اخلاق آلِ محمد علیہم السّلام مراثی انیس کی روشنی میں:

میر ببر علی انیس اعلی اللہ مقامہ کی شاعری اور ان کے مراثی کے متعلق ان کے دور سے لے کر آج تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ میر انیس نے اپنے مراسلے میں اخلاق آل محمد علیھم السلام پر کہاں تک روشنی ڈالی ہے اور انہیں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے، اس کا صحیح اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اخلاق آل محمد علیہم السلام کا تعین کسی حد تک حدود و بشریت کے اندر کر لیں۔ لیکن اخلاق آلِ محمد علیہم السلام کے تعین حدود سے قبل یہ امر اور بھی ضروری ہے کہ اخلاق کی تعریف اور وسعت اصول اور مبادیات کا بھی کم از کم ایک مبہم خاکہ ذہن میں موجود ہو۔ تاکہ آئندہ نتائج اخذ کرنے میں زیادہ دشواری نہ ہو۔
زمانہ، حالات، ماحول، طرز زندگی اور تمدن کا اثر تعین اخلاق پر زبردست ہوتا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ نوع انسان آپس میں معاونت کے محتاج ہیں اور معاونت بغیر جمعیت کے محال ہے تو اب انسان اپنی فطرت کی بنیاد پر جمعیت کا محتاج ہوا اور اسی جمیت کے رہن سہن اور طور طریقوں کو تمدن یا معاشرہ کی تہذیب کہتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ کسی مخصوص تمدن میں جو اخلاقی قدر معین ہے وہ دوسری جگہوں اور تمدن میں حدود اخلاق سے باہر ہوں لیکن بنیادی طور سے ہر دو کا نقطہ اشتراک ایک صحت مند اور غیر مفسد معاشرہ کی تشکیل ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فلم انشاء فرماتے ہیں کہ
بعثتُ لاتمم مكارمَ الاخلاق
میں اثبات رسالت پر مامور کیا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق کی تعلیم دوں اور حسن اخلاق کا نمونہ پیش کروں۔ قرآن کریم نے اس کا اعلان ان لفظوں میں کیا ہے۔
وانك لعلى خلقٍ عظيم
اور بے شک تم خلق عظیم پر فائز ہو۔
میر انیس کے مراثی میں اخلاق آل محمد علیہم السلام کے کن کن زاویوں کو پیش کیا گیا ہے اور اس میں انیسؔ کو کہاں تک کامیابی ہوئی۔ اس سلسلہ میں ہم چند عنوانات کے تحت انیسؔ کے کلام کے اقتباسات پیش کریں گے۔

۱) استقامت عمل
استقامت عمل بلندی حسن اخلاق کا آئینہ دار ہیں۔ آلِ محمد علیہم السلام نے معرکہ حق و باطل میں حق کا جو راستہ اختیار کیا تھا مصائب اور حوادث میں بھی ان کے استقامت عمل میں خفیف سی لچک بھی نہیں ملتی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام تین دن سے پیاسے ہیں، سب انصار و اعزا شہید ہو چکے ہیں، خود میدان جنگ میں تشریف لائے، دھوپ سے چہرہ مبارک کا رنگ سنولا گیا ہے۔ پیاس کی شدت سے زبان میں کانٹے پڑ گئے ہیں، پیاس کا بجھنا اور جان کا بچانا بیعت یزید پر موقوف ہے۔ بیعت سے انکار حسین علیہ السلام کے استقامت عمل کا پتا دیتا ہے۔ انیسؔ اس موقع پر فرماتے ہیں:

کہتا تھا ابن سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت کو کیجے اب بھی تو حاضر ہے جام آب
فرماتے تھے حسین کے اے خانماں خراب
دریا کو خاک جانتے ہیں ابن ابو تراب

فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آب بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں

۲) حسن سلوک
آل محمد علیہم السلام، حسن سلوک کی انتہائی بلندیوں پر فائز تھے اور ان کا یہ سلوک کسی کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ عام تھا۔ انیسؔ نے مختلف موقعوں پر اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام جب وطن والوں سے رخصت ہونے لگے تو ہر شخص کچھ دور مشایعت کے لئے جانا چاہتا تھا لیکن امام علیہ السلام نے اس خیال سے کہ وطن والوں کو زحمت ہوگی انہیں روکتے ہیں:

قسمیں انہیں دیدے کےکہا شہ نے کہ جاؤ
تکلیف تمہیں ہوتی ہے اب ساتھ نہ آؤں
اللہ کو سوپا تمہیں آنسو نہ بہاؤ
پھرنے کے نہیں ہم سے بس اب ہاتھ اٹھاؤ

