حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کی علتیں

المنتظر کے گزشتہ شماروں میں اس موضوع پر عنوان کی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ متعدّد مضامین شائع ہو چکے ہیں گزشتہ سال ہی کے شمارے میں اس موضوع پر مراجع کے نظریات کے ساتھ ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ البتہ یہ لکھنا ضروری ہے کہ گزشتہ تمام مضامین اپنی نوعیت کے منفرد مضامین ہیں ۔ اور اس موضوع پر علماء و دانشوروں، مورخین، مفسرین، مجتہدین و فقها و کے نظریات کو لکھا جائے تو متعدد کتب زیر تصنیف آسکتی ہیں۔ اس لیے ایک ہی عنوان سے مختلف مضامین کا سلسلہ المنتظر میں جاری ہے۔ یہ مضمون بھی اگر چه عنوان اور موضوع کے اعتبار سے مشابہ ہے لیکن مطالب کے اعتبار سے الگ ہے۔ یہ مضمون عبد الصاحب زوال یاستین الحسینی کی کتاب لماذا نهض الامام الحسين سار کے حصہ دوم سے ماخوذ ہے۔
خلافت امیر المومنین علیہ السلام
یہاں مقدمہ کے طور پر لکھ رہے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام امامت کے مقابلہ میں یزید ملعون ہے بدکار، زناکار، زنا زادے، شرابی كبابی اور بد طینت کو مسلمانوں کو خلیفہ و امام بنانا۔ اصل میں معاویہ کے دور کا معاملہ نہ تھا بلکہ یہ معاملہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور ہی میں اور آنحضرت کی رحلت کے دن ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ مسلمانوں کے بھیس میں منافقین و مشرکین اور خاندان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کا ایک بڑا ٹولہ مسلمانوں کے در میان میں موجود تھا اور وہ اسلام کو ختم کردینا چاہتا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل جانشین علی علیہ السلام ہی ہیں اور ان کے بعد ان علیہ السلام کی اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کی نسل سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین قیامت تک باقی رہیں گے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیں :
سقیفہ میں لوگ جمع ہو کر علی علیہ السلام کو کنارے کر دیا اور ایک اجماع کے بہانے ایک کو خلیفہ رسول بنا دیا اور پھر جب وہ دنیا سے جانے لگا تو اجتماع کے قواعد کو رد کیا اور استخلاف کے سہارے دوسرے کو خلیفہ قرار دے دیا اور جب یہ بھی رخصت ہونے لگے تو اجماع اور استخلاف دونوں ہی کو نظر انداز کیا اور مخصوص شرطوں کی قید کے ساتھ “شوری” کی تلقین کردی۔ اور جب تیسرے خلیفہ کی دھاندلیاں خوب بڑھیں اور لوگ ان کے قتل کے درپے ہو گئے تو وہ کچھ نہ کر سکے کہ اپنے بعد اپنے جانشین کو معین کر سکیں اور قتل کر دیئے گئے تو لوگوں نے امام علی علیہ السلام کو مجبورا اپنا خلیفہ بنا لیا۔ جو سمجھنے کی بات ہے :
جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ امام علی علیہ السلام کو چوتھا خلیفہ قرار دینا یا چوتھا خلیفہ ماننا در اصل امام علی علیہ السلام کی خلافت و امامت کی نفی ہے اور ان اعداد و ارقام یعنی پہلے خلیفہ ، دوسرے خلیفہ تیسرے خلیفہ، چوتھے خلیفہ کا عقیدہ رکھنا اصل خلافت کے عقیدہ سے انحراف ہے۔ ان خلفاء کی خلافت اور اہلبیت اطہار علیہما السلام سے ائمہ اطہار علیہما السلام کی امامت یہ دو مستقل موضوع ہیں۔ ایک کا اعلان اور دوسرے کی حقانیت پر بے شمار شواھد و دلائل موجود ہیں جس کی تفصیل کے لیے ہمارے علماء کی بے شمار کتابوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر الغدیر تالیف علامه امینی رحمۃاللہ علیہ جس کا ترجمہ اردو میں بھی ہو چکا ہے اور امامت کے موضوع پر چھوٹی بڑی تمام کتاب ہیں۔
امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلا فصل جانشین تھے اور آپ نے اس کو مخصوص انداز میں لوگوں کو سمجھایا کہ آپ نے شیخین کو خلیفہ رسول کبھی نہیں جانا البتہ ان لوگوں کے غصب خلافت کے بعد ان سے لڑائی جھگڑا نہ کیا لیکن احتجاج ضرور کیا۔ تاریخ نے اس بات کو درج کیا ہے کہ جب عبد الرحمن بن عوف نے آپ سے کہا کہ ہم آپ کی بیت اس شرط پر کریں گے جب آپ اللہ اور رسول کی سنت کے ساتھ سیرت شیخین پر عمل کریں تو آپ نے فرمایا: اللہ کی کتاب اور رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کروں گا۔
(شرح نہج البلاغہ : ہامش ۱۸۸، ابن ابی الحدید)
امام امیر المومنین علیہ السلام کا یہ عمل مکتب خلفاء کی خلافت اور مکتب اہلبیت علیھم السلام کی امامت کی جو ہریت اور اصل فرق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جانشین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و خدا اور رسول کے احکام کا پابند ہوتا ہے اور مکتب خلفاء کا خلیفہ اپنی خواہشات اور اپنے نفس کا اسیر ۔
امیر المومنین علیہ السلام کے دور کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان کے مد مقابل خلفاء اور حریفوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی نافرمانی اعلانیہ کرتے رہے اور پھر امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کی دیدہ دلیری اور بھی بڑھ گئی یہاں تک کہ امام حسن علیہ السلام کی شہادت نے ان کو اور بھی بری کر دیا۔
پھر امام حسین علیہ السلام کا دور امامت آ پہونچا۔ ابھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کو تقریبا ۵۰ سال ہی گزرے تھے اور دین کی شکل میں مکتب خلفاء میں تبدیل ہو چکی تھی اور معاویہ نے مان لیا تھا کہ دین خدا کو ختم کر دے اور لہٰذا اس نے اپنے بعد یزید پلید کو امت اسلامیہ کا خلیفہ مقرر کر دیا۔
توجہ طلب
امام حسین علیہ السلام کے قیام کی منجملہ علّتوں میں سے یہ ایک خاص علت تھی بنی امیہ کی دین کے خلاف سازشیں اور خلفا ثلاثہ کی حمایت ان کے حق میں ۔ پاس امام حسین علیہ السلام نے اپنے نانا کے دین اور بنی امیہ کے ذریعہ اپنے بابا کی مسلسل توہین کو عروج پر پایا تو نانا سے کئے ہوئے وعدے کو وفا کرنے کے لیے دیارو حرم محمدی کو چھوڑ کر بیت اللہ حرام کی طرف ہجرت فرمائی اور کعبہ کے پردے سے لپٹ گئے لیکن جب دشمن کے ذریعہ اس حرم خدا میں قتل و غارت کا اندیشہ پایا تو بیت اللہ الحرام کی حرمت و قداست کے خیال سے اپنے مشہد یعنی عراق کی طرف چل پڑے۔
( لواعج الا شجان / ۶۹ از سیّد محسن امین)
إن مقدماتی باتوں کے بعد انھی کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے قیام کے پیچھے کچھ اسباب و علل کو بعض علماء و مشاہیر کے نظریات کی مدد سے لکھ رہا ہے۔
مرحوم شہید مرتضیٰ مطہری نے اپنی مشہور کتاب “الملحمۃ الحسینیۃ” میں قیام حسین علیہ السلام کے علل و اسباب کو تحریر کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ واقعہ کربلا کے رونما ہونے کے تین مخصوص عوامل ہیں :
