تذکرہ شہید اعظم در قرآن

حدیث ثقلین قرآن مجید اور اہل بیت علیہم السلام کے لئے وارد ہوئی ہے جس کی روشنی میں مرسل اعظم نے اپنی امت کو دونوں اہل بیت اور قرآن مجید کا امین قرار دیا ہے اور اس امانت سے متمسک رہے اور اس سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ رہنے کا حکم صادر کیا ہے۔ حسین بن علی علیہ السلام امام خامس آل عبا اور قرآن مجید دونوں امت کے درمیان بطور امانت تھے، ہیں اور رہیں گے۔ اس لئے کہ آنحضرت نے حوض کوثر پر ملاقات تک انھیں دونوں امانتوں سے تمسک اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور انھیں دونوں سے متمسک رہ کر میدان قیامت میں ہدایت یافتہ اور انجام بخیر کی شکل میں آنحضرت سے ملاقات ہوگی اس سے ہٹ کر میدان قیامت میں آنحضرت سے ملا قات تو ہوگی مگر وہ ملاقات ضلالت و گمراہی اور حسرت و یاس کے ساتھ ہوگی۔ حسین بن علی علیہ السلام قرآن ناطق ہیں اور قرآن مجید قرآن صامت ہے حسین بن علی علیہ السلام کے سینہ مبارک میں وہی حقائق و معارف اور اسرار الہیہ ہیں جو آنحضرت کے سینہ مبارک میں پائے جارہے تھے۔ آنحضرت اصول و قانون قرآن کی وضاحت کرنے والے تھے امام حسین علیہ السلام بھی آنحضرت کی جانشینی میں اس کی وضاحت و تشریح کرنے والے ہیں۔ نہ یہ دونوں امانتیں جدا ہو سکتی ہیں اور نہ آنحضرت کی امت ان دونوں سے الگ ہو سکتی ہے مگر یہ اہتمام سرور کائنات کا تھا کہ جب حسین بن علی علیہ السلام کو امت کے سپرد کیا تو اس طرح منبر پر جا کر فرمایا: اے لو گوں یہ حسین بن علی علیہ السلام ہیں انھیں پہچان لو اور انھیں سب پر برتری اور فضیلت دو ( بحار ۴۳/۲۶۲: امالِی صدوق مجلس۸۷، ص ۴۷۸؛ منتخب طر یحی ا/۱۱۷) اُس کے بعد فرمایا: خُدایا اُنہیں اپنی امت کے ایک افراد کے درمیان اور تیری امانت کہ طور سے سپرد کرتا ہوں۔ (بحار ۱۱۸ / ۴۵ ؛ مشیر الاحزان ص ۷۲؛ امالی طوسی ۲۵۸ / ۱) نتیجہ صاف ہے کہ آپ امام حسین علیہ السلام جو مفسر قرآن ہیں اور کتاب الٰہی یعنی قرآن مبین دونوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت میں مرسل اعظم کی عنایت کردہ ایک امانت ہیں جو امت کو گراہی اور ضلت سے دور رکھتی ہے۔ لہذا آپ اللہ تعالی اور آنحضرت کی امانت ہیں تمام امت کے نزدیک حتی ان لوگوں کے نزدیک جو اس زمانہ میں نہیں تھے۔ کل آنخضرت اس امانت کے بارے میں امت سے دریافت فرمائیں گے کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس امانت کے تئیں سنجیدگی کے ساتھ ذرا غور و فکر کریں کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا گیا؟ جب کہ ان کا تعارف آنحضرت نے کرایا جس کا تعارف اللہ تعالی نے کرایا، جس کا تذکرہ خداوند عالم نے اپنی دیگر آسانی کتابوں میں کیا جن کے بارے میں اپنے انبیاء کو آگاہ کیا، جن کے بارے میں قرآن مجید میں لوگوں کو متعارف کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کا خود وجود مبارک قرآن مجید سے کتنا ہم آہنگ اور مطابقت رکھتا ہے۔ ذرا مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ قرآن کریم، مجید اور شریف ہے۔ امام حسین علیہ السلام بی کریم، شریف اور مجید ہیں۔ قرآن انبیاء کے حالات واقعات اور جو مشکلات و مصائب ان پر پڑے ان تمام باتوں پر مشتمل ہے۔ حسین بن علی علیہ السلام کا وجود مبارک کی اللہ کی آیتوں اور حالات و اصول پر مشتمل ہے۔ قرآن میں ایک سو چودہ سورہ ہیں امام حسین علیہ السلام کے اسم مبارک پر تلواروں کے ایک سو چودہ زخم لگے ہیں۔ قرآن شفا و رحمت ہے۔ حسین بن علی علیہ السلام کا وجود باطنی امراض کے لئے شفا اور آپ کی تربت پاک ظاہری امراض کے لئے شفا، قرآن نور، حسین نور، قرآن روح، حسین ریحانہ رسول۔ غرض یہ کہ قرآن اور امام حسین علیہ السلام میں اتنی مناسبت اور مطابقت پائی جاتی ہے جس کا شمار اور بیان مشکل ہے۔ مگر قارئین کے لئے ہم یہاں پر چند تذکرے پیش کر تے ہیں جو اہل بیت علیہم السلام کے لئے عام طور سے اور امام حسین علیہ السلام کے لئے خاص طور سے خداوند عالم نے قرآن میں بیان کئے ہیں۔
۱- سورہ بقرہ :
حضرت سے روایت ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام جنت سے ترک اولی کی بنا پر باہر آئے تو جبریل نے آکر عرض کیا خدا سے دعا کیجئے اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول فرمائے گا۔ عرض کیا کیسے دُعا کروں جبرئیل نے کہا: خدا سے پنجتن پاک کے ذریعے سوال کیجئے جنہیں آخری زمانہ میں اللہ تعالی آپ کی صلب سے ظاہر کرے گا، فرمایا: ان کے نام کیا ہیں، کہا: اس طرح عرض کیجئے : خُدایا بحق محمد و علی اور حسن و حسین اور بحق فاطمہ ہم پر رحم فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ان اسماء کے ذریعہ دعا کی خداوند عالم نے توبہ قبول فرمالی اور آیہ کریمه : “فتی آذگر من به بكلمات قتاب مهستی سے یہی مقصود ہے۔
(تفسیر فرات ۱۳)
۲- سور نساء :
اَطِیْعُوْااللہَوَاِطِیْعُوْاالرَّسُوْلَوَاُولِیالْاَمْرِمِنْکُمْ کے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جب لوگوں نے دریافت کیا
“کہ یہ آیت کس کی شان میں نازل ہوئی ہے تو آنحضرت نے فرمایا علی حسن حسین علیہما السلام کے بارے میں۔
(اصول کافی، ج ۱، ص ۱۸۵، کتاب العمۃ ح ۱۱)
۳- سوره اعراف:
وَعَلَیالْاَعْرَافِرِجَالٌ کے بارے میں ابن عباس سے نقل ہے کہ اس سے مراد حضرت، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ بہشت کی دیواروں پر (نقش) ہیں اور اپنے دوستوں اور دشمنوں کو ان کی مخصوص نشانیوں کے ذریعے پہچانتے ہیں۔
(تفسیر فرات، ص ۴۷)
۴- سورة حج :
عجلی امام محمد باقر علیہ السلام سے آیہ کریمہ وَجَاہِدُوْفِیاللہِحَقَّجِہَادِہٖ ہُوَاجْتَبَاکُمْ کے ذیل میں حدیث نقل کرتے ہیں: اس سے خداوند عالم نے ہمارا ارادہ کیا ہے اور اللہ تعالی کے برگزیده بنده ہم ہیں۔
(اصول کافی، ج ۱، کتاب الحجت، ص ۱۹۱، ح ۴)
۵۔ سوره فرقان:
حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہے کہ آیہ کریمہ
وَالَّذِیْنَیَقُوْلُوْنَرَبَّنَاہَبْلَنَامِنْاَزْوَاجِنَاوَذُرِّیَّتِنَاقُرَّۃَاَعْیُنٍوَّاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَاِمَامًا کے بارے میں، میں نے جبرئیل سے عرض کیا: ازواجنا سے کون مراد ہے، فرمایا: خدیجہ عرض کیا: ” ذريتنا” سے ؟ تو کہا: فاطمہ، عرض کیا: قرة اعين سے کون مراد ہے ؟ تو فرمایا: اس سے حسن و حسین علیہ السلام عرض کیا: قياماما‘ ہے؟ کہا: علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔
(تفسیر فرات، ص ۱۰۶)
۶۔ سورہ شوری:
امام صادق علیہ السلام نے ابو جعفر احول سے آیہ کریمہ قُلْلَّااَسْئَلُکُمْعَلَیْہِاَجْرًااِلَّاالْمَوَدَّۃَفِیْالْقُرْبٰی “ کے بارے میں بصره والے کیا کہتے ہیں؟ جواب دیا: میں آپ پر قربان، وہ لوگ کہتے ہیں۔ آنحضرت کے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں: یہ آیت صرف ہم اہلبیت کی شان میں نازل ہوئی ہے یعنی: علی و فاطمہ حسن و حسین علیہما السلام) جو اصحاب کساء ہیں۔
(تفسیر برہان، ج۴، ص ۱۲۱ ح ۲)
۷۔ سورہ رحمٰن:
یحی بن سعید کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا آپ فرما رہے تھے آیتم مَرَجَالْبَحْرَیْنِیَلْتَقِیَانِ میں امیر المومنین علیہ السلام مراد ہیں اور یَخْرُجُمِنْہُمَااللُّؤْلُؤْوَالْمَرْجَانْ سے حسن و حسین علیہما السّلام مراد ہیں۔
(تفسیر برہان، ج ۴، ص ۲۶۵ ، ح ۱)
۸- سورہ والفجر:
ابن فرقد کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے سورہ حجر کو واجب اور مستحب نمازوں میں تلاوت کرنے کی تاکید فرمائی اور فرمایا :
خدا تم پر رحمت نازل کرے اس سورہ کی طرف دل و جان سے توجہ کرو کہ بیشک یہ سورہ، سورہ امام حسین علیہ السلام ہے۔ ابو اسامہ بھی اس نشست میں بیٹھے ہوئے، دریافت کیا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے خصوصیت رکھتی ہے؟ فرمایا: کیا اس آیت کی تلاوت نہیں کرتے کہ خدا فرماتا ہے ” یٰاَیَّتُہَاالنَّفْسُالْمُطْمَئِنَّ “ اس سے حسین بن علی علیہ السلام مراد ہیں۔ بیشک نفس مطمئنہ اور راضی مرضیا کے مالک ہیں اور ان کے اصحاب باوفا قیامت کے دن آل محمد اور الله تعالی سے راضی رہنے والے خدا بھی ان سے راضی ہو گا۔
(بحار، ج۴۴، ص ۲۱۸، ح ۸)
شیخ جعفر شوشتری رحمت اللہ علیہ سورة فجر امام حسین علیہ السلام کی ایک مناسبت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : ” وَالْفَجْرِ۔ وَلَیَالٍعَشْرٍ۔ وَالشَّفْعِوَالْوَتْرِ۔ (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت و طاق کی، اور رات کی جب وہ جانے لگے ) امام حسین علیہ السلام فجر ہیں کہ وہ اور ہدایت ہیں اور آپ کی مصیبتوں کی راتیں ليالى عشر ہیں اور دونوں برادر شفیع (جنت) ہیں۔ اور جب آپ نرغه اعدا میں تنہا رہ گئے تو آپ ہی وتر کہلائے کتنا بابرکت اور پاکیزہ ہے امام کا وجود مبارک۔
۹- سورہ نور و حدید:
صالح بن سہل کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام اَللہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِوَالْاَرْضَ۔ مَثَلَنُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃ ‘‘ میں مشکاۃ سے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام فِیْہَامِصْبَاحٌ سے حسن علیہ السلام اور اَلْمِصْبَاحُفِیْزُجَاجَۃٍ سے حسین علیہ السلام مراد ہیں۔
(اصول کافی، ج ۱، کتاب العمہ ، ص ۱۹۵، ح ۵)
۱۰۔ سورہ نساء :
حسن بن زیاد امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں: آپ نے کریمہ کُفُّوْااَیْدِیْکُمْوَاَقِیْمُوْاالصَّلوٰۃَ (اپنے ہاتھوں کو روکے اور رکھو اور نماز قائم کرو) کے بارے میں فرمایا اس سے مراد امام حسن ہیں فَلَمَّاکُتِبَعَلَیْہِمُالْقِتَالَ ( اور جب ان لوگوں پر قتال فرض کر دیا گیا) امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ خداوند عالم نے اہل زمین پر مقرر کر دیا کہ آنحضرت کے رکاب میں جہاد کریں۔
