مسئلہ برائت اور امام سجاد علیہ السلام کی امامت کا زمانہ

برائت يا تبری ‘ ب ر ء’ سے مشتق ہے۔ اہل لغت کے نزدیک اِس کے معنی ہیں انسان کا اس چیز سے دوری یا مفارقت اختیار کرنا جسے وہ پسند نہیں کرتا۔ (المفردات, راغب اصفہانی ص ۱۲۱؛ العین، خلیل ابن احمد فراہیدی ،ج ۸، ص ۲۸۹؛ الصحاح في اللغت، اسماعیل این حماد جوہری، ج ۱, ص ۳۶: لسان العرب، محمد ابن مکرم ابن منظور، ج ۱, ص۳۲)
سورۃ توبہ میں مشرکوں سے برائت اور سورہ یونس میں بعض اعمال سے برائت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
سورۃ توبہ آیت ۱-۳ سورہ یونس آیت ۴۱
کچھ مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ مشرکوں سے تبری کا مفہوم یہ ہے کہ ہر طرح کے رابطہ اور اظہار محبت کو منقطع کرنا۔
)اطیب البیان عبدالحسین طیب، جلد ۶ صفحہ ۱۷۲: تفسیر القرآن العظیم, اسماعیل بن کثیر جلد ۴ صفحہ ۹۰(
عقیدہ توحید کا تقاضا غیر توحیدی نظریات سے دوری برائت عقیدہ ختم نبوت کا تقاضا ان لوگوں سے بیزاری کا اعلان جو ناحق نبوت کا دعوی کر رہے ہیں۔ عقیدہ امامت و ولایت کا تقاضا ان لوگوں سے دوری و برائت ہے جو خدا کی طرف سے اِس عظیم منصب پر فائز نہیں کیے گئے ہیں۔ شیعہ چُونکہ دلائل کی بنیاد پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلافصل جانشین تسلیم کرتے ہیں اس کا فطری تقاضہ ان لوگوں سے دوری ہے جنہوں نے اس خلافت الہیہ کو عملی ہونے دیا۔ یہ اختلاف ایک فطری اور دینی اختلاف ہے۔ کیونکہ اس کا ربط براہ راست مسئلہ امامت سے ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ تھا۔
) مقالات الا اسلامیين ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری صفحہ ٢١٫: الملل والنحل محمد ابن عبد الکریم شہرستانی جلد ١ صفحہ۲۴ )
تاریخ کی کتابوں میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنے غصب شدہ حق کی شکایت سے اور خدا کی بارگاہ میں قریش کے مظالم کا تذکرہ فرمایا ہے اس طرح کے واقعات واقعہ عاشورہ سے پہلے بہت ہی آسانی سے احادیث اور تاریخ منابع سے اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر رجوع کریئے نہج البلاغہ خطبہ ۳ (خطبہ شقشقیہ): علل شرایع محمد ابن علی ابن الحسین الصدوق جلد ۱ صفحہ ۱۴۷: خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف, بلاغات النساء کتاب الاحتجاج, احمد بن علی طبرسی, جلد ۲ صفحہ ۲۸۷: شرح نہج البلاغہ, ابن ابی الحدید معتزلی, جلد ۳, صفحہ ۱۱۵: تاریخ الامم و الملوک جو تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے محمد ابن جریر طبری, جلد ۲ صفحہ۴۴۳, قرب الاسناد عبداللہ بن جعفر الحمیری، صفحہ ٦٠؛ الھدایۃ الکبری، حسین بن حمدان خصیبی صفحہ ۴۵)۔ اس مذکورہ اختلافات اور مخالفین کے عناد کی کچھ تفسیر موجود ہے۔ چنانچہ حق جویان کی توجہ اس طرف مبذول کرنا مقصود ہے۔
واقعہ عاشورا کے بعد اور امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز کے بعد برائت کا سلسلہ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کی سیرت میں جاری رہا۔ لیکن اس دور اور پہلے دور (یعنی عاشورا سے پہلے کا دور) میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ پہلے دور میں برائت اعتقادی اور اجتماعی معرکہ آرائی معاشرہ میں انفرادی طور پر دیکھی جا سکتی ہے نہ کہ اجتماعی شکل و صورت میں۔ دوسرے لفظوں میں یہ فکر مسلمانوں کے درمیان یہاں تک کہ عام شیعوں کے درمیان بھی پوری طرح رائج نہیں تھی۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی تمام کوششوں کے باوجود لوگوں نے اہل بیت عترت علیہم السلام کا دامن چھوڑ دیا۔ نتیجتا یاوران ان کی قلت کی بنا پر اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام سکوت اور صبر کو ہر کام پر ترجیح دی۔ (نہج البلاغہ خطبات ۳ اور ۲۱۷) اس کے علاوہ اس موضوع پر کئی مدارک موجود ہیں۔ تفصیلات کے لئے رجوع فرمائیے کتاب پیمان و پائیداری ڈاکٹر عبدالعلی موحدی۔ پہلے اور دوسرے کی حکومت کے بعد امیر المومنین علیہ السلام اور ان کے دونوں فرزندوں کی کوشش یہ رہی کہ سماج کے حالات کو مزید اعتقادی برائیوں سے روکیں اور بنی امیہ جواب برسراقتدار آچکے تھے اور جنکی اسلام دشمنی(خصوصی طور پر ابو سفیان اور اس کی اولاد) ہر صاحب عقل و شعور کے لیے عیاں تھی۔ ان کے کارناموں کو کامیاب ہونے سے روکیں۔
