امام حسین علیہ السلام کے قیامِ کے اسباب و علل مع استفتاءات مراجع کرام

کربلا کی خونچکا داستان اور بات سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی پیشن گوئیاں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تمام انبیاء علیہم السلام نے مخصوص انداز میں بیان کی ہیں۔ روایات ائمہ ہدی میدان میں بعض انبیاء علیہم السلام کی اجمالی اور بعض انبیاء علیہم السلام کی تفصیلی داستانیں واقعہ کربلا کے رونما ہونے کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں۔ اس مضمون میں ہمارا مقصد و منشاء ان واقعات کی تفصیل نہیں ہے البتہ صرف یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں اور اس کی مذہبی اور شرعی حیثیت محکم و مستند ہے۔ المنتظر کے محرم کے مختلف خصوصی شماروں میں کچھ حد تک ان روایات و واقعات پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ لہذا قارئین گذشته شماروں کو ضرور رجوع کریں۔
ایک اور بات کہتے چلیں کہ جہاں انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی روایتیں واقعہ کربلا کی پیشنگوئیاں اور پھر شہادت کے بعد ائمہ ہدی علیہا السلام کے ذریہ مراسم عزاداری کا بر پا کرنا اور لوگوں کو ان مراسم کو قائم کرنے کی تاکید کرنے پر متواتر حدیثیں موجود ہیں، وہیں قرآن مجید نے بھی مراسم عزاء کے سلسلے میں ایک نہیں بلکہ متعدد شواہد فراہم کئے ہیں لہذا قرآن مجید کی متعدد آیتوں کی رو سے کبھی عزاداری کی شرعی حیثیت ثابت ہے۔ اس کے لئے بھی ہم المنتظر کے خصوصی شماروں سے رجوع کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
جب قرآن و حدیث اور سنت کے ذریہ مراسم عزاداری اور عاشورا کی اہمیت ثابت ہے تو مزید کسی اور شواہد کی ضرورت نہیں ہے لیکن عوام الناس جو شرعی قوانین و احکام کی علتوں سے عموما نابلد ہوتے ہیں، وہ کبھی کبھی دانستہ یانادانستگی یا خارجی آلودگیوں کی وجہ سے یا ناصیبن کے گمراہ کن اعتراضات سے متاثر ہو کر مراسم عزاء پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ عزاداری اور عاشورا کی اہمیت کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض موقعہ تو بہت سی حقیقتوں کا انکار کر دیتے ہیں۔
لہذا ہم نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اسباب و علل، کے ذیل میں ہمارے بزرگ مراجع تقلید اور بالخصوص عصر حاضر کے مشہور مراجع کے نظریات کو عوام کے سامنے پیش کریں۔
مراجع عظام کے نظریات کو نقل کرنے سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے قیام کی بعض علتوں کو اور اسباب کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں۔
تحریک کربلا کے اسباب کے تاریخی نکتہء نظر سے جائزہ
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اسباب پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ آپ کے قیام کے پیچھے بہت کی دینی اور اجتماعی ذمہ داریاں تھیں اور اسی لئے آپ نے اتنی عظیم قربانی پیش کی۔ یہاں ہم کچھ ذمہ داریوں اور اسباب پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔
ا۔ دینی ذمہ داری :
دینی واجبات اور ذمہ داری نے آپ پر قیام کو واجب کر دیا کیونکہ اموی حکمراں نے اللہ کے حرام کو حلال قرار دیا تھا اور اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا تھا اور سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی تھی۔
۲۔ سماجی ذمہ داری :
اجتماعی اور سماجی اعتبار سے امام ایک مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں لہذا آپ نے امام امت ہونے کی وجہ سے جب یہ دیکھا کہ اموی حکومت کے ذریعہ معاشرہ میں ظلم و غلبہ اور فساد بڑھا آپ نے اموی حکمراں کو رد کیا اور پھر آپ مسئولیت کبری کی گھڑی کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے پیغام کو امانت داری اور اخلاص کے ساتھ پہونچایا اور خود کو، اپنے اہل بیت علیہم السلام کو اور اپنے اصحاب کو قربان کر دیا تا کہ عدالت اسلامی اور علم قرآن پلٹ آئے۔
