شرح زیارت ناحیہ

المنتظر محرم الحرام خصوصی شمارہ ۱۴۳۶ ھ پچھلے شمارے سے جاری ہے
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُجَرَّعِ بِکَاسَاتِ مَرَارَاتِ الرِّمَاحِ
سلام ہو اس پر جسے پیاس کی شدت میں نوک سناں کہ تلخ گھونٹ پلاءے گئے۔
المجرع یعنی جسے گھونٹ پلایا جائے۔ یہ باب تفعیل کا اسم مفعول ہے۔ عربی لغت میں پینے کے لئے جرع استعمال کیا جاتا ہے اور کھانے کے لیے بلع. کاسة یعنی پیالہ اور کاسات اُسکی جمع ہے۔ میرارات مرّہ کی جمع ہے یعنی تلخ اور ماح یعنی نوک سنا۔.
جس وقت امام حسین علیہ السلام پشت فرس سے ارض کربلا پر تشریف لائے۔ آپ تین دن کے بھوکے پیاسے تھے۔ اقرباء اور انصار کے لاشوں کو اٹھا اٹھا کر زہرا سلام اللہ علیہا کے لال کا جسد اطہر سوکھی لکڑی کی طرح ہوچکا تھا۔ ایسی حالت میں، اشقیاء امام علیہ السلام کو نوک سنا چبھا چبھا کر طعنہ دے رہے تھے۔ اسی لئے امام زمانہ علیہ السلام نے چبھنے کے لئے لفظ دردناک نہیں بلکہ لفظ تلخ استعمال کیا ہے۔ سید الشہداء علیہ السلام کا ایک فقرا اس تلخی کی بہترین ترجمانی کرتا ہے:
اَمَا تَرَوْنَ اِلیٰ مَاءِ الْفُرَاتِ یَلُوْحُ کَاَنَّہٗ بُطُوْنُ الْحَیَّات یَشْرِبُہٗ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَاریٰ وَالْکِلَابِ وَالْخَنَازِیْرِ وَ آلُ الرَّسُوْلُ (ص) یَمُوْتُوْنَ عَطَشًا
کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو فرات کے پانی کی طرف کس طرح خود نمائی کر رہا ہے اسکی شفاف موجیں مچھلی کے پیٹ کی طرح ہیں۔ یہودی، نصرانی، کتے اور سور سب اس سے سیراب ہو رہے ہیں اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیاسی مر رہی ہے۔
)سوگنامہ آل محمد علیہ السلام صفحہ ۳۵۱ نقل از نہج شہادہ صفحہ ۱۸۹(
وَ قَالَ الْبَاقِرُ ؑ اُصِیْبَ الْحُسَیْنُ ؑ وَ وُجِدَ بِہٖ ثَلَاثُمِائَۃٍ وَ بِضْعٌ وَ عِشْرُوْنَ طَعْنَۃً بِرُمْحٍ وَ ضَرْبَۃً بِسَیْفٍ اَوْ رَمْیَۃً بِسَہْمٍ وَ رُوِیَ ثَلَاثُمِائَۃٍ وَ سِتُّوْنَ جِرَاحَۃٍ
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: امام حسین علیہ السلام گھوڑے پر سے گرے اور نوک سنا سے انکے بدن میں ۳۲۰ یا اس سے بھی زیادہ زخم تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ۳۶۰ زخم تھے۔
)بحار الانوار جلد ۴۵ صفحہ ۵۲(
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُسْتَضَامِ الْمُسْتَبَاحِ
سلام ہو اس پر جس کو ظلم اور ستم کا نشانہ بھی بنایا گیا اور اسکے خیام کے ساتھ لباس کو لوٹ لیا گیا۔
المستضام کا مادہ ہے ض-ي-م اور یہ باب استفعال کا اسم مفعول ہے. ضيم کا مطلب ہے ظلم۔ ضامه حقه یعنی اس کا حق چھینا گیا اور مستضام یعنی ایسا مظلوم جس کا حق چھینا گیا ہے۔
المستباح کا ماده ب-و-ح ہے اور یہ بھی باب استفعال کا اسم مفعول ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ امام علیہ السلام کے پاس جو کچھ تھا اس کو اشقیاء نے مال غنیمت اور مال حلال سمجھ کر لوٹ لیا، یہاں تک کہ آپ کے تن اقدس پر جو لباس تھا اسے بھی اتار لیا۔ ظلم کی حد تو اس وقت ہوئی جب ظالموں نے اہل حرم کے مال اور اسباب کو لوٹنا شروع کیا یہاں تک کہ ننھی سکینہ کے گوشوارے بھی اتار لیے۔
(یہ بات بار بار یاد دہانی کروانا ضروری ہے کہ اِس زیارت کے تمام فقرات امام زمانہ علیہ السلام کی زبانی ہیں جو آج بھی واقعے کربلا کو عصمت کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں )
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمَہُجُوْرِ فِی الْوَریٰ
سلام ہو اس پر کہ تمام انسانوں نے جس سے فرار اختیار کیا۔
المہجور کا مادہ ه-ج-ر ہے اور ثلاثی مجرد کا اسم مفعول ہے یعنی جس سے فرار اختیار کیا جائے۔ وري یعنی تمام انسان۔
تمام لوگوں نے امام حسین علیہ السلام سے فرار اختیار کیا۔ حسین علیہ السلام یک و تنہا رہ گئے تھے۔
