(المنتظر محرم الحرام خصوصی شمارہ ۱۴۲۹ ہے شمارے سے جاری)
۹) السّلام عليكم على ابن سدره المنتهى
سلام ہو سدرۃالمنتہیٰ کے فرزند پر
لفظ سدرۃ کے معنی ہیں ایک بیری کا درخت۔ یہ لفظ سورۃ النجم کی آیتوں سے لیا گیا ہے:
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ﴿١٥﴾
(سورہ نجم آیت ۱۳ تا ۱۵)
انہیں تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ صدر المنتہیٰ کے پاس۔ اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔
یعنی پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو معراج کی رات ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جنت الماویٰ کے نزدیک۔ یہ تفسیر ان روایات شریفہ کی روشنی میں ہے کہ جن کو شیعہ سنی نے کثیر تعداد میں نقل کیا ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں سدرۃ المنتھی کی تعبیر کیا ہے:
۱) وجہ تسمیہ:
حضرت امام ابو جعفر محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ بیر کے ایک اس درخت کو المنتہیٰ (یعنی ختم ہونے کی جگہ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ ملائکہ (وہ فرشتے جو ہمارے نامہ اعمال لکھتے ہیں) وہ اہل زمین کے نامہ اعمال کو لے کر محل السدرۃ تک جاتے ہیں اور وہاں ‘الحفظۃ الکرام البررة’ ان اعمال بندگان کو درخت سدرہ کے نیچے بیٹھ کر لکھتے ہیں لہذا اسے سدرۃالمنتہیٰ کہتے ہیں۔
(علل الشرایع شیخ صدوق بحارالانوار جلد ۱۸ صفحہ ۳۶۵)
۲) بیر کا وسیع درخت:
حدیث معراج نبوی ﷺ میں منقول ہے:
جبرئیل نے مجھے ایک عظیم درخت کے پاس ٹھہرایا جس کی مثال میں نے دیکھی ہی نہیں تھی۔ اس کی ہر شاخ پر اور اس کے ہر خطے پر ایک فرشتہ تھا۔ حتی کہ اس کے ہر پھل پر ایک فرشتہ تھا۔ اللہ عزّوجل کے نور کا تاج اس پرچمک رہا تھا۔ جبرئیل نے کہا یہ “سدرۃالمنتہیٰ “ہے۔ آپ سے قبل انبیاء الہی یہاں ٹھہر چکے ہیں۔ لیکن اس کے آگے کوئی نہیں جا سکتا ہے مگر آپ تشریف لے جائیں گے انشاء اللہ تعالی۔
(کشف الیقین فی امرتہ امیرالمومنین صفحہ ۸۹ تا ۹۱ )
۳) ذات مولانا امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام:
بعض زیارتوں میں خود ذات اقدس امیرالمؤمنین علیہ السلام کو سدرۃالمنتہیٰ سے یاد کیا گیا ہے۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک زیارت مولائے متقیان کی شان میں منقول ہے:
السلام على الشجرۃ طوبی و سدرۃ المنتهى۔
سلام ہو شجرہ طوبیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ پر۔
(بحار الانوار جلد ۱۰۰ صفحہ ۳۰۶ ؛ نقل از مصباح الزائر صفحہ ۷۷ تا ۷۸)
یہی سبب ہے کہ زیارت ناحیۃ میں امام حسین علیہ السلام کو سدرۃ المنتہیٰ کے فرزند کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
۴) تمام اہل بیت علیہم السلام مجسم سدرۃ المنتہیٰ ہیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق فرماتے ہیں:
اس کی جڑ یں ثابت اور مضبوط ہیں اور اس کے شاخ آسمان میں ہیں۔ رسول اللہ اس کی اصل ہیں، علی علیہ السلام اس کے تنا ہیں، فاطمہ زہرا علیہا سلام اس کی شاخ ہیں، ائمہ معصومین اس کی بقیہ شاخیں ہیں اور ہمارے شیعہ اور چاہنے والے اس کے پتے ہیں۔
راوی نے دریافت کیا: میری جان آپ پر قربان ہوں منتہی سے کیا مراد ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا:
خدا کی قسم دین کی انتہا یہیں پر ہے۔ (یعنی اہل بیت علیہم السلام دین کا آخری کمال ہیں)۔ جو کوئی اس درخت سے نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے اور ہمارا شیعہ نہیں ہے۔
(بحار الانوار جلد ۲۴ صفحہ ۱۳۹, نقل از بصائر الدرجات)
