حضرت امام حسین اور بیان حقانیت

امام حسین علیہ السلام کا وہ گرانقدر خطبہ ۵۹ اور ۶۰ ھ کے در میان جو حج کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا اس کے پر نور جملے سارے عالم کی انقلابی، اقتصادی، معاشرتی حالات کو اس طرح ظاہر کر رہے ہیں جیسے آج امام حسین علیہ السلام کی آواز ہر طرف گونج رہی ہے۔ سرکار رسالت کے اس اعلان سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قرآن اور ائمہ معصو میں علیہالسّلام ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یہ رہروان صراط مستقیم کے وہ پاسبان ہیں جو حوض کوثر تک رہبری کرتے رہیں گے۔
بہرہ مندی قرآن کریم کا ایک انداز یہ ہے کہ وہ اپنی بات دلیل و بر ہان سے ثابت کرتا ہے قرآن اندھی تقلید اور بے جا عقیدت کا مخالف ہے۔
اہل بیت علیہم السلام جو ہم وزن اور شریک قرآن ہیں ان کا بھی انداز یہی ہے۔ وہ بھی اپنی حقانیت کو دلیل و برہان سے ثابت کرتے ہیں اور اس قدر مستحکم انداز میں بیان کرتے ہیں کہ سب کو لاجواب کر دیتے ہیں۔ ائمہ معصومین علیھم السلام نے موقع و مناسبت سے اپنی حقانیت ثابت کی ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام معاویہ کی موت سے ایک سال قبل حج کو تشریف لے گئے۔ جناب عبد اللہ بن عباس اور جناب عبد اللہ بن جعفر اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔
اسی وقت وہاں موجود تمام بنی ہاشم کے مردوں، عورتوں، غلامو ں اور وہاں موجود شیعوں کو جمع کیا اور انصار میں ان لوگوں کو بلایا جو حضرت امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے تھے۔
اس کے بعد اپنے نمائندوں کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان تمام اصحاب کو دعوت دی جو حج کے موقع پر وہاں موجود تھے۔ اس وقت منی میں ۷۰۰ سے زیادہ افراد اپنے خیموں میں موجود تھے جن میں ۲۰۰ اصحاب تھے اور اکثریت تابعین کی تھی۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس طرح خطبہ ارشاد فرمایا
امابعد: تم لوگ اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہو اور دیکھ رہے ہو اور گواہ ہو یہ سرکش ہمارے اور ہمارے قبیلوں کے ساتھ کیا برتاؤ کر رہا ہے اور کس طرح پیش آرہا ہے۔ میں تم لوگوں سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں اگر میں سچا ہوں تو میری تصدیق کرنا ورنہ تردید کر دینا۔
میری باتوں کو غور سے سنو اور تحریر میں لاؤ اور جب اپنے شہروں اور قبیلوں میں واپس جاؤ تو جو لوگ تمہارے مورد اعتماد ہوں معتبر ہوں ان کو ہمارے حق کی طرف دعوت دینا جو تم جانتے ہو۔ مجھے خوف ہے کہیں یہ حقیقت فراموش نہ کر دی جائے۔ حق نابود ہو جائے اور باطل کا غلبہ ہو جائے۔ لیکن خدا اپنے نور کو مکمل کرے گا گرچہ کافروں کو ناگوار کیوں نہ گزرے۔“
خداوند عالم کو گواہ بنا کر اس کو حاضر و ناظر جان کر تم سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی ہیں جس وقت آنحضرت نے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اس وقت حضرت علی بن ابي طالب علیہ السّلام کو اپنا بھائی قرار دیا اور فرمایا: ”دنیا و آخرت میں تم میرے بھائی اور میں تمہارا بھائی ہوں۔
سب نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔
تم کو خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں! کیا تم جانتے ہو حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد اور اپنے گھر کے لئے جگہ خریدی۔ اس میں مسجد تعمیر کی اور دس گھر بنائے لو گھر اپنے لئے اور دسواں گھر جو وسط میں تھا وہ میرے والد کے لئے بنایا۔ اس کے بعد میرے والد کے دروازہ کے علاوہ بقیہ تمام دوسرے دروازے بند کر دیئے۔ اس وقت لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا: “نہ میں نے تم لوگوں کے دروازے بند کئے ہیں اور نہ میں نے ان کا دروازه کھولا ہے لیکن خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بند کر دوں اور ان کا دروازہ کھلا رکھوں۔”
