی مطابقت کی بنیاد پر ایک دستور بندی ہوئی ہے اور اس کے تحت عورت کا میدان عمل خانه داری، بچوں کی پرورش، سماج کی عورتوں سے رابطے، ان کے درمیان اسلامی تعلیمات کی ترویج وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد مردوں کا دائرہ عمل بیرون خانه زیادہ فعالیت کا ہے ۔ معاشرہ اقتصاد اور مختلف شعبہ حیات وغیرہ ہیں ۔ جس میں ایک بین فرق جو دوسرے مذاہب اور مذہب اسلام میں ہے وہ یہ ہے کہ مذہب اسلام اور حکومت سازی کے عوامل ایک ہیں۔ دوسرے مذاہب میں حکومت سازی اور مذہب کو الگ الگ رکھا گیا ہے تفصیل کیلئے علماء کرام جو تحقیق اور تدقیق کے میدان میں سرگرم میں ان کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور شیعہ مذہب میں مقلدیں کیلئے توضیح المسائل ایک مکمل ہدایت ہے۔
خدا بہتر جانتا ہے کہ کربلاء کا وہ حادثہ جسکی شروعات ۲۸ رجب ۶۰ ھ میں ہوئی اور روز عاشور پایہ تکمیل تک پہنچی، ایک پورے نظام حیات اسلامی کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس پر جمہور اسلام کے دو عالم جو اہل بیت علیہم السلام سے فرزندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت کے بھی قائل ہیں اینی کی صلاحیتوں کے ذریعہ اجاگر کیوں نہیں کرتے ہیں؟ راقم الحروف نے دیکھا ہے کہ عبد القادر طاہری مائل بہ انصاف ضرور ہیں لیکن ایسا لگتا ہے بین السطور میں ان کی فکر مخفی ہے۔ کربلاء پورا اسلامی نظام کے تحت ہے۔ اس کو ثابت کرنے میں کوتاہ فکری سے کام لیا ہے۔
روز عاشورا
کچھ انھیں افکار کی روشنی میں سوال دھیرے دھیرے ذہن میں ابھرتے ہیں اور جب ان کو جواب مل جاتا ہے تو تسکین قلب کا باعث ہوتا ہے۔
۱- کیا کربلاء کی مستقل جنگ کی تشکیل کو سامنے لاتی ہے؟
۲- کیا جنگ کا نقشہ صرف اک طرفہ تھا؟
۳- کیا قبل جنگ نیزہ و برداروں کی صفیں، تیر اندازوں کی صفیں، پیادے گھوڑے سوار کے دستے اور آگے ان کے سردار یزید کی فوج نے اس کا نقشہ تیار کر لیا تھا؟
۴۔ پہلے پانی کی نہر پر پہرہ میں کس منصوبے کے تحت تھا؟
۵- یزید کی طرف لشکر میں صرف سپاہی تھے، اس کا انتظام تھا، اسلحوں کی فراہمي تھی، ایک دستہ دوسرے دسته کی آواز پر کان دھرے تھا۔
۶۔ یزید کی فوج میں نہ بچے تھے نہ مستوارت تھیں نہ نو خیز عمر کے نو رستہ تربیت پائے ہوئے لشکری تھے۔
جواب :
۱- کربلا کی جنگ: امام حسین علیہ السلام ایک قافلہ کے ساتھ کربلا میں وارد ہوئے تھے کوئی تاریخ نہیں بتاتی که حسین علیہ السلام کے اس قافلہ نے پہلے سے کسی میدان جنگ کا نقشہ تیار کر کے ایک منصوبہ کے تحت جنگ پر آمادہ ہو گئے ہوں۔
۲۔ روز عاشور : ایک بنی ہاشم کے اس قافلہ کو جنگ کی شکل دیدی گئی جسکا کوئی منصوبہ جنگ کا نہ تھا۔ یعنی یہ ایک طرفہ جنگ کے منصوبہ کے سامنے گویا پورے نظام حیات اسلامی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا ان غارتگران اسلام سے جن کا منصوبہ تھا اگر حسین علیہ السلام ٹوٹ گئے تو سارا سلام صرف حکومت کی پراگند و سیاست کے ہاتھوں میں آجائے گا جس کا احساس مرتے وقت عمرو عاص نے کیا تھا اور جس کا شابد اُسکا قصیدہ جلیلیہ ہے۔