حیات فکری اور سیاسی امامان شیعہ رسول جعفریان ص ۶۲ – ۶۶ ٫ ۹۲
واقعہ عاشورا کے بعد اور دوسرے دور میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو پہلے دور میں ناقابل تصور تھے اور نتیجتاً غاصبان حق میں امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف اظہار برات کو کتمان اور خاموشی کی چار دیواریوں سے نکال کر منظر عام پر آنے۔ عاشورا کے بعد یہ حادثات نے اپنا سایہ عمومی طور پر مسلم سماج میں اور خصوصی طور پر شیعہ معاشرے (اور اسمیں بھی کچھ خاص علاقوں میں جیسے کوفہ) پر ایک خاص اثر ڈالا۔ اب شیعہ تقریبوں میں اعلانیہ برائت کا سلسلہ جاری ہوا۔
مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات بتانا نہایت ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ یہ موضوع وسیع اور پھیلا ہوا ہے جس کے لیے ایک مکمل کتاب، وہ بھی اگر کئی جلدوں میں درکار ہے۔ کیونکہ اس رسالہ کے دامن میں گنجائش نہیں ہے لہذا لا ہم یہاں صرف اشاروں پر اکتفا کریں گے۔ جو حضرات مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ مذکورہ مدارک اور حوالہ جات کی طرف رجوع کریں۔
ہم اس مضمون کو چار حصوں میں تقسیم کریں گے :
۱) فروغ برائت میں واقعہ عاشورا کا کردار۔
۲) کوفہ اور مسئلہ برائت واقعہ عاشورا کے بعد
۳) غصب حق اہل بیت علیہم السلام پر اہم ترین عامل
۴) امام سجاد علیہ السلام اور مسئلہ برائت۔
(۱) فروغ برائت میں واقعہ عاشورا کا کردار۔
تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا کا حساس ترین اور مہمترین معیار رہا ہے اہل بیت علیہم السلام اور ان کے شیعوں کا تقابل ان کے دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ کرنے میں۔ اس تقابل میں اہل بیت علیہم السلام اور ان کے شیعوں کی روش مخالفین اور حاکموں کی روش سے بالکل مختلف اور جدا تھی۔ بلکہ کچھ ارباب تاریخ کی رائے تو یہ ہے کہ شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ہی یہ تشخص پایا جاتا ہے۔
(الصلہ بین التصوف والتشیع، کامل مصطفی شیبی جلد ۱ صفحہ ۲۷: تشیع دار مسیر تاریخ، سید حسین محمد جعفری صفحہ ۲۵۰)
اس زمانے میں شیعوں کا یہ بنیادی عقیدہ تھا کہ سوائے اہل بیت اطہار علیہم السلام کوئی بھی حکومت اور خلافت کا حقدار نہیں تھا اور نہ ہی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے شیعوں کے لئے یہ بات روز روشن کی طرح واضح تھی کہ بنی امیہ کی تقویت کا سلسلہ پہلے خلافت سے ہی شروع ہو گیا تھا.
تاریخ خلفاء، رسول جعفریان صفحہ ۸۱
خلیفہ دوم نے معاویہ ابن ابی سفیان کو کسرائے عرب کا لقب دیا (العقد الفرید ابن عبد ربہ جلد ۳ صفحہ ۳۶۵)، اور اسے پورے شام پر مسلط کیا (تاریخ خلیفہ ابن خیاط، جلد ۱ صفحہ ۱۵۷) اور اس کا کار کردگیوں پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔
تاریخ الامم والملوک محمد ابن جریر طبری جلد ۶ صفحہ ۱۸۴
خود معاویہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے :
“خدا کی قسم میں نے جو بھی تسلط اور حکومت پائی ہے وہ صرف عمر سے میری قربت کی بنا پر۔”
مختصر تاریخ دمشق محمد ابن مکرم ابن منظور جلد ۹ صفحہ ۱۶۱
معاویہ کی حکومت کے بعد اسلامی معاشرہ کی خلافت اور حکومت موروثی ہو گئیں اور خاندان بنی امیہ ایک کے بعد دیگرے حکومت کی باگ دوڑ کو اپنے ہاتھ میں لیتے رہے۔ لوگوں کی کھلی ہوئی ناراضگی کے باوجود معاویہ نے یزید کو لوگوں پر جبرا اور قهرا مسلّط کیا۔.