اس کے علاوہ ان کے علاوہ ہر ایک کو مسجد میں سونے سے منع کیا وہ مسجد میں باقاعدہ سو سکتے تھے۔ ان کا گھر رسول خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں تھا۔ اس گھر میں رسول خدا اور ان کے یہاں بچوں کی ولادت ہوئی۔ سب نے کہا: ہاں بالکل ایساہی ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے کہ عمر نے آنکھ کے برابر گھر کی دیوار میں مسجد کی طرف سوراخ کرنا چاہا تو اس کی اجازت نہیں ملی اس وقت آنحضرت نے خطبہ ارشاد فرمایا: ”یقینا خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے میں مسجد کو پاک و پاکیزہ رکھوں۔ اس مسجد میں میں ، میرے بھائی اور ان کے فرزندوں کے علاوہ کوئی اور سکونت اختیار نہیں کر سکتا ہے۔
سب نے کہا ہاں ایسا بھی ہے۔
تم لوگوں کو خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں۔ حضرت رسول خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم میں ولی متعین کیا تھا اور ان کی ولایت کا اعلان کیا تھا اور فرمایا تھاحاضر لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ یہ پیام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔
سب نے کہا۔ ہاں ہے۔
تم لوگوں کو خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ جنگ تبوک کے موقع پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا تھا تم کو مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی اور تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔
سب نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔
تم لوگوں کو خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں: کیا تم لوگ نہیں جانتے جب رسول خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دی اس وقت وہ صرف ان کو ان کی زوجہ اور ان کے فرزندوں کو لے کر گئے؟
سب نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے۔
تم لوگوں کو خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں : کیا تم کو معلوم ہے کہ غیر میں انھیں کو علم عطا کیا اور یہ فرمایا: میں یہ علم اس مرد کو دوں گا جس کو خدا و رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ خد اور سول کو دوست رکھتا ہے وہ پڑھ پڑھ کر حملہ کرے گا میدان سے فرار اختیار نہیں کرے گا۔ خداوند عالم اس کے ہاتھوں پر فتح و کامیابی عطا فرمائے گا۔“
سپ نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے حضرت رسول خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں سورہ براَت لے کر بھیجا اور یہ فرمایا
: ”اس سوره کیامیں پونجاوں یا میرا کوئی آدمی۔“
سب نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے.
کیا تم کو معلوم ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی کوئی سخت مرحلہ پیش آتا تھا تو ان کو آگے بڑھاتے تھے اور ان پر اعتماد کرتے تھے اور ان کو بھی ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے بلکہ فرماتے تھے میرے بھائی، میرے بھائی کو بلاؤ سب نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے کہ حضرت رسول خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے در میان اور جناب جعفر وزیر کے در میان فیصلہ کیا اور فرمایا: اے علی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔“
سب نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے وہ روزانہ دن اور رات میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تنہائی میں ملاقات کرتے تھے۔ جب وہ سوال کرتے تھے تو عطا فرماتے تھے اور اگر خاموش رہتے تھے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کا آغاز فرماتے تھے۔
سب نے کہا خدا کی قسم ایسا ہی ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے حضرت رسول خدا نے ان کو جناب حمزہ اور جعفر پر فضیلت دی جس وقت جناب فاطمه علی سے فرمایا: میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان کے سب سے بہتر شخص سے کی ہے۔ جو اسلام میں سب سے پہلے ہیں جو علم میں سب سے عظیم ہیں اور جن کا علم سب سے زیادہ ہے۔
سب نے کہا : خدا کی قسم ایسا ہی ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے حضرت رسول خد اسلام نے فرمایا: ”میں فرزندان بنی آدم کا سردار ہوں اور میرے بھائی علی عرب کے سردار ہیں، فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں میرے دونوں فرزند حسن اور حسین جوانان اہل جنت کے سردار ہیں۔“
سب نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے
کیا تم کو معلوم ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو حُکم دیا تھا وہی ان کو غسل دیں گے اور جبرئیل ان کی مدد کریں گے۔
سب نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں خدا کی کتاب اور میرے اہل بیت ان دونوں سے متمسک رہو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔
سب نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے۔
پھر ان لوگوں کو خدا کی قسم دے کر سوال کیا۔ کیا ان لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناجو یہ خیال کرتا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور علی سے بغض رکھتا ہے وہ جھوٹا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ مجھ سے محبت رکھے اور علی علیہ السلام سے بغض رکھے ۔
اس وقت ایک شخص نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟
فرمایا اس لئے وہ مجھ سے ہے اور میں ان سے ہوں۔ جو ان سے محبت رکھے گا وہ مجھ سے محبت رکھے گا اور جو مجھ سے محبت رکھے گا وہ اللہ سے محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا تو اس نے اللہ سے بغض رکھا۔”
سب نے کہا : ہاں ایسا ہی ہے ہے ہم نے ایسا ہی سنا تھا۔
خداوند عالم جن باتوں سے اپنے اولیاء کو وعظ و نصیحت کیا ہے اس سے عبرت حاصل کرو۔ خدا نے احبار (یہودی علماء( کی مدح کرنے کی مذمت کی ہے ان کے علماء اور احبار ان کو گناہوں سے کیوں نہی
جناب داور اور جناب عیسی بن مریم کی زبانی بنی اسرائیل کے ان لوگوں پر لعنت کی گئی ہے اس لئے کہ وہ نافرمان تھے اور سرکش تھے یہ لوگ برائیوں سے روکتے نہیں تھے یہ لوگ کس قدر براکام انجام دے رہے تھے۔“
(سورہ مائدہ، آیات ۷۸ – ۷۹)
خداوند عالم نے اس بنا پر ان کی مذمت کی ہے۔ یہ لوگ اپنی آنکھوں سے ظالموں کو ظلم اور برائیاں کرتے ہوئے دیکھتے تھے لیکن ان کو روکتے نہیں تھے ان چیزوں کی لالچ میں جو ان کو ظالموں سے ملتی تھیں اور ان خبروں کے خوف سے جن کے چھن جانے کا اندیشہ تھا۔ جب کہ خدا فرماتا ہے۔ لوگوں سے مت ڈرو مجھ سے ڈرو۔ اور یہ بھی فرماتا ہے: مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں ایک دوسرے کو اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ “ خداوند عالم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر پہلے فرمایا : اور اس کو واجب قرار دیا کیونکہ خدا یہ جانتا ہے اگر یہ فریضہ ادا ہو گیا اور یہ واجب پوری طرح سے قائم ہو گیا تو بقیہ تمام آسان اور سخت فرائض بر قرار ہو جائیں گے اور یہ اس بناپر کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت دیتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے ظالم کی مخالفت کرتا ہے عمومی دولت اور مال غنیمت کو صحیح طور سے تقسیم کرتا ہے صدقات اور ٹیکس وصول کرتا ہے اور مناسب جگہوں پر خرچ کرتا ہے۔ اے یہاں جمع ہونے والو تم وہ گروہ ہو جو علم کے لئے مشہور ہو خیر اور نیکیوں میں تمہارا تذکرہ ہے۔ نصیحت اور موعظت میں تمہارا نام لیا جاتا ہے۔ خدا کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں تمہارا رعب ہے۔ شریف تم سے ڈرتے ہیں کمزور تمہارا احترام کرتے ہیں۔ جن لوگوں پر تمہیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے وہ تم کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔ جب طلب کرنے والوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتی ہیں تم ان کی سفارش کرتے ہو۔ راستوں میں بادشاہوں کے رعب و جلال کی طرح چلتے ہو اور بڑوں کی طرح پیش آتے ہو۔
کیا یہ سب اس بنا پر نہیں ہے کہ تم سے حقوق الاہی کے قیام کی امیدیں وابستہ ہیں جب کہ تم خود زیادہ تر حقوق الاہی کی ادائیگی میں کوتاہی برتے ہو، تم لوگوں نے اماموں کے حق کو ہلکا مجھ رکھا ہے، کمزوروں کا حق تم نے ضائع کر دیا ہے، لیکن اپنی دانست میں اپنا حق طلب کرلیا ہے نہ تو تم نے کوئی مال خرچ کیا اور جس مقصد کی خاطر تمہاری تخلیق ہوئی تھی اس کو پورا کیا، اور نہ تم نے کسی قوم و قبیلہ سے خدا کی خاطر دشمنی مول لی۔ اس کے باوجود تم خداکی جنت کے امیدوار ہو، انبیاء الاہی کی ہم نشینی کے طلب گار ہوں عذاب خداوندی کے عذاب سے امان کے دعویدار ہو۔
