صبر کا درس مانا اور ہر معاشرے میں کم سے کم پڑھے لکھے لوگوں کے نوک زبان پر رہتا ہے۔ شعور کی آنکھیں کھلنے کے بعد سے آخری سانس تک صبر زخم ہائ جگر پر مداوائے درد بن کر ابھرتا رہتا ہے ۔اس طبیب کو سب جانتے ہیں مگر کوئی پہچانتا نہیں۔ سبب واقف کار ہیں پھر بھی اس کے آثارغفلت کے پردہ نشین ہیں۔ یہاں صبر سے مراد اس صبر سے ہے جو اللہ تبارک و تعالی کی رضا کے حصول کے لیے تیزگام ہو یعنی جو انسان کے وجود کو ارفع و اعلیٰ منازل کی سیر کراتا ہے۔ جو اس کے لافانی ہونے کی سند دیتا ہے۔ جو اس کو اللہ تعالی سے قریب کر دیتا ہے۔ صبر ایک بے زبان شیء ہونے کے باوجود جب بولتا ہے تو اللہ کی تمام مخلوق کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ ایک کیفیت کا نام ہے جو کمال کی طرف بڑھنے کے لیے کسی فرد کے وجود میں روشن ہوتی ہے لیکن اس کے آثار و برکات اس وقت کائنات پر چھا جاتے ہیں جب صبر پروان چڑھتے چڑھتے اس ارتقا کی منزل پر پہنچ جائے جہاں صبر خود صابر پر مفاخرت کرنے لگے۔
صبر و ثبات قدمی کے کردار کی پائیداری مزاج کی ہمواری، عزم و ارادہ کی استحکامِی، اصول کی پابندی اور اعلی مقاصد کی باریابی اور پیہم جد و جہد کی دریابی، ایسے اور بہت سے عنصر حیات کی ضیا پاشی کا مجموعہ ہے جس سے انسان جو بقول مولائے متقیان علی بن ابی طالب علیہ السلام کے، یہ انسان حالانکہ بظاہر ایک چھوٹی سی مخلوق دکھائی دیتی ہے لیکن ایک بڑی وسیع کائنات کو اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے ہے یہ انسان جب اپنے وجود پر غور کرتا ہے اور اپنے علمی شعور کی روشنی میں اپنے صبر و ضبط کی قوت سے دنیا میں پھیلی ہوئی فریب کاریوں کی سیاسی جعل سازیوں سے بچتا ہوا حکومت کے بچھائے ہوئے جال کو توڑتا ہوا۔ تبلیغات باطلہ کی گمراہ کن سازشوں کو خاک میں ملا تا ہوا ارتقا کی منزلوں سے گزرتا ہوا لقائے خداوندی کا حوصلہ لے کر اَوج کی طرف بڑھتا ہے تو پھر وہ ایک ایسی فضا میں سانس لیتا ہے جہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی قدرت اس کے ساتھ ساتھ ہم گام ہیں۔ اسی لئے ارشاد باری تعالی ہے “ان اللہ مع الصابرین” بے شک اللہ تبارک و تعالی صابروں کے ساتھ ساتھ ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے۔
وَٱصۡبِرۡ وَمَا صَبۡرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِۚ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ
اے رسول تم صبر کرو اور اللہ (کی مدد) کے بغیر تم صبر کر بھی نہیں سکتے
(سورہ نحل آیت ۱۲۷)
اسی آیۂ شریفہ میں آگے بڑھ کر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ اور ان لوگوں کے لئے رنجیدہ خاطر مت ہواور پھر فرمایا : وَلَا تَكُ فِى ضَيۡقٍ۬ مِّمَّا يَمۡڪُرُونَ اور جو کچھ وہ لوگ منصوبہ بندی کرتے ہیں اس سے دل برداشتہ مت ہو۔
ایک طرف اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال اپنے حبیب کو صبر کی تلقین کرتا ہمت اور حوصلہ دے رہا ہے ۔تو دوسری طرف تسلی دے کر کہتا ہے کہ مت رنجیدہ ہونا اور ان لوگوں کے لئے اور نہ ہی ان کے منصوبہ بندیوں سے بددل ہونا۔ یعنی ایک طرف صف در صف خفیہ سیاستوں پر عمل پیرا بڑے بڑے دماغ والے ہیں اور خفیہ منصوبوں کی تیاریاں ہیں جو منصب نبوت کے لیے پہاڑ جیسی مشکلیں ایجاد کرنے والے ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالی کا نبی سب کچھ جانتے ہوئے صبر عظیم کے ساتھ خدا کی نعمتوں کے ذکر میں کمی نہیں آنے دے رہا ہے۔
کلام الہی کی فصاحت و بلاغت کا کون اندازہ لگا سکتا ہے اس آیت میں مذکور ہمیں ایک طرف ان حالات کی طرف اشارے صاف صاف ہے جن کو انبیاء اور مرسلین جھیلتے چلے آئے ہیں اور قومیں اپنے مکر و فریب سے کبھی باز نہ آئی تو دوسری طرف علم و آگاہی کے دریچے کھلتے ہیں رسول آخر زمان کو بہرحال حجت تمام کرنا ہی ہوگا۔ اور اس کے لیے تبلیغ رسالت میں صرف صبر بروۓ کا رہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے رسول کی امت سے ارشاد فرمایا ہے وَٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ صبر کی مدد سے آگے بڑھنا یہی مرضی الہی کا جادہ ہے۔