پھلا: یزید بن معاویہ کا معاویہ کے انتقال کے بعد امام حسین علیہ السلام سے طلب بیعت کرنا اور امام حسین علیہ السلام کا اس سے انکار کرنا اور یزید کا اس کے بعد اپنی لشکری قوت کا مظاہر ہ کرنا۔
دوسرا: دوسرا عامل جو اس قیام کے لیے موثر ثابت ہوا جس کو دوسرے درجہ کا عامل کہہ سکتے ہیں لیکن دوسرے درجہ ہونے کے ساتھ بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ ہے : اہل کوفہ کی دعوت امام حسین علیہ السلام کو۔
تیسرا: یہ عامل جس کو خود امام حسین علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اور وہ: امر بالمعروف اور نہی از منکر۔ ان علتوں کے لیے مرحوم شہید مطہری نے قرائن و شواہد بیان کئے ہیں مثلا مدینہ میں حاکم مدینہ کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام سے یزید کا طلب بیعت کا واقعہ اور بنی ہاشم کا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جمع ہونا، تاریخ نے ثابت کیا ہے۔
اسی طرح اہل کوفہ کے بڑی تعداد میں امام کو دعوت دینے کے لیے خطوط کو کبھی تاریخ نے نقل کیا ہے اور تیسری بات کہ امام حسین علیہ السلام کا بہت ہی مشہور قول : وَاِنِّیْ خَرَجْتُ لِطَلَبِالْاِصْلَاحِ فِیْ اُمَّۃ ِجَدِّیْ ‘‘ اور اس کے ساتھ آپ کا یہ فرمانا کہ:
اُرِیْدُاَنْآمُرَبِالْمَعْرُوْف ِوَانْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ “ بہت ہی مشہور و معروف ہیں جس کا ترجمہ ہے ” یقیناََ میں (اپنے گھر بار کو چھوڑ کر) نکلا ہوں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے اور دوسرے جملہ کا مطلب ہے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اچھائی کی دعوت دوں اور برائیوں سے روکوں۔“
یہ جملہ بالکل واضح ہیں اور خاص طور پر “طلب اصلاح” قابل توجہ ہے۔
کیوں طلب اصلاح؟
امام حسین علیہ السلام نے کیوں محسوس کیا کہ امت کی اصلاح کیا جائے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنائے ہوئے دین میں تحریف شروع کر دی۔ بدعتوں کا سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور پھر معاویہ اور یزید جو کھلم کھلا دین سے کھلواڑ کر رہے تھے اور دین کو ختم کر دینا چاہتے تھے لیکن دکھانے کو مسلمان تھے اور مسلمانوں کے خلیفہ تھے یعنی دین کے نام پر دین کے خلاف کام کر رہے تھے۔ ان کے فسق و فجور ظاہر بھی تھے لیکن ان کی ستمگری سے مسلمان سہمے رہتے تھے۔ اور بدعتوں کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتے تھے اور جو حق کی باتیں کرتے تھے انھیں یا تو قتل ہونا پڑتا یا شہر بدر یا طرح طرح کے آزار و اذیت کا سامنا کرنا پڑتا۔
یوں کہا جائے کہ بس بہت ہو چکا۔ امام حسین علیہ السلام اب انھیں حدوں سے بڑھنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے۔ نانا، بابا اور بھائی کی بہت توہین ہو چکی تھی۔ جمعہ کے منبروں سے علی علیہ السلام کو گالیاں دی جارہی تھیں اس لیے بھی امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا۔
خلیفہ زندیق و ملحد
ابن الحدید نے لکھا ہے کہ ہمارے بزرگوں کی نظر میں معاویہ اپنے دین میں مطعون تھا اور وہ زندیق و ملحد تھا۔ اور اسی حوالے
سے ابن ابی الحدید نے لکھا کہ معاویہ نے اپنے کفر سے توبہ نہیں کی تھی۔
(شرح نہج البلاغہ ۱/ ۱۳۴۰ اور جلد ۱۰/۱۰۱۴)