الامامہ و سیاسہ، ابن قتیبہ دینوری جلد ۱ صفحہ ۱۸۲ اور ۱۹۲
واقعہ عاشورا سے جس رسوائی اور ذلت کا سامنا بنی امیہ کو کرنا پڑا انہوں نے اس قابل توجیہ واقعہ کی توجیہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کی حکومت جو اس واقعے کی بنا پر نہایت کمزور ہو رہی تھی اسے مستحکم کریں۔ یہی وجہ تھی کہ یزید کے ملعون نے ،اپنے دربار میں امام سجاد علیہ السلام کو اس طرح خطاب کیا “خدا کا شکر ہے جس نے تم لوگوں کو قتل کیا “۔
کتاب الاحتجاج, احمد ابن علی طبرسی جلد ۲ صفحہ ۳۱۰
دوسرے لفظوں میں اسنے اپنے غلیظ کرتوتوں کو خدا کی طرف منسوب کیا جو عقیدہ جبر ہے. اس طرح کی نسبت معاویہ اور خلیفہ دوم کی باتوں میں بھی نمایاں نظر آتی ہی۔*
*(تاریخ خلفا ‘رسول جعفریان’ ص ۴۱۳، خلیفہ دوم سے یہ قول نقل ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش کے برخلاف خدا نہیں چاہتا تھا کہ علی علیہ السلام خلافت پر فائز ہوں۔
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید المعتزلی ج۱۲ ص ۷۸
امام حسین علیہ السلام کے انکار بیعت کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعوں نے اس بات کا علی اعلان اظہار کیا کہ حکومت صرف اور صرف اہل بیت علیہم السلام کا حق ہے۔ اصحاب حسینی نے میدان کربلا میں رجز پڑھتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ دین علی پر ہیں۔ مثلاً حجاج بن مسروق جب لڑنے کے لیے نکلے تو اس طرح رجز پڑھا :
اَقْدَمُ حُسَیْنًا ہَادِیًا مَہْدِیًّا
فَالْیَوْمَ تَلْقَی جَدَّکَ النَّبِیَّا
ثُمَّ اَبَاکَ ذَا النَّدَی عَلِیًّا
ذَاکَ الَّذِیْ نَعْرِفُہٗ وَصِیًّا
میں پیش کرتا ہوں حُسین علیہ السلام کو جو ہادی اور مہدی ہیں آج کے دن آپ اپنے جد نبی سے ملاقات کریں گے پھر آپ کے والد علی علیہ السلام جو صاحب عظمت ہیں اور یہی علی علیہ السلام کو ہم (رسول کا) وصی جانتے ہیں۔
الفتوح محمد ابن علی ابن اعثم جلد ۵ صفحہ ۱۹۹
ہلال ابن نافع نے رجز اس طرح پڑھا :
اَنَا الْغُلَامُ الْیَمَنِیُّ الْبَجَلِیْ
دِیْنِیْ عَلٰی دِیْنِ حُسَیْنٍ وَ عَلِیٍّ
میں یمنی اور بجلی جواں ہوں
میرا دین حسین اور علی کا دین ہے
الفتوح محمد ابن علی ابن اعثم جلد ۵ صفحہ ٢٠١
امام حسین علیہ السلام کے جانبازوں کا مقابلہ یزیدی لشکر سے دراصل دو گروہ کے درمیان مقابلہ تھا: ایک وہ جو امامت اور خلافت امیر المومنین علیہ السلام کو شرعی اور حقیقی جانتا تھا اور دوسرا وہ گروہ جو امیر المومنین علیہ السلام کے دشمن تھے یا یہ گمان کرتے تھے کہ جس کو بھی خلافت اور حکومت مل جائے وہ حق پر ہے۔
اصحاب حسین علیہ السلام کا شعار یہ تھا : انا الجماليه انا علي دينا علي
(میں جنگ جمل والا ہوں اور میں علی علیہ السلام کے دین پر ہوں)۔ اس کے مقابلے میں یزیدی لشکر کا نعرہ تھا
اَنَا عَلیٰ دِیْنِ عُثْمَانَ
میں عثمان کے دین پر ہوں۔
تاریخ الامم والملوك محمد ابن جریر طبری جلد ۴ صفحہ ۳۳۱ ٫ ۳۳۶
یہاں تک کہ خوارزمی جو اہلسنت کے معروف عالم ہیں اپنی کتاب میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اپنی ریش مبارک کو اپنے لہو سے تر کیا اور فرمایا :
ہٰکَذَا اَکُوْنَ حَتَّی اَلْقَی جَدِّیْ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ اَنَا مَخْضُوْبٌ بِدَمِیْ، وَ اَقُوْلُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ، قَتَلَنِیْ فُلَانٌ وَ فُلَانٌ
میں اسی حال میں اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کروں گا جب کہ میری داڑھی میرے خون سے مخضوب ہے اور میں کہونگا: یا رسول اللہ ! مجھے فلاں اور فلاں نے قتل کیا۔
مقتل حسین, موفق بن احمد الخوارزمی جلد ۲ صفحہ ۳۴
لاریب, اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ قول اس بات کی طرف صراحت کے ساتھ دلالت کر رہا ہے کہ واقعہ کربلا کی جڑیں سقیفہ میں ہیں. سقیفہ ہی کی بنا پر امت اسلامیہ خدا کے حقیقی راستے یعنی امامت و خلافت حقہ یا مذہب اہل بیت علیہم السلام سے محروم ہوگئیں۔ اس مضمون کی روایات مذہب امامیہ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ نمونہ کے طور پر رجوع کریں کتاب الاحتجاج احمد بن علی طبرسی جلد ۲ صفحہ ۲۸۵.
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ عاشورا میں اھل سقیفہ کے خلاف اظہار برات کا ایک اہم گوشہ موجود ہے جس نے مستقبل کے لیے اسلامی معاشرے کو باطل کے خلاف بالخصوص غاصبان حق امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف زمین کو ہموار کیا۔ کچھ علاقوں میں جیسے کوفہ میں برات کھلے عام ہونے لگی۔ مثلاً مختار ثقفی کوفی جب کوفہ پر حکومت کر رہے تھے۔ شیعوں نے اور مختار کے حامیوں نے برسر عام غاصبان حق علی علیہ السلام پر لعنت بھیجنا شروع کیا یہاں تک کہ آلِ زبیر اور بنی امیہ کے حامیوں نے مختار سے شکایت کی کہ کیوں شیعہ ہمارے اسلاف سے اظہار بیزاری کر رہے ہیں.