(تفسیر برہان ، ج ۱، ص ۳۹۵، ح ۶)

اا۔ سوره حج :
اللہ تعالی سورہ حج آیت نمبر ۴۰ میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَاُخْرِجُوْامِنْدِیَارِہِمْبِغَیْرِحَقٍّاِلَّااَنْیَقُوْلُوْارَبَّنَااللہُ ( یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں بلا کسی کے نکال دیئے گئے ہیں علاوہ اس کے کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔) یعنی وه یہ کہنے کی بنا پر کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے نکال دیئے گئے۔ کتاب اصول کافی میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ یہ آیت حضرت ختمی مرتبت، امام علی، جناب حمزه و جعفر علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت امام حسین علیہ السلام کی عدالت کو بھی بیان کر رہی ہے۔
مرحوم قمی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے: اس سے حسین بن علی علیہ السلام مراد ہیں کہ جب یزید ملعون نے امام حسین علیہ السلام کو طلب کیا کہ انہیں شام لے جایا جائے تو اس وقت امام حسین کوفہ کی جانب روانہ ہو گئے اور دشت کربلا میں فوج یزید نے حُکم یزید سے بڑی بے رحمی سے سوکھا گلا کاٹ کر شہید کر دیا۔
(تفسیر صافی مذکورہ آیت کے ذیل میں)
اس کے علاوہ معدم بن مستنیز نے امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک روایت نقل کیا ہے آپ نے فرمایا: یہ آیت رسول الله وعلی و جعفر و حمزہ علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جاری ہوئی ہے۔
(تفسیر برہان، ج ۳، ص ۹۳،ح ۱)
(یعنی آپ کی اس مخصوص کیفیت کے بارے میں وضاحت کرنے والی ہے جو مدینہ سے نکلتے وقت کی تھی)
۱۲۔ سورة فاطر:
خداوند عالم فرماتا ہے : وَمَایَسْتَوِیْالْاَحْیَاءُوَالْاَمْوَاتُ زندہ اور مردہ دونوں برابر کیا ہو سکتے ہیں) ابن عباس سے نقل ہے کہ اس سے مراد علی و حمزه و جعفر و حسن و حسین فاطمیه و خدیجہ علیہما السلام ہیں۔ اور مردہ سے مراد کفار مکہ ہیں۔
(بحار، ج۲۴، ص ۲۸۰، باب ۶۵ ح ۱)
۱۳- سوره نازعات
خدا فرماتا ہے : ” یَوْمَ تَرْجُفُالرَّاجِفَۃُ۔ تَتْبَعُہَالرَّادِفَۃُ۔ جس دن زمین کو جھٹکا دیا جائے گا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا لگے گا) امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”الراجفہ“ سے امام حسین علیہ السلام اور ” الرادفہ” سے علی بن ابی طالب ہیں۔
۱۴۔ سوره بلد :
” اَلَمْنَجْعَلْلَّہٗ عَیْنَیْنِ۔ وَلِسَانًاوَّشَفَتَیْنِ۔ (یعنی کیا ہم نے انسان کے لئے دو آنکھیں ایک زبان دو لب قرار نہیں دیئے اس بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: دو آنکھوں سے حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لسان سے امیر المومنین علیہ السلام اور دولب سے امام حسن اور امام حسین علیہم السلام مراد ہیں اور ” ” وَہَدَیْنٰہُالنَّجْدَیْنِ ” سے ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت و امامت کی طرف انسان کی ہدایت ورہنمائی مراد ہے۔
(بحار ، ج ۲۴، ص ۲۸۰، باب ۶۵، ح ۱)
ابو بکر حضرمی نے امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ امام نے فرمایا :
اے ابو بکر اللہ تعالی کے اس قول “والي وما ولد” میں مقصود علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں اور “و ماولد” حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔
(بربان ، ج ۴، ص ۴۶۳، ح ۶)
قرآن کریم کی محض انھیں چند سوروں میں شہید کربلا کا تذکرہ نہیں آیا بلکہ سور ہائ شعراء و اعراف، اسراء، نور، انعام، تین، تغابن ، نمل ، صافات، تکویر وغیرہ کی آیتیں نیز آیه مباہلہ اور آیہ قربی و آیت تطھیر جیسی محکم آیتیں بھی امام حسین علیہ السلام کی عظمت و منزلت اور عصمت و طہارت کی صراحت کرنی ہیں جس کے بعد امام حسین علیہ السلام کی عظمت و منزلت کے بارے میں کسی طرح کا شک و تردید نہیں رہ جاتی ہے۔ آخر کلام میں سوره اسراء کی ۳۳ ویں آیت کے بارے میں مختصر حقائق کی طرف اشارہ کر کے بات تمام کرنا چاہتا ہوں۔ خداوند عالم فرماتا ہے :
” وَمَنْ قُتِلَمَظْلُوْمًافَقَدْجَعَلْنَالِوَلِیِّہٖ سُلْطَانًافَلَایُسْرِفْفِیالْقَتْلِ ” اور جو مظلوم ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں۔ آیہ کریمہ کے بارے میں امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل ہے کہ آپ نے فرمایا اس سے امام حسین علیہ السلام مراد ہیں کہ جنھیں ظلم کے ذریعہ شہید کر دیا اور ان کے ولی (وارث) حضرت قائم عجل الله تعالی فرجه الشریف ہیں۔
شیخ جعفر شوشتری رحمۃاللہ علیہ جو نہایت معتبر اور عارف کامل اور عظیم ترین فقیہ اور اپنے زمانہ کے نایاب اور نابغہ شخصیتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جن کی وفات پر لوگوں نے باقاعدہ آسمان کے ستارے ٹوٹے ہوئے محسوس کیا۔ اپنی عظیم کتاب خصائص حسین میں اس آیت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: امام حسین علیہ السلام کو مظلوم قتل کئے جانے کے چند معنی ہیں جو سب کے سب آپ پر منطبق ہوتے ہیں :
۱۔ عام معنی کہ کسی انسان پر ظلم و تجاوز کر کے اس کے مال و اسباب لوٹ لئے جائیں اور اصحاب و انصار اولاد و قرابت داروں کو قتل کرکے اسے بھی بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا جائے۔ اگر اس معنی کا کی مصداق کی ذات پر ختم ہوتا ہے تو وہ شہید کربلا، مظلوم نینوا حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔ اسی لئے کلمہ مظلوم آپ کے لئے علم (شناخت) کا ذریعہ بن گیا دعا میں بھی جب اللہ سے مناجات کی جاتی ہے تو عرض کرتے ہیں اُنْشِدُکَدَمِالْمَظْلُوْمِ (تُجھے مظلوم حسین کے خون کی قسم دیتاہوں)
۲۔ قتل اور شہید کئے جانے کی کیفیت میں مظلوم ہونا، انسان کی انسان کے قتل کے بارے میں جس کیفیت کو بھی تصور کر سکتا ہے کرلے۔ اس کے بعد بتائے کہ کسی کو اس بے رحمی سے قتل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام دین مقدس ہے اس نے قربانی جیسے مستحب عمل کے لئے بھی کچھ ضروری اور مستحبات بتائے ہیں۔ چاقو تیز کرنے اس کے سر کو بالکل جدانہ کر دیئے۔ اس کے جیسے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے۔ ہاتھ پاؤں نہ باندھے۔ اسے مثله (سر کے ٹکڑے) نہ کرے۔ پیاسا ذبح نہ کرے، پانی دے دے، امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں یہ ظلم کی کیفیت میں انتہا نہ تھی تو کیا تھا کہ جن چیزوں کی رعایت کو جانوروں کے ساتھ بھی اسلام تاکید رتاہے ان میں سے کسی ایک کی بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والوں نے نواسہ رسول کے حق میں رعایت نہیں کی !!!
