طرز حیات

تخلیق بشریعنی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ختم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک تمام انبیاء علیہم السلام کا ایک جیسا طرز حیات رہا ہے۔ نظام الٰہی کے احکام کے تحت بشر کو زندگی بسر کرنے کے لئے ہادیان برحق کو زمین پر اتارا گیا۔ یہ طرز حیات ہمیشہ سے نیکی، خیر، ہمدردی، محبت، مساوات، عادلانہ زندگی بسر کرنا، ظلم سے دامن کش رہنا، مظلوموں کی مدد کرنا، عبادت خداوندی میں اپنے وقت کو صرف کرنا، رزق حلال کمانا اور اسی طرح کی تمام نیکیوں کی طرف دعوت دیتا رہا ۔
اسی لئے خدا وند عالم نے مقصد حیاتِ انسانی کی خاطر جو طرز حیات قرآن کی آیتوں میں بیان فرمایا ہے، وہی طرز توریت، زبور اور انجیل میں بھی بیان کیا ہے۔ اور وہ طرز یہ ہے:
نہیں پیدا کیا میں نے جنات اور انسان کو مگر کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔
(سوره ذاریات، آیت ٥٦)
ایک بہترین معاشرہ کی بنیاد ڈالنے کے لئے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو بھیجا، لیکن تکوین عالم سے لے کر جیسے جیسے زمانہ گذرتا چلا گیا ویسے ویسے طاغوتی اثرات کے تمام عناصر جاگ اٹھے اور وہ ان نیکیوں کے مد مقابل میں آکر کھڑے ہوگئے۔ اس کے سامنے ان کا مطلع نگاہ رسول کے بتائے ہوئے احکام پر چلنے کی مخالفت نصب العین رہا۔
استحصال، جنگ، خونریزی، قتل و غارت گیری ، یتیموں کے منہ سے لقمہ کا چھین لینا، روندنا، حکومت سازی کے لئے جھوٹ بولنا، جھوٹ کے ساتھ ساتھ نئے نئے تبلیغاتی علم کا اختراع کرنا جیسے علم نفسیات اور جھوٹ کو ان کی رگوں میں خون بنا کرکے ڈال دینا مثلاً ابن ماجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جنازے کے متعلق سے لکھتے ہیں کہ آپ کے جنازے پر سب آئے۔ فلاں آئے، فلاں آئے، فلاں آئے، علی علیہ السلام بھی آئے ، اور کہا یا رسول اللہ میں آپ کی رحلت پر اتنا روتا کہ آپ کو اپنے آنسوؤں سے نہلا دیتا، لیکن میں کیا کروں آپ نے منع کیا ہے، رونا گناہ ہے اس لئے میں نہیں رو سکتا۔ یہ جملے ایک وکیل، صاحب قلم اور بہت بڑا لکھنے والا ابن ماجہ لکھتا ہے اپنی کتاب میں، کیا یہ سچ ہے؟ اور اگر یہ سچ نہیں ہے تو یہ جھوٹ اتنے روشن دماغ انسان جو صاحب قلم ہے اس نے یہ روایت کس جذبہ کے تحت لکھی ہے۔ آیا یہ پہلے سے علم نفسیات کے طور پر مال و دولت یا معاشرہ یا وہ لوگ جو علی علیہ السلام کے خلاف تھے ان کی طرف سے ایک سازش ہے جو علی علیہ السلام کو پس پردہ ڈالنا چاہتا ہے، اس کی حمایت میں لکھا۔
یہی نہیں سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک روایت آئی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چھوٹی بیٹی کو بلایا اور کہا اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت بڑی نعمت دی ہے اور وہ تسبیح فاطمہ ہے۔ یہ لفظ چھوٹی بیٹی ایک کھلم کھلا ، صاف صاف جھوٹ ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک ہی بیٹی تھی۔ لیکن دولت نے آل رسول علیہم السلام کو پسِ پردہ رکھ دیا یا تحت الشعاع میں ڈال دیا اور ان کی عظمت کو کم کرنے کے لئے یہ تصور پیش کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چار یا تین بیٹیاں تھیں، دو بیٹیاں عثمان کے ساتھ بیاہی تھیں اس لئے ان کا لقب ”ذوالنورین“ رکھا گیا۔ (مگر اس کو کیا کیا جاۓ کہ کسی ایک کو بھی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسا درجہ نصیب نہیں ہوا)