راقم الحروف قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہے جہاں معصومین علیہ السلام کی نورانی خلقت اور دنیا میں آپ کی حیات طیبہ سے ایسے انکشافات ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہم امتی اور ہیں تبلیغی رسالت اور امامت کے منصب دار اور ہیں وہ پیکر خاکی میں رہتے ہیں ہمارے جیسے ہوتے ہیں ہماری طرح ہی ہنستے ہیں ہماری طرح ہی روتے ہیں ہماری طرح ہیں مغموم اور مصروف ہوتے ہیں ہماری طرح سوتے ہیں اور ہماری طرح ہی جاگتے ہیں ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ہماری ہی طرح گفتگو کرتے ہیں بس فرق یہ ہوتا ہے کہ ان کے رشتے آسمانوں کی بستیوں سے پیہم دائم اور قائم رہتے ہیں ان کے ہم وغم اور ان کی خوشی و خوشنودی حیات دنیاوی میں جس طرح رہتی ہے اسی طرح بعد از رحلت از دنیا بھی قائم رہتی ہے چنانچہ بے شمار روایتوں میں دیکھیں تو اندازہ لگتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام جب شہید ہوئے تو رسالت مآب جناب ام سلمہ کے خواب میں آئے اور اصحاب کے پاس بھی عالم رویا میں آئے اور فریاد کی کہ “میرا حسین تین روز کا بھوکا پیاسا دشت کربلا کے تپتے صحرا میں بڑی بے رحمی سے شہید کر دیا گیا حالت یہ تھی کہ سر پر عمامہ نہ تھا کربلا کی خاک سر پر تھی آستینیں چڑھی ہوئی تھیں، چہرے پر خون حسینؑ لگا ہوا تھا۔ برہنہ پا تھے”۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے، وہ رسولﷺ جس نے اپنی حیات طیبہ میں اتنا صبر کیا ہو کہ آپ خود فرماتے ہیں جتنے مصائب تمام انبیاء علیہم السلام نے مل کر اٹھائے ہیں اتنے مصائب مجھ اکیلے پر پڑے ہیں، اور جب لوگوں نے کہا اے محمدﷺ آپ کو جو چاہیے وہ ہم مکہ والے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے تیار ہے لیکن آپ تبلیغ رسالت سے باز آجائیں رسول خدا ﷺ نے جواب میں فرمایا اگر ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دو پھر بھی میں تبلیغ رسالت سے سرِمو باز نہ آنے والا نہیں ہوں۔ ثبات قدمی اور پائیداری ختم المرسلین محمد ﷺ کے صبر کی اس منزل کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے نوع بشر کی فکر چاہے جتنا مہمیز ہو چند قدم کے بعد عاجز ہوکر پلٹ آتی ہے۔ اس زمین پر بسنے والے انسان کو یہ اس وقت علم نہ تھا کہ مکہ کی زندگی میں رسول خدا ﷺ نے جتنے دکھ اٹھائے ہیں اس سے کہیں زیادہ لا متناہی مصائب مدینہ کی زندگی کے اواخر میں اور بعد از رحلت رسول آخرزماں کو اٹھانا ہے اور آپ ﷺکو صبر کرنا ہے۔
ذرا اس آیت کریمہ پر غور فرمائیں، اللہ تعالی کے فرمان کو اس عہد کے امروز فردا کے پیمانے سے ناپنا صاحبان عقل و خرد کے لئے انصاف کی بات نہ ہوگی۔ صرف اسی عہد میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو پس و پیش کے زمانے ہی تک آپﷺ کے لیے صبر کی تلقین احاطہ نہیں کرتی بلکہ رسول اللہ ﷺ جو صبح قیامت تک کے آنے والے تمام حادثات و بلیات کو اپنی نظر میں رکھتا ہو اس کو خدا نے کتنا صبر کرنے کی قوت عطا کی ہوگی جس کی گہرائی اور گیرائی کو یا ائمہ معصومین علیہم السلام سمجھ سکتے تھے یا کچھ نور کی جھلکیاں ان کو ملی ہوں گی جو آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ کسب ضیائے رسالت و امامت سے مستفیض ہوتے رہے۔ ذرا ٹھہر کر غور کرنے کی جا ہے اللہ تبارک و تعالی خالق کون و مکان، خالق زمین و زمان، قادر، قادرِ مطلق اپنی قدرت کاملہ کے باوجود ارشاد فرماتا ہے میرے حبیب لَا تَحزَن ان لوگوں پر غم نہ کرو یہی نہیں کہ صبر کرو بلکہ یہ بھی فرمایا کہ کہ خدا ان کے منصوبوں کو خوب جانتا ہے اور دوسری طرف مخاطب ذات سے ہے جسے خود مبعوث بہ رسالت کیا ہے اور آیات الہی کی تلاوت سے نفسوں کو پاک کرنے کا سرچشمہ قرار دیا ہے اور کتاب اور حکمت کا علم ودیعت فرمایا ہے، جس کی روح صبر ہے صرف اسی زمانے تک محدود ہو سکتی ہے۔ نہیں اس آیت کا کینواس صبح ظہور امام تک جاتا ہے۔ اسی لئے جب بھی یحییٰ جو عمرو عاص کا بھائی تھا کو لے کر عبداللہ بن جعفر امام حسین علیہ السلام سے اس وقت ملے ہیں جب آپ عراق کی طرف عازم سفر تھے اور کہا “بھائی آپ مدینہ واپس چلے چلیے”۔ اس پر امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا بھائی میں نے رات میں نانا رسول زمنﷺ کو خواب میں دیکھا ہے میں آگے ہی بڑھتا رہوں گا۔ اور جناب عبداللہ سے فرمایا میں یہ خواب آپ سے بیان نہیں کر سکتا یہ ایک راز ہے جو خدا کے سامنے ہی بیان ہو سکتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کربلا کی سرزمین پر وارد ہوا فرات پر پہرے بیٹھ گئے۔ عاشور کا دن، تین دن کی کڑی دھوپ اور بھوک اور پیاس کے ساتھ گزار کر اپنے تمام مسائل لے کر نکل آیا۔ جنگ ہوئی، حر آ گئے، حبیب، ظہیر سب شہید ہوئے۔ بنی ہاشم کے جوان کام آگئے علی اکبر علیہ السلام کے سینے سے برچھی کا پھل فرزند رسول نے نکالا۔ جوان بیٹے کو دم نکلتے وقت ایڑیاں رگڑتے آخری ہچکی لیتے دیکھا، عباس کے پرچم کو زمین پر گرتے دیکھا، شیر کے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کو خیمہ میں لے کر آئے۔ علی اصغر کی پھول جیسی گردن پر حرملا کے تیر کو پیوست دیکھا۔ تنہا امام حسین علیہ السلام نے جنگ کی۔ تیروں پر آپ کا جسد اقدس تھا۔ شمر کا کند خنجر تھا۔
امام حسین علیہ السلام سجدہ میں تھے۔ خنجر چلا، حسین علیہ السلام کا سر جسد اقددس سے جدا ہو کر نیزہ پر چڑھا۔ مجبور بہن ایک ٹیلے پر کھڑی دیکھتی رہ گئی۔ حسین علیہ السلام کا صبر جناب زینب کا صبر اشارہ کر رہا تھا گویا کہہ رہا تھا ہم کو دیکھو تو یاد کرو اللہ تبارک و تعالی نے بہت دنوں پہلے کہہ دیا تھا( اے میرے صابر حبیب اے میرے بندہ خاص ) واصبر وما صبرك الا بالله ولاتحزن عليهم
آج رسول ﷺ کے حزن، آپ کی تکلیف، آپ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو، آپ کا قرب، آپ کی تڑپ اور آپ کی بے چینی لمحہ لمحہ سفر کرتی ہوئی عروج پر آئی تھی جہاں ایک مسکراہٹ کی تفسیر بیان ہو رہی ہے، کاش وہ بد کلام جو اپنی سستی شہرت اور سطحی علمی حیثیت کو فروغ دینے کے لئے امام حسین علیہ السلام کی جنگ کو سیاسی جنگ کہہ کر اس کے کردار ساز حقائق پر پردہ ڈالنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں، آیہ مذکورہ پر غور کرنے اور نواسہ رسول ﷺ کی شہادت پر، رسول الثقلین ﷺ کے اس پر غور کرتے جو آپﷺ نے کیا اور تا ظہور امام مہدی علیہ السلام کرتے رہیں گے تو شاید وہ بھی روز قیامت شفاعت سے محروم نہ ہوتے۔
اے میرے اللہ۔ اے رب الحسین۔ آپ کا رسول آج بھی ان مصیبتوں پر صبر کر رہا ہے جو عراق میں دہشتگردوں کے ہاتھوں سے ڈھائے جارہے ہیں اور نواسہ رسول کے چاہنے والوں پر بلاؤں کی صورت میں نازل ہورہی ہے اور دروغ گو مبلغین کے گمراہ کن بیانوں سے محزون ہو رہے ہیں اور صبر کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے فرزند حجت بن الحسن علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل ہوجائے اور وہ صبح ظہور کی نسیم جانفزا چاروں طرف سے چلنے لگے تو آپ کے رسول کی امت اپنے امام جس کا اسم گرامی ربیع الانام عوام و خواص کی بہار ہے، کے پرچم تلے راحت کی سانس لے سکے گی اور آپ کے رسول ﷺکے حزن و ملال کا دور ختم ہوگا اللہ تعالی ہمیں صبر کی معنوی کیفیت اور اس کی رحمت و کرامت سے آشنا کرے اور ہمارے امام کے ظہور میں تعجیل ہو۔ آمین ثم آمین۔