اے خدا کی طرف منسوب لو گو مجھے ڈر ہے کہیں تم خدا کے بڑے عذاب میں گرفتار نہ ہو جاؤ کیونکہ خدا کے فضل و کرم سے تم کو بڑی فضیلت اور منزلت نصیب ہوئی ہے۔ جو خدا کی معرفت رکھتا ہے تو اس کا احترام نہیں کرتے ہو اور بندگان خدا میں خدا کی بناپر محترم ہونا چاہتے ہو۔ تم دیکھ رہے ہو کہ خدا کے عہد و پیمان توڑے جا رہے ہیں پھر بھی تم خوف زدہ نہیں ہوتے ہو، اور اگر تمہارے آباء و اجداد کا عہد و پیکان توڑ دیا جائے تو بہت زیادہ ناراض ہوتے ہو خفا ہوتے ہو۔ رسول خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد و پیمان توڑے جارہے ہیں نظر انداز کئے جارہے ہیں۔
شہروں میں اندھے، گونگے اور زمین گیر لوگوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے نہ تو تم ان پر رحم کر رہے ہو اور نہ اپنے گھروں میں ان کو جگہ دے رہے ہو اور نہ اپنے کسی عمل سے ان کی مدد کر رہے ہو۔
اپنی چکنی چکنی باتوں، ریاکاری سے ظالموں کے نزدیک جگہ بنارہے ہو جب کہ خداوند عالم نے تمہیں ان تمام باتوں سے منع کیا ہے اور تم ان سے غفلت برت رہے ہو۔ لوگوں کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ تم لوگوں نے علماء کی جگہ پر قبضہ کر لیا ہے کاش تمہیں اس بات کا احساس ہوتا۔
اس کی وجہ یہ ہے امور اور احکام کا اجراء اور نفاذ ان علماء کے ہاتھوں میں ہے جو خدا کے حلال و حرام پر اس کے امانتدار ہیں۔ یہ منزلت اور منصب تم سے چھین لیا گیا ہے اور یہ اس بنا پر پچھین لیا گیا تم حق کے مسئلہ میں پراگندہ ہو الگ الگ ٹکڑوں میں ہو واضح دلیلوں کے باوجود سنت کے سلسلے میں ایک دوسرے کے مختلف ہو۔
اگر تم اذیتوں پر صبر کرتے خدا کی راہ میں خدا کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتے تو امور خداوندی تمهاری طرف واپس آتے، تمہارے ذریعہ نافذ ہوتے اور تمہاری طرف پلٹ کر آتے لیکن تم لوگوں نے اپنی منزلت و مقام سے ظالموں کی مدد کی اور امور الٰہی ظالموں کو سونپ دیئے، وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں خواہشات کے راستہ پر چلتے ہیں۔ موت سے تمہارے فرارنے جدا ہونے والی زندگی کی محبت نے ان کو تم پر مسلط کر دیا ہے۔ تم لوگوں نے کمزوروں کو ان کے حوالہ کر دیا ہے کچھ وہ ہیں جو قید خانوں میں ازیتیں جھیل رہے ہیں کچھ وہ ہیں جو اس قدر کمزور ہیں کہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ یہ (ظالم( ملک میں اپنی من مانی کررہے ہیں اپنی خواہشات سے ذلتوں کو آباد کررہے ہیں۔ شریر لوگوں کی پیروی کر رہے ہیں خدا کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ ہر شہر میں ان کا ایک خطیب ہے جو منبر پر جا رہا ہے۔ زمین ان کے ظلم سے بھری ہوئی ہے۔ ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں لوگ ان کے غلام ہیں وہ اپنا کوئی دفاع نہیں کر سکتے ہیں۔ کمزور اور نادار لوگوں پر ظالموں جابروں اور صاحبان اقتدار کا شکنجه شدید ہے یہ ایسے فرمانروا ہیں جن کو آغاز و انجام کی کوئی خبر نہیں ہے۔
کس قدر تعجب اور میں کیونکر تعجب نہ کروں۔ زمین ظالموں سے بھری ہوئی ہے۔ بے رحم مومنین کے حاکم بنادیئے گئے ہیں۔ خدا ہمارے نزاع میں فیصلہ کرے گا اور ہمارے اختلافات پر وہی قضاوت کرے گا۔
خدایا تو جانتا ہے ہم میں سے کسی کو بادشاہت اور حکومت کی خواہش نہیں ہے اور نہ اس دنیا کی کوئی طلب ہے۔ ہم تو تیرے دین کے پرچم کو بلند دیکھنا چاہتے ہیں اور تیرے شہروں میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ تیرے مظلوم بندے امن و امان سے رہ سکیں۔ تیرے واجبات، مستقلات اور احکام پر عمل ہو سکے۔
اگر تم لوگوں نے ہماری مدد نہیں کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا تو یہ ظالم تم پر اور زیادہ مسلط ہو جائیں گے۔ تمہارے نبی کے نور کو خاموش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور خدا ہمارے لئے کافی ہے ای پر بھروسہ کرتے ہیں
اس کی طرف واپس آنا ہے اور اسی کی طرف جانا ہے۔ ( الامام الحسین سماتہ و سیرتہ ، السید محمد رضا الجلالی، ص ۱۰۶-۲۱۲)
(مماذا محفض الامام حسین علیہ السلام، ص- ۲۶-۳۱, عبد الصاحب زدالریاستین)
اس عظیم الشان خطبہ کو غور سے پڑھیں آئینہ بنا کر اپنے زمانہ کی تصویر دیکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خود انھیں لوگوں میں ہوں۔
آیئے حالات کا مقابلہ کریں اور حضرت ولی عصر علیہ السلام کے ظہور پر نور کے لئے زمین ہموار کر کے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کریں۔