یہ بات اکثریت کے خون میں کس طریقے سے داخل ہوئی اور رگوں میں دوڑتی ہوئی دماغ میں بس گئی ؟
تمام کتب سیرت نبوی میں لکھا ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت ہوگئی تو عمر برہنہ تلوار لے کر مدینہ کی گلیوں میں گھومنے لگے اور کہا کہ کوئی یہ نہ کہنا کہ رسول خدا کا انتقال ہوگیا۔ اب اس واقعہ کو جو ایک مکمل جھوٹ ہے ایک ایسا جھوٹ ہے جو روز روشن کی طرح سے سامنے آیا ہے۔ اب اسی کے بارے میں ہم نے ایک عالم سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر رسول نہ ہوتے تو عمر رسول بن جاتے۔ اس تقابل کو دیکھنے کے بعد ذرا اس جملے پر غور کریئے کہ عمر برہنہ تلوار لئے اس بات کی تبلیغ کررہے ہیں کہ جھوٹ بولو اور اس پر توجیہ کرتے ہیں کہ عمر ایک بہت جلالی آدمی تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عقل و دانش سے اسلام کو اگر کوئی دوسرا مذہب اس واقعہ کے توازن پر دیکھے تو جنگ احد میں اگر وہ رسول خدا ہوجاتے تو اسلام جنگ احد ہی میں دفن ہوگیا ہوتا۔
انبیاء علیہم السلام کے سامنے آزمائش کے لئے خناس کے ملازمین جو جن و انس ہیں، کثرت کے ساتھ سامنے کھڑے ہوگئے۔ حتی کہ حضرت مریم کے سامنے پورا معاشرہ کھڑا ہوگیا کہ بتاؤ یہ بچہ کس کا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بی بی مریم کی پاکدامنی کی ایسی گواہی دی جو مسلّم ہوگئی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔
جھوٹوں کا معاشرہ آ کرکے نبوت اور الہی احکام کے مقابل پورا زور لگا کرکے اسے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ زمانے کا دستور چلا آرہا تھا یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ ”جتنی مصیبتیں سارے انبیاء اور مرسلین نے اٹھائی ہیں اس سے زیادہ مصیبت میں نے اکیلے اٹھائی“ ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جتنے مکذبین، مفسدین،منافقین ، ظالمین ، کافرین تھے یہ سب کے لئے تہہ بہ تہہ آیتیں آتی رہیں اور یہ تمام بڑے وسیع پیمانے پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں آشکار ہو گئے ۔
آئیے ہم امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے کربلا تک ہمارے قارئین کے ذہن کو مبذول کرانے کے لئے ایک ہلکا سا تجزیہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کا سامنے رکھیں اور طرز حیات انسانی کا ایک چھوٹیاسا اجمالی بیان یا چھوٹی سی توجیہ کریں کہ ہمارے سمجھ میں آجائے کہ کربلا کتنا عظیم سانحہ تھا اور کتنا بلند تھا اور اللہ نے اس کی فضیلتوں کے بدلے میں کیا کیا دیا ہے۔
