اسرار الشھادة کی انفرادیت

امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک ایسی شہادت ہے جس سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہوا اور اس وقت سے لیکر آج تک دنیا میں جتنے انقلاب آئے ہیں۔ اگر گہرائی سے انہیں ٹٹولا جائے تو کہیں نہ کہیں ان کی تہوں میں امام حسین علیہ السلام ملنگے جن کی فکر اور مشن سے لوگوں میں حرکت پیدا ہوئی جسکے نتیجہ میں انقلاب آیا۔ یہی وجہ ہیکہ دنیا کی ہر قوم امام حسین علیہ السلام کے انقلاب سے آشنا ہے۔ اور ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ اس موضوع لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ اس بات کی دلیل کے لئے یہی کافی ہے کہ سینکڑوں کتابیں تو خاص طور سے عاشورہ سے متعلق مقتل کے عنوان سے لکھی گئی ہیں اور ہر ایک کتاب اپنی جگہ کچھ نہ کچھ انفرادیت و خصوصیت تو رکھتی ہی ہے۔ لیکن زیر نظر مضمون ایک ایسی کتاب کے تعلق سے ہے جو صرف ایک مقتل یعنی امام حسین علیہ السلام اور انکے اعوان و انصار پر عاشور کے دن گذرنے والے واقعات سے نہیں ہے بلکہ فقہی، اصولی، عقائد کی ، تار سینی، روائی، رجالی، عرفانی و غیر ہ ایک ہی وقت میں ہے۔ کیونکہ اس کتاب کے مصنف نے اس کتاب کو مجلسوں پر لکھا ہے اور اس کے شروع میں بارہ مقدمے تحریر کئے ہیں۔ اور ہر مجلس کے ذیل میں کچھ ایسی باتیں تحریر کی ہیں جو مجلس میں ذکر کی گئی باتوں کے لئے دلیل اور تائید ہے، یا پھر ان باتوں کی علت اور وجہ ہے یا پھر اس کا پس منظر بیان کیا ہے اور ان سربستہ راز سے پردہ اٹھایا ہے جس کے لئے یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ یہ صرف صاحب کتاب کی خصوصیت ہے۔ کیونکہ صاحب کتاب صرف مورخ، خطیب توانایی نہیں تھے بلکہ ایک فقیہ، ایک مربع، محقق، مختلف علوم کے ماہر شخص تھے۔ اور اس بات کا اعتراف خود آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الطبقات اعلام الشیعہ میں اسطرح کیا ہے عالم تبحر ، حکیم بالغ فقیہ فاضل ، رجالی محدث۔
قارئین راقم الحروف نے جب اس کتاب کو مطالعہ کرنے کے لئے اللہ کی توفیق سے اپنے ہاتھوں میں لیا تو اس کتاب کے مطالب نے کچھ اس طرح جذب کر لیا کہ کتاب کی پہلی جلد کا مکمل مطالعہ ہو گیا لیکن دل میں کتاب میں موجودہ راز جاننے کی چاہ دوگنی ہو گئی اور دل میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی کہ جن چیزوں کو ہم بہت ہلکے انداز میں لیتے ہیں حقیقت میں ہمیں اس کے لئے دل و جان سے کوشش کرنی چاہئے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ قارئین اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے آیئے آپکو کتاب کی انفرادیت سے روشناس کراتے ہیں۔ پہلا مقدمہ ان اسباب کے بیان میں ہے کہ کیوں اللہ تعالی نے ائمہ کو دشمنوں کے شر سے نہیں بچایا اور انہیں قتل ہونے دیا۔ یا دوسرے لفظوں میں کیوں حسین علیہ السلام شہید ہو گئے اور اللہ تعالی نے انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ نہیں رکھا۔
مقدمہ مجلسی کا جواب : علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ائمہ کو شہید ہونے سے، ظالموں کے ظلم سے ، اور ائمہ کا مصیبتوں میں گھرے رہنے کی علت کے بارے میں ، کتاب کمال الدین اور احتجاج اور علل الشراع میں اس طرح ہے کہ محمد ابن ابراہیم اسحاق الطالقانی کہتے ہیں ہم شیخ ابو القاسم ابن روح کے پاس ایک گروہ کے ساتھ تھے جس میں علی ابن عیسی القصری بھی تھے۔ ایک شخص کھڑے ہو کر حسین ابن روح سے کہتا ہے کہ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا جو سوال پوچھنا چاہتے ہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا مجھے بتایئے کیا امام حسین علیہ السلام اللہ کے ولی اور حجت نہیں تھے؟ انہوں نے جواب دیا بیشک تھے۔ پھر اس نے سوال کیا۔ کیا ان کا قاتل الله کا دشمن نہیں تھا؟ انہوں نے فرمایا: بیشک تھا۔ اس شخص نے اس وقت کہا: کیا یہ مناسب اور جائز ہے کہ اللہ اپنے دشمن کو اپنے والی پر مسلط کر دے؟ ابو القاسم حسین ابن روح نے فرمایا :