مقتل میں ایک عجیب دل سوز جملہ ملتا ہے: امام علیہ السلام کنارے تشریف لائیں تاکہ تھوڑا آرام کر لیں۔ ایک کنارے کھڑے تھے کہ اچانک ایک بڑا پتھر دشمن کی جانب سے آیا اور آپ کی مبارک پیشانی پر لگا۔ خون بہنا شروع ہوا۔ جیسے ہی امام علیہ السلام نے چاہا کہ اپنے دامن سے خون کو صاف کریں ایک زہر آلودہ تین شعبے کا تیر آکر آپ کے شکم مبارک پر لگا۔
فَقَالَ الْحُسَیْنُ ؑ بِسْمِ اللہِ وَ بِاللہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ وَ رَفَعَ رَاْسَہٗ اِلَی السَّمَآءِ وَ قَالَ اِلٰہِیْ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُمْ یَقْتُلُوْنَ رَجُلًا لَیْسَ عَلیٰ وَجْہِ الْاَرْضِ ابْنُ نَبِیٍّ غَیْرُہٗ
امام حسین علیہ السلام نے آواز دی: بسم اللہ و باللہ و علیٰ ملت رسول اللہ۔ پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: پروردگارا ! یقینا تو جانتا ہے کہ یہ لوگ ایسے شخص کو قتل کر رہے ہیں کہ روئے زمین پر جسکے علاوہ کوئی پیغمبر کا فرزند نہیں ہے. پھر امام علیہ السلام نے تیر کو باہر نکالا اور خون کا پھوارا جاری ہوا۔
(نفس المہموم از شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ ۱۹۱ ؛ اعیان شیعہ از سید محسن امین العاملی رحمۃ اللہ علیہ جلد ۱ صفحہ ۶۱۰ اللوہوف فی قتلی الطفوف از سید ابن طاؤس صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۱)
یہاں ایک بات کہنا بیجا نہ ہوگا اور وہ یہ کہ تمام ائمہ آلِ محمد علیہم السلام کی مظلومیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انکے زمانے کے لوگوں نے ان سے فرار اختیار کیا۔ قرآن کریم میں سورہ فرقان کی ۳۰ آیت
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۔
اور (روز قیامت) رسول کہیں گے پروردگار! بیشک میری قوم نے اس قرآن سے فرار اختیار کیا ہے۔
کے ذیل میں تفسیر نعمانی میں آیا ہے کہ یہاں مہجور سے مراد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کے بعد دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُفْتَرِدِ بِالْعَرَاءِ
سلام ہو اس پر جسے یوں عریاں چھوڑ دیا ہو جس کی مثال نہیں ملتی
جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا، بے رحم دشمن جو صرف اور صرف دنیا کی لالچ میں امام علیہ السلام کا لباس جسم پر باقی رہنے نہ دیا اور خون میں ڈوبا لاشه سر زمین نے کربلا کی تپتی زمین پر برہنہ چھوڑ کر چلے گئے۔
بحر بن کعب نے ایک لباس اتار لیا، اخنس بن مرثد نے عمامہ سر سے اتار لیا۔ اسود بن خالد نے نعلین اتار لی، بجدل بن سالم نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی جب انگوٹھی نہ اتریں تو لعین نے آپ کی انگلی کاٹ کر انگوٹھی اتار لی۔ عمر بن سعد نے آپ کی زرہ ہو اتار کر رکھ لی، جمیع بن خلق نے آپ کی شمشیر رکھ لی، پھر قیامت کا وہ منظر تھا کہ گروہ در گروہ خیام حسینی پر حملہ کر رہا تھا اور سیدانیوں کو لوٹ رہا تھا۔ یہاں تک کہ خاندان نبوت کی ناموس کے کمروں پر جو چادریں بندھی ہوئی تھی انہیں بھی چھین لیا۔ اہل حرم خیمے سے باہر آئے اور اپنے شہداء پر گریہ اور ماتم فرمانے لگے۔
)لہوف از سید بن طاوس صفحہ ۱۳۰-۱۳۱(
حمید ابن مسلم (جو دشمنوں کا سرباز اور مخبر تھا) کہتا ہے خدا کی قسم میں زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا جب وہ شہداء کے لاشے کے کنارے گریہ کر رہی تھی اور صدائے دل سوز اور قلب غمگسار سے فرما رہی تھیں
وا محمداہ صلی علیک ملیک السماء ہذا حسین مجزوز الرأس من القفا مسلوب العمامۃ والرداء
یا محمد ! آسمان کے فرشتوں نے آپ پر صلوات بھیجی اور یہ حسین ہے کہ جس کا سر اس کے جسم سے جدا کر دیا گیا ہے اور جس کا عمامہ اور جسکی عبا چھین لی گئی ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ تَوَلّٰی دَفْنَہٗ اَہْلُ الْقُریٰ