اس بے کس و تنہا کی خیر پوچھتے رہنا
یارو میری صغری کی خبر پوچھتے رہنا

۳) سخاوت
آل محمد کی سخاوت کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ قرآن شاہد ہے خود فاقے کیے مگر سائل کے سوال کو رد نہیں کیا۔ سخاوت میں محمد و آل محمد علیہم السلام کو ایک نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے۔ حُرّ کی زبان سے امام حسین علیہ السلام کی سخاوت میر انیسؔ بیان فرماتے ہیں:

ان سے قطرہ کوئی مانگے تو گہر دیتے ہیں
ہیں سخی ابن سخی بات پہ سر دیتے ہیں
پیٹ سائل کا یہ فاقوں میں بھی بھر دیتے ہیں
یاں تو زر دیتے ہیں فردوس میں گھر دیتے ہیں

اپنے مجرم کے، گنہگار کے امید ہیں یہ
ذرہ پرور جنہیں کہتے ہیں وہ خورشید ہیں یہ

۴) مہمان نوازی
ہر دور میں مہمان نوازی کو بلندی اخلاق کی دلیل سمجھا گیا ہے۔ اگر دشمن بھی مہمان ہو تو اس کے ساتھ عوام بڑی مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ عرب کی مہمان نوازی تو دنیا میں مشہور ہے۔ مراثی انیسؔ میں نے آل محمد ﷺکی ان صفات کو انتہائی خوبی سے بیان کیا گیا ہے ہے۔
جب وہ لشکر یزید سے الگ ہوکر سپاہ حسینی کی طرف چلا، تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے اعزا اور رفقاء سے ارشاد فرمایا:

جاؤ لینے کو عجب رتبہ شناس آتا ہے
میرا مہماں میرا عاشق میرے پاس آتا ہے

جب حضرت حُرّ سپاہ حسینی میں پہنچے تو انہیں لینے کے لیے خود امام حسین علیہ السلام تشریف لے گئے ان کے آنے کے بعد۔

لائے اس عزت و حرمت سے جو مہماں کو امام
بولے عباس کمر کھول، اب اے نیک انجام
شہ نے فرمایا مناسب ہے، کوئی دم آرام
عرض کی حر نے، کمر خلد میں کھولے گا غلام۔

اور حضرت حُرّ کی لاش پر بین کے لئے اپنی بہنوں سے جس طرح گریہ کے لئے فرمایا وہ عین مقتضائے مہمان نوازی بلکہ اس سے کہیں ارفع ہے۔

شاہ چلّائے کہ اے زینب و ام کلثوم
ہم بھی مظلوم ہیں مہماں بھی ہوا ہے مظلوم
ماں ہے یاں اس کی نہ خواہر یہ تمہیں ہے معلوم
کون لاشے پہ کرے نالہ و فریاد کی دھوم

اجر ہوگا تمہیں اشکوں سے جو منہ دھوؤگی
اس کو یوں روؤ کہ جس طرح مجھے روؤگی

۵) صبر و شکر
صبر و شکر وہ جوہر ہے جنہیں انسانیت کا طرہ امتیاز کہا جاسکتا ہے قرآن کریم نے بھی صبر کی تلقین کی ہے اور اسے بہت سراہا ہے فرمان خدا ہے اور صبر کی وصیت کرتے ہیں صبر و شکر کے منتہائے اخلاق کی دلیل ہے۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت پر جناب زینب سلام اللہ علیہا فطری طور پر نہایت مضطر و بیقرار ہوتی ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام انہیں صبر کی تلقین فرماتے ہیں۔

فرمایا بہن تم نے بنایا ہے یہ کیا حال
نہ سر پہ قصابہ ہے، نہ چادر ہے، نہ رومال
ماتھا ہے بھرا خاک سے، بکھرے ہوئے ہیں بال
پیٹو نہیں جیتا ہے، ابھی فاطمہ کا لال
دم تن سے میرا گھٹ کے نکل جائے گا زینب
رولیجیو جب رونے کا وقت آئے گا زینب

امام حسین علیہ السلام صبر و رضا کا وہ اعلیٰ معیار ہے جس کی بلندی کو کوئی بھی فرد وہ چاہے جس معاشرے سے تعلق رکھتا ہو اس کی اخلاقی قدروں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی تاب و توانائی نہیں رکھتا۔ چنانچہ جوان بیٹے کی لاش پر آپ فرماتے ہیں:

فدیہ ہوا فرزند جواں شکر کی جا ہے
خوشنود ہے رب دو جہاں شکر کی جا ہے
لب پر نہیں فریاد و فغاں شکر کی جا ہے
گردن سے گیا بارگراں شکر کی جا ہے

جو ہم کو عطا کی تھی وہ دولت اسے پہنچی
فارغ ہوئے ہم اس کی امانت اسے پہنچی

ششماہہ بچہ ہاتھوں پر تیر کھا کر شہید ہو جاتا ہے۔ لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکتا۔ بلکہ خود ہی میت کو اٹھاتے ہیں اور شکوہ کے بجائے امت کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔

ہاتھوں پہ جو مردہ اسے شبیرؑ نے پایا
آہ دل مظلوم نے گردوں کو ہلایا
تھرّاتے ہوئے ہاتھوں پہ میت کو اٹھایا
کی عرض کہ اب تک تو میں صابر ہوں خدایا

محتاج نہ پانی کا نہ خواہاں ہوں مدد کا
طالب ہوں فقط مغفرت امت جد کا

خالق کے حضور اپنی کیفیت امام عالی مقام بیان فرماتے ہیں ہیں پورا بند صبر کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔

عرض کرتے ہیں یہ خالق سے کہ اے رب غفور
تو ہے عالم کہ نہیں کچھ تیرے بندے کا قصور
کرتے ہیں یہ مجھے بے جرم و خطا تیغِوں سے چور
ہاتھ امت پہ اٹھانا نہیں مجھ کو منظور

جانتے ہیں کہ محمد کا نواسہ ہوں میں
پانی دیتے نہیں دو روز کا پیاسا ہوں میں

۶) طاعت و ضبط
جب فوج یزید نے خیام امام نہر سے ہٹانا چاہا تو حضرت عباس علیہ السلام کو جلال آ گیا اور لشکر کو ایک قدم بھی آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اب اختیار تھا کہ چاہے خیام حسینی نہر پر قائم رہے یا ہٹالے لیے جائیں۔ لیکن حُر کے لشکر سے جنگ و جدال کی صورت پیدا ہو چکی تھی جس کے لیے امام وقت حسین علیہ السلام راضی نہ تھے، چونکہ آپؑ کی مرضی ہر فکر، جذبہ اور جوش پر مقدم ہے، لہذا اشجع العرب نے حکم امام پر تلوار نیام میں رکھ لی اور وہ کلمات ارشاد فرمائے جو کہ ضبط و اطاعت کی عدیم النظیر مثال ہے۔

آقا نے دی جو اپنے سر پاک کی قسم
بس تھرتھرا کے رہ گئے وہ صاحب کرم
پر تھی شکن جبیں پہ نہ ہوتا تھا غیظ کم
چپ ہوگئے قریب جو آئے شہ امم

گردن جھکا دی تا نہ ادب میں خلل پڑے
قطرے لہو کے آنکھوں سے لیکن نکل پڑے۔

یہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی اطاعتِ امام عدیم المثال ہے اور امام حسین علیہ السلام خود اللہ تعالیٰ کے کیسے ممطیع بندے تھے اس کی ایک جھلک انیسؔ کے اس بند سے نظر آتی ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے جب فوجوں کو میدان سے بھگا دیا اس وقت ہاتف سے جنگ نہ کرنے کا حکم دیا۔ امامؑ نے تلوار روک کر کمال ضبط و اطاعت کا مظاہرہ کیا۔

آواز کا آنا تھا کہ تلوار کو روکا
فرمایا کہ جو حکم تیرا ہے مرے مولا
کیا دخل جو اَب میں کروں لڑنے کا ارادہ
میں بندہ ناچیز تو کونین کا آقا
سر تیغ سے میدان میں کٹانے کی خوشی ہے
دربار میں تیرے، مجھے آنے کی خوشی ہے

۷) محبت
ہر ذی روح کو خدا نے جذبہ محبت سے سرفراز فرمایا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ نظام عالم کا قیام دنیا کی بقا اور اصلاح سماج کی بنیاد ہی محبت پر ہے تو غلط نہ ہوگا جس میں یہ جذبہ نہ ہو اسے انسانیت سے بیگانہ خیال کیا جاتا ہے محمد و آل محمدﷺ اس منزل میں بھی سب سے ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں۔ تقریبا سبھی رشتوں اور قرابت داروں کی محبت کے مناظر پیش کیے ہیں۔

ماں کی بیٹی سے محبت

جب امام حسین علیہ السّلام مدینہ سے اپنی بیمار بیٹی فاطمہ صغریٰ کو چھوڑ کر چلنے لگے اس وقت بیٹی سے جدا ہونے پر ماں کے جذبات۔

ماں ہوں میں کلیجہ نہیں سینے میں سنبھلتا
صاحب میرے دل کو ہے کوئی ہاتھوں سے ملتا
میں تو اسے لے چلتی پہ کچھ بس نہیں چلتا
رہ جاتی بہن بھی تو غم اس کا بہلتا

دروازے پے تیار سواری تو کھڑی ہے
پر اب تو مجھے جان کی صغریٰ کی پڑی ہے

باپ کی محبت بیٹی سے
سن کر یہ سخن شاہ کے آنسو نکل آئے
بیمار کے نزدیک گئے سر کو جھکائے
منہ دیکھ کے بانو کا سخن لب پہ یہ لائے
کیا ضعف و نقاہت ہے خدا اس کو بچائے

