شہر دمشق میں یزید کی شکست

(۱) فَقَامَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ عَلِی وَ قَالَتُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ صَلَّی اللہُ عَلَیرَسُوْلِہٖ وَ آلِہٖ اَجْمَعِیْنَ، صَدَقَ اللہُ سُبْحَانُہٗ ثُمَّ کَانَعَاقِبَۃَالَّذِیْنَ اَسَاءُ وَالسُّوْاءَ اَنْ کَذَّبُوْابِاٰیَاتِ اللہِ وَ کَانُوْابِہَایَسْتَہْزِؤُوْنَ۔
. پس اٹھی علی علیہ السلام کی بیٹی زینب علیھا السلام اور کہا تمام تعریفیں مختص ہیں رب دو جہاں کے لئے اور اسی کی طرف سے درود و سلام ہے اس کے رسول اور رسول کی تمام آل پر سچ کہا ہے اس ذات پاک نے کہ” پھر ان لوگوں کا انجام جنہوں نے برائی کی تھی براہی ہوا اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی آیتوں کو جھٹلایا۔ اور وہ ان کی ہنسی اڑایا کرتے تھے۔“
(سورہ روم، آیت۱۰)
(۲)کربلا کے میدان میں دس محرم الحرام کو ایک جنگ ہوئی تھی یزید ابن معاویہ اور حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ بہتّر جیالوں نے تیس ہزار کا مقابلہ کیا تھا۔ نماز صبح سے شروع ہوئی اور سورج ڈھلتے ڈھلتے جنگ ختم ہو گئی۔حسینی خیمے جلادیئے گئے۔ لاشیں پامال ہو گئیں۔
(۳) یزیدی لشکر میں فتح و ظفر کے نقارے کے تیس ہزار کے لشکر میں ہزاروں نے مرگ خوفناک کا چہرہ دیکھا اور باقی لشکریوں نے خیمہ گاہ حسینی سے لوٹا ہوا اسباب ہزاروں میں تقسیم ہوا ہوگا لے گئے جو جسکے ہاتھ جو لگا۔
(۴) یزیدی لشکریوں ، سرداروں کے خیموں میں چراغاں کا اہتمام ہوا۔ ادھر چراغ سبط پیمبر خاموش ہو گیا۔ ایک وارث قرآن بیمار بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ، ۳۸ بچّے سہمے، پیاسے مقیم، خاموش نیم جان اپنی ماؤں کی گود میں بیٹھے ہوئے۔
(۵) بی بیاں خاک بر چادریں سر پر نہیں، جلے ہوئے خیمہ کے قریب مشغول عبادت اور سائیں سائیں کرتی ہوئی رات کا سناٹا۔ جناب زینب اور ام كلثوم اس شکست خوردہ شام میں پہرہ داری پر مامور ہیں۔ ایک طرف فتح و ظفر کا شور اور عیش و طرب کے قبہتے دوسری طرف کرب۔ آہ۔ خاموشی بھی فراز آسانی سے باتیں کرتی ہوئی نگاہیں کبھی زمین پر چھائے ہوئے، سکوت پر جمی ہوئی نظریں۔
بہ آمنے سامنے کا منظر نہ کبھی کسی زمانہ میں نہ کسی جگہ پایا گیا ہے نہ دیکھا گیا ہے۔ نہ سنا گیا ہے اور نہ کبھی سنا جائے گا۔ دیکھیں اس شکست نے اس قلت کے ساتھ اتنی بڑی کثرت کے سامنے جو رونما ہوئی ہے رفتہ رفتہ کربلا سے دمشق تک پہونچتے پہونچتے مع عاشور سے عصر عاشور تک ہونے والے حادثہ نے کیسے کیسے بھر پور طمانچے یزید کے منہ پر مارے ہیں۔ کس طرح اس کے لشکر نے ذلت و رسوائی کا منہ دیکھا ہے۔ کیسے پایہ تخت دمشق میں یزید کی اس نام نہادت نے اپنے ہاتھوں سے خود اپنے منہ پر طمانچے مار رہی ہے اور اسی شکست نصیب فن کی رگ رگ سے جو خون قطره قطره ٹپکتا رہا وہی فتح یزید کے لئے دشنام بن کر رہ گئی۔ اور جسے شکست حسین کہتے ہیں اسکے کشف و کرامات اور اسکی جلوہ نمائی سے عرش و کرسی نے درود و سلام کے پیام زمین کربلا کو بھیجے ہیں۔