۳۔ اتمام حجت :
اہل کوفہ کی جانب سے متواتر خطوط و وفود کی آمد نے آپ کے اعلان جہاد، اور باغیوں کے ساتھ جنگ و محاربہ پر مجبور کیا۔ ان کے خطوط اور دعوتوں کا جواب ، امام ہونے کی وجہ سے آپ کی۔ ذمہ داری تھی لہذا آپ نے اتمام حجت کے لئے ان کی دعوتوں اور خطوط کا لحاظ فرمایا اور ان کو امویوں کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے نکل پڑے۔
۴۔ اسلام کی حمایت :
منجملہ اسباب میں ہے کہ جس کے لئے آپ نے شبہات پیش کی ۔ اموی حکومت کی طرف سے اسلام کو جو خطرہ درپیش تھا اور ان لوگوں کی کوشش تھی کہ اس کو مٹادیا جائے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور جب کہ خود یزید نے اپنے کفر و الحاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا
لَعِبَتْ بَنُوْ ہَاشِمُبِالْمُلْکِ خَبَرٌ جَاءَ وَلَا وَحْیٌ نَزَلَ فَلَا
بنی ہاشم نے حکومت کے لئے کھیل رچا۔ دراصل کوئی خبر اور کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ہے
اور یزید زمانہ جاہلیت کے عقیدہ پر باقی تھا اور کہتا کہ نہ تو کوئی کتاب نازل ہوئی اور نہ ہی جنت اور نہ جہنم ہے، تو حضرٹ نے ان لوگوں کی اس کوشش کو ناکام کرنے کا ارادہ کر لیا۔
ہ۔ خلافت کی حفاظت:
واضح ترین اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا جس کے لئے امام نے قیام کیا تا کہ خلافت اسلامیہ کو امویوں کی نجاستوں سے پاک کر دیں کہ جس پر انھوں نے زبردستی قبضہ کر لیا تھا اور اسلام کی سراسر مخالفت و توہین کر رہے تھے لہذا امام لوگوں ، کے درمیان میں عدل اجتماعی قائم کرنا چاہتے تھے اور فساد کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
۶۔ امت کے ارادہ اور اختیار میں آزادی :
مسلمان عہد معاویہ اور یزید میں اپنے ارادہ اور اختیار کے استعمال میں آزاد نہ تھے۔ سختیاں اور قید و بند کا دور تھا۔ کسی طرح کی آزادی نہ تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے اسی لئے جہاد و فداکاری کے لئے تلوار اٹھائی تاکہ مسلمانوں کو عزت و تکریم سے ہمکنار کریں اور بالآخر آپ کی شہادت نے مسلمانوں کی تاریخ اور زندگی کو پوری طرح بدل دیا۔ ہے۔

۷ – اجتماعی مظالم :
پورے ملکت اسلامیہ میں مظالم پھیل چکے تھے اور سماج میں ان کے مظالم سے کسی کو چھٹکارا ممکن نہ تھا لہٰذا امام حسین علیہ السلام نے تلوار اٹھائی اور مسلمانوں کے لئے عزت اور کرامت کے دروازے کھول دیئے۔
شیعیان علی پر مظالم ۸
اموی حکومت علی علیہ السلام کے شیعوں کے خلاف تحریک چلا رہی تھی۔ شیعوں پر مسلسل مظالم ہورہے تھے لہذا امام حسین علیہ السلام نے ان کی حمایت اور انھیں ظلم و جور سے نجات دلانے کے لئے قیام فرمایا۔
۹- ذكر اہلبیت علیھم السلام کو محو کرنا
ایک بہت ہی واضح اور روشن بات یہ تھی کہ اموی حکومت اس کوشش میں لگی تھی کہ ذکر اہل بیت کو محو کر دیا جائے اور ان کے مناقب اور اثرات کو مٹا دیا جائے اور امیر شام نے اس کام کے لئے اس خبیث ترین وسیلہ کا استعمال کیا۔ آپ نے دیکھا کہ منبروں سے ان کے والد پر سب و شتم کیا جارہا ہے لہذا آپ اس کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے۔
۱۰۔ اقدار و نظم اسلامی کو تباہ وبرباد کرنا
اموی حکومت اس بات پر تلی ہوئی تھی کہ نظم اسلامی اور اقدار اسلامی کو تباہ و برباد کر دیں لہذا آپ نے اسلامی اقدار و نظم میں روح پھونکنے کے لئے قیام فرمایا۔
اا۔ امر بالمعروف
سب سے مضبوط اور موکد اسباب میں یہ سبب ہے۔ آپ نے خود ہی اپنی وصیت میں فرمایا کہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے قیام کر رہا ہوں جو کہ اس دین کی بنیاد ہے اور ہر انسان کے لئے یہ پہلے درجہ پر ہے۔