تفصیلات بر طرف
جب ایک ایسا قافلہ حسین علیہ السلام کی سرداری میں اپنی راہ پر چل رہا تھا اسے روکا گیا اور عاشور کے روز امام حسین علیہ السلام نے پورے نظام حیات اسلامی کا ایک آفاقی نقشه دنیا کے سامنے رکھ دیا تو اسلام کی روشنی پھیلنے لگی۔
جناب زینب علیھا السلام
دنیا کی تاریخ میں نہ اسکی مثال ملی ہے اور نہ ملے گی کہ اتنی کثرت لشکری کو اتنی قلیل مجاہدوں کی تعداد نے اس طرح خوفزدہ کر دیا جو کہ بعدہ تاراج مدینه (واقعہ حرہ) کے وقت بنی ہاشم کے محلہ کی طرف یزیدی فوج کو نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہ تھی۔ حسین علیہ السلام اپنی تہذیب اسلامی جسکے وہ انبیاء علیہم السلام کے ورثہ دار تھے اسطرح ۳۰ ہزار کی فوج سے ٹکرائے کہ حسین ازم کو سمجھنے کیلئے دانشوران عالم غرق حیرت رہ گئے۔ جس طرح اسلامی نظام حیات کی آپ کے جد نے داغ بیل ڈالی تھی اس کا شاہکار کربلاء ہے۔ ذرا دو حصوں میں بنے ہوئے عوامل پر غور کریے۔ خیموں کے باہر رن کا میدان تھا۔ حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے پیچھے پیچھے گوش بر آواز تھے که کیا حکم امام کا صادر ہو رہا ہے۔ اور مخدرات عصمت و طہارت اور تقریب ۳۸ چھوٹے معصوم بچے پیاس کی شدت سے بے حال، نیم جان ہوٹ اودے پڑ گئے تھے۔ چہرے آماس زدہ تھے لیکن ہر ایک جناب زینب علیھا السلام کے حکم کا منتظر۔ حضرت عباس علیہ السلام کی طرح جناب ام کلثوم جناب زینب علیھا السلام کے ساتھ ساتھ حکم کی پیروی کرتی ہوئی۔
صبح سے ایک پہر کی جنگ تک اصحاب با وفا خونی لباس کفنی میں جام شہادت نوش فرما کر اپنے مولا پر اپنی جان قربان کر چکے تھے۔ سب کی لاشیں ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔ کوئی تاریخ کوئی مقاتل کہیں ایک روایت نہیں ملتی کہ کوئی بچی کی پیاس کی شدت کا گلہ اور اس ہولناک ماحول میں بدحواسی یا خود فراموشی کا شکار ہو کر خیمہ سے ایک قدم باہر نکالا ہو۔ یہ انتظام، یہ نظام یہ جذبہ فدا کاری جناب زینب علیھا السلام کے کردار اور آپ کی حقانیت اور آپ کی تعلیم اور آپ کی دلجوئی کی تھی۔
سورج جب ایک پہر گزار کر دو پہر کی طرف بڑھ رہا تھا جوانان بنی ہاشم جن کیلئے میر صاحب نے کہا ہے ۔
سب کے رخوں کا نور سہ پہر بریں پر تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ایک ایک کر کے شہید ہو گئے حتی کہ علی اصغر بھی شہید ہو گئے :
ننھی سی قبر کھود کے اصغر کو گاڑ کے
شبیر اٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑ کے
آخر اللامر دو پہر کا سورج آگ برسانے لگا۔ امام حسین علیہ السلام تنها
ہیں عابد بیمار علیہِ سلام سجدہ خالق میں ہیں۔ غش کا عالم بھی طاری ہو رہا ہے بچے جن کی تعداد ۳۸ بتائی جاتی ہے، خالی کوزہ ہاتھ میں لئے کبھی آنکھیں کمزوری سے بند کر لیتے کبھی نجف آواز میں سوال آب کرتے۔ مخدرات عصمت و طہارت کا پیاس کی شدت سے کیا حال رہا ہوگا اسکی کیفیت بیان کرنا ناممکن ہے جب کہ جانور یک جان ہورہے تھے۔ ایسے ماحول میں ہر خیمہ کی خبر گیری کرنا بچوں کو سنبھالنا صبر کی تلقین کرنا، به فدا کاری کو جوش ولا کے ساتھ قائم رکھنا۔ ہر بی بی کی گریہ و زاری پر ثابت قدمی کو باقی رکھنے کیلئے انجام خیر کا یقین دلاتا ہو یا جناب زینب علیھا السلام پورے مستورات کے ماحول پر چھائی ہوئی تھیں۔