(۶) دنیا کی تاریخ میں نہ قدیم زمانہ سے لے کر آج تک اور نہ صبح قیامت تک ایسی شاندار عظمت مآب، کا ئنات پر چھا جانے والی تاثیر کی حامل، عقل و شعور کو جھنجھوڑنے والی، فکر کو پاکیزگی اور تقدس کا درس دینے والی انسانیت کے لئے سبق آموز سادات میں تہلکہ مچادینے والی اہل سادات کو غرق تحیر کر دینے والی وہ شکست ہے جو آئینہ دکھا رہی ہے آل بوتراب کی اسلام پر قربانیوں کا مصائب میں سلسلہ شکر خدا کا، اخلاق کی مظہر ہستیوں کے جذبے کا، ہوش و خرد کی روشنی میں تیر تلوار اور تبر کے سامنے ولایت کے معنی و مفہوم کی ڈھال بن کر ثابت قدم رہنے کا اس آئینہ حقیقت میں سب کچھ صاحبان انصاف کو دکھائی دے رہا ہے تو دوسری طرف یہ بھی دیکھئے کہ کونے سے پچھتر سال کا جوان حبیب ابن مظاہر اندھیروں کو چیرتاہوا حر اپنے بھائی، غلام اور بیٹے کے ساتھ آزادی کا کلمہ پڑھتا ہوا حسین کے قدموں میں آگرا ہے۔ سعید کے قرباں گاہ کی طرف جولاں قدم، جون غلام کے سیاہ چہرے پر سے ایک نور کے ساطع ہونے کی تمنا کو دولھا بنتے دیکھنا، یہ سب اس آئینہ حقیقت میں دکھائی پڑ رہا ہے یہ وہی شکست ہے جو کربلا میں جاکر جلوہ گر ہوئی تو اپنے اور غیروں نے سب نے دیکھا یہ آسماں جناب شکست ہے۔ اسی شکست کے عنوان کے تحت انبیائے ماسبق کے ماتھے سے ٹپکتے ہوئے پسینوں سے ان کے استعجاب کی داستانیں لکھی گئیں۔ اور اوصیاء کے صبر و استقلال کی ثبات قدمی نے قلم کو قرطاس پر جنبش تحریر حق گوئی کا حوصلہ دیا۔
(۷) معاویہ کی گہری سیاست اور اس کی زندگی کے آخر لمحہ پہلے یہ دیکھیں محاسبہ کریں نظر میں رکھ لیں کے یزید کون اور کیسی سلطنت کا بادشاہ تھا۔ پھر دیکھیں دمشق جو شام کا پایہ تخت تھا اور یزید ابن معاویہ بادشاہ وقت تھا۔ اس کی شکست کے اسباب کیسے پیدا ہوئے ۶۰ھ معاویہ ابن ابو سفیان کی فتنہ انگیز زندگی کا آخری سال تھا۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ معاویہ کی بادشاہت میں سیاسی داؤں پیچ پر اسلام کا لیبل ضرور تھا مگر حکمت عملی راہوں کے دانشور سر جان (Sir John( کے مشوروں کے تحت تھی۔ آج بھی وہابی تبلیغات کے مرکز کی اساس اسی فکر کے تحت ہے۔ راہوں کا نظام حکومت گرجا گھر کے پاؤں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ قوم بڑی چالاک خون آشام، دوررس ایسے سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت اسلام دشمنی کی طرف ہر ممکن اقدام میں مصروف کار رہتی تھی جس کی مثال ساری دنیا میں قائم ہے۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی شہرت، پیش قدمی اور انسانیت، شرافت، اخلاقیات اور فلاح و بہبود عامہ کے تانے بانے سے بنی ہوئی تہذیب جس کا مدار آسمانی سلسلوں اور ولایت معصومین علیہم السلام کی رہبری، ہدایت اور قرآن مجید کی آیتوں کی روشنی میں روئے زمین پر پھیل رہی تھی کب بھلا ابل راہبان اسے ہضم کر سکتے تھے۔ معاویہ کے دور میں انھیں اپنی تہذیب اور کلچر اور انداز فکر عامه پر اثر ڈالنے کا موقع اچھا ملا اور اچھی طرح فراہم ہوا۔ میدان مباحلہ سے لے کر جنگ نہروان تک کے عوام ان کے سامنے مشاہدہ اور عمل کے لئے موجود تھے۔ چنانچہ مالک اشتر کی شہادت عمرو عاص نے ایک راہب کی وساطت سے انجام دیا۔ معاویہ امور سلطنت کے چڑھاو اتار اور سیدھے سادھے مسلمانوں پر اپنی حکومت کی حدوں کو عرب کے بڑے خطے میں وسعت دینے کے لئے انھیں عیسائیوں کے دانشوروں سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اس لئے اپنی حیات میں دیکھا تھا کوفہ ایک ایسا شہر ہے جہاں علی علیہ السلام نے اسلام کی الوہی تہذیب اور معصوم چہروں کی قیادت کے آثار و برکات پیدا کر دیتے تھے۔ اور ولایت کا سبق رحبا کے میدان میں ایک بڑے مجمع میں دہرایا تھا۔ اس شہر میں معاویہ کا اثر زائل ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ حرام حلال کی پہچان اور شراب نوشی جیسی منحوس چیزوں سے پر ہیز ، عبادت، قرآن کی تلاوت اس کی تفسیر، زنان کوفہ میں حضرت زینب کی سیرت اور تعلیمات اہل بیت کا درس عام ہو رہا تھا۔
شہزادی زینب کبری علیھا السلام کا وہ خطبہ جو دربار یزید میں دیا تھا اُسے یہاں ٹھر کر کے اس لئے دے رہا ہوں کہ قارئین اندازہ لگائیں کہ شہزادی کی تقریر میں فصاحت و بلاغت علمی کس پایہ کی تھی اور آپ کتنی شجاع اور حالات کے مد مقابل کس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ اور آپ کی تبلیغات کوفہ میں علمی اور اخلاقی درس دیتے وقت کیسی محیر العقول رہی ہوں گی۔ اس سے آپ کی سیرت کی ایک ہلکی سی جھلک جو سامنے آجاتی ہے۔
(۸) اے یزید ! کیا تو نے زمین و آسمان کے راستے ہمارے لئے اس طرح بند کر دیئے ہیں کہ کہیں بھی ہمارے لئے راستہ نہیں ہے۔ اور ہم جہاں بھی ہوں گے تیرے قیدی نظر آئیں اور تو اس ظاہری غلبہ کو اپنے لئے اللہ کے نزدیک عزت اور ہمارے لئے ذلت تصور کرتا ہے۔ اور تو متکبر ہو کر اپنی ناک لمبی کئے بیٹھا ہے اور خوش ہو رہا ہے کہ یہ دنیا صرف تیرے اختیار میں ہے اور تیرے کاموں کے لئے بنائی گئی ہے۔ اسی لئے ہماری مملکت و حکومت کو اپنی ذاتی اور دائی جاگیر سمجھنے والے کیا تو الله تعالی کا فرمان بھول گیا ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْکَفَرُوْا اِنَّمَا نُمْلِیْلَہُمْخَیْرٌلِاَنْفُسِہِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْلَہُمْلِیَذْدَادُوْا اِثْمًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْن۔
(آل عمران)
اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو کافر ہوئے کہ ہم جو ان کو ڈھیل دیتے ہیں وہ ان کے لئے ماسوا اس کے نہیں ہے کہ ہم انہیں اس لئے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ یہ گناہ اور بڑھائیں اور ان کے لئے ذلت دینے والا عذاب ہے۔
پھر ہم اپنے مقصد کی طرف قارئین کو متوجہ کرتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جب یزید بر سر اقتدار آیا تو اس کو کوفہ کی فکر لاحق ہوئی۔ روایت ما سبق کے تحت اس نے سر جان جو معاویہ کے زمانہ سے مشیر کار تھا طلب کیا۔ اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ سر جان نے معاویہ کا تحریر کردہ ایک وصیت نامه یزید کو دیا جس میں یہ تحریر تھا کہ جب کوفہ میں انتشار پیدا ہو اور لوگ حکومت کے خلاف پرچہ کرنے لگیں تو ابن زیاد کو بصرہ کے ساتھ کوفہ کی بھی امارت و اسارت دیدینا۔ وہ اپنے ظلم و استبداد اور سیاسی حربوں اور عوامل کے ذریعہ اپنے قابو میں لے آئے گا۔ یہ معاویہ کا ہدایت نامه یزید کے زیر نظر رہا۔ اس نظریہ کے تحت اس نے عبید اللہ کو مطلع کیا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ آل ابو سفیان کا بھر پور انتقام آل ابو تراب سے لیا جائے جسکی فرد فرید حسین بن علی ہیں۔ تاریخ مدینہ دمشق،۔۔۔تاریخ ابن الوردی، معجم الکبیر، سیر تواریخ مندرجہ بالا آئینہ داری کرتی ہیں کہ گو جملے اور بیان میں اپنی ادائیگی کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن سب نے اسی متن اور مطالب کو زیر قلم لانے کی کو شش کی ہے۔ آلوسی، بلاذری، طبرانی نے وہ خط جو یزید نے ابن زیاد کو لکھا ہے اسے بھی نقل کیا ہے حسین اپنے قافلے کے ساتھ کوفہ کی طرف حرکت کررہے ہیں۔ یہ تیری ذمہ داری کا امتحان ہے اگر حسین کو قتل کر دیا تو پھر تو اور منصب دار قرار پائے گا اور محترم ہوگا ورنہ تو وہی گمنام ہے وقعت اور ولد الزنا قرار پائے گا۔
راقم الحروف کے نزدیک یہ کہنا کہ یزید ابن معاویہ ابن ابوسفیان معمولی فراست یا عقل نماشہ نکرہ کا حامل تھا۔
وہ فقط اوباش اور فاسق اور فاجر ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس کے ساتھ اس نے محرمات کے ساتھ بد کاری کی اس نے حرام و حلال کی پہچان مٹادی یہ سب خباثت اس پر جہاں منتھی ہوتی ہیں وہیں معاویہ کے طرز حکومت اس کے عقیدہ اور مقصد کو بھی خوب جانتا تھا۔ اس واقعہ کربلا کے حادث ہونے کے پس منظر میں طاقت اور ابلاغ باطلہ کی زبردست گرفت کا اسے پورا یقین تھا شام میں جمعہ کی نماز اگر بدھ کو پڑھادی جائے تو کوئی ہنگامہ بر پانہ ہوگا۔ علی علیہ السلام کی نسبت مرسل اعظم سے اگر اذہان شامیان سے مٹادی جائے تو کوئی تعجب بات نہ تھی۔ کربلا کے حادثہ کے پیچھے خود عرب اور عجم تک پھیلی ہوئی سلطنت کی ہی طاقت نہ تھی بلکہ یہودی اور عیسائی کے دماغ کے بھی عوامل پوری طرح اسلام دشمنی میں شامل تھے۔ یہ اتنی بڑی مہم اس اعلان کے مقابل میں تھی۔
مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُولِ وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ یا اتباع خدا اور رسول اور اولی الامر یا مودت اہل قربا یا اسکی اطاعت کرو جو حالت رکوع میں ذکات دے۔ تقریبا معانی و مطالب ابلاغ باطلہ کے ذریعہ جب ذہن سے محو کر دیئے گئے یا آسمانی کتاب نیزوں پر بلند کرنے تک حرمت کو رکھ دیا گیا تھا اس وتت مطالبه سر حسین وجود میں آیا اور امام حسین علیہ السلام نے اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کربلا میں کیا تھا۔ ورنہ یزید کی کیا مجال تھی کہ وہ بھرے دربار میں کہنے کی جرأت کرتا نہ کوئی وی آئی نہ کوئی دین یہ تو بنی ہاشم کا رچایا ہوا کھیل تھا۔ امام حسین علیہ السلام یزید کے اسی نشہ کو اس کے بھرے دربار میں اس طرح اتارا کہ اسکے سامنے جہنم کے آگ کی لپٹیں اور اس کے شعلوں کی لپکیں اسی دنیا میں دکھائی دینے لگی تھیں۔ وہ اسباب و علل جو یزید کے پاس تھے اس کا تفصیلی جائزہ وہی لے سکتا ہے جو اپنے اور غیروں کی تواریخ کو بہت غور سے پڑھے اور بین السطور میں چھپے رازوں کو درک کرے( آیئے دیکھیں دمشق میں کیسے یزید کی فتح اسی کے لئے شیشہ کے چکنا چور ٹکڑوں کا بستر بن گئی۔