غور سے سنو جو میں کہنے جارہا ہوں۔ بے شک اللہ تعالی لوگوں کے سامنے آکر مخاطب نہیں کرتا ہے۔ اور نہ ہی کسی سے گفتگو کرتا ہے بلکہ اللہ نے انبیاء اور رسول کو انکے در میان اور انہیں کی صنف سے اور اُنکے جیسا بشر بناکر بھیجا۔ اگر اللہ ایک الگ قسم کی مخلوق کو نبی بناکر بھیجتا تولوگ بھاگ جاتے اور ہر گز قبول نہیں کرتے۔ اور جب انبیاء انسانی پیکر میں آئے کھانا کھاتے اور بازار میں جاتے تو لوگوں نے انبیاء سے کہا: آپ ہماری طرح ہیں ہم اس وقت تک آپکو تسلیم نہیں کریں گے یہاں تک کہ آپ ایسی چیز پیش کریں جسے ہم جیسے لوگ نہ لا سکیں تو ہم جان جائیں گے کہ آپ اللہ کے مخصوص بندے ہیں اور ہم نہیں ہیں۔
پس اللہ نے انہیں معجزات عطا کئے جسے خلق پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ایک مختلف اشیاء اپنے زمانے کے لحاظ سے الگ الگ معجزات لیکر آئے۔ میں آج بھی اپنی قوم کو ڈرانے کے بعد بد دعا کرتے ہیں اور طوفان سارے ظالموں اور سرکشوں کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ اور کچھ انبیاء کو آگ میں ڈالا گیا اور آگ گلزار بن گئی۔ اور کچھ نے سخت پتھروں سے اوٹنی پیش کیا اور اس کے پستان میں دودھ پیدا کیا اور کچھ نے سمندر کا سینہ چاک کر کے راستہ بنایا اور پھر سے پانی کا چشمہ جاری کیا اور کچھ نے اندھے کو روشنی اور مبروص کو شفا دیا اور مردوں کو اللہ کی اجازت سے زندہ کیا۔ اور کچھ نے چاند کے دو ٹکڑے کیے اور جانوروں جیسے بھیڑے اونٹ وغیرہ سے بات چیت کی۔
اور جب اس طرح کے معجزات لائے اور لوگ اس طرح کے معجزات پیش نہیں کر سکے تو اللہ تعالی نے اپنے لطف و کرم اور حکمت و تقدیر سے انبیاء کو اپنے بندوں پر غلبہ عطا کیا اور اس لحاظ سے وہ ہمیشہ کامیاب رہے۔ اور دوسرے حالات میں اللہ نے انہیں مغلوب قرار دیا۔ اور اگر تمام حالات میں انہیں غلبہ اور کامیابی عطا کرتا اور انہیں مصیبتوں میں اور امتحان میں مبتلا نہ کرتا تو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنا خدا مان لیتے اور بلاؤں میں صبر کی فضیلت و رتبہ اور امتحان میں کامیابی کا تصور ختم ہو جاتا۔
لیکن اللہ تعالی نے انبیاء اور اوصیاء کے حالات کو دوسرے لوگوں کے حالات کی طرح قرار دیا تا کہ وہ پریشانیوں، بلاؤں اور سختیوں میں صبر کریں، اور صحت و سلامتی اور دشمنوں پر کامیابی میں شکر کریں اور تمام حالات میں متواضع رہیں جابر اور ظالم نہ رہیں ۔ اور اللہ کے بندوں کو پتہ چل جائے کہ ان کا کوئی خدا ہے اور وہی ان کا خالق و رازق ہے اور وہی انکی تدبیر کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی عبادت کریں اور اسکے رسول کی اطاعت کریں۔ اور اللہ کی حجّت ان لوگوں پر تمام ہو جائے جو ان پر ستم کریں یا ان کے لئے ربوبیت کا دعوی کریں، یا ان سے دشمنی، مخالفت، انکار کریں جو اللہ کے رسول لیکر آئے ہیں۔ تا کہ جو لوگ ہلاک ہورہے ہیں وہ دلیل و برہان کے بعد ہلاک ہوں اور جو زندہ اور باقی ہیں وہ بھی دلیل و برہان کے ساتھ زندہ ر ہیں۔