تاریخ الامم والملوك، محمد ابن جریر طبری جلد ۴ صفحہ ۵۱۸
رفتہ رفتہ شیعہ اور علوی دوسرے گروہوں سے جدا ہوگئے اور مختار سے مل گئے. وہ گروہ مقابلہ ال زبیر اور بنی امیہ سے تشکیل پایا۔ لہذا مختار ثقفی کی حکومت کے دوران بحث امامت اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ برات کی بحث نے زور پکڑا
تاریخ خلفاء، رسول جعفریان صفا ۵۹۷
(۲) کوفہ اور مسئلہ برائت واقعہ عاشورا کے بعد
واقعہ عاشورا کے بعد شہر کوفہ شیعوں کا پایہ تخت ہوگیا تھا۔ کوفہ کے شیعہ اس بنا پر رافضی کہلانے لگے کہ وہ دوسروں کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے رفض یعنی انکار کرنا۔ فان ايس جوسف کا کہنا ہے کہ رافضیت کا سر چشمہ شہر کوفہ ہی ہے.
كلام و جامعه، صفحة ٣٠٩
شہر کوفہ رافضیت کا مرکز بن گیا۔ امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں امامت اور اس کے بعد نامور شخصیتیں وہاں دیکھی گئیں اور دشمنوں اور مخالفین کے باوجود یہ تحریک روز بروز زور پکڑتی گئی اور شہر کوفہ تشیع کا مرکز بن گیا۔
الغارات، ابراہیم ابن محمد ثقفی جلد ۲ صفحہ ۵۵۸ تاریخ تشیع دارا ايران صفحہ ١٠٦
مثلاً ائمہ علیہم السلام کے بزرگ مرتبہ صحابی جابر ابن یزید جعفی كوفی کے بارے میں لکھا گیا ہے۔
رَافِضِیٌّ یَشْتَمُ اَصْحَابَ النَّبِیِّ (صَلی اللہ علیہ و آلہ)
یعنی وہ رافضی جو اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برا بھلا کہتا تھا۔
ضعفاء عقيلي، محمد ابن عمرو عقیلی جلد ۱ صفحہ ١٩٣
یا لکھا ہے کہ وہ (جابر) رافضی اور غالی تھے۔
المعارف ابن قتیبہ دینوری صفحہ ۴۸۰
عمر ابن شمر کوفی کے متعلق لکھا ہے “وہ رافضی تھا جو صحابہ کو برا بھلا کہتا تھا۔”
المغنی فی الضعفاء محمد بن احمد ذہبی جلد ۲ صفحہ ۵۴
اعين کے خاندان کے اکثر افراد کو رافضی شمار کیا جاتا تھا۔
تهذيب الكمال, يوسف ابن عبد الرحمن مزي جلد ١٨ صفحه ٢٨٣
عدی بن ثابت جن کا شمار تابعین میں ہوتا تھا کوفہ کے باشندہ تھے اور انہیں رافضی اور غالی کا لقب دیا گیا تھا۔
المغنی فی الضعفاء، محمد بن احمد ذہبی جلد ۲ صفحہ ۵۴
یہ بات ذہن میں رہے کہ اس طرح کے القاب دینے والے سب مخالفین کے مورخین تھے جنہیں شیعوں سے بغض تھا۔ ابو حمزہ ثمالی جو امام سجاد علیہ السلام کے قریب ترین اصحاب میں شمار کیے جاتے ہیں ان کے بارے میں بھی اس طرح لکھتے ہیں کہ وہ رافضی تھے۔
تقریب التہذیب، ابن حجر عسقلانی جلد ۱ صفحہ ۱۴۶
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے چند ایک روایات غاصبان حق اہل بیت علیہم السلام کی مذمت میں نقل کی ہیں۔
بصائر الدرجات، محمد بن حسین صفار صفحہ ۲۹۰؛ تفسیر عیاشی, محمد ابن مسعود جلد ۱ صفحہ ۱۷۸ حدیث ۶۵
دیگر اصحاب نے بھی یہ کوشش کی ہے کہ یہ ثابت کریں کہ اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین دشمنوں اور منکروں کی روش قرآن اور سنت کے خلاف تھی اور اس طریقے سے انہوں نے مفہوم برات کو عاشقان عترت کے درمیان پیش کیا. ابان بن تغلب جنہوں نے امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام سے روایتیں نقل کی ہیں اور کوفہ کی مشہور شخصیتوں میں ان کا شمار ہوتا ہے(کتاب الرجال، احمد بن علی النجاشی، ۱۰) نے معروف خطبہ شقشقیہ نقل کیا ہے۔
معنی الاخبار شیخ صدوق صفحہ ۳۶۱
اس کے علاوہ انہوں نے عکرمہ اور ابن عباس سے روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام کا دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے۔
امالی شیخ صدوق صفحہ ۳۵۲
ہم جانتے ہیں کہ یہ مشہور و معروف کتاب سلیم ابن قیس الہلالی جس میں غاصبان حق اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میں صریح روایت موجود ہیں اسی زمانے میں کوفہ میں شہرت یافتہ ہوئی۔ عقیدہ رفض اس دور میں اتنا رائج تھا کہ کوفے میں جو فرقہ یا گروہ حقیقی رافضی نہیں تھے انکا شمار رافضیوں میں ہونے لگا۔ مثلا ابوالحسن الاشعری نے اپنی کتاب مقالات الاسلامیین میں زیدیوں کا شمار رافضیوں میں کیا ہے جبکہ زیدی برائت کے قائل بھی نہ تھے۔
ابو الحسن اشعری مقالات الاسلامیین صفحہ ۳۳