سلام ہو اس پر جس کے دفن میں بادیہ نشینوں نے حصہ لیا۔
سید نعمت اللہ جزایری رحمۃاللہ علیہ نے شہدائے کربلا کی تدفین کے مطابق عبداللہ اسدی سے روایت نقل کی ہے جسکا خلاصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں :
جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے انصار کو شہید کر دیا گیا, عمران ابن سعد (لعنت اللہ علیہ) نے اپنے مردوں پر نماز پڑھائی اور انھیں سپردخاک کروایا اور شہدائے پاک کے لاشوں کو اسی طرح خاک پر چھوڑ دیا, امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت کو اسیر بنا کر کوفہ کی طرف چل دیا۔
نہر علقمہ کے نزدیک ایک بنی اسد کا ایک گروہ ایک دیہات میں زندگی بسر کرتا تھا. بنی اسد کی خواتین قتل گاہ میں آئیں اور شہداء کے لاشوں کے ٹکڑوں کو دیکھا کہ جن میں سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا گویا کہ انہیں ابھی قتل کیا گیا ہو۔ یہ دیکھ کر انہیں بہت تعجب ہوا۔ وہ اپنے قبیلے کے مردوں کے پاس آئی اور جو کچھ انہوں نے دیکھا اسے دہرایا۔ پھر ان سے کہا تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم امیرالمومنین علیھ السّلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سامنے کیا عذر پیش کرو گے اور کیسے منہ دکھاؤ گے کہ تم نے ان کے فرزندوں کی مدد نہیں کی اور ان کے حرم کی دفع اپنے تیر نیزوں اور شمشیروں سے نہیں کی؟
ان کے مردوں نے جواب دیا: ہم بنی امیہ سے خوفزدہ ہے لیکن اس بات پر نادم ہیں کہ ہم نے آل رسول کی نصرت کیوں نہیں کی۔
عورتوں نے کہا اب جب ہم اہل حرم کی حمایت کی سعادت سے محروم ہوگئے اٹھو جاؤ اور ان مبارک جسموں کو دفن کرو تاکہ کم سے کم یہ شرمناک داغ تمہارے سروں پر سے مٹ جائے۔
بنی اسد کے مردوں نے جواب میں کہا ہم تمہارے اس مشورہ کو قبول کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے، قتل گاہ پہنچے اور پہلا فیصلہ یہ کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے جسم اطہر کو دفنائیں گے۔ لیکن کسی بھی لاشوں پر سر نہیں تھا اس لئے وہ پہچان نہ سکے کہ کون سی لاش کس کی ہے۔ وہ حیران کھڑے تھے کہ ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک ناشناس گھوڑا سوار آیا اور سوال کیا “یہاں کیوں آئے ہو؟” انہوں نے جواب دیا ” ان لاشوں کو دفنانے کے لیے لیکن ہم ان بدنوں کو پہچانتے نہیں ہیں۔” جیسا ہی شاہ سوار (جو امام سجاد علیہ السلام تھے) نے یہ سنا با آواز بلند گریا کیا اور کہا، “اے بابا ! اے ابا عبد اللہ ! کاش آپ یہاں موجود ہوتے تو دیکھتے کہ کس طرح مجھے اسیر اور ذلیل کیا گیا۔”
پھر امام سجاد علیہ السلام نے ان سے فرمایا, “میں تمہاری رہنمائی کروں گا” گھوڑے سے نیچے تشریف لائے، لاشوں سے گزرتے ہوئے اچانک امام حسین علیہ السلام کے جسد مطہر پر اپنے آپ کو گرا دیا، آغوش میں لیا اور گریہ کرتے ہوئے فرمایا، “بابا آپ کے قتل سے شامی مسرور ہوئے, بابا آپ کے قتل سے بنی امیہ خوش ہوئے, بابا آپ کے بعد ہمارا حزن و ملال طولانی ہوگیا۔”
پھر آپ کے جسم کے پاس گئے, تھوڑی سی خاک ہاتھ میں اٹھائی, ایک قبر پائی گئی، خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے لاشے کو قبر میں لٹایا۔ پھر آپ قبر سے باہر تشریف لائے، ایک ایک شہید کی معرفی کروائی اور بنی اسد کی مدد سے سب کو سوپورد خاک کیا۔
کچھ روایتوں میں ملتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے بنی اسد سے ایک چٹائی طلب کی، اپنے بابا کے اعضاء کو اس چٹائی میں رکھا اور جیسے ہی چاہا کہ اسے قبر میں رکھے، اچانک دو ہاتھ۔ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کی طرح تھے۔ قبر سے باہر آئے، اس جسم کو لیا اور قبر میں اپنے ہاتھوں سے لیٹایا۔
)کبریت الاحمر صفحہ ۴۹۳(