مکہ والے اس قدر جاہل تھے کہ وہ کھجور کا بُت بناتے تھے اور جب بھوک لگتی تھی تو کھا لیتے تھے یعنی اپنے خدا کو بھی کھا لیتے تھے۔ بُت پرستی اپنے عروج پر تھی۔ اس ماحول میں جب کوئی تاجر آتا تھا وہ اونٹوں کو لے کر غائب ہوجاتے تھے یا اس کا مال لوٹ لیتے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک ادارہ قائم کیا کہ جس میں یہ تمام چیزیں منسوخ کردی گئیں اور اس شخص کو سزا دی جائے گی جو کسی تاجر یا باہر سے آنے والے کا مال اور اس کے شتر کو چھین لیں ۔ ایک طرح سے پہلے بیالیس سال تک لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو امانت دے جاتے تھے اس لئے کہ امانت میں ذرہ برابر بھی خیانت نہیں ہوتی تھی۔ ان کو جب واپس کرتے تھے تو اسی حالت میں کرتے تھے اس لئے رسول کا نام ”محمدامین“ پڑ گیا۔
اس طرح سے ایک نبوت کے طرز حیات جو احکام و دستور الٰہیہ سے لے کر آئے تھے اس کے لئے مکہ کے جاہل قریش کے معاشرہ کے مزاج کو دھیرے دھیرے پہلے ہموار کیا۔ پہلے ذہن کو ہموار کیا تاکہ وہ نیکی سمجھ سکیں، خیر کو خیر سمجھ سکیں، ظلم کو ظلم سمجھ سکیں، استحصال کو استحصال سمجھ سکیں۔
حکومت انسان کی زندگی کا طرز حیات نہیں ہے اس لئے کہ یہ طرز حیات فانی ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ارض خاکی پر بسنے والے مخلوق انسان کو فضیلتیں بخشی ہیں۔ ان فضیلتوں کا محور یہ ہے کہ وہ آزمائش سے گذریگا اور موت کے بعد جب اپنی عارضی زندگی گذار کر کے اپنی دائمی زندگی کی طرف آئے گا تو اس کو ایک ایسی جنت ملے گی جس میں اس کے لئے جگہ جگہ نہریں رواں ہوگی جس کی توضیح سورہ رحمٰن کر رہا ہے۔ قرآن میں خدا وند عالم نے جگہ جگہ دوزخ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہر ایک کو پلٹنا ہے۔
جب اس طریقے سے مزاج کو ہموار کرلیا تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بعثت کا اعلان کیا۔ بعث کے اعلان سے پہلے آپ نے دعا مانگی ”سلطانا نصیرا“ ) مجھ کو ایک ہمدرد دیدے (۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی حضرت علی علیہ السلام اس وقت نو سال کے تھے۔ ایک شخص بھی اٹھ کر نہیں کھڑا ہوا کہ میں آپ کی مدد کروں گا جبکہ اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ کہہ رہے تھے کہ آج کے دن جو میری مدد کرےگا وہی میرا خلیفہ ہوگا، میرا وصی ہوگا۔
قرآن کی ایک آیت کے آئینہ میں اس لفظ کو آپ دیکھ لیجئے ’’ما محمد الا رسول‘‘ محمد نہیں ہیں کچھ بھی مگر رسول ہیں۔ سوتا ہے تو رسول ہے جاگتا ہے تو رسول ہے۔ عبادت کرتا ہے تو رسول ہے۔ لوگوں سے بات کرتا ہے تو رسول ہے۔ احکام دیتا ہے تو رسول ہے۔ زندگی کے طرز حیات کو بتاتا ہے تو رسول ہے، اگر اس لفظ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو حضرت رسول خد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ جملہ یقیناً منجانب اللہ ہے۔
وقت گذر گیا اور مکہ کی زمین ظلم سے بھر گئی کہ آپ کو ہجرت کرنی پڑی، مدینہ میں جب اس طرز حیات کا عروج ہوا ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں تو وہ سات سال تک کہ کم سے کم ان تمام قلمکاروں سے دور تھا کہ جو اس بات کی سعی کررہے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کسی طریقے سے ختم کردیا جائے اور ان کی رسالت کا اختتام ہوجائے۔ لیکن سات سال کے بعد جب مکہ فتح ہوگیا تو اب وہ لوگ مدینہ سے مکہ کی طرف جاتے تھے اور اختلاف پیدا کرتے تھے، ایک طوفان پیدا کرتے تھے، وہ نجران کے عیسائی اور یہودی تھے۔ ان لوگوں کی جو بغاوتیں اور جنگ کی سازشیں ہوتی تھیں ، اس کو تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہیں سے بند کروا دیا کہ جو جا کے ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ محفوظ ہے۔ اس طرح وہ جنگ جو جنگ بدر، احد اور خندق کے زمانے میں واقع ہوئی تھی ،اس کے دروازے تو بند ہوگئے لیکن جو وہاں سے آنے لگے تو اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کیامزاج بدل گیا تھا۔