اس کے علاوہ کیسانی مذہب کے افراد بالخصوص شعراءحضرات جیسے کثیر عزه جو کوفہ کا مشہور شاعر تھا اور کیسانی مذہب پالتا تھا، نے غاصبان حق علی علیہ السلام کے کھلے عام کی اشعار کہے ہیں۔
العقد الفرید، ابن عبدالربہ جِلد ۲ صفحہ ۲۴۶
مندرجہ بالا مثالیں اس بات کی طرف گواہی دے رہی ہیں کہ واقعہ عاشورا کے بعد شہر کوفہ برائت کا مرکز بن گیا تھا۔ جب کہ عاشورہ سے پہلے اس طرح کا جوش اور ولولہ اس موضوع کے متعلق کوفہ میں موجود نہیں تھا۔ نتیجتا حکومت وقت کے خلاف بغاوتوں نے اپنا سر اٹھانا شروع کر دیا۔ نہ صرف کوفہ بلکہ مدینہ منورہ اور دیگر شہروں میں بھی۔
(۳) غصب حق اہل بیت علیہم السلام کے برائت کا اہم ترین عامل
اس سے پہلے آپ کی خدمت میں عرض کر چکے ہیں کہ جو ظلم اور استبداد کے پہاڑ بنی امیہ نے آل رسول علیہم السلام پر توڑے وہ واقعہ عاشورا تک محدود نہیں تھے۔ انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ نہ صرف خود اہل بیت علیہم السلام کی بلکہ ان کے فضائل اور مناقب بنی امیہ کی حکومت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ لہذا انہوں نے لوگوں کو اس بات کی تشویق کی کہ امیرالمومنین علیہ السلام اور آل رسول علیہم السلام کی مذمت کریں، ان کے فضائل اور مناقب کو بیان نہ کریں بلکہ جو خلفاء گذرے ہیں ان کے فضائل بیان کریں۔
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد ۴ صفحہ ۵۶’۵۷
وہ یہ گمان کرتے تھے کہ اگر اہل بیت علیہم السلام کے مقام اور ان کی منزلت کو مسلم معاشرہ میں اور مسلمانوں کی آنکھوں میں گرا دیا جائے تو ان کی حکومت کو دوام حاصل ہوگا۔ لہذا انہوں نے کسی قسم کے ظلم اور استبداد سے دریغ نہیں کیا۔ مروان ابن حکم (لعنت اللہ علیہ) نے امام سجاد علیہ السلام کے محضر میں اقرار کیا کہ اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی نے بھی ہمارے صاحب (عثمان) کی دفاع نہ کی جس طرح تمہارے صاحب (امیر المومنین علیہ السلام نے کی امام سجاد علیہ السلام) نے کی۔ امام سجاد علیہ السلام نے بالفور سوال کیا کہ پھر کیوں تم لوگ (یعنی بنی اُمیہ) منبروں پر ان پر لعن و سب کرتے ہو؟ اس ملعون نے مکمل بے حیائی سے جواب دیا
اِنَّہٗ لَا یَسْتَقِیْمُ لَنَا الْاَمْرُ اِلَّا بِذَالِکَ
اس کے بغیر ہماری حکومت مستحکم ہو ہی نہیں سکتی۔
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید المعتزلی جلد ۱۳ صفحہ ۲۲۰
بنی امیہ, ال رسول علیہم السلام کے اصحاب کو مجبور کرتے تھے کہ وہ ان کو برا بھلا کہیں اور اگر اصحاب انکار کرتے تھے، انہیں ناقابل بیان اذیتوں سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ مثلا رشید کوفی کو نے جب علی علیہ السلام کے خلاف زبان کھولنے سے انکار کیا، ابن زیاد ملعون جو کوفہ کا حاکم تھا، ان کے ہاتھ، پیر اور حتٰی زبان بھی کٹوا دی۔
الاختصاص، محمد ابن محمد ابن نعمان جو شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں صفحہ ۷۷
سعید بن جبیر جو حجاج بن یوسف ثقفی (لعنت اللہ علیہ) کے سامنے لایا گیا. اس نے اصرار کیا کہ سعید خلفاء کی مدح کریں اور ان کے فضائل بیان کریں۔ اصل تقیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے سید خاموش رہے۔ حجاج کو غیظ آگیا۔ اس نے حکم دیا کہ انھیں پھانسی دی جائے۔ (اختیار معرفۃ الرجال، محمد بن عمر کشی جلد ۱ صفحہ ۳۳۵) قابل غور بات یہ ہے کہ سعید نے ظاہرا نہ لعن کی اور نہ سب، پھر بھی انہیں سولی دے دی گئیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خلفاء کی طرف تمایل نہیں دکھایا۔ اس رویہ سے عاشورا کے بعد شیعوں کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف بغاوت اور شورش کی آواز اٹھنے لگی اور بنی امیہ کی حکومت روز بروز کمزور ہوتی چلی گئی۔
یحیی بن ام طویل۔ امام سجاد علیہ السلام کے برجستہ صحابی اور آپ علیہ السلام کی دایہ کے بیٹے، اعلانیہ لوگوں کو امیر المومنین علیہ السلام کو برا بھلا بولنے سے روکتے تھے اور دوسری جانب، آنحضرت کے دشمنوں اور غاصبوں کے خلاف بے بّاک اظہار کا برائت کیا کرتے تھے۔ وہ باقاعدہ یہ کہتے تھے کہ یہ برائت اصل عبادت پروردگار ہے۔ زبردست بہادری اور دلیری کے ساتھ وہ کوفہ کے میدان میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے ندا دیتے تھے۔