۱۲۔ بدعت کو ختم کرنا
آپ نے اہل بصرہ کو خط میں اموی حکومت کے سلسلہ میں لکھا کہ ”یقینا سنت کو ختم کیا جارہا ہے اور بدعت ایجاد ہورہی ہیں۔ لہذا آپ نے امویوں کی بد عتوں کو جن کا دار و مدار جاہلیت سے تھا، ان کو ختم کرنے کے لئے اور اپنے جد کی سنت کو زندہ کرنے کے لئے اور پر چم اسلام کو بلند کرنے کے لئے اپنے خون کی قربانی پیش کی۔
۱۳۔ عزت و کرامت
امویوں نے چاہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کو ذلیل کریں لیکن امام حسین علیہ السلام نے ان کی اس کوشش کو ناکام کر دیا اور روز عاشور آپ نے اپنے دوسرے خطبہ میں یوں فرمایا :
اَلَا اِنَّ الدَّعِیَ ابْنَ الدَّعِیَّ قَدْ رَکَزَ
آگاہ ہو جاؤ کہ یہ ابن داعی** (ابن زیاد ) یعنی یہ پست ترین، پست ترین کے بیٹے نے مجھے دوراہیں یعنی شمشیر و ذلت کے در میان قرار دیدیا ہے اور افسوس کہ ہم ذلت کے زیر بار جارہے ہیں، کیوں کہ خدا اور اس کے پیغمبر اور مومنین اس بات سے کہ ہم ذلت کو قبول کریں، منع کیا ہے اور پاکدامن اور غیرت دار مائیں اور صاحب شرافت باپ کے نفوس جائز نہیں سمجھتے کہ افراد پست و لئیم کی اطاعت کو شہادت اور اپنی نیک طبیعت پر مقدم کریں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ مدد گاروں کی قلت اور لوگوں کے مدد کے لئے پیٹ دکھانے کے باوجود میں اپنے اس چھوٹے سے گروہ کے ہمراہ جہاد کے لئے آمادہ ہوں۔
** دعی : وہ شخص جو اپنے نسب میں متہم ہو۔ پست ترین شخص
امام حسین علیہ السلام نے اپنی شرافت و عزت و کرامت کا اعلان بھی کیا اور متهم نسب ابن زیاد کی اصلیت کو سب کے سامنے اجاگر کر دیا۔ وہ امام حسین علیہ السلام کو ذلیل کرنا چاہتا تھا لیکن قیامت تک کے لئے خود ذلیل ہو گیا۔

۱۴۔ امویوں کی خیانت
امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ اموی کسی طرح سے خیانت اور جھگڑوں سے باز نہ آئیں گے لہذا آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے فرمایا: اگر میں بلوں میں داخل ہو جاؤں تو (وہ قاتلین( مجھے ان پلوں میں سے بھی نکال لیں گے اور مجھے قتل کر دیں گے۔
امام حسین علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ یہ لوگ اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر سکتے۔ امیر شام نے امیر المومنین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کے ساتھ وعدہ خلافی کیا اور خیانت کی اور بالکل اسی روش پر یزید کبھی عمل کرے گا۔
یہ بعض اسباب ہم نے تحریر کئے ہیں جسے مورخین نے نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے عوامل و اسباب تحریر کئے گئے ہیں۔ اس مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک چیز یہاں اور کبھی نقل کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں یہ تمام اسباب اور علتیں جو نقل ہوئی ہیں یہ ایک بہت ہی عام رائے ہے اور تاریخ میں ان اسباب کو پایا جاتا ہے۔ لیکن کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہ سارے اسباب علت نامہ ہیں قیام حسینی کے لئے۔
امتحان
إن ظاہری اسباب پر دقت کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی امیہ نے اسلام کو مٹانا چاہا اور مقام کا انبار لگا دیا۔ لہذا امام حسین علیہ السلام اسلام کی حفاظت اور علم کو کچلنے کے لئے قیام فرمایا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے لیکن روایتوں میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام کے اس جہاد سے خلق گمراہ کا امتحان لیا گیا اور شیعیان اہل بیت علیہم السلام کے لئے آپ کے قبر مقدس کو جائے پناہ قرار دیا گیا۔ علامہ مجلسی رحمت اللہ علیہ نے شیخ مفید رحمت اللہ علیہ کے حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک طولانی حدیث میں نقل کیا ہے کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا، افواج ملا نکہ سامان حرب سے آراستہ اور میل به شمشیر و نیز و ناقہ ہائے بہشت پر سوار آسمان سے نازل ہوئے اور خدمت امام میں حاضر ہوئے اور سلام کیا اور کہا اے حسین علیہ السلام آپ اپنے جد بزرگوار اور پر نامدار اور برادر عالی مقام کے بعد حجت خداہیں۔ حق تعالی نے اکثر جہادوں میں ہمیں آپ کے جد بزرگوار کی نصرت و امداد کے لئے بھیجا، اب خدائے عزوجل نے ہمیں آپ کی نصرت و امداد کے لئے بھیجا ہے۔ حضرت نے فرمایا : میرا وعدہ گاہ اور مشہد و مدفن زمین کربلا ہے۔ جب وہاں پہچوں تو میرے پاس آنا۔ ملا نکہ نے کہا: اے حجت خدا ! جو ہمیں حکم ہو بجالائیں۔
اس طولانی روایت کے اگلے حصہ میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا
اگر میں اپنے گھر میں توقف کروں اور جہاد کو نہ جاؤں تو اس خلق گمراہ کا کس چیز سے امتحان لیا جائے گا اور کون شخص میری قبر میں زمین کربلا پر مدفون ہو گا؟ جس زمین کو خدا نے ابتدائے آفرینش سے برگزیدہ کیا ہے اور جائے پناہ میرے شیعوں کے لئے بنایا ہے اور تمام امن دنیا و آخرت ان کے لئے قرار دیا ہے۔
*(بحارلانوار، ج ۴۴, ص ۳۳۰)
خلاصہ کے طور پر ایک جملہ پر نقل کرتے ہیں کہ اموی حکومت امام حسین علیہ السلام کے قیام کی علت تامہ اور سبب آخر نہیں ہے کیونکہ اصل مقصد اور سبب اس سے کہیں ا عظم واکبر و اہم ہے۔ خداوند عالم اپنے ولی اعظم حضرت امام حسین الشہید علیہ سلام کو ان کی قربانی کے ذریعہ اسلام کو سر بلند کرنے کا ارادہ کیا اور آن حضرت کو قیامت تک کے لئے آنے والے شیعوں کی راہنمائی اور ہدایت کا رہنما قرار دیا۔ ان کی عزاداری کو ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنایا۔ لہذا شیعہ جید عالم احمد بن فهد حلی نے اپنی کتاب ”عدة الدائی” **
**( عدة الدائی (ترجمہ فارسی، ص ۱۰۴)
میں لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ حضرت حق سبحانہ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے عوض انہیں چار خصلتیں عطا کیا ہے۔
ا- أن حضرت کی تربت مبارک میں شفا قرار دیا۔
۲-أن حضرت کے قبہ کے نیچے دعاؤں کو قبول قرار دیا۔
۳- أن حضرت کی ذریت میں ائمہ معصومین علیھم السلام کو قرار دیا۔
۴ – أن حضرٹ کے زائرین کے ایام کو ان کی عمروں میں شمار نہیں کرتا۔ (یعنی ان کی جو عمر معین و مقرر ہے۔ زیارت کے ایام کو اس میں داخل نہیں کرتا بلکہ اس عمر پر اس کا اضافہ کر دیتا ہے)۔
مراجع کرام کے نظریات
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اسباب پر نظر ڈالنے کے بعد ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارے مراجع کرام نے بھی ان ظاہری علتوں کو عام علّت کے طور پر بیان کیا ہے اور ساتھ ہی اِنقلاب حسینی ، اور عاشور و عزاداری کو روح و جان تشیع اور شعائر اللہ قرار دیا ہے اور امام حسین علیہ السلام کی محبّت کو ضامن نجات قرار دیا ہے۔ ہم یہاں مراجع کے نظریات کو نقل کر رہے ہیں۔
ا۔ مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی کا نظریہ
حضرت امام حسین علیہ السلام نے عہد معاویہ کے ختم ہونے کے بعد دیکھا کہ تمام لوگوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ معاویہ نے جاتے جاتے کیا کیا برائیاں لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر کے چلا گیا، اور جو کچھ اسے دین خدا میں کھلواڑ کرنا تھا، کھیل گیا تو امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا اس لئے کہ وہ جانتے تھے یہ امر الہٰی ہے اور اللہ کے رسول کی وصیت میں سے ہے۔
آپ کا قیام اہل زمانہ پر اور آنے والی نسلوں پر حجت قرار پایا تاکہ لوگ یہ عقیدہ نہ بنائیں کہ جو حاکم ہے وہی ولی المسلمین ہے اور اس کی اطاعت لوگوں پر واجب ہے۔