یہ آل رسول کی دشمنی کیوں، یہ پرانی دشمنی چلی آرہی تھی۔ آخر کار یہ ہوا کہ قلمکاروں نے ان لوگوں کو پکڑا جو زبان کے بڑے تیز تھے جیسے ابوہریرہ اور خود بخاری کہتا ہے میرے ذہن میں ٢لاکھ حدیثیں ہیں ، جس میں صرف اتنی حدیثیں ہمیں صحیح معلوم پڑی یعنی احادیث کی ڈھیر لگا دی۔ اور جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا تھا کہ ہمارے اوپر جتنے مصائب پڑے ہیں وہ تمام انبیاء و مرسلین سے زیادہ ہیں۔ وقت خود بولنے لگا کہ رفتہ رفتہ منافقین کی باریک ترین سازشیں اتنا زور پکڑنے لگیں کہ وہ واقعات جو اسلام کی بنیاد کو مضبوط کر رہے تھے اور آل رسول کے طرز حیات کو سامنے لا رہے تھے ، ان کو پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی۔
ہم نے بہت سی کتابیں پڑھیں لیکن جس طریقے سے مباہلہ کا ذکر ہوتا ہے اس کا تجزیاتی سلوک قلم کاروں کے ہاتھ سے کیوں چھوٹ گیا؟ کیا احساس ختم ہوگیا تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ عباسی حکومت کے زمانے میں عباسی نے ایک مرتبہ وہاں کے تمام قلم کاروں کو ، تمام بڑے بڑے لکھنے والوں کو اور تمام بڑے بڑے انسانوں کوجاگیرداروں کو بلایا اور ان کو انعام و اکرام دیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو بلایا اور ان کو بٹھایا۔ان کے بازو میں مامون اور ایک بازو میں امین بیٹھا ہوا تھا، سب کو بڑی بڑی رقم دیا لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کو بہت کم دیا۔ جب مامون نے پوچھا اے پدر بزرگوار یہ انعام دے کر آپنے جعفر صادق علیہ السلام کو ذلیل کیا ہے،سب کو بڑی بڑی رقم دی اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو بہت کم دی۔ اس نے کہا بیٹا تم سیاست کو سمجھو ،اصل میں جس حکومت پر تم بیٹھے ہوئے ہو یہ حکومت انہیں کی ہے اگر ہم انہیں زیادہ دیں گے تو یہ طاقت ور ہوجائیں گے۔
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کس طریقے کا معاشرہ کا چلن تھا جہاں جھوٹ پوری طاقت کے ساتھ زور پکڑ رہا تھااور انسان کے ایسے ایسے کردار آ رہے تھے کہ جو آل رسول علیہم السلام کی مخالفت کے اوپر آمادہ تھے۔ اسی طرز حیات کو بچانے کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے وصیت کی کہ ”علی جب ساری دنیا سارے لوگ دنیا کی طرف چلے جائیں تو تم دین کی حفاظت کرنا“۔ علی علیہ السلام نے اس کا حق ادا کیا اور اس طرح سے ادا کیاکہ جب علی علیہ السلام کا گھر جلایا گیا ، جب علی علیہ السلام کے گلے میں رسّی ڈال کر کھینچا گیا تو جناب فاطمہ زہرا سلام الله علیہا نے کہا کہ اے ابوالحسن آپ اس طرح سے کیوں خاموش ہیں جس طرح سے آپ کے اوپر یہ مظالم ہو رہے ہیں اور آپ آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو آپ نے ایک ہی جواب دیا تھا اے بی بی میرا وظیفہ اور میرا طریقہ ، میرا طرز حیات وہی ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم پر عائد کیا ہے ، وارد کیا ہے ، اور کہا کہ ”اے علی ہمارے دین کی حفاظت کرنا“۔ اگر میں اس وقت تلوار اٹھا لوں تو لوگ یہی کہیں گے کہ علی نے حکومت کے لئے ، خلافت کے لئے تلوار اٹھا لی۔