ا۔ ہلچل شهر دمشق میں: جیسے ہی قافلہ اسیران کربلا شہر دمشق پہونچا اسے بیرون شهر روک دیا گیا۔ یہ علم یزید کی طرف سے نشر کیا گیا کہ شہر میں آئینہ بندی کی جائے گھر اور دوکانوں کو سجایا جائے۔ ابھی کچھ لوگ سجاوٹوں اور آرائشوں میں مصروف ہی تھے کہ قافله اسیران کربلا اور سرہائے شہیدان کربلا شهر دمشق میں داخل ہوا قافلہ کے ساتھ سہیل صحابی رسول، سلیم کوفی اور حمیدہ بنت حبیبہ بھی چل رہے تھے۔ ان لوگوں نے وہاں کے ان افراد سے اس طرح دریافت کیا یہ مصیبت زدہ قافلہ جس میں بچے ہیں اور عورتیں ہیں اور بیمار زنجیر میں جکڑا ہوا ایک جوان ہے کون ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا خلیفہ یزید کے خلاف ان لوگوں نے خروج کیا۔ جب لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ یہ نبی زادیاں ہیں جو رسن بستہ ہیں اور یتیم بچے آل محمد علیہم السلام اور اصحاب امام حسین علیہ السلام ہیں۔ وہ جوان جسے زنجیر پہنائی گئی ہے نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کا فرزند علی این حسین علیہ السلام ہے تو یہ خبر ایک طرف دوسری طرف مرسل اعظم کی سیرت کے مرقعہ جو پایہ زنجیر اور رسن بستہ تھے اور طفلان یتیم کے گرد سے اٹے چہرے تھے یعنی ایک انقلاب کی لہر دوڑ رہی تھی۔ وہ بے خبر اور شکم پرور شامی جوان جن کی ایک بڑی تعداد ہے جو کربلا میں بہتر جیالے شہیدوں کے ہاتھ واصل جہنم ہوئے تھے ان کے گھر میں چراغاں کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ دوسری طرف کوفہ میں بے چینی ، طلا طم، نوحہ خوانی ہر گھر میں ہی تھی جبکی خبر شام پہونچ رہی تھی۔ تبلیغات باطلہ عوام میں چاہے جتنا ڈھول پیٹ کے نظریات میں تبدیلی کی سیاسی اس وقت چھٹ جاتی ہے جب تاثرات و برکات کے زبردست عوامل کا غلبہ ہوتا ہے۔ تمام سفر میں صبح ہوتی تھی مایوسیوں کا لباس پہنے ہوئے۔ دوپہر ماتم کرتی ہوئی سہ پہر ڈھلتی تھی دل کی رگوں کو توڑتی ہوئی اور ان کیفیات شب و روز میں تماشائیوں کا ہجوم جس میں علی علیہ السلام کی شیر دل بیٹی کی مناسب جگہ رک رک کر مقصد شہادت حسین اور حسین علیہ السلام کی نسبت رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی نوارانی خلقت اور منشاء الہی سے وہ منزلوں کا فراہم ہونا جہاں حضرت عابد علیہ السلام سے آیہ مودت کا نزول مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کے لئے ہوا تھا۔ حفاظت دین کو اخبث کے مکر و فریب اور باطل کی چالاکیوں اور خونریزیوں کے باوجود بچا کر نکالکر لانا یہ مشیت خداوندی تھا جہاں سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۲ کہ اللہ کے نور کو پھو نکو سے نہیں بجھا سکتے
وَ یَابَی اللہُ اِلَّا اَنْ یُّتِمُّنُوْرَہٗ وَ لَوْکَرِہَالْکَافِرُوْنَ۔ اور یہی وہ مقامات ہیں جہاں اولی الابصار، اولی الابرار، صالحین، مومنین، عبادت گذاران اور معرفت الہی کی طرف متوجہ انصاف کرنے والے افراد اللہ کی قدرت اسکا قادر مطلق ہونا۔ اسکی ذات با صفات کے قائل ہو جاتے ہیں مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ورنہ کیسے سمجھ میں آتا اجتماع ضدین محال اور بشری طاقتوں کے لئے ناممکن ہے لیکن ممکن الوجود کے لئے ممکن ہے محال نہیں ہے۔ خدا کہتا ہے ہم ان بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے جو کمزور کر دیئے گئے ہیں سابق انبیاء علیہم السلام سے لے کر ختم المرسلین تک ہر عہد میں حکومت اور بادشاہت کے تاجوں کو تنہا اللہ کے فرستادوں نے صبر و استقامت، راستی، ارتقا اور ابلاغ میں سے انھیں کے سروں پر توڑ دیا آتش نمرود کا گلزار ہونا۔ فرعون کی داڑھی پکڑ کر ایک شیر خوار بچے کا زبردست طمانچہ مارنا اور محفوظ رہنا یہ سب انبیاء کے معجزات اگر جمع کئے جائیں جہاں نہ ممکن ممکن نظر آئے۔

امام حسین کے سر بریدہ کا قرآن کی تلاوت کرنا
امام حسین علیہ السلام کا سر بریده جو نیزہ پر نصب تھا اسکا اصحاب کہف کی آیت ۹ (اے رسول! کیاتم نے جانا کہ اصحاب کہف ورقم ان آیتوں کے مقابل میں ایک عجیب واقعہ ہے) تلاوت کرنا اور کوئی ایک مرتبہ نہیں بلکہ تمام سفر میں اور دربار میں یعنی مشیت الہی تھی کہ خوب اچھی طرح پہچان لو کو یہ حسین وہ ہے جس سے رسالت بالغہ کا خورشید طلوع ہو کر غروب نہیں ہو گا اگر اس معجزہ کے بعد بھی آنکھ نہیں کھلی تو عاقبت جہنم کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ چنانچہ کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کا سفر ، دربار ابن زیاد (لعن ) سے لے کر دربار یزید تک یہ کشف کرامات بلاغ مبین کی آسمانی طاقت سے بے خبری اور غفلت کے پردوں کو پٹا رہے تھے اور پھر اگر یقین نہ آئے تو خدا نے تو کہہ ہی دیا ہے کہ ان آنکھوں پر آہنی پردے ڈال دیئے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ یہ روایت صرف علمائے شیعہ جیسے شیخ الطائفہ علامہ طو سی، علامہ مجلسی شیخ صدوق نے ہی نہیں بیان کیا ہے جس کی بنا پر دشمنان اہل بیت علیہم السلام یہ کہیں کہ اپنی طرف بر بنائے عقیدت سست روایت کو قلمبند کیا ہے۔ بلکہ تمام علمائے کبار اہل سنت جیسے طبری، مصنف تاریخ مدینہ دمشق، تفسیر ابن کثیر سیوطی، ابن حجر نے اپنی تاریخ میں سب نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور عقل کے مارے امت مسلمہ کے عوام صرف تعجب سے منہ کھول کر سن لیتے ہیں لیکن وہ یقین نہیں کرتے۔ سچ ہے دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور علامہ اقبال کا یہی رونا تھا کاش مسلمان بھی ایک ہوتے۔ علامہ موصوف نے اپنی وصیت میں اپنے عقیدہ کی وضاحت کر دی کہ وہ ایک سنی مذہب کے فرد ہیں اور وہی شہادت امام حسین علیہ السلام( پر نوحہ گر ہوتے ہوئے لکھتے ہیں نقش الا الله ہر صحرانوشت سطر عنوان نجات مانوشت۔ الغرض نے یزید کو جسے امام حسین علیہ السلام کی شکست کہتے ہیں اس طرح رسوا اور ذلیل کیا ہے کہ اس کی سیاہ روئی کو لاکھ چھپانا چاہیں لیکن چھپائے نہ بنے گا۔ صاحبان عقل و انصاف اگر اپنی عقلی اور منصفانہ صلاحیتوں کو طاق نسیاں میں ڈالدیں تو بقول غالب اسے کیا کہئے؟ چار واقعات و حادثات جو تاریخ میں روز روشن کی طرح نمایاں ہیں بڑی دیدہ دلیری خودرائی اور فکر کی معصی بت زدہ اَپچ کے ساتھ بغیر کسی مضبوط سند کے مٹانے کی کوشش میں صاف صاف صاف منکرین میں آکر کھڑے ہو گئے ہیں۔ شبلی نے واقعہ قلم و قرطاس کے متعلق لکھا کہ واقعہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔ سید ابوالحسن ندوی نے المرتضی میں مولائے کائنات کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی اقرار کے ساتھ اس کی فضیلت کو فضیلت امیر المومنین قرار نہ دیتے ہوئے انکار کرتے ہیں اور ایک گھسی پٹی اور کی ولادت کا ذکر کرتے ہیں جس کا جواب نہایت مضبوط دلیلوں کے ساتھ ادیب الہندی طاب ثراہ نے اپنی کتاب ”امام علی“ میں نہایت واضح طور پر دیا۔ خدا ابن تیمیہ کو نہ بخشے اور بے شک بھی نہیں بخشے گا جس نے دو واقعہ کو پس پردا ڈالنے کی کوشش کی۔ (الف( واقعه غدیر کو جس کے متعلق لکھتا ہے کہ یہ حدیث غدیر آدھی ضعیف ہے اور آدھی باطل ہے۔
(ب) واقعات اور حادثات جو در بار یزید دمشق میں گذرے جس کے لئے وہ کہتا ہے کہ اسیران کربلا اور سرہائے شہدان کربلا دمشق میں لائے ہی نہیں گئے۔ اگر ایسا ہے تو وہ سب تاریخیں سیکھیں جو سنی علماء نے لکھی ہیں انھیں ان کے قلم فکر اور حق شناسی کے منظر کی حیثیت سے نذر آتش ان کے وجود کے ساتھ کیوں نہیں سمجھتے۔
خلاصہ: مندرجہ ذیل عوامل وہ بھر پور اسباب و علل فراہم کرتے ہیں جن سے یزید کی فتح کو اسلام کی بیخ کنی کی سعی لاحاصل کی بنا پر ایسی شکست فاش محافظان اسلام نے دی ہے جو آغاز سال اسلامی کے دس روز تک بہ بانگ دبل آج چودہ سو پر کیسے منائی جاتی ہے۔ اور یزید و حامیان یزید اور خائن اور نام نہاد علماء کے شور و غوغا کو ان کے گلے کی ہی پھاسی بناکر ڈال دی جاتی ہے۔
ا۔ امام حسین علیہ السلام کا سر بریده نیزے پر بلند ہو کر اصحاب کہف کی تلاوت کرنا۔
۲۔ خطبہ امام سجاد علیہ السلام خطبہ جناب زینب کبری علیھا السلام
۳- امام سجاد علیہ السلام کا استدلال قرآن کی آیتوں کے ساتھ۔
۴- اقامہ عزا و نوحہ، شہزادیوں کے ساتھ زنان دمشق کا۔
زمانہ گزرتا گیا۔ ایک صدی اپنے آثار و برکات، حادثات و واقعات، ابتلا اور امتحان کی وہ داستان جو کربلا میں ۶۱ھ کے شروع ہوتے ہیں وقوع پذیرای کی تھی ہر سال اس کا غم ، اس کا درد، اس کی کراہتی ہوئی دلسوز آوازیں تمام گوشہ ہائے عالم ماه محرم کے آغاز میں سنائی دینے لگتی ہیں۔ اور کیوں نہ ہو فرزند حسین امام عصر علیہ السلام غیبت میں معلوم نہیں کتنے راز ہائے سربستہ کا امین ہے جسکے سر فہرست برناموں میں انتقام خون حسین جلی حرفوں سے درج ہے اور ہر سال وہ اپنی تمام سوگواریت کے ساتھ تمام عزاداروں کا پرسہ قبول کرتا ہے۔ اس کی خلافت الہیہ کا دربار سجا ہے۔ ایسالگتا ہے کہ جب قصر یزید میں اس وقت کا ذکر آیا ہوگا تو ہر سال آپ کے دربار میں کہرام مچ جاتا ہوگا۔ وہ کون سا وقت ہو گا قارئین کرام کبھی دل تھام کر سن لیں۔ جب سر امام حسین علیہ السلام قصر یزید میں لایا گیا تو اس سر مبارک کو عاتکہ بنت یزید اور مادر یزید ابن عبد الملک نے اس سر کو دھویا۔ اور خوشبو لگائی اور بچوں اور بیبیوں نے اس کی زیارت کی ام المصائب عاقلہ بنی باشم پیکر صبر ورضا نے بھائی کے رخسار پر اپنا رخسار رکھ کر جب گریہ کیا ہوگا تو کیا دلسوز منظر رہا ہو گا۔ یا اللہ میرے ولی اور سرپرست امام کے سامنے جب وہ واقعہ آئے تو اپنی کبریائی کے صدقے میں ان کی نصرت فرمانا اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرہا۔