۵) سدرۃ المنتہیٰ مولای متقیان علی بن ابی طالب کا مشتاق ہے:
پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ سے روایت منقول ہے:
جب مجھے آسمان کی سیر کے لیے لے جایا گیا، (یعنی معراج پر) اور میں سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا تو ایک زبردست خوشبو سے مہک اٹھا اور اس کے تنے سے ایک تیز ہوا چلی، میں نے جبرئیل سے کہا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا:
هٰذهٖ سدرۃالمنتہیٰ اشتاقت الى ابن عمّك حين نظرت اليك۔
یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے جب اس نے آپ پر نظر ڈالی تو آپ کے چچا زاد بھائی کا مشتاق ہوا۔ اس وقت میں نے اپنے پروردگار کی جانب سے ایک منادی کو ندا دیتے ہوئے سنا:
محمدﷺ انبیاء اور مرسلین میں بہترین فرد ہیں، امیر المومنین علی ابن ابی طالب اولیاء میں سب سے بہتر اور علی کی ولایت و محبت رکھنے والے تمام مخلوقات میں بہترین ہیں۔۔۔
(تفسیر فرات بن ابراہیم کوفی صفحہ ۲۱۹)
۶) پیغمبر اکرم ﷺ کے ہمّ وغم کی دواء
روایات میں ملتا ہے کہ جب حضرت محمد مصطفی ﷺ شدید ہمّ و غم میں مبتلا ہوتے، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام سدرۃالمنتہیٰ سے کچھ پتیاں لاتے، پیغمبر اکرمﷺ کے سر مبارک کو اس سے دھوتے جس کی بنا پر آپ کا ہمّ و غم برطرف ہو جاتا۔ (الکافی) اسی لیے روایتوں میں تاکید ہے کہ بیر کی پتیوں سے اپنا سر دھویا کرو کیونکہ اس سے انسان 70 روز تک شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے۔
(بحار الانوار جلد ۷۶ صفحہ ۸۷)
۷) سدرۃ المنتہیٰ پر مکتوب ہے۔
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جب میں سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچا تو دیکھا کہ اس پر لکھا ہوا تھا: میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے میں تن و تنہا ہوں۔ محمد میری تمام مخلوقات میں برگزیدہ ہیں، میں نے ان کے وزیر کے ذریعے ان کی تائید کی اور ان کی مدد کی۔ میں (یعنی رسول اللہ نے) دریافت کیا: میرا وزیر کون ہے؟
فرمایا: علی بن ابی طالب علیہ السلام۔ جب میں نے سدرۃ المنتہیٰ کو پار کر لیا میں پروردگار عالمین کے عرش تک پہنچ گیا۔
(الخصال باب الاربعۃ)
۱۰) السلام علي بن جنة الماوي
سلام ہو جنۃ الماویٰ کے فرزند پر۔
پہلے جملہ میں مختصر جنت الماویٰ کا ذکر ہوا تھا کہ سدرۃ المنتہیٰ جنت الماویٰ کے پاس ہے۔ ایک شخص نے حضرت بلال سے سوال کیا کہ جب لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے، پھر کیا کریں گے؟ حضرت بلال نے جواب میں فرمایا: وہ جنت کی دو نہروں میں سیر کریں گے۔ ان کے سفینے یاقوت کے ہونگے اور ان سفینوں کے پتوار یاقوت اور موتیوں کے ہوں گے۔ ان میں نور کے فرشتے ہونگے جو سبز لباس پہنے ہوں گے۔ راوی نے سوال کیا: کیا یہ سبز نور سے ہوں گے؟ حضرت بلال نے فرمایا: لباس سبز ہوگا لیکن اس میں جو نور ہوگا وہ رب العالمین (جلّ جلالہ) کا نور ہوگا تاکہ وہ اس نہر کے کنارے پر سیر کریں۔ میں نے پوچھا اس نہر کا نام کیا ہے: آپ نے جواب دیا جنت الماویٰ۔
(تفسیر نور الثقلین جلد ۵ صفحہ ۱۵۶ نقل از من لا یحضرہ الفقیہ)
لفظ جنت کے لغوی معنی ہیں باغ اور ماويٰ سے مراد پناہ کا مقام۔ یوں تو جنت بلکہ جنات پر روایت کی کتابوں میں بڑی طولانی بحث پائی جاتی ہے لیکن گفتگو کو طول نہ دیتے ہوئے ہم جنت الماویٰ کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ جو حضرات تفصیلات چاہتے ہیں وہ بحارالانوار کی آٹھویں جلد صفحہ ۲۸۰ تا ۲۸۱ رجوع کر سکتے ہیں.
