جناب زینب علیھا السلام قبل از کربلاء

جناب زینب علیھا السلام یعنی کربلا سے مدینہ تک دین محمدی کو حیات جاودانی عطا کرنے والی ایک ایسی باعظمت خاتون جو گفتار سے صاحب نہج البلاغہ حضرت علی علیہ السلام کی تصویر تھیں تو کردار سے جناب فاطمہ علیھا السلام کی آئینہ دار تھیں۔
پروردگار عالم نے یکم شعبان سن چھ ہجری میں جناب فاطمہ علیھا السلام کو ایک نایاب تحفہ عطا کیا اور اس وقت ایسامحسوس ہو رہا تھا جیسے خانواده نور میں ایک کہکشاں کا نزول ہوا ہو۔ جناب زینب علیھا السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، على علیہِ سلام، فاطمہ علیھا السلام، حسن علیہ السلام، حُسین علیہ السلام، ایسی ذوات مقدسہ کے سامنے دنیائے ہست و بود میں آنکھیں کھولیں۔
یہ تاریخ شیعوں کے اعتبار سے معتبر ہے حالانکہ دوسری تاریخ ولادت جناب زینب علیھا السلام بھی کتب تواریخ میں موجود ہیں اور ان کی ولادت کے تعلق اور بھی گوشہ بیان کئے گئے ہیں۔
جیسا کہ مصر کی ایک ناموران اہل قلم، عائشہ بنت الشاطی اپنی ایک کتاب “زینب بطلتہ کربلا (زینب کربلا کی ایک بہادرترین خاتون) میں ایک مقام پر کچھ اس طرح رقم طراز ملی که جناب فاطمہ علیھا السلام کا ایک بچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانہ مطہر میں نمائع ہوگیا جون حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے بعد ان کا تیسرا بچہ تھا گویا جناب زینب علیھا السلام اس عالم فانی میں حضرت محسن علیہ السلام کے بعد تشریف لائی ہیں۔ جب کہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ حضرت محسن علیہ السلام امام علی علیہ السلام کی پانچویں اولاد تھے۔ تیسری نہیں اور وہ بحالت جنین بطن مادر میں قتل کر دئیے گئے تھے جس وقت شہزادی کونین اپنے شوہر و امام وقت کی دفاع میں آگے آئیں تو انہیں در و دیوار کے درمیان اتنی شدت سے دبایا گیا کہ اس کا نتیجہ اسقاط جنین کی شکل میں سامنے آیا۔
ایسی حقیقت پر صاحبہ کتاب بطلت کربلا نے نقاب آویزاں کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ اس نقاب میں کئی ایسے مجرمین کے ناپاک چہرے سے بھی پردہ پوش ہوجائیں جن کے ہاتھ اس قتل میں ملوث تھے۔
تاریخ میں رقم ہے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بعد جناب زینب علیھا السلام کی شکل مالک کن فیکون نے دامن فاطمہ علیھا السلام کو اپنی رحمتوں سے پر کر دیا۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم السلام کی پہلی نواسی حضرت علی سلام و حضرت فاطمہ کا زمانہ کی پہلی دختر نیک اختر اور امام حسن و حسین علیھم السلام کی پہلی ہمشیرہ تھیں۔
جناب زینب علیھا السلام کی ولادت کے بعد مولائے کائنات علی علیہ السلام اپنے فرزند حُسین علیہ السلام کے ہمراہ زیارت رخ زینب عالیہ کے لئے تشریف لائے جب حُسین علیہ السلام کی نظر رخ انور پر پڑی تو کھل اٹھے اور فرمایا :
اے بابا! اللہ نے مجھے ایک بہن عطاکی ہے۔
یہ سن کر امام علی علیہ السلام بے اختیار گریہ کرنے لگے۔ اس گریه سے امام حسین علیہ السلام پریشان ہو گئے اور اپنے بابا سے گریه کا سبب دریافت فرمایا جس کا جواب امام علی علیہ السلام نے یوں دیا
۔۔۔۔ مرے بچّے اس کا جواب تم جلد جان جاؤ گے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مدینہ سے باہر سفر پر تشریف لے گئے تھے۔ سرکار انبیاء جیسے ہی سفر سے واپس ہوئے حسب معمول اپنی دختر جناب فاطمہ علیھا السلام کے گھر تشریف لے گئے اور گھر میں اخل ہوتے ہی نومولود کی مبارکباد دی۔ امام علی علیہ السلام ان کی تعظیم کو کھڑے ہوئے اور اپنی بیٹی کو فاطمہ علیھا السلام کی آغوش سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں رکھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچی کا بوسہ لیا اور اپنی زبان کو اپنی نواسی کے دہن میں رکھا۔
اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا: ” یا رسول اللہ خداوند متعال کی طرف سے اس بچی کا نام زینب منتخب کیا گیا ہے۔ یہ کہ کر وہ رونے لگے اور جب اللہ کے رسول نے ان سے رونے کی وجہ دریافت کی تو حضرت جبرائیل نے فرمایا :
اے خدا کے رسول اس بچی کو بچپن سے ہی آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلی مصیبت یہ ہوئی کہ اسے آپکی فرقت پر گریہ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد اپنی ماں کی جدائی پر آنسو بہائے گی۔ پھر پیدر علی علیہ السلام اور امام بھائی حسن علیہ السلام کو روئے گی ۔ اس کے بعد کربلا کے جنگل میں اپنے ماں جائے کوکھوئے گی۔ اس کے بعد کربلا سے کوفہ کے بازار تک اور کوفہ کے بازار سے شام کے دربار تک اس بچی پر غم و الم کے ایسے ایسے کوہ گراں ٹوٹیں گے کہ اس کے بال سفید ہو جائیں گے اور کمر خمیدہ ہو جائے گی۔
یہ سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے چین ہو گئے اور ان کی چشم پائے مبارک اشک فشانی میں مصروف ہو گئیں۔ اس وقت امام حسین علیہ السلام اپنے بابا علی علیہ السلام کے رونے کا سبب سمجھ گئے جب سلمان فارسی نے ولادت کی خبر سنی تو مولائے کائنات کے پاس مبارکباد لے کر آئے لیکن جب انہوں نے مولائے کائنات کو افسرده دیکھا تو افسردگی کا سبب دریافت کیا مولائے متقیان نے سارا واقعہ تفصیل سے سنایا اور سارے مظالم کا ذکر کیا تو سلمان فارسی بھی گر یہ کنندگان کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچی کا نام زینب رکھا جس کے دو معنی ملتے ہیں ۔ لسان العرب کے اعتبار سے زینب ایک درخت ہے جو خوبصورت اور مسرور کن خوشبو دینے والا ہے اور فیروز آبادی اپنی کتاب القاموس المحیط میں کو اس طرح قلمبند کرتے ہیں کہ زینب مرکب “زين” اور “اب” ہے۔ (شیعوں کی نظر میں دوسرا معنی مستحکم ہے) یعنی وہ اپنے بابا علی علیہ السلام کی زینت تھیں اس لئے نہیں کہ وہ ان کی دختر ھیں۔ اس لئے بھی ہیں کہ وہ ان کے نور مقدس کا جُز تھین۔ بلکہ اس لئے کہ بچپن سے ہی انھوں نے اپنی ذات پاک کو ان اعلیٰ صفات سے ہمکنار کر لیا تھا، بہترین خوبیوں اور صفات سے خود کو آراستہ کر لیا تھا اور عبادتوں اورسعادتوں سے وقت کی بلندی حاصل کرلی تھی کہ جس کی بدولت جانشین رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی زینت بننے کا iنہیں شرف حاصل ہو گیا تھا۔ اور وہ اس عظیم شخصیت کا آئینه بن گئیں جس کے نور سے وسعتیں روشن تھیں اور کائنات منور تھی ۔
جناب زینب عالیہ کی ذہانت، دانشمندی اور عقلمندی بچپن ہی سے غیر معمولی اور نمایاں تھیں۔ اسی لئے کنبہ کے لوگ انہیں عقیلہ بنی باشم، کہتے تھے۔ دختر علی علیہ السلام رحم دل اور سخاوت سے بری تھیں اور ہمیشہ دوسروں کے لئے محبت اور جذبات ہمدردی سے پُر نظر آتی تھیں۔ ایک مرتبہ امام علی علیہ السلام اپنے ہمراہ ایک ضرورت مند کو لئے گھر پہنچے اور شہزادی کونین سے فرمایا: اے فاطمہ کیا مہمان کو شکم سیر کرنے کی کوئی سبیل ہے؟ تو معصومه عالم نے عرض کیا : یہ علی اس وقت گھر میں کھانے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں ہے بس تھوڑی کی غذا ہے جو میں نے زینب کے لئے رکھی ہے ۔ یہ سن کر عقیلہ بنی باشم دوڑی ہوئی ماں کے پاس آئیں اور فرمایا کہ اے مادر گرامی کھانا بابا کے مہمان کو دے دیجئے میں بعد میں کھالوں گی۔ یہ سن کر ماں نے بیٹی کو کلیجے سے لگایا اور باپ کی آنکھوں میں شفقت و مسرت کی شعائیں بکھر گئیں اور امام علی علیہ السلام نے فرمایا
” تم واقعی باپ کی زینت ہو ۔”
جناب زینب علیھا السلام کی تربیت پانچ معصوموں نے کی اور ان کی تعلیم ایسی ہستیوں کے ذریعہ ہوئی جو آیه تطھیر کی مصداق تھیں۔ اگر آپ ان کی علمی تربیت کی طرف نظر کریں تو قلم میں اتنی بھی طاقت نہ ہوگی کہ وہ قرطاس پر رواں ہو سکے قلم رک جائے گا لفظیں کم پڑ جائیں گی کیونکہ ان کی تربیت ایک زبان ہے جس کی معرفت کسی کو نہیں کہ آپ کے پاس کتنا علم تھا ؟ اور یہ علم آپ کے پاس کیسے آیا؟ لیکن یہ قطعِی ثابت ہے کہ جس طرح ان کی تربیت ہوئی ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے یا یوں سمجھئے کہ جس نے صاحبِ نہج البلاغہ اور جناب صدیقہ طاہرہ سے تربیت پائی ہو تو پھر کس باحث و کاتب وتكلم میں اتنی جرآت ہے کہ اس میزان علم پر روشنی ڈالے جو صدر زینبیہ میں نہاں ہے۔