ابو سفیان فتح مکہ کے موقع پر مغلوب ہوا تو ایمان لایا اور کیسا ایمان لایا تھا۔ ملاحظہ ہو:
ابوسفیان بن حرب حضرت حمزہ کی قبر پر کھڑا ہوا اور پیروں کو پٹکا اور کہا: اے حمزہ جس بات کے لیے کل تم نے ہم سے جنگ کی تھی تو یقینا آج اس نے ہمیں مالک بنا دیا اور یقینا ہم تمیم اور عدی کے مقابلہ میں اس کے زیادہ مستحق تھے۔
(التزاع والنخاصم، ص ۸۳-۸۷، تالیف المقریزی)
ذرا غور فرمائیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق معاویہ کو شجرہ ملعونہ (سورہ بنی اسرائیل /۲۰)
اس آیت کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ شجر ملعونہ سے مراد بنی امیہ ہیں ۔ رجوع کرو تفاسیر۔) میں قرار دیا تھا اور عالم اسلام سے ان کا اصل میں کوئی تعلق نہ تھا، کس طرح مسلمانوں کی زعامت و خلافت کو معاویہ بن ابی سفیان اور یزید جیسے لوگوں کے حوالے کرنے کا انتظام کیا گیا۔ یہ سارے انتظامات ابو سفیان کے زمانہ میں ہوئے۔ اور ابو سفیان نے اسلام سے اپنی دیرینہ دشمنی کا انتقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے فورا بعد ہی لینا شروع کر دیا۔ ابو بکر و عمر نے بنی امیہ کے لیے راہوں کو ہموار کر دیا تھا۔ اس کے ثبوت کے لیے ملاحظہ ہو حضرت عمر کا ایک راز کے افشاں کرتے ہوئے سعد بن العاص سے یہ کہنا :
(اے سعید بن عاص) میں نے تم سے چھپائے رکھا یہ بات کہ بہت جلد میرے بعد وہ امر واقع ہو گا کہ جو تمہارے ساتھ صلہ رحم کرے گا اور تمہاری حاجت کو پورا کرے گا۔ وہ ہم میں سے ہے۔ میں تمہیں ایک راز اور معلومات سے آگاہ کرتا ہوں: یہ کہ یقینا خلافت بہت جلد میرے بعد بنی امیہ میں سے تمہارے اقرباء تک پہونچے گی اور وہ عثمان ہے اور مسلمانوں کے مال میں سے تمہیں بہت عطا و بخشش کرے گا۔
(شرح البلاغه ا/ ۱۸۶، ابن ابی الحدید)
صاحب طبقات نے اس کے بعد سعید بن عاص کا قول اس طرح نقل کیا ہے کہ اس پر دن اس نے کہا :
خلافتِ عمر ابن خطاب ختم ہوئی یہاں تک کہ انہوں نے عثمان کو شورٰی کے ذریعہ خلیفہ بنا دیا اور ان سے راضی ہوئے پھر انھوں (عثمان) نے ہمارے ساتھ صلہ رحمی کیا اور اچھائی سے پیش آئے اور ہمارے حاجتوں کو پورا کیا اور ہمیں اپنی امانتوں میں شریک کیا۔ لوگ کہتے تھے کہ سعید بن العاص ہمیشہ عثمان بن عفان کی قربت میں رہے۔
(الطبقات الکبری ۵ /۳۱-۳۲ تحریر محمّد بن سعد)
ابو بکر نے بھی بنی امیہ کے لیے خوب زمین ہموار کی اور پھر عمر بن خطاب نے تو بنی امیہ کے ہاتھ میں اسلام کی باگ ڈور دید کیا۔ یہاں ہم عمر بن خطاب کے حاکموں کی ایک فہرست لکھ رہے ہیں ملاحظہ ہو :
مکّہ میں ان کا حاکم و والی نافع بن عبد الحارث الخزاعی، طائف میں عثمان بن ابی العاص بن امیہ ، پھر سفیان بن ابی علي عبد الله الثقفي، یمن میں یعلی بن مسبہ، عمان اور یمامہ میں حذیفہ بن مخض، بحرین میں العلاء بن الحضرمی پھر عثمان بن العاص، کوفہ میں سعد بن ابی وقاص پھر المغیرہ بن شعبہ پھر عمار بن یاسر، پھر ابو موسی الاشعری، بصرہ میں المغیرہ بن شعبہ، پھر ابو موسیٰ الاشعری، اور شام میں ابو عبیدہ بن الجراح پھر یزید بن ابی سفیان پر معاویہ بن ابی سفیان اور مصر میں عمرو بن العاص۔