١١) السلام على بن زمزم و صفا
سلام ہو زمزم اور کوہ صفا کے فرزند پر۔
ہر مسلمان بالخصوص وہ خوش نصیب افراد جو حج بیت اللہ سے مشرف ہوتے ہیں وہ زمزم، کوہ صفا و مروا اور دیگر شعائر اللہ کی اہمیت سے واقف ہیں۔ قارئین کی خدمت میں ہم صرف چند اہم نکات سرسری طور پر پیش کرتے ہیں۔
۱) وجہ تسمیہ:
جناب علی ابن ابراہیم کے نزدیک لفظ زمزم زمّ کے مادہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں روکنا یا انحصار کرنا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ جناب ہاجرہ نے کوہ مروہ سے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام پر نظر ڈالی تو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیروں کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ رہا ہے (کیونکہ دونوں ماں اور بیٹے اس تپتے ہوئے ریگستان میں پیاس کی شدت سے تڑپ رہے تھے، پانی کو دیکھ کر جناب ہاجرہ کی مسرت کی کوئی انتہا نہ تھی) لیکن یہ ابلتا ہوا چشمہ بہہ رہا تھا۔ لہذا جناب ہاجرہ نے اس کے چاروں طرف ریت کے مختصر سی دیوار کھڑی کر دیا۔ اس فعل کو عربی میں کہتے ہیں زَمَّت اور اسی لئے اس کا نام زمزم پڑ گیا۔ یہ جناب علی ابن ابراہیم کا نظریہ تھا۔ لیکن کچھ عربی لغویین کے نزدیک لفظ ہم خود ایک مصدر ہے جس کے معنی ہیں کسی شیء کا وفور تعداد میں ہونا۔ بالخصوص پانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
۲) زم زم کے دوسرے نام
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
زمزم کے اور بھی نام ہیں: رَكضَةُ جبرئیل (جبرئیل کی قدم گاہ), حَفِيرَةُ اسماعیل (اسماعیل کا کنواں)۔ حَفِيرَةُ عبد المطلوب (جناب عبدالمطلب کا کنواں)٫ بَرَّہ (نیک) ، مَضمُونَہ (جس کی ضمانت لی گئی ہو)( کچھ نسخوں میں ہے مضنونه، یعنی قیمتی خزانہ)۔ رَوَا (پیاس بجھانے والا)٫ شَبعَه ( سیر کرنے والا)٫ طَعَام (کھانا)٫ مَطعَم (کھانا کھلانے کی جگہ)٫ شَفَاءُ سُقَم (بیماری کی شفا)
۳) آغاز زمزم
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام (ہاجرہ کو مکہ پہنچا کر) واپس ہونا چاہ رہے تھے تو حضرت ہاجرہ نے کہا: اے ابراہیم آپ ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ فرمایا: میں تم دونوں کو اس عمارت خانہ کعبہ کے پروردگار کے حوالے کر کے جا رہا ہوں۔
امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
جب پانی ختم ہو گیا اور بچے کو پیاس لگی تو ہاجرہ اٹھیں یہاں تک کہ کوہ صفا پر پہنچیں اور آواز بھی دی کیا اس وادی میں کوئی مونس و یاور ہے؟ پھر اتر کر کوہ مروہ پر آئیں اور پہلے کی طرح آواز دی۔ پھر واپس اپنے بیٹے کے پاس آئیں۔ ناگہاں آپ نے دیکھا کہ بیٹے کی ایڑی کے نیچے پانی ہے۔ آپ نے پانی اکٹھا کیا تو وہ ٹھہر گیا اور اگر انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا تو آج تک بہتا رہتا۔
(الکافی جلد ۴ صفحہ ۲۰۱)
۴) جناب عبد المطلب اور زمزم
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت منقول ہے کہ حضرت عبدالمطلب حجر اسماعیل علیہ السلام میں محو خواب تھے کہ ان کے پاس خواب میں کوئی آیا اور بولا: برّہ (زمزم کا ایک نام) لکھ دو! انہوں نے پوچھا برّہ کیا ہے؟ پھر وہ شخص غائب ہوگیا۔ دوسرے دن بھی خواب میں وہی شخص آیا اور بولا: مضنونہ کو کھودو! انہوں نے کہا مضمون نہ کیا ہے؟ لیکن وہ شخص پھر اوجھل ہو گیا۔ یہاں تک کہ تیسرا دن آیا عبدالمطلب سو رہے تھے پھر وہی شخص آکر کہنے لگا طیّبہ کو کھودو! آپ نے پوچھا طیّبہ کیا ہے؟ لیکن وہ کہہ کر چلا گیا۔ چوتھے دن جب پھر عبدالمطلب سو رہے تھے وہ شخص خواب میں آیا اور کہنے لگا زمزم کو کھودو! انہوں نے عرض کیا زمزم کیا ہے؟ فرمایا: ناہی وہ خشک ہوگا اور نہ اس کا پانی کم ہوگا۔ پھر انہیں اس کی جگہ کی نشاندہی کی۔ حضرت عبدالمطلب اٹھے اور اسی جگہ جہاں نشاندہی کی تھی کھودا۔ یہ دیکھ کر قریش نے کہنا شروع کر دیا۔ اے عبدالمطلب یہ کیا ہے؟ فرمایا: مجھے چاہ زمزم کھودنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب آپ نے مٹی ہٹائی اور پانی دکھائی دیا تو قریش کہنے لگے: اے عبدالمطلب آپ کے ساتھ ہمارا بھی اس میں حق ہے کیونکہ یہ ہمارے آباؤ اجداد کا کنواں ہے۔ جناب عبد المطلب نے فرمایا: یہ تمہارا نہیں ہے، بلکہ یہ مجھ سے مخصوص ہے، تم سے نہیں۔