جس صاحب آذار کا یہ حال ہو گھر میں
دانستہ میں کیوں کر اسے لے جاؤں سفر میں

بیٹی کی محبت باپ سے
فاطمہ صغریٰ کو جو بخار سے بے ہوش تھی ہوش آتا ہے تو فرماتی ہیں

ماں سے کہا مجھ میں جو حواس آئے تھے اماں
کیا میرے مسیحا میرے پاس آئے تھے اماں

بہن کی محبت بھائی سے

کیا گزرے گی جب گھر سے چلے جاؤ گے بھائی
کیسے مجھے ہر بات میں یاد آو گے بھائی
تشریف خدا چانیے کب لاوگے بھائی
کی دیر تو جیتا نہ ہمیں پاؤ گے بھائی

بھائی کی محبت بھائی سے
منہ رکھ کے منہ پہ بھائی کے بھائی نے دی صدا
اے شیر، اے دلیر، یہ بیکس ترے فدا
کیوں پتلیاں پھراتے ہو بھائی یہ کیا یہ کیا
عباس میں حسین ہوں دیکھو مجھے ذرا

میرا بھی حلق خشک ہے، خنجر کے واسطے
بھائی کو چھوڑے جاتے ہو دم بھر کے واسطے

۸) آداب و تعظیم
بزرگوں کے ادب اور تعظیم کا خیال ہر دور میں تہذیب اور اخلاق کا ایک اہم جز تسلیم کیا گیا ہے۔ محمد و آل محمد علیھم السلام نے اپنے عمل سے دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کر دیا ہے۔ انیسؔ کے مراثی میں اس کو پیش کیا ہے اور حفظ مراتب کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔
ورودِ کربلا کے بعد قیام لگانے کی بات جب آئی تو امامؑ اس بات کو جناب زینب کی رائے پر چھوڑتے ہیں کہ وہ جہاں کہیں وہیں خیمہ برپا ہو۔

کچھ سوچ کر امام دو عالم نے یہ کہا
زینب جہاں کہیں وہیں خیمہ کرو بپا
پیچھے ہٹے یہ سنتے ہی عباس باوفا
جا کر قریب محمل زینب پہ دی صدا

حاضر ہے جاں نثارِ امامِ غیور کا
برپا کہاں ہو خیمہ اقدس حضور کا
اگرچہ امام حسین علیہ السلام خیمہ برپا کرنے کے لئے خود حکم دے سکتے تھے۔ مگر حضرت زینب کی تکریم کے پیش نظر انہیں کہ حکم پر نصب قیام کا معاملہ رکھا۔ امام حسین علیہ السلام بہن کی تعظیم و تکریم کس حد تک کرتے تھے انہیں کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔

فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہراء با کرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم

جب حضرت عباس علیہ السلام میدان جنگ کی اجازت چاہتے ہیں اور اجازت نہیں ملتی تو حضرت زینب علیہا سلام سے اجازت کے لیے جس انداز میں گفتگو کرتے ہیں، وہ ادب و لحاظ اور خاکساری کی بہترین تصویر کشی کرتا ہے۔
رخصت طلب سے شاہ سے اکبر سا لالہ فام
شہزادہ مرنے جائے سلامت رہے غلام
للہ روکئے نہ اب اے خواہر امام
وہ امر کیجئے کہ بڑھے جس سے میرا نام

بیکس ہوں ساتھ ماں نہیں سر پر پدر نہیں
میں آپ کا غلام تو ہوں گو پسر نہیں

9) زہد و عبادت
زہد و عبادت میں آل محمد علیہم السلام کا جو مرتبہ ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ یزیدی فوج کا ایک سردار حسین علیہ السلام اور اصحاب حسین علیہ السلام کی حالت و کیفیت بیان کرتا ہے۔
آفت میں مبتلا ہیں مگر با حواس ہیں
غازی ہیں سرفروش ہیں اور حق شناس ہیں
کھانے کا ہے خیال نہ پانی کی فکر ہے
سجدے ہیں اور دعائیں ہیں اور حق کا ذکر ہے
صبح عاشور امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو ان کی شہادت کی خبر دیتے ہیں۔ صبر کی تلقین فرماتے ہیں اور عبادت خداوندی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

شہ نے سخنِ معرفتِ حق جو سنائے
اشک آنکھوں میں ہر عاشق صادق کے بھر آئے
کچھ پیاس کا شکوہ بھی زباں پر نہیں لائے
سجّادے وہیں لا کے دلیروں نے بچھائے

تکبیریں ہوئیں لشکرِ اللہ و نبی میں
سب محو ہوئے یادِ جناب احدی میں

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی شہادت سے پہلے عبادت خدا کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور حالت سجدہ ہی میں درجہ شہادت پر فائز ہونا منتھای شہادت جانتے ہیں۔

