مقدمہ
گریہ کی تاریخ ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے اور دنیا کی تمام مذہبی قوموں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ چونکہ گریہ محبت اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے کہ کچھ نفسیاتی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ تاریخ کے دامن میں بہت زیادہ گریہ کرنے والوں کے نام درج ہیں۔ احادیث میں بھی ان کے تذکرہ پایا جاتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
الْبَکَّاءُوْنَ خَمْسَۃٌ آدَمُ وَ یَعْقُوْبُ وَ یُوْسُفُ وَ فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ (ص) وَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ (ع)
“سب سے زیادہ گریہ کرنے والے ۵ افراد ہیں آدم، یعقوب، یوسف، فاطمہ بنت محمد اور علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام اسلام۔
)مکارم الاخلاق صفحہ ۳۱۵ نقل روضۃ الواعظین(
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے بابا حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام پر جو گریہ کیا تھا وہ ان کی فطری کیفیت کا اظہار تھا۔ لیکن امام معصوم کا یہ گریہ حق کی تبلیغ کا ذریعہ بھی ثابت ہوا۔
تبلیغ کے اثرات کی کارگری اس بات پر موقوف ہے کہ وہ اپنی بات کو، اپنے تاثرات کو روابط کو، دوسروں کے ساتھ منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فطری چیز کو سیاست کے ظاہری اسباب اس کی شناخت رکھتے ہیں اور نہ اس کو دبانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن جب کسی بڑی ہستی کا گریہ دلو کو منقلب کرتا ہے اور کسی انقلابی تحریک کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کو دبانے کے لیے مختلف قسم کے حربے استعمال ہونے لگتے ہیں۔ جب وہ کبھی کامیاب نہیں ہو پاتے تو قتل و غارت گری کا سہارا لیا جاتا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کی سیرت کا جب ذکر یا بیان آتا ہے کہ کربلا سے جب آپ مدینے آئے ہیں اور یہی آپ علیہ السلام کی حیات طیبہ اپنی آخری منزل تک گزری ہے، اس دور میں سب سے زیادہ جو آپ کی سیرت میں ایک فطری طور پر ابھرتا ہوا ایک عمل ملتا ہے وہ آپ کا گریہ ہے۔ لیکن آپ کی سیرت کے روشن پہلو ہے جو منصب امامت و رہبری کے فرائض پر مبنی ہے اس کا ذکر اور بیان عامہ کے سامنے کم آتا ہے۔ موجز نما شخصیت جناب سجاد علیہ السلام کی زندگی کے وہ مراحل جب سیرت نویسیوں کے سامنے آتے ہیں جو یہ اظہر من الشمس کر دیتے ہیں کہ آپ کی رہبری اور امامت ایک منصب الہی تھا جو اسلام کی تہذیب کے ہر گوشہ کا احاطہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک سماج میں ایک دوسرے سے لین دین کا سلسلہ، روابط یا معاملہ ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے ایک شخص سے کچھ رقم بطور قرض لیا لیکن دینے والے نے جب آپ علیہ السلام سے اس کے لئے کوئی ضمانت مانگیں تو آپ علیہ السلام نے اپنی عبا کا ایک تار بطور ضمانت اس کو دے دیا کچھ عرصے بعد آپ علیہ السلام نے اس شخص کو طلب کیا اور اس سے فرمایا: “میری عبا کا تار واپس کرو اور تمہاری رقم لے جاؤ”. اس عرصے میں وہ متحیر تھا کہ وہ ایک تار معلوم نہیں اس نے کہا رکھ دیا۔ آپ علیہ السلام کے اصرار پر اس نے اس تار کو تلاش کیا اور دستیاب ہونے کے بعد حضرت علیہ السلام کی خدمت میں پیش کردیا جس کے بدلے میں آپ علیہ السلام نے اس کی رقم واپس کردی۔ بظاھر یہ ایک واقعہ ہے لیکن اقتصادیات میں یہ واقعہ بحیثیت عہدنامہ کے عنوان پر آتا ہے۔ دوسرا واقعہ بھی قارئین کے لیے نقل کرنا ضروری ہے جو متواتر اور مسلسل طور پر علماء اور ذاکرین بیان کرتے ہیں کہ جب ہشام بن عبدالملک کے زمانہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے خانہ خدا میں امام سجاد علیہ السلام کی آمد پر مجمع کو کای کی طرح چٹتے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ بزرگوار کون ہیں؟ اس کے جواب میں جناب فرزدق نے ایک طویل قصیدہ میں امام سجاد علیہ السلام کی مدح کی جو اس رسالہ کے آخر میں قارئین کے لئے رقم کیا گیا ہے۔ اس خلیفہ اموی کے اس استعجاب سے بھرے ہوئے سوال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی شخصیت کے اثرات عامہ پر کس قدر چھائے ہوئے تھے۔ علاوہ از این، جب نظر صحیفہ سجادیہ پر پڑتی ہے تو کلام کی بلاغت و فصاحت صاحب عقل و خرد کے لیے علم و معرفت کے سرچشمہ گویا زبان مقدس سے پھوٹ رہے ہیں۔ ان تمام کمالات اور اعجاز کے باوجود نہ جانے وہ کیسا گریہ تھا جو نہ صرف اس زمانے میں بلکہ تا قیامت ہر عہد میں لوگوں پر ایسا اثر انداز ہوا جو پڑھتا ہے اس پر گریہ طاری ہو جاتا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کا گریہ
ابن قوليه، ابن شہر آشوب اور دیگر علماء نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار امام حسین علیہ السلام پر بیس سال گریہ کیا اور ایک دوسری روایت کے مطابق چالیس سال گریہ کیا۔ جب آپ علیہ السلام کے سامنے کھانا آتا تو آپ علیہ السلام گریہ فرماتے جب آپ علیہ السلام کے پاس پانی لایا جاتا تو اس قدر گریہ و زاری کرتے کہ وہ پانی مضاف ہو جاتا۔
جلال العیون فارسی صفحہ ۸۳۶
ایک دوسری روایت کے مطابق امام علیہ السلام نے فرمایا :
“میں یہ یاد کر کے گریہ و زاری کرتا ہوں کہ میرے والد کو تشنہ لب شہید کیا گیا اور انہیں اس پانی سے محروم کیا گیا جس سے حتی کی وحشی جانور اور درندے تک استفادہ کرتے ہیں۔”
جب غلام نے آپ سے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ السلام اس قدر گریہ فرمائیں گے کہ اپنے آپ کو ختم کر لیں گے تو امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
“میں نے تو پہلے ہی دن اپنے آپ کو ختم کر لیا تھا اور اب میں اپنے والد پر گریہ و زاری کرتا ہوں”۔
)جلال العیون فارسی صفحہ ۸۳۶(
امام علیہ السلام کا ایک آزاد کردہ غلام تھا جس میں آپ علیہ السلام سے سوال کیا: کیا وہ وقت اب تک نہیں آیا کہ آپ علیہ السلام کا گریہ ختم ہو؟ امام علیہ السلام نے فرمایا :
وائے ہو تجھ پر جناب یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے اور ان کا ایک بیٹا کھو گیا تھا تو انہوں نے اس قدر شدت کے ساتھ گریہ کیا کہ ان کے دیدے سفید ہوگئے اور اس غم و اندوہ نے ان کی کمر خم کر دی جبکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام زندہ ہیں۔ جب کہ میں نے اپنے والد، اپنے بھائیوں، اپنے خاندان کے ۱۸ افراد کو اپنے سامنے قتل ہوتے دیکھا ہے اور یہ دیکھا ہے کہ کس طرح ان کے سر بریدہ کو پھرایا گیا، پس کس طرح میرا گریہ ختم ہو سکتا ہے؟”
)جلاء العیون فارسی صفحہ ۸۳(
امام سجاد علیہ السلام کے گریہ نے لوگوں کے ضمیر کو جگایا جو بہرحال مردہ ہو چکے تھے۔ ان آنسوؤں کے ذریعہ اور گریہ کے ذریعہ جس کی تفسیر آسانی سے بیان نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کسی غم و اندوہ پر صرف جذبات کی تسکین کے لیے نہیں بہائے گئے تھے خاص طور سے جب یہ آنسو اور آہیں ایک امام کے ہوں جو کائنات کے حقائق کو دنیا کے ہر فرد سے زیادہ جانتا و آگاہ ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے آنسو جب امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی سے آغشته ہو جاتے تھے تو وہ طولانی سجدے کرتے تھے اور سجدہ میں اسی سجدے گاہ کو استعمال کرتے تھے جو آپ علیہ السلام کے والد بزرگوار کے قبر کی مٹی ہوا کرتی تھی۔ انگوٹھی خاک کربلا پر مسح کرتے جو ہمیشہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوتی اور جس پر منقوش تھا۔
خَزِیَ وَ شَقِیَ قَاتِلُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (ع)
“حسین ابن علی علیہ السلام کا قاتل ذلیل اور شقی تھا۔”
)الکافی جلد ۶ صفحہ ۴۷۴(
تو کبھی آنسُوؤں کا پیغام اور زیادہ لوگوں کے ضمیر کو بیدار کر دیتا تھا اور ظلم و ظالم سے نفرت پیدا کر دیتا تھا۔
شہادت امام
قارئین سے التماس ہے کہ تاریخ میں آپ علیہ السلام کی سیرت کو پڑھیں اور ان تمام بکھرے ہوئے واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں جو انسان کی اور سماج کے ارتقا کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ہم نے اجمالاً کچھ واقعات قلم بند کیے ہیں۔ لیکن کن حالات میں آپ علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی اس کا ذکر کرنا بھی مقصود ہے۔