مَعْشَرَ اَوْلِیَاءِ اللہِ انَّا بُرَآءُ مِمَّا تَسْمَعُوْنَ مَنْ سَبَّ عَلِیًّا (ع) فَعَلَیْہِ لضعْنَۃُ اللہِ وَ نَحْنُ بُرَآءُ مِنْ آلِ مَرْوَانَ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۔
“اے اللہ کے دوستوں تم جو کچھ کر رہے ہو ہم اس سے اظہار براَت کرتے ہیں۔ خدا کی لعنت ہو اس شخص پر جو علی علیہ السلام کو سب لعن کرے۔ ہم اظہار براَت کرتے ہیں آل مروان کے خلاف اور جن کی وہ عبادت کرتے ہیں اللہ کے علاوہ۔”
)الکافی محمد بن یعقوب کلینی، جلد ۲ صفحہ ۳۸۰ حدیث ۱۶، باب مجاسلته اھل المعاصی(
امام سجاد علیہ السلام اور ان کے اصحاب کا نہ صرف یہ عقیدہ تھا کہ بنی امیہ کی ظالم و جابر حکومت کی بنیاد غضب حق خلافت تھی بلکہ وہ اس عقیدے کو عوام تک پہنچانے میں ڈرتے نہیں تھے چاہے اس راہ میں ان کی جانیں چلی جائیں۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یحیٰ بن ام الطویل کو اسی اظہار براَت کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔ امام سجاد علیہ السلام نے ان کے حق میں رحمت کی دعا کی اور امام کاظم علیہ السلام کی روایت کی روشنی میں قیامت کے دن انہیں امام زین العابدین علیہ السلام کے حواریوں میں شمار کیا جائے گا (جن کی تعداد محض چار ہوگی
الاختصاص شیخ مفید صفحہ ۶۱
(۴) امام زین العابدین علیہ السلام اور مسئلہ برائت
امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت کا عمیق جائزہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے آپ علیہ السلام نے اپنے شیعوں کی طرح ہدایت اور رہنمائی کی کہ جس کا نتیجہ دوسرے عقائد اور نظریات سے تفکیک اور تشخص تھا۔ آپ نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی بلند الہی شان اور منزلت پر بے پناہ کید کرتے ہوئے ثابت کیا کہ امامت اور ولایت صرف اور صرف ال رسول علیہم السّلام کا حق ہے، اپنے شیعوں کو اس عقیدہ پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی اور یہ کہ اھل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی کی امامت، خلافت اور حکومت کو قبول نہ کرے۔ بلکہ غاصبان حق خلافت کے خلاف اظہار براَت کریں۔ امام سجاد علیہ السلام نے ان میں سے کچھ اہداف اور اغراض کو دعاؤں اور مناجات کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔ ان میں سے چند ایک دعائیں اہل تسنن کے یہاں بھی رائج ہیں۔
(شرح نہج البلاغہ، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد ۵ صفحہ ۱۳ جلد ۶ صفحہ ۱۷۸؛ جلد ۱۱ صفحہ۱۹۲)
یہاں آپ کی خدمت میں دو تین مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ بات واضح ہو جاۓ :
رَبِّ صَلِّ عَلَی اَطَائِبِ اَہْلِ بَیْتِہٖ الَّذِیْنَ اخْتَرْتَہُمْ لِاَمْرِکَ، وَ جَعَلْتَہُمْ خَزَنَۃَ عِلْمِکَ، وَ حَفَظَۃَ دِیْنِکَ، وَ خُلَفَاءَکَ فِیْ اَرْضِکَ، وَ حُجَجَکَ عَلٰی عِبَادِکَ، وَ طَہَّرْتَہُمْ مِنَ الرِّجْسِ وَالدَّنَسِ تَطْہِیْرًا بِاِرَادَتِکَ، وَ جَعَلْتَہُمُ الْوَسِیْلَۃَ اِلَیْکَ، وَالْمَسْلَکَ اِلَی جَنَّتِکَ
پروردگار ! ان کے اہل بیت اطہار علیہم السلام پر رحمت نازل فرما جنہیں تو نے اپنی حکومت و ولایت کے لئے منتخب فرمایا ہے، اپنے علم کا خزینہ دار، اپنے دین کا محافظ، زمین میں اپنا خلیفہ اور بندوں پر اپنی حجت بنایا ہے، جنہیں تو نے اپنے ارادہ سے ہر قسم کی نجاست اور آلودگی سے پاک و صاف رکھا اور جنہیں تجھ تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔”
صحیفہ سجادیہ دعا ۴۷ فقره ۵۶
امام زین العابدین علیہ السلام دعا کے اس فقرے میں باقاعدہ فرما رہے ہیں کہ وہ اہل بیت رسول علیھم السلام جن کو تو نے اپنے امر یعنی امامت کے لئے منتخب کیا، ان کو اپنی زمین پر خلیفہ مقرر کیا، لوگوں پر اپنی حجت قرار دیا، یہ تمام امامت اور خلافت سے متعلق بنیادی اور اساسی مطالب ہیں کہ جن پر اگر غور کیا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ امام علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ امامت اور خلافت صرف اہل بیت علیہم السلام کا حق ہے کسی اور کا نہیں۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّ ہٰذَا الْمَقَامَ لِخُلَفَائِکَ وَ اَصْفِیَائِکَ وَ مَوَاضِعَ اُمَنَائِکَ فِی الدَّرَجَۃِ الرَّفِیْعَۃِ الَّتِیْ اخْتَصَصْتَہُمْ بِہَا قَدِ ابْتَزُّوْہَا …… حَتَّی عَادَ صِفْوَتُکَ وَ خُلَفَاؤُکَ مَغْلُوْبِیْنَ مَقْہُوْرِیْنَ مُبْتَزِّیْنَ۔