۳- اصل قتل خود شہید کئے جانے میں مظلوم ہونا۔ یعنی کسی ناحق اور بغیر شریعت جواز کے قتل کرنا اور خون مباح قرار دینا بھی اسلام میں انسان کے قتل کا حکم قصاص یا حد با فساد برپا کرنے وغیرہ کی بنا پر دیا جاسکتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ان میں اس کی ایک سبب کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب اسباب قتل میں کوئی سبب قتل کا نہ تھا تو کیوں قتل کیا گیا ؟ یہ خود بڑی مظلومیت ہے۔ اللہ تعالٰی اس قتل کے بارے میں روز قیامت دریافت کرے گا “بي ای ذنب قتلت” اس لئے تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ وائے ہو تم پر تم مجھے کیوں قتل کرتے ہو تم ہم سے کس چیز کو طلب کر رہے ہو؟ کیا میں نے کسی کا قتل کیا کہ قصاص چاہتے ہو۔ یا کوئی مال لیا یا دین میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے ؟!!! .
(بحار ۷/۴۵ ؛ ارشاد مفيد، ۱۰۱)
۴۔ انسان کو بے رحمی سے قتل کر دیا جائے یعنی قتل میں ظلم، قتل کی کیفیت میں ظلم قتل سے قبل ظلم، سارے مظالم تو انسان تصور کر سکتا ہے مگر کسی پر قتل کرنے کے بعد بھی ظلم کیا جائے اس کا لباس کہنہ بھی چھین لیا جائے اس کے اعضاء ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں۔ اُسے پامال کر دیا جائے، (بحار ۴۵ /۵۹؛ لہوف ص۵۸-۵۹) بغیر کفن و دفن کے خاک و خون میں نمایاں زمین پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ عظیم اور اپنے آپ میں تنها ظلم صاحب کربلا، شہید اعظم حسین ابن علی علیہ السلام ہی کے حق میں روا رکھا گیا کہ شہادت کے بعد آپ کے جسم پاک پر جگہ جگہ سے پاره اور کہنہ لباس کبھی ظالموں نے نہ چھوڑا اسے بھی لوٹ لیا۔
(مقتل خوارزمی، ۲/ ۳۸-۳۹؛ لہوف، ص ۵۶؛ بحار ،۴۵/۵۷-۵۸)
خداوند عالم نے ہر مظلوم کا ولی قرار دیا ہے جو اس کے ظلم کا بدلہ لے سکے آج روئے زمین پر حسین بن علی علیہ السلام کا وارث، نسل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری جاشین، منتقم خون حسین، حکم خدا کا منتظر ، ولی وارث، ظالموں سے خون حسین کا انتقام لینے والے حضرت امام حجتہ ابن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں جو خدا کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔
خدایا ! دشت نینوا سے آج بھی بچوں کی صدائے الا عطش آرہی ہے۔ خدایا! ثانی زہرا کی وہ آواز آج بھی چاہنے والوں کو لرزه بر اندام کر دیتی ہے، پسر سعد میرا ماں جایا ذبح ہو رہا ہے اور تو کھڑا دیکھ رہا ہے ! خدایا ! ہر طرف ظلم و تجاوز ، دین کا مذاق، قرآن کی بے حرمتی، اسلام کی بربادی کو تباہی کے اسباب فراہم کئے جارہے ہیں۔ خدایا! کربلا سے ظلم و بربریت کے اٹھنے والے تاریک اندھیرے نے اب ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مظلوم کربلا کے خون ناحق کا انتقام لینے والے اور کائنات سے ظلم کو ختم کرنے اور اسے نور ہدایت ( عدل و انصاف سے منور کرنے والے کے ظہور میں جیل فرما۔ آمین۔