اس فہرست پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمال میں بھی نہ رہے وہ سب ابو بکر و عمر کے عمال میں شامل ہیں۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بنی باشم کا نام و نشان بھی اس فہرست میں نہیں دکھائی دیتا۔ یہ بات مسلم ہے کہ عمر بن خطاب ابو سفیان کو دیگر خاندانوں پر ترجیح دیتے تھے اس لیے ابو سفیان کے تینوں بیٹوں کو مختلف شہروں کی ولایت دے رکھی تھی اور ان کے سامنے مسلمان با سابقہ یا غیر سابقہ اور مرد مومن اور فاسق میں کوئی فرق نہ رکھتے تھے اور اسی لیے وہ بنی ہاشم کو ہر عہدہ سے دور رکھنا چاہتے
(لماذا نہ الامام الحسین بان الجزء الثانی، صفحہ ۳۸تا۳۹ ) (تالیف عبد الصاحب ذو الریاستین الحسینی)
توجہ فرمائیں
امام حسین علیہ السلام کے قیام کی علتوں پر جو کچھ گفتگو گذشتہ شماروں میں ہوئی ہے، انہیں گفتگو کے ذیل میں مندرجہ بالا تاریخی حقائق پر غور کیا جائے اور خلفاء ثلاثہ اور بنی امیہ کی سازشوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ان لوگوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ صرف کوسوں دور تھے بلکہ اسے ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام جو پیغمبر اسلام کے جانشین تھے اور ہر اعتبار سے سنت و سیرت رسول کی بقا میں کوشاں تھے۔ انھیں گوشہ نشین کر دیا تھا۔ ان کے قہر و غلبہ نے مسلمانوں کو ناکارہ کر دیا تھا یہاں تک کہ یزید کے دور میں اسلام کی شکل و صورت ہی بدل گئی تھی۔ سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختم ہوتی نظر آرہی تھی لہذا امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :
وَاَسِیْرُبَسِیْرَۃِجَدِّیْوَاَبِیْعَلِیْبْنِاَبِیْطَالِبٍعَلَیْہِمَاالسَّلَامُ
(شرح نہج البلاغه ۹/۱۶۵-۱۶۶ ، ابن ابی الحدید)
” اور میں اپنے جد (رسول اللہ) اور والد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر عمل کروں گا۔“ اس مبارک شرعی نص سے واضح ہے کہ امام علیہ السلام کا قیام اور آپ کی شہادت اللہ عز و جل کے دین اور اعتماد میں اطاعت کے لیے تھی اور آپ کا یہ جہاد اپنے جد اور اپنے والد کی سیرت اور ان کی روشوں اور سنتوں کو جو کہ اصل میں شریعت اور اس کے اصول تھے ، ان کی بقاء اور اس کام کے لیے تھا۔ ان کے والد کی سیرت اور ان کے جد محمد المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت، یہ دونوں ہی اصل میں خالص شریعت خالص ہیں اور اسی کی تدوین کے لیے امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا: یہ عاشورا، یہ محرم، یہ مجالس، یہ اربعین، یہ نوحہ و ماتم، یہ سبیلیں، یہ نذرونیاز و طعام جو امام حسین علیہ السلام کے نام پر کئے جاتے ہیں، در اصل مخالفین اس سے پریشان نہیں ہیں بلکہ اصل پریشانی ان کے لیے یہ ہے کہ جب یہ سب نظر آتا ہے تو انھیں بنی امیہ اور مکتب خلفاء کی سازشیں کبھی دکھائی دینے لگتی ہیں اور سیرت رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت خلفاء آمنے سامنے آجاتی ہیں۔ خلفاء کی سنت (خلفاء کی سنت سے مراد وہ بے شمار بد عتیں ہیں جن کا نقل کرنایہاں ممکن نہیں ہے جیسے تین طلاق ، راوت، منعه و متعہ نساء کو حرام قرار دینا وغیرہ۔) و دین جو سواد اعظم کا وتیرہ ہے، اس میں نقص و عیب نظر آنے لگتا ہے اور ان عیوب کو تسلیم کرنے کے بجائے توجیہ کرتے ہیں لیکن کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے۔
اور حسینیت واضح و روشن ہے اور
دین و مذہب کے بقا کی ضامن ہے۔