ہائے عصر کا ہنگام مناسب ہے اترنا
اس خاک پہ ہے شکر کا سجدہ ہمیں کرنا
گو مرحلہ سخت ہے دنیا سے گزرنا
سجدے میں کٹے سر کہ سعادت ہے یہ مرنا

طاعت میں خدا کی نہیں صرفہ تن و سر کا
ذی حق ہے ہمیں اس کے، ورثہ ہے پدر کا

۱۰) انکساری
انسان کی عقل اپنی اعلیٰ ظرفی کی مظہر ہے۔ اہل بیت علیہم السلام اس صفت میں بھی نہایت ممتاز تھے۔ انیس نے اس پہلو کو بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام کو جب لشکر کا علَم ملا تو سبھوں نے مبارکباد پیش کی۔ اس موقع پر علمدار کا ان کے انکسار ملاحظہ ہو۔

دیتے تھے تہنیت، جو عزیزان پُر جگر
عباس مسکرا کے جھکاتے تھے اپنا سر

زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
منصب مبارک اے شہ مرداں کے یادگار
کہتے تھے ہاتھ جوڑ کے عباس ذی وقار
مجھ کو سمجھئے عون و محمد کا جانثار

ان کی طرف سے مہتممِ بندوبست ہو
مالک یہ شاہزادہ ہیں، میں پیش دست ہو

۱۱) عدالت
عدالت صفت کبریائی ہے اور اصول دین میں داخل ہے۔ خدا کے برگزیدہ بندے، انبیاء و مرسلین کے کردار و عمل میں عدالت کو ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ معاشرہ میں ہر طبقے کے حفاظت حقوق کے لیے قوانین کی تدوین اور ان کے نفاذ کے لیے موثر نظام کا قیام عدالت کی بنیاد پر بروئے کار لایا جاتا ہے۔ محمد وآل محمد ﷺ کے اخلاق میں عدل و انصاف کو ایک بنیادی مقام حاصل ہے۔ میر انیسؔ نے آل محمد ﷺ کی اس صفت کو مراثی میں واضح اور مکمل طور پر پیش کیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے زعفر جن آیا تھا لیکن اس کی مدد اس لیے قبول نہیں کی جاتی کہ جنات نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں وہ سب کو دیکھتے ہیں مگر ان کو کوئی نہیں دیکھتا۔ تقاضائے عدالت یہ ہے کہ، مقابل ہم جنس ہو اور مقابلہ کسی قسم کے فریب پر مبنی نہ ہو، چونکہ انسان سے جنات کی جنگ منافی عدالت ہے لہذا امامؑ اپنی شہادت کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن عدالت کے خلاف کوئی اقدام پسند نہیں فرماتے ہیں۔

زعفر سے یہ فرمانے لگے سید ابرار
مشہور ہے عادل پسر حیدر کرار
تم دیکھو انہیں اور تمہیں دیکھے نہ ستمگار
یہ جنگ و جدل شرع میں جائز نہیں زنہار

جو حق ہے کہے جاؤں گا، گو تشنہ دہاں ہوں
احمد کا نواسہ ہوں، امام دو جہاں ہوں

۱۲) رحم و کرم
رحم وکرم، اخلاق کا اہم جزو اور کردار محمد و آل محمدﷺ کا نمایاں عنصرہے۔ امام حسین علیہ السلام پر دشمنوں نے تین دن سے پانی بند کر رکھا تھا روز عاشور تمام عزیز و انصار سامنے قتل ہوگئے تھے۔ اب فطرت انسانی اور عدالت کا تقاضہ یہ تھا کہ دشمن پر قابو پانے کے بعد انہیں بھی قتل کر دیا جاتا۔ یا ان کے لیے سوائے بد دعا کے کوئی کلمہ خیر نہ کہا جاتا۔ لیکن حُر کے رسالے کو پانی سے سیراب کرنا میدان جنگ میں دشمن پر رحم کھا کر تلوار روک لینا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا اور طالب خیر ہونا یہ صرف آل محمد ﷺ ہی کا ظرف ہے دوسرا کوئی اس میں ان کا شریک نہیں۔

یہ سنتے ہی بے تاب ہوئے سبط پیمبر
دیکھا رخ عباس کو اشک آنکھوں میں بھر کر
فرمایا کہ یہ لوگ ہیں سب پیار سے مضطر
جو ساتھ ہے پانی ابھی منگواؤ برادر