جناب زینب علیھا السلام جب پانچ سال کی ہوئیں تو انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ۔۔۔۔
شهر میں زبردست طوفان آیا ہے، بھیانک آندھیاں چل رہی ہیں ۔ زمین و آسمان بھیانک اندھیرے میں ڈوب گئے ہیں۔ وہ خود اس شدید طوفان کے تھپیڑوں میں ادھر ادھر چکر کھا رہی ہیں کہ اچانک انھوں نے اپنے آپ کو ایک تناور درخت کو پکڑے ہوئے دیکھا لیکن آندھی اتنی تیز تھی کہ و تناور درخت اکھڑ گیا۔ پھر انہوں نے ایک شاخ کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ بھی ٹوٹ گئی۔ پھر آپ نے دوسری شاخ کو پکڑا اور وہ بھی ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد آپ نے دو شاخوں کو گرفت میں لیا اور وہ دونوں بھی ٹوٹ گئیں اور جناب زینب علیھا السلام بغیر سہارے کے ره گئیں۔
اس خواب کو دیکھ کر وہ گھبرا کر اٹھیں اور اپنی نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ماں کی خدمت میں پہنچیں اور ان سے اپنا خواب بیان کیا تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خواب کو سن کر بہت روئے اور فرمایا کہ اے زینب وہ پڑا اور تناور درخت میں ہوں۔ اس کے بعد کی دو شاخیں تمہارے بابا علی علیہ السلام اور تمہاری مادر گرامی ہیں اور اس کے بعد دو شاخیں تمہارے برادران حسن و حسین علیہما السلام ہیں۔ یہ سب تم سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور تمہیں اکیلے زمانے کی سختیاں جھیلنی ہوں گی۔ ہوا بھی یہی کہ اکیلے جناب زینب علیھا السلام نے ایسے ایسے آفتیں جھیلی ہیں کہ ان کا قد کو ہساروں سے بھی بلند تھا۔
ابھی آپ کا بچپن ہی تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اس کے چند دنوں بعد ہی ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ غموں کا آغاز ہو چکا تھا جو زندگی کے آخری لمحات تک آپ کے ساتھ رہا۔
زمانے کے نشیب و فراز نے کمسن زینب کو آنے والے وقت میں عظیم فرائض کی ادئیگی کے لئے قوی و مستحکم بنادیا شہادت مادر کے بعد جناب زینب علیھا السلام نے خانگی امور سنبھال لئے اور بہت خوبی سے اسے انجام دیا۔ اپنے فرائض میں بھی کوتاہی نہیں کیا۔ آپ سب کا بڑے خلوص اور محبت سے خیال کرتی تھیں ۔ اپنے بھائیوں اور بہن سے انہیں بہت محبت و انسیت تھی بالخصوص جناب امام حسین علیہ السلام سے۔ چنانچہ ایک مرتبہ معصومہ عالمیان علیھا السلام نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کے اے بابا مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کیونکہ زینب اگر ایک لمحہ کے لئے بھی حسین کو دیکھے تو ہے چین ہو جاتی ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیٹی وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں میں شریک ہوگی اور بیشک شفیق زینب نے وہ سب کر دکھایا جس کی پیشین گوئی ان کے نانا نے کی تھی۔
حضرت زینب علیھا السلام نے دیگر بچوں کے ساتھ تعلیم اپنے بابا سے حاصل کی اور باب مدینتہ العلم جب خود علم بانٹ رہا ہو تو شاگردوں کی خوشیوں کا کیا ٹھکانا۔ نتیجتاً مولائے کائنات کے سارے بچے ذہنی طور پر علم و حکمت سے پار ہو گئے۔ جناب زینب علیھا السلام نہایت ذہین تھیں۔ انہوں نے اپنے بابا علی علیہ السلام کے علم و اوصاف کو پوری طرح جذب کرلیا۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے زمانے کے بے مثال خطیب تھے تو حضرت زینب علیھا السلام نے اپنے بابا کی اس خوبی کو کچھ یوں اپنے اندر منتقل کیا کہ بذات خود فصاحت و بلاغت کی مثال بن گئیں۔ ان کے عظیم الشان خطبات تاریخ کے اوراق میں بے مثال اور نایاب مانے گئے۔