یہ سلسلہ باغ فدک کے غصب کے بعد حکومت سازی کی تصویر بن گیا۔ بڑے بڑے لشکروں کی تشکیل ہوئی ا ور جنگیں شروع ہوئیں۔ گھر جلایا گیا، حضرت محسن علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کی شہادت واقع ہوئی لیکن علی علیہ السلام نے صبر کیا، خاموش رہے۔ تمام مصیبتوں کو اپنے دوش پر لے لیا لیکن علی علیہ السلام نے جب تک کہ ان پر حملہ نہیں ہوا، جنگ کی صورت میں کسی لشکر کو تشکیل نہیں دیا۔
آگ سلگتی رہی ابوسفیان ، محدثین اور خریدے ہوئے راویوں کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا یہاں تک کہ معاویہ ا میر المؤمنین بن گیا۔ جنگ صفین علی علیہ السلام پر وارد کی گئی تھی۔ اس جنگ میں جناب عمار کی شہادت ہوگئی جن کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا تھا ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرےگا اس وقت ان کے سامنے دودھ کا پیالہ رکھا جائے گا۔ یہ بات جب معاویہ کو بتائی گئی تو اس نے کہا کہ یہ ذمہ داری علی کی تھی کہ وہ انہیں کیوں لے کر آئے تھے۔
قارئین کرام غور فرمایا اپنے کہ کس طرح سے ذہنوں کو پلٹایا جا رہا تھا۔ وہ مزاج جس کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ میں ہموار کیا تھا اسی مکہ میں ایسی سازشوں کے ریشے دھیرے دھیرے ابھر کرکے پوری طاقت کے ساتھ آگئے تھے اور معاویہ کی سازشوں کا پورا پورا لاوا بن گیا۔ جب معاویہ واصل جہنم ہوا تو یہ لاوا جو دبی ہوئی منافقت کے ساتھ جل رہا تھا وہ ظاہرہوکر پھٹ گیا۔ آتش فشاں بن گیا۔
یزید نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس بات کا اعلان کردیا کہ نہ کوئی وحی آئی تھی نہ کوئی رسول آیا تھا۔ یعنی ذہنوں پر مہر لگا دی۔ یہ تو امام حسین علیہ السلام کا جگر تھا کہ جس نے عرب کے ظالموں، حکومت کے چاہنے والوں اور مظلوموں کا خون پینے والوں کے آتش فشاں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنے چھ مہینے کے بچے کا تبسم دے دیا۔
القصّہ مختصر تمام بدلتے ہوئے حالات و حادثات کے تحت جو طرز حیات میں ایک بڑا تغیر آرہا تھا وہ دور یزید میں اپنے عروج پر تھا۔ اور کربلا کا وہ عظیم سانحہ وقوع پذیر ہوا جس نے طرز حیات جس کی تشریح اور توجیہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ اور آلِ رسول علیہم السلام کی زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو سمٹ کر ذہن میں قلب میں ایک نور سا پیدا ہوتا ہے جو ہماری عقیدت کا آخرت کا پورا منظر سامنے لے آتا ہے ۔
باران ِ ظلم و جور کا دور، دور حاضر ہے۔ قائم آل محمد علیہ السلام کا قیام بہت نزدیک ہے۔ سوگواران زمانہ کے ماتم کی آواز ہمارے آقا ولی العصر علیہ السلام، منتقم خون حسین علیہ السلام کے گوش گزار ہو رہی ہیں ۔ ہمارے آقا اپنے ظہور میں تعجیل فرمائیں۔ ہر ایک ماتم دار، اشک بار ہے اور ہر نماز میں آپ کے تعجیل کے لیے دست بہ دعا ہے ۔ العجل العجل یا مولای یا صاحب الزمان۔