بھیا کمر اب کھولو پیاس ان کی بجھا کے
میں کانپ رہا ہوں کہ یہ بندے ہیں خدا کے

۱۳) ایثار
اپنی محبوب اور عزیز شئے کو دوسروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دے دینا یا دوسروں کی خوشی کے لیے اپنے نفس کے تقاضوں کو مؤخر کر دینا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ خصوصا ایسے امور جن کا تعلق موت اور زیست سے ہو۔ ایک بلند جذبہ ایثار و قربانی کا طالب ہونا امر محال کا ممکن کر دیکھانا ہے۔ آل محمد ﷺ کے اس جذبہ ایثار کو انیسؔ نے جس انداز میں پیش کیا ہے وہ ان کے کمال کا مظہر ہے۔
حُر کے پیاسے رسالے کو پانی پلانے کے موقع پر حضرت عباسؑ فرماتے ہیں کہ منزلوں پانی کا نام نہیں اور عورتوں اور بچوں کا ساتھ ہے اگر پانی ختم ہو گیا تو سخت مصیبتوں کا سامنا ہوگااور بچے پیاس سے ہلاک ہو جائیں گے۔ مگر امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں، کہ انہیں پلا دو میرے بچوں کا خیال نہ کرو ان کا محافظ اللہ ہے۔

فرمایا میرے سر کی قسم کچھ نہ کہوں اب
میری یہی مرضی ہے کہ سیراب ہوں یہ سب
انسان کا انساں سے رواں ہوتا ہے مطلب
مرجائیں مسلماں، یہ گوارا ہے مجھے کب

میں مالک کوثر ہوں تردّد تمہیں کیا ہے
پیاس ان کی بجھا دو، میرے بچوں کا خدا ہے۔

۱۴) حیا
یہ وہ زیور ہے جو حسن اخلاق کو نکھار عطا کرتا ہے۔ انیسؔ نے آل محمد ﷺ کے کردار میں اسے ممتاز حیثیت سے پیش کیا ہے۔
عون و محمد پسران حضرت زینبؑ جب جنگ کرتے ہوئے دریا کے کنارے پہنچے تو جناب زینبؑ کو دھڑکا ہوا کہ کہیں دریا کی رواں موجیں تشنہ دہان بچوں کو پانی پینے پر نہ آمادہ کرلیں۔ لہذا انہیں بچوں کا لب دریا تک جنگ کرتے ہوئے جانا بھی پسند نہ آیا۔ اسے انیسؔ یوں بیان کرتے ہیں:

ہے ہے مجھے بیٹوں نے کیا بھائی سے محبوب
شبیرؑ تو پیا سے ہوں وہ پانی پئیں کیا خوب
دے دیتے ہیں وہ جان، جنہیں نام ہے مطلوب
دل صاف میرا ہوگا نہ اس سے کسی اسلوب

ماں تم سے ہے ناراض یہ کہہ دے کوئی جاکے
غیرت ہے تو اب منھ نہ دکھائے مجھے آکے

امام مظلوم کے حیا کی کیفیت انیسؔ نے نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے فرماتے ہیں:

غش میں حضرت نے سنے جب کہ یہ زینبؑ کے سخن
کھول کر دیدہ پُرخوں کو اٹھائی گردن
دیکھا سر ننگے کھڑی روتی ہے مقتل میں بہن
بنت زھراؑ کو پکارے یہ شہنشاہ زمن

کیا کیا تم نے کہ پردے سے کھلے سر نکلیں
جیتے جی میرے بہن پردے سے باہر نکلیں
۱۵) شجاعت
بزدلی ہر دور میں اور ہر زمانے میں بدترین سمجھی جاتی رہی ہے۔ اس کے برخلاف شجاعت و بہادری کو ہمیشہ عزت و وقار حاصل رہا ہے۔ یوں تو عربوں کی بہادری مسلم رہی ہے، لیکن آل محمد ﷺ کو اس میں جو تفوق رہا ہے وہ آج تک صفحہ تاریخ پر نقش ہے۔
میر انیسؔ مرحوم نے آل محمد ﷺ کی شجاعت کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ ان کے زور بیان کا شاہکار ہے۔ اور آل محمد ﷺ کی شجاعت کا مکمل آئینہ دار ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت:

سنتے ہیں یہ ترائی میں گونجا وہ شیر نر
تیوری چڑھا کے تیغ کے قبضہ پہ کی نظر
کم تھا نہ ہمہمہ اسدِ کردگار سے
نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے

امام حسین علیہ السلام کی شجاعت:
کیا مدح ہو حسین کے جنگ و جدال کی
تصویر بن گئے تھے علی کے جلال کی
وہ آؤ جاؤ اشہب ضیغم خصال کی
روندا جو یہ پرا تو وہ صف پائمال کی
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسینؑ کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسینؑ کی
دریا حسینؑ کا ہے ترای حسینؑ کی
دنیا حسینؑ کی ہے خدائی حسینؑ کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوحؑ کا
اب رحم واسطہ علی اکبر کی روح کا
۱۶) اطمینان قلب
اطمینان قلب کی تصویرکشی میر انیسؔ نے بہت خوبی سے کی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے مقابلے کے لئے ایک پہلوان آتا ہے۔ آپ کا یہ عالم ہے کہ دل پر بہتّر کا داغ جدائی، پیاس کی شدت، افراط جراحت اور تنہائی و بیکسی ہے۔ اس کے برخلاف مقابل سیرو سیراب ہر رنج و غم سے پرے، صحیح وسالم، جوانی کا غرور، ایک زبردست فوج کی پشت پناہی اور ہوا خواہوں کا ایک کثیر مجمع جو اس کی قوت و ہمت بڑھاوا دے رہا ہے۔ ان حالات میں عام انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے قلب و اضطراب لاحق ہونا چاہیے ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں بلکہ آپ کے قلب کو اور بھی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

بولے یہ مسکرا کے حسینؑ فلک حشم
تھا وار سرسری سرو گردن کو نہ کرنا خم
جھک کر اٹھالے خود جو ہے سرزنش کا غم
سر جنگ ہو چکی نہ اٹھانا بس اب قدم

آجم کے لڑ کہ ہم بھی تو دیکھیں ہنر ترا
بھاگا تو پاؤں گھوڑے کے ہوں گے نہ سر ترا

۱۷) حیوانات کے ساتھ رحم و کرم
رحم و کرم صرف انسان کی ذات ہی تک محدود نہیں ہے جانوروں کے ساتھ بھی رحم کرنا بلندی اخلاقی کی علامت ہے۔ اسلام میں اس کی سخت تاکید ہے۔ قربانی کے جانور کو بھی سروسیراب کرنے کی ہدایت ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے شب شہادت گھرکے بطخوں کی خبر گیری کے لیے وصیت فرمائی تھی۔ انیسؔ مرحوم نے آل محمد ﷺکے اس اخلاقی پہلو کو بھی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام ذوالجناح سے فرماتے ہیں:

شاہ فرماتے ہیں اے میرے رفیق و ہمدم
ہے مجھے اپنے عزیزوں کے برابر تیرا غم
ہم سے تو چھٹتا ہے، اب تجھ سے جدا ہوتے ہیں ہم
مر کے بھی تجھ کو نہ بھولوں گا میں خالق کی قسم

خلق سے سوئے عدم کے کوچ کی تیاری ہے
آخری اب تیرے آقا کی یہ سواری ہے

یہ کہہ کے نکلے خیمے سے شبیرؑ دل فگار
دیکھا کھڑا ہے ڈیوڑھی پہ اسپ وفا شعار
گردن پہ ہاتھ پھیر کے بولا وہ نامدار
طاقت نہ ہو تو جائے پیادا ترا سوار

یہ گردش فلک یہ جفائے زمانہ ہے
تو بھی تو تین روز سے بے آب و دانہ ہے

۱۸) دشمنوں کے ساتھ سلوک
دوستوں، عزیزوں اور عام لوگوں سے حسن سلوک کو عام قاعدہ اور مطابق فطرت ہے۔ لیکن ایسے لوگ جو جان و مال کے دشمن ہوں اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو وہ قابل تعریف امر ہے۔ تاریخ میں شاید و باید ایسے واقعات ملتے ہیں لیکن سیرت و کردار محمد و آل محمد ﷺ میں ایسے بے شمار واقعات پائے جاتے ہیں۔ مراثی میں آل محمد ﷺ کی اس صفت کا بیان انیسؔ نے نہایت بہتر طریقے سے کیا ہے ملاحظہ ہو:

خون علی اکبر کا بھی دعوی نہیں کرتے
امت کے ہیں ظلم پہ شکوہ نہیں کرتے
پانی کے بھی طالب نہیں گو تشنہ دہن میں
کلمے ہیں نصیحت کے محبت کے ضمن میں

۱۹) عفو تقصیر
قصوروار کی تقصیر کو جب کہ سزا دینے پر قادر ہو معاف کر دینا قابل ستائش عمل ہے۔ انیسؔ مرحوم کے مراثی میں اس اخلاقی پہلو کو واضح اور نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے۔
حضرت حُر نے راہ میں امام حسین علیہ السلام کو روکنے کی کوشش کی تھی اور اپنے اس جسارت پر تا دم شہادت شرمندہ رہے۔ صبح عاشورہ جب لشکر یزید سے امام کے لشکر میں آئے تو اسی جسارت پر پشیمان تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے کمال شفقت سے خطا معاف کر دیا۔

استغاثہ یہ کیا حُر نے با دیدہ نم
جوش میں آ گیا اللہ کا دریائے کرم
خود بڑھے ہاتھوں کو پھیلا کے شہنشاہ امم
حُر کو یہ ہاتف غیبی نے صدا دی اس دم