محمد ابن ابراہیم ابن اسحاق کہتے ہیں: ایک دن کے بعد میں شیخ ابوالقاسم حسین ابن روح کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ کل جو انہوں نے کہا کیا وہ انہوں نے اپنے پاس سے کہا ہے۔ جناب شیخ حسین ابن روح نے اپنی طرف سے مجھ سے کہا اے محمد ابن ابراہیم اگر میں آسمان کی بلندیوں پر رہوں اور پرندہ مجھے اوپر سے پھینک دے، یا ہوا مجھے اندھی گھائی میں اڑالے جائے، یہ میرے لئے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں دین خدا میں اپنے دل سے کوئی بات کہدوں یا اپنا نظریہ بیان کر دوں۔
اور پھر اسی مقدمہ میں سنی عالم اور مفتی اردی سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں :- وہ کہتا ہے بڑے بڑے سردار علماء اور ہم میں سے کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں لوگوں کی آمد و رفت زیادہ تھی۔ اسی دوران ہمارے پاس سے ایک عجمی کا گزر ہوا۔ اور لوگ اسکو چھوٹا ہونے سے اور عوام الناس ہونے کی وجہ سے نہیں بلاتے تھے بیٹھے ہوئے اشراف نے اس کا مذاق اڑانا اور طعنہ دینا شروع کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا اے عجمی اور اے بیوقوف کیوں تم لوگ ہر سال محرم میں بچوں کی طرح کام کرتے ہو، اپنا سینہ کو ٹتے ہو اور مٹی اپنے سینے پر ڈالتے ہو یا روتے اور چلاتے ہو ، اور یا حسین یا حسین کہتے ہو۔
اس شخص نے پلٹ کر کہا جانتے ہو اس کا راز کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ اس نے کہا: کیونکہ یہ کام کرنا ہمارے لئے ضروری اور لازم ہے اس لئے کہ اگر ہم نے یہ کام چھوڑ دیا اور مدتوں چھوڑے رکھا تو تم لوگ کہنے لگو گے کہ: یزید لعین نے جگر گوشہ رسول و فاطمہ کو شہید نہیں کیا اور نہ ہی اس نے رسول کی بیٹیوں کو اسیر کیا بلکہ اس سے بڑھ کر تم لوگ کہہ دو گے کہ کربلا کا واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔
ان لوگوں نے کہا کیوں ہم ایسا کرینگے؟ اس نے جواب دیا اس لئے کہ ہم نے اسے پہلے اس کا تجربہ کیا ہے اور اپنی آنکھوں سے اس طرح کی چین میں بار بار دیکھا ہے۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کیسے ؟ اس نے جواب دیا بیشک اللہ کے رسول نے اپنے چچا زاد بھائی کو اپنا وصی۔ امیر المومنین سید الوصیين ، امام اور اللہ کے حکم سے خلیفہ بنایا اور یہ واقعہ حجتہ الوداع کے بعد غدیر خم میں پیش آیا۔ اور اس وقت کرنے کے لئے ستر ہزار سے زیادہ مرد حج کرنے آئے تھے اور یہ واقعہ سینکڑوں راستے سے تم تک پہونچا ہے اور تمہاری کتابوں میں موجود ہے، لیکن جب تم لوگوں نے دیکھا شیعوں نے تقیہ یا خوف کی بناء پر کچھ دنوں تک غدیر کا جشن نہیں منایا جو اسلام میں سب سے بڑی عید ہے تو تم لوگوں نے ہٹ دھرمی دکھایا، اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کی اور تقریر کے واقعہ کو سرے سے انکار کر دیا۔ اس لئے ہم ہر سال محرم مناتے ہیں، مجلس، نوحہ خوانی مرثیہ ، ماتم و عزاداری کرتے ہیں اور امام حسین کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں اور انکے قاتلوں پر لعنت بھیجتے ہیں تا کہ تمہارے دلوں میں اظہر من الشمس واقعہ کے انکار کرنے کی خواہش پیدا نہ ہو۔
جب ان لوگوں نے یہ باتیں سنی تو انکے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کپکپی طاری ہو گئی۔ چہرہ کا رنگ اڑ ہو گیا۔ شرم سے سر جھک گیا۔ اور نگاہیں زمین میں گڑ گئی۔ پھر ان لوگوں نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم یہ باتیں اس شخص کو اللہ نے یہاں پر الہام کیا ہے کیونکہ یہ ایک عام آدمی ہے اس کو علماء کی اصطلاحوں اور علمی مناظروں سے کیا سروکار ہے۔