(الکافی جلد ۴ صفحہ ۲۱۹ حدیث ۶؛ کنزالفوائد صفحہ ۱۰۶)
۵) آب زمزم کی فضیلت
حضرت مرسل اعظم ﷺ نے فرمایا:
ماءُ زمزم دواء لما شُرِب له
آب زمزم ہر اس درد کی دوا ہے جس کے لیے وہ پیا جائے۔
(المحاسن جلد ۲ صفحہ ۳۹۹ حدیث۲۳۹۵؛ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ صفحہ ۲۰۹ حدیث ۲۱۶۴)
علی بن مہزیار کہتے ہیں میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کو زیارت کی رات (گیارہویں ذى الحجة) کو دیکھا کہ آپ نے طواف نساء کیا اور مقام ابراہیم کی پشت پر نماز اداکی، پھر چشمہ زمزم پر آئے، اپنے ہاتھوں سے حجر اسود کے پہلو میں لگی ڈول جس سے پانی نکالا، اسے نوش فرمایا اور کچھ پانی اپنے جسم مبارک کے بعض حصوں پر چھڑکا پھر دو مرتبہ زمزم کے اندر تشریف لے گئے۔ ہمارے ایک دوست نے ہمیں خبر دی کہ اس نے اگلے سال بھی امام علیہ السلام کو اس طرح عمل انجام دیتے ہوئے دیکھا۔
(الکافی جلد ۴ صفحہ ۲۳۰ حدیث ۳)
۸)آب زم زم کو پینے سے پہلے دعا کی۔
اس سلسلہ میں دعائیں نقل ہوئی ہیں:
بسم الله والحمد لله الشكرُ لله
(المحاسن جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ حدیث ۲۴۰۰)
جب انسان طواف خانہ خدا سے فارغ ہو جائے اور نماز طواف پڑھ لے، تو اسے چاہیے کہ زم زم کے پاس آئے اور بڑی ڈول سے ایک یا دو مرتبہ کھینچ کر پئے، سر، پیٹ پر بھی ڈالے اور کہے:
اللهم اجعَله عِلمًا نَافِعًا ورِزقًا واسِعًا وشِفَاءُ مِن كلّ داءٍ وسُقمٍ
پروردگارا اس کو میرے لیے مفید علم، وسیع رزق اور ہر درد و بیماری سے شفا قرار دے۔
اس کے بعد حجر اسود کی طرف پلٹ آئے۔
(الکافی جلد ۴ صفحہ ۴۳۰ حدیث ۲؛ التہذیب جلد ۵ صفحہ ۱۴۴ حدیث ۴۶۷)
۹) آب زمزم کا ہدیہ دینا
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینے میں تھے تو مکہ سے واپس آنے والوں سے آب زمزم کی فرمائش کرتے تھے۔
یہ تو رہی زم زم کے متعلق کچھ باتیں اب بہت ہی مختصر گفتگو کوہ صفا کے متعلق کرتے ہیں۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّـهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨﴾(سورہ بقرہ)
بے شک صفا و مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں ہیں، لہذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کا چکر لگائے اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدردان اور اس سے خوب واقف ہے۔
۱) وجہ تسمیہ الصفا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
کوہ صفا کو صفا اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ کے مصطفیٰ (برگزیدہ) حضرت آدم علیہ السلام اس پر جنت سے نازل ہوئے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑی کا نام حضرت آدم علیہ السلام کے ناموں میں سے ایک نام پر رکھ دیا اللہ عزّوجل فرماتا ہے:
ان الله اصطفى ادم (سورہ آل عمران آیت ۳۳)
(علل الشرائع صفحہ ۴۳۱)
۲) اللہ کا محبوب ترین زمین کا ٹکڑا
ابو بشیر نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا:
مسعىٰ ( یعنی سعی کرنے کا مقام صفا اور مروہ) سے زیادہ اللہ عزوجل کو اور کوئی زمین کا ٹکڑا پسند نہیں کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں ظالم وجابر افراد ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔
(بحار الانوار جلد ۹۹ صفحہ ۲۳۵؛ نقل از علل الشرائع ۴۳۳)
۔۔۔بقیہ آئندہ انشاءاللہ