شکر سبط رسول الثقلین آتے ہیں
لے بہادر تیرے لینے کو حسینؑ آتے ہیں

۲۰) بزرگوں کا احترام
بزرگوں کا احترام قانون اخلاق و سماج میں ایک عظیم اہم مقام رکھتا ہے اور اس کی اہمیت ہر زمانے میں مسلم رہی ہے۔ محمد و آل محمد ﷺ کی سیرت میں یہ اصول نہایت نمایاں ہے۔
مدینہ سے روانگی پر فاطمہ صغریٰ کو ہمراہ نہیں لیا گیا جس کی صغریٰ کو شکایت ہے، وہ ہم رکابی کی جس انداز سے استدعا کرتی ہیں احترام و ادب کی وہ نہایت حسین اور پر اثر مثالی ہے۔

وہ بات نہ ہوگی کہ جو بے چین ہو مادر
ہر صبح میں پی لوں گی دوا آپ بنا کر
دن بھر میری گودی میں رہیں گے علی اصغر
لونڈی ہوں سکینہ کی نہ سمجھو مجھے دختر

میں یہ نہیں کہتی کہ عماری میں بیٹھا دو
بابا مجھے فضہ کی سواری میں بٹھا دو

حضرت علی اکبر اپنے چچا عباس کو جا کر اطلاع دیتے ہیں کہ انہیں حضرت زینبؑ نے بلایا ہے۔ اس موقع پر اظہار احترام

اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار سے شاہ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو

حضرت سکینہ چچا کو علمداری پر مبارکباد پیش کرتی ہے:

ناگاہ آکے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہے میرے چچا
عہدہ عَلم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دو اک ذرا
شوکت خدا بڑا ہے میرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی

۲۱) خوردوں سے برتاؤ
حضرت زینبؑ کے دونوں فرزند عَلم کے متمنی ہیں لیکن جس طرح جناب زینبؑ اپنے بچوں کو تسلی دیتی ہیں اور جس طرح ان کے دلوں کو لگنے سے بچا کر قربانی کے جذبے کو بیدار کرتی ہے وہ آل محمد علیہم السلام کے بلندی کردار اور انیسؔ کی اعلی کردار نگاری کی آئینہ دار ہے۔

ان ننھے ننھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ عَلم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سنتے نبی کے قدم پہ دم
عہدہ یہی ہے بس، یہی منصب، یہی حشم

رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے

جناب امام حسین علیہ السلام اپنے بھانجوں کی مدد فرماتے ہیں:

زینب کے پاس آ کے یہ بولے شہ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کی باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینبؑ وحید عصر ہے دونوں یہ گلبدن
یوں دیکھنے میں سب ہیں بزرگوں کے طور میں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں

حضرت انیسؔ نے جہاں مضامین نو کے انبار لگا دیے ہیں اور خوشہ چینوں نے اس کے مختلف النوع، گوشوں اور زاویوں سے متاثر ہوکر قلم اٹھائے ہیں وہیں اخلاقیات جس کا میدان بہت وسیع ہے اس پر اہل قلم متوجہ ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا مضامین میں 21 عنوانات کے تحت جو اخلاقیات کی جلوہ گری آپ کے اشعار میں ہے اس کا ایک نہایت مختصر جائزہ ہے اس لیے کہ حضرت انیسؔ کے مرثیے سخنرانی کے وہ شاہکار ہیں جس میں تخیل، حقیقت کے پرتو میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہی ہے اور اعجاز بیانی کا یہ عالم ہے کہ محاسن و مکارم اخلاق جو معاشرہ کو سجاتے اور سنوارتے ہیں اور اس کو اعلی قدروں سے روشناس کرتے ہیں، یہی نہیں بلکہ اس کا حامل بنا دیتے ہیں۔ حضرت انیسؔ نے انہیں اپنے اشعار میں کیفیات کے زیور سے ایسا سجایا کہ خود فرمانے لگے۔

کس نے تمہاری طرح اے انیسؔ
عروسِ سخن کو سنوارا نہیں

اے کاش اس دورِ دہشت گردی میں انیسؔ کے مرثیے جس میں خلق محمدی ﷺ جو انسانیت کی اعلی قدروں کی نشاندہی کرتے ہیں اور دنیا کو باہمی سلوک کا پیغام دے رہے ہیں کی ہر طرف تمام ادب نواز بلا تفریق مذہب و ملت متوجہ ہوتے اور اس کی ضیا پاشی سے استفادہ کرتے تو اس کی روشنی اطراف عالم میں پھیل جاتی۔ لیکن اگر آج کی دنیا میں یہ فصل نو بہار کا آنا محال معلوم ہوتا ہے تو آنے والا کل امکان عالم کو اس کی نوید ضرور دے گا اور انشاءاللہ وہی دور ظہور امام عصر علیہ السلام کا پرنور اور بابرکت دور ہوگا۔