خلاصہ یہ کہ امام حسین علیہ السلام نے ان چیزوں کو زندگی عطا کی جن کو بنی امیہ نے ختم کر دیا تھا۔ آپ کا یہ فعل حجت قرار پایا، اور آپ نے لوگوں کو متنبہ کر دیا کہ جو خلافت کی کرسی پر چار زانو ہو کر بیٹھ جائے وہ خلافت کا اہل نہیں ہو جاتا، اور یقین خلافت اس کے اہل کے لئے ہی ہوتی ہے *
* (صراط النیجات ۳/۴۲۷, میرزا جواد تبریزی)
۔و اللہ العالم
۲- مرحوم آیت الله میرزا جواد رحمتِ اللہ علیہ کا نظریہ
دشمنوں اور کرسي خلافت پر بیٹھنے والوں کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں مصلحت یہ ہے کہ آپ کو دشمنان و غاصبین خلافت کے تمام امور کو تہس نہس کرنا تھا اور آپ کا قیام لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے اور عقائد حقہ کے اظہار کے لئے تھا کہ ان عقائد کی اتباع اور ان کی حفاظت واجب ہے اور اس طرح آئندہ نسلیں بھی آپ کے قیام سے فائدہ اٹھاتی رہیں۔
(صراط النجاة ۳ / ۴۳۳، المیرزاجو التبریزی)
۳ -حضرت آیت الله العظمی سید علی السیستانی حفظ الله کا نظریہ
اس وقت ساری دنیا میں سب سے زیادہ مقلدین حضرت آیت اللہ سیستانی کے ہیں اور الحمد للہ آپ اس وقت نجف اشرف میں قیام فرماتے ہوئے دنیا بھر کے شیعوں کی رہنمائی فرمارہے ہیں۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ: امام حسین علیہ السلام کے قیام و خروج کا حقیقی سبب کیا ہے۔ ہم لوگ آپ کی امامت و عصمت پر ایمان رکھنے کے بعد اس طرح کے سوالات سے بے نیاز ہیں لیکن مخالفین اس سلسلہ میں مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں لہذا ہم مجبور اس سوال کے جواب کے خواہاں ہیں۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے۔
آپ نے جواب میں فرمایا: یقیناخود آپ (سلام اللہ علیہ)نے فرمایا کہ یقینا میں نے خروج کیا ہے اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے۔ اور اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میں نے قیام کیا ہوں امر بالمعروف یعنی اچھائیوں کی طرف دعوت دینے کے لئے اور نہی عن المنکر یعنی برائیوں سے روکنے کے لئے۔ مزید آپ فرماتے ہیں کہ اس بات میں شک نہیں کہ فسق و فجور کھلم کھلا اعلان اور وہ بھی خلیفه رسول کے عنوان سے ، اسلام اور مسلمانوں کے لئے عظیم خطرہ ہو چکا تھا۔ پس امام حسین اس کے خلاف قیام کے لئے مجبور ہو گئے ۔ کسی بھی غیر مسلم کی طرح کہ وہ سرکش اور طاغوت کےخلاف قیام کرتا ہے اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ وہ طاغوت اس کے قتل کے درپے ہو جائے تو پھر وہ انبیاء اور مر سلین کی سنت کو اپناتا ہے کہ جنہوں نے ظلم و طغیان و کفر اور منکرین حق کے خلاف قیام فرمایا یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ سلام الله علیہم اجمعین ۔ *
(استعفاات: ۴۸۷، اسید السیستانی)
۴- حضرت آیت اللہ خمینی رحمت اللہ
اسلام کو کہ اب تک آپ دیکھ رہے ہیں، سید الشہداء علیہ السلام نے محفوظ رکھا ہے۔ خدا کی راہ میں اور اسلام کی تقویت کے لئے ظلم کے خلاف آپ نے قیام فرمایا۔ ہماری ملت ان مجلسوں کی قدر کو جانیں۔ ایام عاشورا کی یہ مجلسیں اسکی مجلسیں ہیں جو ہماری ملت کی حفاظت کرتی ہیں۔ ایام عاشورا کے علاوہ ہفتہ کے دنوں میں یہ ہمارے لئے جنبش و حرکت پیدا کرتی ہیں ۔ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہم ایک ملت گریہ (رونے والی ملت( ہیں۔ ہم ایک ایسی ملت ہیں کہ انھیں گریہ کے ذریعے ہم نے دو ہزار پانچ سو سالہ قدرت کو ختم کر دیا۔ **
**(صحیفہ نور ۱۶/ ۲۰۷-۲۱۰)
۵۔ حضرت آیت الله ناصر مکارم شیرازی (دام ظله العالی)
یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ شعائر با عظمت حسینی، افضل شعائر اسلامی ہے جو کہ ائمہ علیہم السلام کے زریعے ہم تک پہونچا ہے اور شاید ابھی جلدی ہے کہ ہم عاشورای حسینی کو درک کریں اور اس کی گہرائی تک پہونچ سکیں۔
السلام علیک یا ابا عبد الله و رحمة الله وبركاته