بار الٰہا یہ مقام تیرے جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لیے تھا، تیرے امانت داروں کا محل تھا جو اس بلند منصب کے ساتھ ان کے لیے مخصوص کیا تھا لوگوں نے اسے چھین لیا۔۔۔ یہاں تک کہ (اس غصب حق کے نتیجے میں) تیرے برگزیدہ جانشین مغلوب و مقہور ہوگئے اور ان کا حق ان کے ساتھ جاتا رہا۔”
صحیفہ سجادیہ دعا ۴۸ فقرہ ۹
غور فرمایا آپ نے امام زین العابدین علیہ السلام واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ مقام خلافت صرف ان لوگوں کے لیے ہے۔ جو خدا کے خلیفہ ہیں اور اس کے برگزیدہ ہیں لیکن غیروں نے (یعنی نااہلوں نے) اس مقدس اور الہی مقام کو ان سے چھین لیا۔
اَللّٰہُمَّ الْعَنْ اَعْدَائَہُمْ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْنَ، وَ مَنْ رَضِیَ بِفِعَالِہِمْ وَ اَشْیَاعَہُمْ وَ اَتْبَاعَہُمْ
بارالہا ! تو ان کے پہلے اور آخری دشمن پر اور جو ان کے افعال سے راضی و خوشنود ہو اور ان (دشمنوں) کے ماننے والے اور ان کی اتباع کرنے والوں پر لعنت بھیج
صحیفہ سجادیہ دعا ۴۸ فقرہ ۱۰
اس فقرے میں امام علیہ السلام نے نہ صرف دشمنان اہل بیت علیہم السلام پر لعنت بھیج رہے ہیں بلکہ وہ تمام افراد جو ان کے (یعنی دشمنوں اور غاصبوں کے) افعال سے راضی ہیں، ان کے ماننے والے اور پیروکار ہیں۔
قابل غور ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعاؤں میں دشمنوں پر لعنت بھیجتا کرتے تھے اور اسے اپنے عبادت کا جز سمجھتے تھے۔ لہذا ہر وہ انسان جو آلِ رسول علیہم السلام کے شیعہ ہونے کا دعوی کرتا ہے اسے چاہیے کہ دشمنان اہل بیت علیہم السلام اور ان کے حق غصب کرنے والوں پر لعنت کو ایک عمر مقدس جانیں۔ البتہ وقت اور جگہ کا خیال خاص اہمیت رکھتا ہے۔
تضاد یا حکمت عملی؟
تاریخ کا مختصر جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانہ امامت میں بنی امیہ کی ایک سیاسی چال یہ تھی کہ عظمت خلفاء اور صحابہ پر پرچم ہم وزن کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے سواد اعظم یعنی مسلمانوں کی اکثریت کو ائمہ معصومین علیھم السلام اور ان کے شیعوں کے خلاف کر دیا جائے۔ لہذا ہم یہ دیکھتے ہیں کے امام سجاد علیہ السلام نے کچھ مواقع پر حکومت کی پالیسی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے ایک دوسری روش اختیار کی تاکہ شیعوں کو ستانے کا ہر بہانہ اور موقع ان سے سلب کر لیا جائے۔ اس لیے امام علیہ السلام کے اقوال میں ہمیں کچھ ایسے جملات نظر آتے ہیں جن میں آپ نے غاصبان حق خلافکی یا ظاہر برائت سے گریز کیا ہے لیکن فصاحت کے تحت بین السطور میں برائت کو مخفی کر دیا ہے۔ یہ روش یا تو تقیہ کی بنا پر ہے یا آپ ذو معنی جملات کے ذریعے بہت سارے مسائل حل کر لیتے۔ یہاں دو روایات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، البتہ اختصار سے، تاکہ بات مکمل ہو جائے۔ زید بن علی نقل کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ مکہ گیا۔ وہاں طائف کا ایک شخص شیخین کے خلاف نالہ کر رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس سے کہا اللہ سے ڈر اس نے کہا “تمہیں اس کعبہ کے رب کی قسم ! کیا ان دونوں نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی؟امام علیہ السلام نے جواب دیا “خدا کی قسم نہیں”… بعد میں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے تو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیا ہیں؟(بحارالانوار, علامہ محمد باقر مجلسی جلد ۲۹ صفحہ ۱۵۸). ایک اور حدیث میں جس کے راوی حکیم ابن زبیر ہے امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔
اَنْتُمْ تُقْتَلُوْنَ فِیْ عُثْمَانَ مُنْذُ سِتِّیْنَ سَنَۃً، فَکَیْفَ لَوْ تَبَرَّأْتُمْ مِنْ صَنَمِیْ قُرَیْشٍ
تم ساٹھ(۶۰) سال سے عثمان کے قتل کی خاطر مارے جارہے ہو پس اگر تم صنمی قریش سے اظہار برائت کرو گے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟
تقریب المعارف, ابوصلاح تقی بن النجم حلبی صفحہ ۲۴۵
لیکن جب یہی راوی یعنی حکیم بن جبیر اپنے عقیدہ کو امام سجاد علیہ السلام کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ اس کے عقائد کی اصلاح ہو جائے امام علیہ السلام نے بلا تشبیہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت اور امامت بلا فصل کو بیان فرمایا اور شیخین کی فرضی منزلت کا انکار کیا۔
مناقب امیرالمومنین، محمد بن سلیمان کوفی جلد ۱ صفحہ ۵۲۱
ظاہر ہے یہ روش صرف دین خدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانے کے لئے اور شیعوں کے عقائد اور ان کی جان و مال عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے تھی۔ قابل توجہ ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے کبھی بھی خلفاء کے اقوال پر استناد نہیں کیا،نہ کسی کتاب میں یہ ملتا ہے اور نہ ہی کسی روایت میں۔ جبکہ کہ اس کے برعکس متعدد مقامات پر ہم پاتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد کی عظمت اور جلالت کا ذکر بھی کیا اور ان کے اقوال بھی نقل کیئے ہیں۔
اعلان برات اور حق اہل بیت علیہم السلام
امام زین العابدین علیہ السلام نے ہر مناسب موقع پر اہلِ بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا ذکر کیا اور یہ بیان فرمایا کہ خلافت صرف اہل بیت علیہم السلام کا حق ہے۔ اس کے بہترین مثال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا خطبہ فدکیہ ہے جس کے راوی زید بن علی ہیں جنہوں نے اپنے والد یعنی امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ اس خطبہ کا مختصر جائزہ ثابت کردے گا کہ شہزادی کونین سلام اللہ علیہا نے کس طرح امامت اور خلافت کو اپنا حق بتایا ہے اور غیروں کو غاصب ثابت کیا ہے۔ اس خطبے کی اس قدر اہمیت ہے کہ اہل تسنن کے علماء نے بھی اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔
شرح نہج البلاغہ، عبدالحمید بن ھیبت اللہ بن ابی الحدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲
امام سجاد علیہ السلام نے اپنی جده حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے اس حق غصب کئے جانے کو اپنے اصحاب کے لیے پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
)امالی مفید صفحہ ۲۸۱ امالی طوسی صفحہ ۱۵۵(
بات کو منزل اتمام تک پہنچانے کے لیے چند روایات آپ کی خدمت میں نقل کرتے ہیں اور ان دونوں حدیثوں کو ابو حمزہ ثمالی نے امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا :
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا :
“تین طرح کے لوگ ہیں جن کی طرف خدا قیامت کے روز نگاہ نہیں کرے گا۔ (۱) وہ شخص جو خدا کی طرف سے امام ہونے کا دعوی کرے گا جب کہ وہ اس کا اہل نہیں ہوگا. (۲) دوسرا وہ جو خدا کی طرف سے منتخب کردہ امام کا انکار کرے گا اور (۳) تیسرا وہ جو یہ عقیدہ رکھے گا…. میں ذرا سا اسلام پایا جاتا تھا”
(تفسیر عیاشی، محمد بن مسعود العیاشی جلد ۱ صفحہ ۱۷۸ کافی محمد بن یعقوب کلینی جلد ۱ صفحہ ۳۷۴ حدیث ۱۲ )
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
وہ لوگ جنہوں نے ہمارے حق پر ظلم کیا, ہماری میراث کو چھینا اور ایسی جگہ پر بیٹھے جس کے حقدار ہم تھے۔ خدا انہیں نہ بخشے اور ان پر رحم نہ کرے۔
)مناقب آل ابی طالب، محمد بن علی بن شہر آشوب جلد ۳ صفحہ ۳۷۰(
آئیے ہم سب مل کر دعا گو ہوں کہ خداوند متعال ہمارے امام حضرت بقیۃ اللہ کے ظہور پر نور میں تعجیل فرمائیے تاکہ آپ تشریف لائیں اور اہل بیت علیہم السلام کو ان کا حق لوٹائیں اور شہداء کربلاکے خون کا انتقام لیں اور وہ افراد جن کی بنا پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی چادریں چھینی گئی اور انہیں اسیر بنایا گیا انہیں ان کے مناسب انجام تک پہنچائیں آمین یا رب العالمین !