مرحوم شیخ عباس قمی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب منتہی الامال میں نقل کیا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی تاریخ شہادت کے سلسلے میں علماء میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں جن میں تین تاریخی مختص ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان تاریخوں میں سے کسی ایک میں امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ ۱۲ محرم ۱۷ محرم یا ۲۵ محرم معتبر روایات کی بنا پر یہ بات ظاہر ہے کہ آپ علیہ السلام کو زہر سے شہید کیا گیا۔ ابن بابویہ اور دیگر علماء کے مطابق ولید بن عبدالملک (خدا کی لعنت ہو اس پر) نے آپ علیہ السلام کو زہر دیا. اور کچھ علماء کے مطابق ہشام بن عبدالملک نے آپ علیہ السلام کو زہر دیا۔
(منتہی الاعمال فارسی صفحہ ۱۲۳۶)
تفسیر قمی میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا وقت نزدیک آیا تو امام علیہ السلام پر تین دفعہ غشی طاری ہوئی۔ جب افاقہ ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا :
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَ عْدَہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَّوَأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعَامِلِیْنَ۔
“تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے کیے وعدے کو سچ کر دکھایا اور ہمیں اپنے زمین کا وارث بنایا تاکہ ہم جنت میں جہاں چاہیں آرام کریں اور بے شک یہ عمل کرنے والوں کا بہترین اجر ہے” پھر آپ علیہ السلام کی روح پرواز کر گئی۔
)بحارالانوار جلد ۴۶ صفحہ ۱۴۷(
وصیت امام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
جب امام زین العابدین علیہ السلام کا آخری وقت نزدیک آیا تو آپ علیہ السلام نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا اے میرے بیٹے میں تمہیں وہ وصیت کر رہا ہوں جو میرے بابا نے اپنی موت کے وقت مجھے کی تھی اور ان کے بابا نے ان سے کی تھی. اے میرے بیٹے خبردار کبھی اس شخص پر ظلم نہ کرنا جس کا اللہ کے علاوہ کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے۔”
)بحارالانوار جلد ۴۶ صفحہ ۱۵۳(
ایک روایت کے مطابق حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی رحلت کے بعد آپ علیہ السلام کی اونٹنی امام علیہ السلام کی قبر پر پہنچیں اپنی گردن کا اگلا حصہ قبر سے رگڑنا شروع کیا خاک پر لوٹنے لگیں اور آنسو بہانے لگی۔
یہ سن کر امام محمد باقر علیہ السلام وہاں تشریف لے گئے اور اسے حکم دیا کہ اپنی جگہ واپس چلی جا خدا وند عالم تجھے برکت عطا فرمائے۔ آخرکار وہ اٹھی اور اپنے مقام پر چلی گئی۔ ابھی کچھ وقت نہ گزرنے پایا تھا کہ وہ امام سجاد علیہ السلام کی قبر پر آئیں اور اس کی وہی حالت ہو گئی۔ جب امام باقر علیہ السلام کو اس کا علم ہوا کہ کہ پدر بزرگوار کی اونٹنی پھر قبر مبارک پر پہنچ کر بے حال ہو رہی ہے تو وہ پھر قبر مبارک پر تشریف لے گئے۔ اسے واپس پر پلٹنے کو کہا اور صبر وغیرہ کی تلقین دی۔ لیکن اس مرتبہ وہ اٹھنی بہت زیادہ متاثر تھی قبر مبارک سے نہ ہٹی۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اے لوگو اب تم اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ اب یہ آخری رخصت کے لیے آئی ہے۔ چنانچہ تیسرے روز وہ بھی مر گئی۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے پیارے بزرگوار اس پر سوار ہو کر حج کے لئے جایا کرتے اور اسے کبھی کوڑا نہیں لگاتے تھے حتی کہ مدینے واپس آجاتے۔
بحارالانوار جلد ۴۶ صفحہ ۱۴۸
خدایا ! تجھے سید سجاد علیہ السلام کے آنسوؤں کا واسطہ، منتقم خون حسین علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں ان کے ہمراہ شہدائے کربلا کے خون ناحق کا انتقام لینے کی توفیق عنایت فرما آمین یا رب العالمین !