مثال کے طور پر حضرت قاسم کی پامال لاشہ آیا۔ ام فروا کابازو سنبھالا، علی اکبر کا لاشہ آیا حسین علیہ السلام کی توجہ کو غم گساری میں اپنی طرف موڑا۔ عباس علمدار کے دست بائے بریدہ آئے ۔ جناب سکینہ کو سنبھالا، اگر دیکھا جائے تو یہ خدا کی قدرت کا یعنی جناب زینب علیھا السلام مظہر تھیں۔ ایک جناب زینب علیھا السلام اور ام کلثوم علیھا السلام ساتھ ساتھ اس طرح اپنا کردار ادا کر رہی تھیں کسی بی بی کے لئے کوئی نشان نہیں ملتا کہ اس نے حدود شریعت سے قدم باہر نکالا ہو۔ اس میں ہر بی بی کا پنا کردار تو ہے لیکن سہارا دینے والی علی علیہ السلام کی شیر دل بیٹی تھی۔
ایک طرف اجمالی طور پر نقشہ سامنے رکھے اور جناب زینب کی ہمت حوصلہ اور قوت برداشت اور نصرت حسین علیہ السلام کا مرزاد بیر کے اس بند سے اندازہ لگائیے۔
حسین جبکہ چلے بعد دوپہر رن کو نہ تھا کوئی کہ جو تھا مے رکاب توسن کو
سکینہ جھاڑ رہی تھیں عبا کے دامن کو حسین چپ کے کھڑے تھے جھکائے گردن کو
نہ آسرا تھا کوئی شاہ کربلائی کو فقط بہن نے کیا تھا سوار بھائی کو
بعد شہادت حسین علیہ السلام اب جناب زینب علیھا السلام کی ذمہ داری کتنی بڑھ گئی کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اسباب لوٹے گئے ھے جلائے گئے شریعت کی پاسدار زينب علیھا السلام امام وقت سے مسئلہ پوچھ رہی ہیں۔ امام وقت بتایئے جل کر خیموں میں جان دیدیں یا خیمہ سے باہر نکلیں؟ حکم امام صادر ہوا خیموں سے باہر نکلیں۔ سب بیبیاں جناب زینب علیھا السلام کی قیادت میں خیمہ سے باہر آ گئیں۔ دن ڈھلا شام غریباں آئی علی علیہ السلام کی بیٹی اپنے ساتھ جناب ام کلثوم علیھا السلام کو لئے ہوئے مخدرات عصمت طہارت اور بچوں کی نگہبانی کرنے لگیں۔
عاشور کی وہ شام وہ رن بولتا ہوا غم کا وہ کائنات پر پردہ پڑا ہوا
خیموں میں اشقیاء کے چراغاں کا اہتمام رن میں چراغ سبط پیغمبر بجھا ہوا
یہ ہیں جناب زینب علیھا السلام یہ ہے ان کا محیرالعقول کردار۔ یہ ہے نظام شریعت کی بقاء کیلئے مصیبت کی ہر منزل پر شکر خدا کرنے والی ذات۔ شام ڈھلی۔ ایک سوار کو آتے دیکھا۔ غیظ میں آئی علی علیہ السلام کی بیٹی بڑھ کر کام لجام فرس پر ہاتھ ڈالا۔ ٹوٹا ہوا نیزہ تان لیا۔ سوار نے چہرہ سے نقاب اٹھائی۔ کون تھا؟ علی علیہ السلام تھے اور جناب زینب علیھا السلام نے ضرور کہا ہوگا۔ اب آئے ہو بابا؟
آخر میں ایک پیغام ہے اگر آج جناب زینب کا کردار ہماری با عظمت اور با وقار مستورات کا پاسداری شریعت کے بارے میں اپنے لئے مشعل راه ہدایت اپنائیں تو ہم سب کا سارا سماج وقت کے امام کے سامنے سر خرو ہو جائے گا۔ اے اللہ منتقم خون حسین علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما۔ آمین۔